Eid Ul Fitr

میٹھی عید

”میں آج پڑوس میں جواد بھائی کے گھر گئی تھی،یقین مانیں،اُن کے اہل خانہ کی مالی حالت سخت دگرگوں ہے اور اُن کے پاس تو عید کے روز پہننے کے لئے نئے کپڑے بھی موجود نہیں ہیں، کیا ہم اُن کی کچھ مالی مدد کرسکتے ہیں“۔بیگم نیلوفر نے اپنے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ بات تم اَب بتارہی ہو، اس وقت رات کے 8 بج چکے ہیں اور کل صبح عید ہے، اگر ہم اُنہیں پیسے دے بھی دیں تو وہ بے چارے اتنی عجلت میں کیسے اور کہاں سے نئے کپڑے خریدیں گے“۔بیگم نیلوفر کے شوہر نے اُن کی جانب استفسار طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
”آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جواد بھائی کے گھر والے کتنے خودار ہیں، انہوں نے اپنے طرز عمل سے کبھی خبر ہی نہ ہونے دی کہ وہ کس قدر ضرورت مند ہیں، آج بھی اتفاق سے جب اُن کا بیٹا ہمارے گھر کاشف کے ساتھ کھیلنے کے لیئے آیا ہوا تھا،تو میں نے ازراہ مذاق،بس یونہی، اُس سے عید کی تیاری کے بارے میں سوال کیا تو اُس نے کمال معصومیت سے بتایاکہ ہم اس بار عید پر پرانے کپڑے ہی پہنیں گے۔کیونکہ دو ماہ سے میرے ابو جان بیماری کی وجہ سے ملازمت پر نہیں جا پارہے ہیں، میں تو بچے کی بات سنتے ہی سکتے میں آگئی اور فوراً جواد بھائی گھر پہنچی اوراُن کے بارے میں سارا حال احوال لے کر ابھی تھوڑی دیر ہوئی واپس گھر پہنچی ہوں“۔بیگم نیلو فر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے، میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ کیوں نہ ہم اپنے عید کے لیئے سلوائے گئے نئے کپڑے جواد بھائی کے گھر بھجوادیں،و ہ بھی اگر تمہاری اجازت ہوتو“۔ بیگم نیلو فر کے شوہر نے تجویز دی۔
”بھلا مجھے کیوں اعتراض ہوگا، آپ کی تجویز بہت اچھی ہے،ویسے بھی اُن کے بچے ہمارے بچوں کے ہی توہم عمر ہیں اور ہم نے بھی عید کے لیئے ایک سے زائد کپڑے کے جوڑے سلوائے ہوئے ہیں۔ میں ابھی جاتی ہوں اُنہیں جاکر کل عید پر پہننے کے لیئے نئے کپڑے دے کر آتی ہوں“۔ بیگم نیلو فر نے مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر جانے کے لیئے نکلنے ہی والی تھی کہ اُن کے شوہر نے پیچھے سے آواز لگائی ”بیگم! ذرا رکو۔۔۔ اور یہ دس ہزارروپے بھی کپڑوں کے ساتھ لیتی جاؤ، تاکہ جواد بھائی کے خاندان والے عید کے لیئے کچھ دیگر لوازمات کا بھی باآسانی بندوبست کرسکیں“۔
”آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی“۔بیگم نیلوفر نے اپنے شوہر کے ہاتھ سے پیسے لیے اور تھوڑی دیر بعد وہ جواد بھائی کے گھر میں بیٹھ کر انہیں اور اُن کے بچوں کو نئے کپڑے اور پیسے دے رہی تھیں۔

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں عید الفطر صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ کامل ترین عبادت ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ عید کے روز صاف ستھرے اُجلے کپڑے پہننا،خوشبو اور عطر لگانا،صدقہ فطرہ دینا، دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر لذیذ کھانے کھانا اور اپنے مرحوم اعزا و اقرباء کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھنا ہمارے نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔جبکہ اپنے آس پڑوس میں بسنے والے غریب،مسکین، محتاج، بے کس، یتیموں، بیواؤں اور معذوروں کی اِس خوش اسلوبی کے ساتھ دست گیری کر نا کہ انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس بھی نہ ہو۔ عید الفطر کے دن کا خاص پیغام ہے۔جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا ”عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو“۔(دارقطنی،السنن،152:2)۔شاید اسی لیے صدقہ فطر کو کتب احادیث میں عید الفطر کا جزو لاینفک قرار دیا گیا ہے۔صدقہ فطر کی بروقت ادائیگی کے متعلق آپﷺ نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا ”ماہ صیام کی عبادات اس وقت تک زمین و آسمان میں معلق اور بارگاہ ایزدی میں قبول نہیں ہوتی جب تک وہ شخص صدقہ فطر ادا نہیں کردیتا، جو صاحب نصاب ہو۔“

عید الفطر کے روز جذبہ ایثار کی اہمیت کو سمجھنے کے لیئے ہمیں وہ واقعہ بھی بطور خاص یاد رکھنا چاہیے کہ جب حضور اکرمﷺ نماز عید ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے، آپ نے راستہ میں دیکھا کہ بہت سے بچے نئے کپڑوں میں ملبوس عید کی خوشی میں کھیل کود رہے ہیں، لیکن ایک بچہ بوسیدہ لباس میں ان سب سے الگ تھلگ غم کی تصویر بنا ہوا اداس بیٹھا ہے۔ آپ ﷺنے اس بچے کو دیکھا اور اس کے قریب تشریف لے گئے، شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ بیٹے کیوں رو رہے ہو؟۔ اس لڑکے نے جواب دیا”میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے“۔ بچے کے اس جواب کو سن کر آپ ﷺ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں اور آپ ﷺ نے بچے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”میرے والد بھی بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے، آج سے میں تمہارا باپ ہوں“۔ آپ ﷺ اس بچہ کو اپنے ساتھ گھر لائے، بہترین لباس پہنایا۔ وہ بچہ جب نئے کپڑے پن کر باہر نکلا تو دوسرے بچوں نے اُس سے سوال کیا کہ”یہ نئے کپڑے کہاں سے آئے ہیں؟“۔ تو اس بچہ نے جواب دیا کہ”آج سے میرے سرپرست حضور اکرمﷺ ہیں“۔سیرت رسول مقبول ﷺ کے اِس سنہری واقعہ کو حرزِ جاں بنا کر ہمیں بھی عید کی پرکیف ساعتوں میں یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ جذبہ ایثار کے مظاہرہ کے بغیر عید الفطر بالکل ایک پھیکی عید ہے۔

گلے ملیں تو، گِلے بھی دُور فرمالیں
عید الفطر کے روز ہمارے ہاں جس بات کا اہتمام سب سے زیادہ کیا جاتاہے وہ نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد ہر کسی سے گلے مل کر اُسے عید کی مبارک باد دینا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے ہماری عید کی خوشیاں اُس وقت تک ہمیں کچھ پھیکی پھیکی سی ہی محسوس ہوتی رہتی ہیں کہ جب تک کہ ہم اپنے عزیزوں،رشتہ داروں اور دوستوں سے اچھی طرح گلے مل کر اُنہیں باربار عید کی مبارک باد نہ دے لیں۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ کورونا وائرس کی موذی عالمگیر وبا کے باعث ہماری گزشتہ کئی عیدیں آپس میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کی پابندیوں کی نذر ہوگئیں اور ہم مارچ 2020 کے بعد آنے والی ہر عید ایک دوسرے سے بغیر گلے ملے ہی منانے پر مجبور تھے۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ رواں برس دنیا بھر میں کووڈ 19 کے مرض کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے،جس کی وجہ سے حکومت ِ پاکستان نے بھی عوامی مقامات اور اجتماعات میں سماجی فاصلے برقرار رکھنے کی تمام پابندیاں اُٹھا لی ہیں۔ یعنی اِس عید الفطر پر ہم اپنے دوست احباب کو گلے مل کر عید کی مبارک باد دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک دوسرے سے گلے ملنا یعنی معانقہ کرنا اسلامی معاشرے میں بہت زیادہ مستحب عمل سمجھا جاتاہے اور اسلامی معاشرے میں اِس عمل خیر سے آپسی محبت،احترام اور یگانگت کا خوب اظہار بھی ہوتا ہے۔تاہم دین اسلام میں عید کے روز معانقہ کرنا ایک لازمی فریضہ یا سنت بھی ہرگز نہیں ہے۔ معانقہ کے حوالے سے ایک حدیث رسول مقبول ﷺ میں روایت ہے کہ ”حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت ملک شام سے رخصت ہونے لگے تو،حضرت ایوب بن بشیر،عنزہ قبیلہ کے ایک شخص نے اُن سے دریافت کیا کہ ”میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث پوچھنا چاہتا ہوں“۔ جس کے جواب میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ”اگر کوئی راز نہ ہوا تو میں تمہیں بتا دوں گا“۔ وہ شخص عرض گزار ہوا کہ”وہ راز نہیں ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے وقت آپ حضرات سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟“۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ”میں جب بھی ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ فرمایا اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلوایا لیکن میں گھر میں نہیں تھا۔ جب میں آیا تو مجھے بتایا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا ہے۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت اپنی خاص نششت پر جلوہ افروز تھے،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھے اور مجھے گلے لگا لیا۔ یہ منظر نہایت عمدہ تھا، نہایت عمدہ تھا“۔(ابوداؤد، السنن، 4: 395)۔
ایک دوسری حدیث رسول مقبول ﷺ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ”اصحاب رسولﷺ جب بھی ایک دوسرے سے ملتے تووہ مصافحہ کرتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تو آپس میں معانقہ کیا کرتے تھے“۔(طبرانی،المعجم الاوسط37:1)۔

چونکہ بے شمار احادیث مبارکہ سے ایک دوسرے سے گلے ملنے یعنی معانقہ کرنے کی اصل ثابت ہے لہذا علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی اجازت عام حالات میں دی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں بھی ثابت ہوچکا ہے کہ جب دو دوست یا قریبی عزیز آپس میں گلے ملتے ہیں تو انسانی خون میں ”اوکسی ٹوسن“ نامی ہارمونز،جنہیں انسانی جسم میں رشتے اور خیال رکھنے کے جذبات پیدا کرنے کا باعث قرار دیا جاتاہے کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یوں یہ ہارمونز جہاں معانقہ کرنے والے افراد میں خون کے غیر معمولی دباؤ کو کم کرنے اور ذہنی سکون کا باعث بنتے ہیں،وہیں ملنے والوں میں ایک دوسرے سے متعلق فوری طور اچھے جذبات اُبھارنے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ لہٰذا یہاں یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ عیدالفطر کے روز جس سے بھی گلے ملیں پورے خلوص دل کے ساتھ ملیں۔خاص طور اگر کوئی ایسا فرد آپ کے سامنے آجائے جس کے متعلق آپ کے دل میں کبھی کوئی کدورت ہو یا شکوئے شکایت رہے ہوں تو اپنے اُس دوست یا رشتہ دار سے گلے ملتے ہی ماضی کے تمام گِلے اور شکایات بھی ذہن سے کسی حرفِ غلط کی مانند ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کھرچ ڈالیں۔ یقین جانیے ایک دوسرے سے گلے مل کر اپنے گِلے دور کرنے کا یہ طرز عمل نہ صرف آپ کی سماجی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا بلکہ عاقبت سنوارنے کا باعث بھی بنے گا۔

میٹھی عید کی مٹھا س رشتوں میں کیسے بھریں؟
عید الفطر کو ہم سب میٹھی عید کے نام سے بھی پکارتے ہیں،کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ چھوٹی عید کو آخر میٹھی عید کیوں کہاجاتاہے؟۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ تر قارئین اس سوال کا جواب یہ دیں کہ ”چونکہ عید الفطر پر ہم انواع اقسام کے میٹھے پکوان جیسے سویاں،شیر خورما،شاہی ٹکڑے،کیک اور مٹھائیاں خوب دل کھول کر کھاتے ہیں، شاید اس لیئے چھوٹی عید کو میٹھی کہا جاتاہے“۔بلاشبہ ایک لحاظ سے میٹھی عید کا یہ معنی و مفہوم بھی بالکل درست ہے لیکن اسلامی فلسفہ عید الفطر کی رو سے میٹھی عید کا زیادہ مستحسن اور اچھا مطلب یہ ہوگا کہ عید الفطر کی خوشیوں بھری ساعات میں ہماری جانب سے دوسروں کا منہ میٹھا کروانے کو زیادہ ترجیح دی جائے۔ ویسے تو پاکستانی معاشرے میں عید الفطر پر گھر آنے والے مہمانوں کی لذت کام و دہن اور تواضع کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔نیز چھوٹی عید پر کسی عزیز روشتہ دار کے گھر جاتے ہوئے مٹھائی یا کیک وغیرہ بطور تحفہ لے جانے کی روایت پر بھی سختی سے عمل کیا جاتاہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ آج کل ہم میں سے زیادہ تر افراد عید والے دن اپنے صرف اُسی رشتہ دار کے گھر میٹھا سا تحفہ لے کر جاناپسند کرتے ہیں جو یا تو ہم سے روپے،پیسہ اور رتبہ میں برتر ہو یا پھر برابری کا ہوتا ہے۔ جبکہ ایسے رشتہ دار جن کی مالی حیثیت تھوڑی کم تر ہوتی ہے،اوّل تو ہم اُن کے گھر عید کی مبارک باد دینے جانا پسند ہی نہیں فرماتے اوراگر بحالت مجبوری اُن کے ہاں جانا بھی پڑجائے تو صاحبِ خانہ کو اپنی حرکتوں سے ایسا محسوس کرواتے ہیں کہ جیسے ہماری آمد اُن پر ایک احسان عظیم ہے۔ جبکہ جن عزیز و اقارب کے ساتھ ہماری رنجشیں ہوتی ہیں،اُنہیں بھی ہم عید الفطر پر یکسر فراموش کردیتے ہیں۔

یاد رہے کہ ماہ صیام کی فرض عبادت کے بعد عیدالفطر کا تحفہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو فقط دیا ہی اِس لیئے ہے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے اُس کے مخلص اور عبادت گزار بندے30 روزوں کی سخت ریاضت کامیابی سے مکمل کرنے کے بعدکیا واقعی اَب اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے اردگر د رہنے والے کمزور طبقات کی محرومیوں کا احساس کرکے اُنہیں اپنی عید کی خوشیوں میں بھرپور اندازمیں شریک کرسکیں۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ دوسروں کو اپنے آپ پر فوقیت دینے اور مقدم سمجھنے کا نام ہی عید الفطر ہے۔ لہٰذا عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کرنے کی تاکید اور نمازِ عید کی ادائیگی کے فوراً بعد ایک دوسرے سے گلے ملنا یا اپنے سے چھوٹوں کو عید ی دینا اور پھر میٹھے میٹھے پکوان کے لذیذ تحفے ایک دوسرے کو بھجوانا وہ خوب صورت عادات و اطوار ہیں،جنہیں ہمارے بزرگوں نے فقط اِس لیئے رواج دیا تاکہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو تحائف دینے کے جذبات پروان چڑھ سکیں۔ کیونکہ دین اسلام میں ایک مسلمان کی جانب سے دوسرے مسلمان کو تحفہ دینے کے عمل خیر کی خوب تعریف و توصیف فرمائی گئی ہے۔ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ”ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو،اس سے آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت جاتی رہے گی“۔(جامع ترمذی)
لیکن تحفہ دینے کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ جواب میں بھی لازمی تحفہ موصول ہو۔ ایک حدیث شریف میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو کوئی چیز (بطور تحفہ) دی جائے اور اگر اس کے پاس کچھ ہو تو بدلے میں دے۔ اگر اس کے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اس کی تعریف کرے۔جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا۔اور جس نے اسے (تحفہ) چھپایا تو اس نے اس (تحفہ) کا انکار کیا۔(سنن ابی داؤد، 4813)۔
نیز تحفہ کا قیمتی ہونا بھی ضروری نہیں ہے،جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جسے خوشبو پیش کی جائے تو وہ واپس نہ کرے قبول کرے کیونکہ وہ اچھی مہک والی اور خفیف وزن والی ہے۔(سنن ابی داؤد، 4172)۔درج بالا حدیث رسول مقبول ﷺ سے استنباط کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں،عید الفطر کے روز ہم اپنے دوست احباب اور اعزا و اقارب کو مٹھائیاں،کیک،عیدی غرض جو بھی شئے خوشی اور خلوص نیت سے دیتے ہیں، اُس کا شمار تحفہ کے ذیل میں ہی آتاہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ سنڈے میگزین کی خصوصی اشاعت میں یکم مئی 2022 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں