World Saving Day 2022

بچت مستقبل کے لیئے تیار رکھتی ہے

 بچت کا عالمی یوم،جسے ”ورلڈ تھرفٹ ڈے“(World Thrift Day) بھی کہا جاتاہے ہرسال 31 اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا جاتاہے۔اِس دن کو جداگانہ حیثیت میں منانے کا بنیادی مقصد ِ وحید عام لوگوں کو روزمرہ زندگی میں بچت اور کفایت شعاری اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں پہلی بار عالمی یوم بچت 1934 میں اٹلی کے شہر میلان میں بچت کی اہمیت کو فروغ دینے اور بینکوں پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیئے متعارف کروایا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر برس ایک دن،بچت کے ساتھ موسوم کرنے کا اچھوتا خیال اطالوی پروفیسر فلپو رایزا (Filippo Ravizza)کے ذہن رَسا کی اختراع تھا، جنہوں نے میلان میں منعقدہ پہلی بین الاقوامی بینک کانفرنس کے دوران عالمی یوم بچت منانے کی تجویز پیش کی تھی،جو کانفرنس میں شریک مالیاتی اداروں خاص طور پر بنکوں کے سربراہان کو بہت پرکشش محسوس ہوئی۔لہٰذا،کانفرنس کے دوران ہی شرکاء نے متفقہ طور پر بین الاقوامی بینک کانفرنس کے آخری دن کو آئندہ سے بچت کے عالم یوم کے طور پر منانے کے فیصلہ کی توثیق کردی۔

جس کے بعد سے ہر برس 31 اکتوبر کو بنکوں نے اپنے صارفین کو بچت کی جانب زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کے لیے جہاں جہاں بھی اُن کے بنکوں کی شاخیں موجود تھیں،وہاں بچت کی مناسبت سے خصوصی پروگراموں کا انعقاد اور بچت کے لیئے نت نئی اسکیمیں متعارف کروانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں چند ہی برسوں میں عالمی یوم ِ بچت حقیقی معنوں میں بین الاقوامی سطح پر مقبول و معروف ہوگیا۔واضح رہے کہ چند ایک ممالک جیسے جرمنی وغیرہ میں ہفتہ وار تعطیل آنے کی وجہ سے یومِ بچت، کوکبھی کبھار ایک دن قبل یا بعد میں بھی منالیا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر سال، عالمی یوم بچت،ایک مختلف سلوگن یا عنوان کے تحت منایا جاتا ہے،جس کی بنیاد پر اُس دن کی تقریبات یا سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ امسال عالمی یوم ِ بچت کا موضوع ہے ”بچت آپ کو مستقبل کے لئے تیار کرتی ہے“۔ اس سادہ سے عنوان میں کرہ ارض کے ہر شخص کے لیئے نہایت موثر پیغام پوشیدہ ہے۔

اگربچت اور کفایت شعاری کے قومی رجحانات کا مطالعہ کیا جائے تو انکشاف ہوتاہے کہ یورپی ممالک میں رہنے والے افراد سب سے زیادہ بچت کرتے ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے 10 سرفہرست بچت کرنے والی اقوام میں سے 5 کا تعلق یورپی ممالک سے ہے۔ اس موضوع پر اعدادو وشمار جمع کرنے والی معروف ویب سائٹ فائنڈر ڈاٹ کام اور ایکسپرٹ مارکیٹ ڈاٹ کام کی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں سوئزرلینڈ بچت کرنے والے ممالک میں سرفہرست رہا،جہاں کی عوام نے اپنی سالانہ گھریلو آمدن کا کم ازکم 19.3 فیصد پس انداز کیا۔جبکہ سویڈن 15.72،ناروے 9.11، آسٹریلیا 9.23، جرمنی 9.52،فرانس 8.52،آسٹریا 7.8،نیدرلینڈ 6 اور ریاست ہائے متحدہ امریکا 4.97فیصد کی گھریلو بچت کے ساتھ مذکورہ فہرست میں بالترتیب ٹاپ ٹین ممالک رہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی عوام میں روزمرہ زندگی میں گھریلو بچت کا رجحان بہت ہی کم ہے۔اسٹیٹ بینک اور اکنامک سروے کے مطابق1960 کی دہائی سے 2015 تک گھریلو اور ملکی بچت کی شرح،دونوں ملاکر بھی زیادہ سے زیادہ صرف 15 فیصد تک ہی رہ پائی تھی جوکہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے بھی انتہائی کم تھی۔ جبکہ عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بچت کے تناسب سے ہمارے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی سطح خطے کے دیگر ممالک جیسے بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا کے مقابلے میں میں بھی کافی کم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں بچت کی شرح سال 2002کے بعد سے بہت تیزی کے ساتھ مسلسل نیچے گر رہی ہے جبکہ اِسی عرصے کے دوران خطے کے دیگر ممالک میں بچت کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

بچت کیا ہے؟
ہمیں مختلف ذرائع آمدن سے جو بھی روپیہ حاصل ہوتا ہے،ہم اُسے خرچ کرتے ہیں یا پھر اُسے کسی مناسب وقت پر خرچ کرنے کے لیئے بچا لیتے ہیں۔ یا درہے کہ جو پیسہ ہم خرچ نہیں کرتے صرف وہ ہی روپیہ ہماری خالص بچت ہے اور ہمارے پاس جو بھی روپیہ یا آمدنی موجود ہے اِسے یکمشت خرچ نہ کرنا ہی دراصل کفایت شعاری کہلائے گا۔ لہٰذا، بچت کرنے کا سیدھا سادا،فارمولا کچھ یوں ہوا کہ بچت کرنے لیئے یا تو ہمیں اپنے پیسے کو کم خرچ کرنا پڑے گا یا پھر پیسہ زیادہ کمانا پڑے گا۔ واضح رہے کہ بچت انفرادی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی،مثال کے طور پر ایک فرد یا خاندان کی بچت انفرادی اور گھریلو بچت کہلاتی ہے۔جبکہ کسی ایک شہر،علاقے یا ملک میں رہنے والے افراد کی جانب سے اختیار کی جانے والی کفایت شعاری کے مجموعی رجحان کو اجتماعی بچت کی ذیل میں شمار کیا جاتاہے۔

آخر! بچت کیوں کی جائے؟
یہ وہ سوال ہے جو اکثر و بیشتر ہر اُس شخص کو سننے کوملتا ہے،جو اپنے اردگرد رہنے والے اپنے کسی بھی دوست،عزیز یا رشتہ دار کو بچت کا مشورہ دینے کی کوشش کرتاہے۔ ویسے تو بچت یا کفایت شعاری کے اَن گنت اور لاتعداد فوائد گنوائے جاسکتے ہیں لیکن چند وجوہات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔مثلاً پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آج بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں اپنا معیارِ زندگی متوازن سطح پر رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ کم آمدنی میں سے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور پس انداز کی جائے تاکہ اپنی آمدن کا کچھ حصہ اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیا جاسکے۔ دوم،بعض اوقات اچانک اور غیرمتوقع طور پر سامنے آجانے والے اخراجات کو اپنی بچت شدہ رقم سے باآسانی نمٹایا جا سکتاہے۔

سوم،اچانک ملازمت ختم ہونے یا کاروبار میں نقصان ہوجانے کی صورت میں اپنے ہاتھ میں اتنی بچت شدہ رقم تو ہونی ہی چاہیئے کہ کسی شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر نئی ملازمت تلاش کی جاسکے یا کاروبار کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوئی سبیل پیدا کی جاسکے۔ کیونکہ عام مشاہدہ میں یہ ہی آیا ہے کہ بیشتر افراد کے پاس جب مناسب مقدار میں پس انداز کی ہوئی بچت موجود نہیں ہوتی تو وہ شدیدذہنی و نفسیاتی دباؤ کے باعث نہ تو ٹھیک طرح سے نئی ملازمت ڈھونڈ پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے کاروبار کی بحالی کے لیئے کوئی جامع منصوبہ ترتیب دے پاتے ہیں۔ ہماری دانست میں اچھے وقت میں بچائی گئی رقم سے بُرے سے براوقت گزارنا بھی بہت آسا ن اور سہل ہوجاتاہے۔ اگر خوش قسمتی سے سفرِ زیست کے کسی بھی مرحلے پر مشکل حالات سے آمنا سامنا نہ ہوتو بچت شدہ رقم سے دنیا دیکھنے یا سیر وسیاحت کے منصوبہ کو بھی عملی جامہ پہنایا جاسکے۔دراصل ساری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ بچت کرنے کا نقصان کوئی بھی نہیں ہے،بس! فائدے ہی ہیں۔

دین اسلام میں بچت کی اہمیت
اسلام کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں جابجا خرچ میں میانہ روی یعنی کفایت شعاری اختیار کرنے کا درس اور فضول خرچی سے رُکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی فصیح و بلیغ حدیث مبارکہ ہے کہ ”خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے“۔(مشکوۃ المصابیح حدیث: 5067)
جبکہ قرآن حمید فرقان حمید میں ارشادِ باری تعالی ہے: ”اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ملامت اور قلاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔“ (بنی اسرائیل، 17: 29)۔

نیز اسلام فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“۔(الاعراف، 7: 31)۔جبکہ ایک دوسرے مقام فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کرتے ہوئے ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔”اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے“۔(بنی اسرائیل، 17: 26، 27)۔

مفسرین نے مذکورہ آیاتِ قرآنی کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ ”انسان کو خرچ کرنے میں نہ تو اس قدر کنجوس ہونا چاہیے کہ وہ اور اُس کے گھر والے ضروریات زندگی کا ذائقہ چکھنے سے محروم رہیں اور نہ اتنا سخی یا فضول خرچ ہونا چاہیئے کہ وہ اپنا مال و متاع ایک دن میں خرچ کرڈالے اور پھر اُسے اپنی ضروریات کے لیئے دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ آمدن اور خرچ میں عدم توازن، بے اعتدالی اور افراط و تفریط اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک ایک گناہ ہے،۔کیونکہ اگر کسی انسان کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کے لیے بھی روپیہ نہ ہو تو پھر وہ مقروض ہوجاتاہے اور جب اُس کے پاس قرض ادائیگی کے لیے بھی پیسے میسر نہ آسکیں تو اُسے قرض خواہ کے سامنے جھوٹ بولنے پر مجبور ہونا پڑتاہے یا کسی کی امانت میں خیانت کرنا پڑتی ہے۔لہٰذا،جہاں تک ممکن ہو،انسان کو فضول خرچی کی عادتِ قبیح میں مبتلا ہونے سے خود کو روکنا چاہئے“۔

بچت کیسے کریں؟
بہت پرانا لطیفہ ہے کہ ایک شخص کو بچت کرنے کی انوکھی ترکیب سوجھی اور وہ موصوف دفتر سے چھٹی کے بعد ایک بس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے دو تین کلومیٹر کا سفر طے کرکے اپنے گھر پہنچے،اور ہانپتے ہانپتے بیگم کو اپنے سفر کی تمام روداد سنانے کے بعد داد طلب انداز میں گویا ہوئے‘’بیگم! مانتی ہونا کہ آج میں نے پورے100روپے کی بچت کی ہے“۔ بیگم نے شوہر کوداد دینے کے بجائے اُلٹا غصہ میں بولی ”حد ہوگئی ہے، رہے نہ آخر! فضول خرچ کے فضول خرچ۔۔۔ آپ اگر کسی ٹیکسی کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھر تک آتے تو ضرور 300 روپے کی بچت ہوجاتی“۔مذکورہ لطیفہ لکھنے کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ بچت کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ،جسے ہنسی مذاق میں ہرگز نہیں اُڑانا چاہئے۔کیونکہ خوش حالی کے زمانے میں بلاضرورت خریدی گئیں مہنگی سے مہنگی چیزیں بھی مشکل وقت میں کسی کام نہیں آتی۔مگر تھوڑی سی پس انداز کی ہوئی رقم کھٹن حالات میں بلاشبہ ایک نعمت غیر متبرکہ ثابت ہوسکتی ہے۔

معروف فلسفی شوپنہار نے ایک بار کہا تھا کہ ”روپیہ کی قیمت تو صرف اُسے خرچ کرنے کے بعد ہی معلوم ہوتی ہے“۔یعنی پیسہ اُس وقت تک بے معنی ہے،جب تک آپ اس سے کوئی بامعنی اور کارآمد چیز نہیں خرید لیتے۔اس لیئے جب بھی آپ کوئی چیز خریدنے لگیں اپنے آپ سے چند سوالات ضرور پوچھیں۔مثلاً کیا مجھے اس چیز کی واقعی ضرورت ہے؟۔کیا یہ شئے اتنی کارآمد ہے کہ میں اپنی محنت کی کمائی خرچ کروں؟ کیا یہ چیز فوری طور پر خریدنا ضروری ہے؟کیا اِ س شئے کی قیمت یا کوالٹی کے بارے میں مکمل طور پر چھان پھٹک یا اطمینان کرلیاہے؟اگر آپ کے تمام جوابات نفی میں ہوں تو سمجھ جائیں کہ آپ جلد بازی میں خریداری کرنے لگے ہیں۔لہٰذا، شاپنگ کے فیصلہ پر فوری نظر ثانی فرمائیں۔بعض مالیاتی ماہرین کے نزدیک ہم میں سے ہر کسی کے پاس 7 سے 8 ماہ کے اخراجات کے لیئے ہنگامی بچت بہر صورت موجود ہونی چاہیئے۔

سرمایہ کاری اور بچت کا فرق سمجھیں
جی ہاں! سرمایہ کاری اور بچت میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔ دراصل،سرمایہ کاری بچت کرنے کے بے شمار تیربہدف طریقوں میں سے صرف ایک معروف طریقہ ہے اور ہر اچھی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہمیشہ بچت کی صورت میں ہی برآمد ہو، یہ بھی لازم نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بنک اکاؤنٹ میں محفوظ رقم اور کسی قیمتی اثاثے یعنی زمین، سونا،چاندی اور اسٹاک وغیرہ میں لگائی ہوئی رقم سرمایہ کاری کہلاتی ہے۔لیکن بالعموم دیکھنے میں آیا جب ہمیں اچانک نقد رقم کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو یا تو اُس دن بنک کی اے ٹی ایم مشینوں پر بے تحاشا رش ہوتا ہے یا پھر وہ مشینیں ہی خراب ہو جاتی ہیں۔اس لیئے حقیقی بچت فقط وہ ہے، جو ہمہ وقت آپ کی دست رس میں موجود ہو۔ چونکہ سرمایہ کاری میں لگایا جانے والا روپیہ،ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا،اس لیئے کسی ہنگامی صورت حال میں اُس سے فائدہ اُٹھانے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔

لہٰذا ہر وقت ایک مناسب رقم کا قابل رسائی جگہ پرموجود ہونا، آپ کی سب سے بہترین بچت ہے اور ہماری دانست میں بچت کے لیئے سب سے کارگر اور مؤثرشئے، گُللک یا غلّہ ہے۔ جو قارئین،مٹی کے گُللک کے ساتھ اپنا بچپن گزار چکے ہیں، اُنہیں تو یقینا معلوم ہی ہوگا کہ گُللک بچت کرنے کے لیئے کس قدر مفید ہے۔چونکہ کم عمری میں بچت کی عادت ڈالنا بہت سہل ہوتاہے،اس لیئے گُللک یا غلّہ، والدین کے لیئے اپنے بچوں کو فضول خرچی سے روکنے اور بچت کی طرف مائل کرنے والاایک بہترین کھلونا ثابت ہوسکتاہے۔

مثلاً والدین،اپنے بچوں کو ویڈیو گیم،بائیسکل یا کمپیوٹر وغیرہ خریدنے کے لیئے یک مشت رقم دینے کے بجائے اُنہیں مذکورہ چیزوں کے لیئے گُللک میں پیسے جمع کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ”بیٹا! میں کل سے آپ کو بائیسکل کے لیئے 100 روپے روزانہ اس شرط پر دوں گا کہ تم اُسے اپنے گُللک میں ڈالو گے اور جب گُللک بھر جائے گا تو ہم اسے کھول کر پیسے نکالیں گے اور پھر بائیسکل خریدنے بازار جائیں گے“۔اس طرح جہاں بچوں میں بچت کی عادت پروان چڑھے گی،وہیں اُن میں تجسس،صبر اور انتظار کرنے جیسے مفید جذبات بھی پرورش پائیں گے۔ جبکہ گُللک اُن والدین اور بڑے افراد کے لیئے بھی ایک اچھی یاددہانی ہے، جو بچت کی عادت کو مدت ہوئے فراموش کرچکے ہیں اور عین ممکن ہے وہ بھی گھر میں رکھے ہوئے گُللک کو دیکھ کر اُس میں سوداسلف کی خریداری میں بچ جانے والی ریزگاری وغیرہ ڈالنا شروع کرکے بچت کی شاہراہ پر چل پڑیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 30 اکتوبر 2022 کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں