International Book Fair

شہر میں میلہ سجا ہے۔ ۔ ۔ آئیں! کتاب خریدتے ہیں

یہ بات جس کسی نے بھی کہی،مگر ہے بہت خوب صورت کہ ”کوٹ پرانا پہن لیں،کتاب نئی خریدیں“۔اِس جملے کی اصل گہرائی اور گیرائی فقط وہی شخص محسوس کرسکتاہے، جسے اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے ڈیجیٹل دور میں بھی کتاب پڑھنے کا حقیقی لطف اور مزا،کتاب اپنے ہاتھ میں تھام کر ہی آتا ہو۔ ایسے ہی تمام عاشقان ِ قلم و قرطاس کو خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر،عروس البلاد کراچی میں 17 واں ”بین الاقوامی کتب میلہ“جسے عرفِ عام میں ”کراچی انٹرنیشنل بک فیئر“بھی کہا جاتاہے، کا ایکسپو سینٹر کی پرشکوہ عمارت میں آج 08 دسمبر سے باقاعدہ آغاز ہوچکاہے اور اَب یہ 5 روزہ عالمی کتاب میلہ 12 دسمبر2022 تک صبح 10 بجے سے رات9 بجے تک بلاکسی وقفہ کے جاری رہے گا۔ویسے تو اِس انٹرنیشنل بک فیئر میں پاکستان کے تقریباً ڈھائی سو سے زائد پبلشرز اور بک سیلرز کے علاوہ کم و بیش،دو درجن کے قریب دیگر ممالک کے پچاس سے زائد پبلشرز کی ہرموضوع پر مطبوعہ کتب کا ذخیرہ متلاشیانِ علم کے ملاحظہ،استفادہ اور خریداری کے لیئے ارزاں نرخوں پر دستیاب رہے گا۔لیکن ہمارے خیال میں مذکورہ عالمی کتب میلہ کی سب سے خاص بات دو بھائیوں امر شاہد،گگن شاہد کی جہلم کے مردم خیز علاقہ سے آمد ہے۔یہ دونوں موصوف کہنے کو تو پبلشرز ہیں مگر حقیقت میں یہ ایسے گھاگ شکاری ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی سادہ لوح نوجوانوں کو کتب بینی کے نشے کی لَت میں مبتلاء کرنا بنایا ہوا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ امر شاہد بالخصوس اور گگن شاہد بالعموم اپنے شکار کو پھانسنے کے لیئے سال کے 365 اور دن رات کے24 گھنٹے ٹویٹر،فیس بُک،انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر بُک کارنر جہلم سے شائع شدہ من موہنی اور دل آویز کتابوں کا جال بچھائے بیٹھے رہتے ہیں اور جیسے ہی سوشل میڈیا کا ڈسا ہوا کوئی نوجوان غلطی سے اِن کی مچان کا رُخ کرتا ہے،یہ اُسے فوری طور پر خوب صورت کتابیں انتہائی سستے داموں دینے کا لالچ دے کر اپنے چنگل میں پھانس لیتے ہیں۔ وہ مقولہ تو آپ نے اکثر سُنا ہی ہوگا کہ سانپ کا ڈسا،پانی بھی نہیں مانگا کرتا۔لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ امر شاہد،گگن شاہد کا”کتاب گزیدہ“ ہوش میں آنے کے بعد سب سے پہلے نئی کتاب مانگتا ہے اور وہ بھی صرف بُک کارنر جہلم سے چھپنے والی۔یہ”برادرانِ کتاب“ متنوع موضوعات پر نت نئی اور دیدہ زیب کتابیں چھاپنے میں کس قدر سفاک واقع ہوئے ہیں،اس کا اندازہ بُک کارنر کے فیس بُک پیچ کے کمنٹس سیکشن میں اکثر صارفین کی جانب سے لکھے ہوئے کمنٹس پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتاہے۔مثلاًایک صارف نے کمنٹ میں شکوہ رقم کیاکہ ”ابھی تو میں نے پچھلی کتاب ہی پڑھی نہیں تھی کہ بُک کارنر نے نئی کتاب شائع کردی“۔نیز دوسرے صارف نے خریدی ہوئی کتب کا پارسل وصولی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ”کتابوں کا پارسل وصول کر کے جہاں بے حد خوشی ہوئی تو وہیں یہ دُکھ بھی ہوا کہ بُک کارنر نے ایک اور نئی کتاب شائع کردی ہے اور وہ کتاب پارسل میں نہیں ہے“۔جبکہ ایک اور صارف کے احتجاجی کمنٹ کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ”ارے بھئی!! نئی کتابیں چھاپنے میں تھوڑا سا تو وقفہ کرلیا کریں“۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ امر شاہد،گگن شاہد نے اتوار بازار سے پرانی کتابیں آدھی قیمت پر خریدنے والی دیرینہ خوشی کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے،کیونکہ یہ ”برادرانِ کتاب“ اپنے ادارے سے شائع شدہ، نئی نکور کتابیں آدھی قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔اگر آپ کو ہماری لکھی بات کی صحت پر رَتی برابر بھی شک و شبہ ہو تو بُک کارنر شوروم کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کر لیں، جہاں بُک کارنر شوروم سے شائع ہونے والی 724 کتابیں آن لائن فروخت کے لیئے دستیاب ہیں۔جن میں سے 575 کُتب نصف قیمت یعنی 50 فیصد ڈسکاؤنٹ پر خریدی جا سکتی ہیں۔اَب جب کتابیں بیچنے کا جھانسہ دے کر اُنہیں سستے داموں فروخت کرنے یا یوں کہہ لیں کہ بانٹنے والے ”کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر“ میں دُکان سجالیں گے تو پھر باقی آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ مذکورہ عالمی کُتب میلہ ہر سال کی طرح بُک کارنر والے ہی نہیں لُوٹیں گے توبھلا، کون لُوٹے گا؟۔واضح رہے کہ اِس بار امر شاہد،گگن شاہد ”کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر“ میں غیر ملکی ادب،فلسفہ، مذاہب، قدیم و جدید تاریخ، نظم و نثر، سیاسیات، نقد و نظر اور سائنس جیسے متنوع عنوانات پر دیدہ زیب اور دل کش کُتب کا خاص ذخیرہ ہمراہ لائے ہیں۔ ویسے تو بُک کارنر سے طبع ہونے والی ہر کتاب خرید کر بُک شیلف میں رکھنے کے لائق ہے۔مگر کچھ کتابیں Must Purchase کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔

کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر“سے لازمی خریدی جانے والی کتاب میں سرفہرست معروف کالم نگار اوردانش ور، محمد اظہار الحق کے غیر سیاسی کالموں کا مجموعہ ”عاشق مست جلالی“ہے۔بقول اصغر ندیم سید،اس کتا ب کی تحریریں آج کی صورت حال اور معاشرتی پہلوؤں کے باطن میں جھانکتے ہوئے ہمارے اجتماعی مکرو فریب اور منافقت کی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہیں۔نیز امریکی ماہرِ فلکیات کارل ساگان کی کتاب ”زندگی اور موت“ جسے اُردو کے حسین و جمیل قالب میں کہنہ مشق مترجم،یاسر جواد نے ڈھالا ہے۔کارل ساگان نے اپنی اس کتاب میں ریاضی کی طاقت اور خوب صورتی،چار کائناتی سوال،ڈاک میں آنے والی دنیا،دانائی کیا ہے؟،قدامت پسند کیا چھپا رہے ہیں؟،آسمان کا ایک ٹکڑا غائب ہے،جہان ذہن و دل ٹکڑاتے ہیں۔جیسے فکر انگیز عنوانات پر سائنسی مگر عام فہم انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ بلاشبہ ”زندگی اور موت“ فکر و نظر کے دریچے کھولنے والی بہترین تحریروں کا مجموعہ ہے۔جبکہ ہندوستان کی قدیم فکری دانش کا ماخد ”کلیلہ و دمنہ“ جس کی ازسرنو تسہیل و تدوین، ڈاکٹر حنا جمشید نے کی ہے اور انہوں نے مختلف الفاظ کی قدیم اُردو املا کوعصر حاضر کے موجودہ اِملا سے اِس احتیاط کے ساتھ تبدیل کیا ہے کہ متن کا اصل مفہوم اور معانی و خیال کہیں متاثر نہیں ہوتا۔یہ ہی خوبی ”کلیہ و دمنہ“ کے حالیہ ایڈیشن کو اُردو زبان میں شائع ہونے والے دیگر ایڈیشنز کے مقابلے میں ممتازبناتی ہے۔

اُردو فکشن کے عشاق کے لیئے ناول ”نیلی بار“ کی خریداری بھی ایک بہترین سودا ہے۔ مصنفہ طاہراقبال نے مذکورہ ناول میں پنجاب کی زندگی ایسے خاص زاویہ سے دکھانے کی کوشش کی ہے جہاں سے قاری کو دیہی پنجاب کی روح اپنے روبرومحسوس ہونے لگتی ہے۔ شاید اسی لیئے مستنصر حسین تارڑ بھی نیلی بار کے بار ے میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ ”نیلی بار،پنجاب کا ایک مہا بیانیہ ہے۔وہ مہا بھارت کی ہم سری کرتا،ہومر ”ایلیڈ“کو چیلنج کرتا ہے۔۔۔ واث شاہ کے بیانیے کی قربت میں چلاجاتاہے“۔نیز محمد حمید شاہد کا ناول ”مٹی آدم کھاتی ہے“بھی ایک انوکھے ذائقہ کا نثری شہ پارہ ہے، جس میں ایک ایسے آدمی کی کہانی بیا ن کی گئی ہے، جس کی بصیرت میں سارے جہانوں کی تہذیب محفوظ تھی۔جبکہ ”سعید نقوی کے منتخب افسانے“ کس اعلیٰ معیار کی کتاب ہو گی، اس کا اندازہ لگانے کے لیئے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ اس کتاب میں موجودہر ایک افسانہ کا نتخاب ہمارے جدید اُردو ادب کے مقبول ترین افسانہ نگار علی اکبر ناطق نے خود کیا ہے۔ علاوہ ازیں سمندر پار سے شاہ کار ناول ”اینمل فارم“جس کے مترجم معروف نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں،خرید کر پڑھنے اور بُک شیلف میں محفوظ کرکے رکھنے والی کتاب ہے۔

دیگر بہترین کتابیں جن کا مطالعہ قارئین کی فکری بالیدگی اور ذہنی سیرابی میں ازحد معاون و مددگار ثابت ہوسکتاہے۔اُن میں ”دنیا کی سو عظیم کتابیں،درویش اقبال کی یاد میں، تزکیہ،اخلاص،بندہ بشر، ٹرین ٹو پاکستان،ہری یوپیا،گم نام گاؤں کا آخری مزار،گاڈ فادر،کماری والا، شاہ محمد کا ٹانگہ،انسانی تہذیب کے معمار، مہاراجہ پورس، چار آدمی، آدم خور نظام کا نوحہ،کاسموس،جو دیکھا جوسُناجو بیتا،کتاب العروج اور نظریات کی مختصر تاریخ سرفہرست ہیں۔ ”کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر“ میں جہاں ہرطرف کتابیں ہی کتابیں ہوں گی، وہاں درج بالا کتب پر بھی ایک اچٹتی سی نگاہ ضرور ڈالیے گا کیونکہ یہ کتابیں بار بار پڑھنے کے تو قابل ہیں ہی لیکن ہاتھ میں تھام کر دیکھنے کے بھی لائق ہیں۔ انگریزی ادیب سڈنی سمتھ نے ایک بار کہا تھا کہ ”دلکش کتاب سے بہتر کوئی سامانِ آرائش نہیں ہوتا،خواہ! یہ کتابیں ہم پڑھیں نہ پڑھیں“۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 دسمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں