”جناب میں فوری قرضہ ایپ کی آفیشل ہیلپ لائن سے مخاطب ہوں،کیا میر ی بات جاوید صاحب سے ہی ہورہی ہے؟“۔
”ہاں میں جاوید ہی بول رہا ہوں،کہیے آپ نے مجھے کیوں کال کی ہے؟“۔
”جناب،سب سے پہلے تو ہم شکرگزار ہیں کہ آپ نے ہماری ڈیجیٹل ایپ کو ڈاؤن لوڈ کیا۔ ہم آپ کو انتہائی آسان اقساط پر فوری اور آن لائن قرضہ دینا چاہتے ہیں؟“۔
”لیکن میں تو بنک اکاؤنٹ بہت کم استعمال کرتاہوں اور اُس میں پیسے بھی اتنے زیادہ نہیں رکھتا،پھر آپ مجھے کیوں قرضہ دینا چاہتے ہیں؟“۔
”جناب اسٹیٹ بنک کی نئی مالیاتی پالیسی کے مطابق بنکوں کے ایسے تمام چھوٹے کھاتے دار جنہیں بڑے بنک قرضے نہیں دیتے،اُنہیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیئے ہم نے فوری قرضہ ایپ متعارف کروائی ہے۔ اگر آپ کو 25ہزار سے 50 ہزار روپے تک کا فوری قرضہ چاہیئے،تو ہم بغیر کسی کاغذی کاروائی کے چند منٹوں میں مطلوبہ رقم بطور قرض آپ کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں گے“۔
”اگر میں 25 ہزار روپے کا قرض لینا چاہوں تو مجھے اس کی ا دائیگی کتنی مدت میں اور کس شرح سود پر کرنا ہوگی؟“۔
”ہم آپ کو 25 ہزار کی رقم بطور قرض 90 دن کے لیئے دیں گے اور اِس رقم پر انتہائی معمولی شرح سود عائد کی جائے گی“۔
جاوید کو رقم کی بہت زیادہ ضرورت تو نہیں تھی،لیکن جب اُس نے فون کال پر نمائندہ کی چکنی چپڑی باتیں سنی تو وہ لالچ میں آکر بہک گیا اور 25 ہزار روپے مالیت کا آن لائن قرضہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی۔ نمائندہ نے جاوید سے اُس کا شناختی کارڈ نمبر، بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات سمیت چند ضروری معلومات لیں اور اُسے یہ کہہ کرفون منقطع کردیا کہ پانچ سے دس منٹ میں آپ کو رقم اپنے بنک اکاؤنٹ میں موصول ہوجائے گی۔ واقعی پانچ منٹ بعد جاوید کو فون پر اپنے بنک اکاؤنٹ میں رقم جمع ہوجانے کا اطلاعی میسج موصول ہوگیا۔ چند منٹو ں میں بغیر کسی کاغذی کارروائی کے قرضہ ملنے پر جاوید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔مگر بدقسمتی سے اُس کی یہ مسرت چند روزہ ثابت ہوئی، کیونکہ ابھی اُسے قرضہ لیئے ہوئے مشکل سے دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اُسے فون کال آئی کہ جناب ہمارے پیسے واپس کیجئے۔جب جاوید نے کہا کہ مجھ سے تو 90 دن کے بعد رقم وصول کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا تو فون کال کرنے والے اُسے بے نطق سناتے ہوئے کہا کہ ”ہم اپنے کسی بھی صارف کے ساتھ ایسا کوئی معاہد ہ نہیں کرتے اگر آپ نے کل تک 30 ہزار واپس نہیں کیئے تو اگلے ہفتہ آپ کو40ہزار لوٹانے ہوں گے اور پندہ دن بعد شرح سود اور جرمانے کے ساتھ بڑھ کر یہ ہی رقم 50 ہزار ہوجائے گی اور اگر رقم کی ادائیگی میں مزید تاخیر یا لیت و لعل سے کام لیا تو آپ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی“۔ جاوید کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا،اس لیئے اُسے رقم جمع کرنے میں دو ماہ لگ اور یوں اُس نے 25 ہزار کے بدلے میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی خطیر رقم کی ادائیگی کرکے بڑی مشکل سے اپنی جان آن لائن فراڈیوں کے چنگل سے چھڑائی۔
یہ کہانی صرف ایک جاوید کی ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاں بہت سے سادہ لوح افراد، آئے روز آن لائن دھوکہ دہی کا شکار ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ سرکاری سطح پر سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے اب تک 75 ایسی آن لائن قرضہ دینے والی ایپلی کیشنز کی نشاندہی کی ہے جو کہ غیر قانونی ہیں او ر جعلی طریقے سے کام کر رہی ہیں۔اِن تمام موبائل ایپلی کیشنز کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کو ان کے موبائل فون ڈیٹا بشمول فوٹو گیلری اور رابطہ لسٹ تک رسائی کے بدلے میں کم شرح سود پر آسان اقساط پر آن لائن قرضہ کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔یہ تمام موبائل اپلی کیشنز گوگل پلے اسٹور پر ڈاؤن لوڈ کے لیئے دستیاب ہیں اور بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ اِن بعض اپلی کیشنز کو تو ایک ملین سے بھی زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔ آن لائن قرضہ فراہم کرنے والی اِن تمام اپلی کیشنز کا طریقہ واردات یکساں ہے۔مثال کے طور پر یہ ایپلی کیشنز،اسمارٹ فون میں ایک مرتبہ ڈاؤن لوڈ ہونے کے بعدکسی بھی شخص کی ذاتی تصاویر، ویڈیوزاور کال ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔بعدازاں صارف کی مذکورہ معلومات کی بنیاد پر ہی اُسے بلیک میل کرکے اُسے قرضہ دی گئی رقم سے بھی کئی گنا زائد رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔
یقینا جدید ٹیکنالوجی ایک اچھی ایجاد ہے اور اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں اور سہولیات بھی میسر آتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ ہی ٹیکنالوجی بعض لوگوں کے لیئے جاں کا آزار بھی بن جاتی ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں آن لائن دھوکہ دہی کی اکا دُکا وارداتیں ہونا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں جس تواتر اور کثرت کے ساتھ نت نئے اور انوکھے طریقوں سے آن لائن فراڈ کیئے جارہے ہیں۔ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں آپ کو اتنی ”آن لائن اندھیر نگری“ کا راج پاٹ دیکھنے کو مل سکے۔موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال پر نگاہ رکھنے والے ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 75 فیصد سے زائدشہری آبادی موبائل فون استعمال کررہی ہے۔نیزاسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 کی چوتھی سہ ماہی سے لے کر اَب تک موبائل فون اور انٹرنیٹ بینکنگ میں 21 فیصد کا اضافہ ہواہے اور ملک میں اے ٹی ایم مشینوں کی تعداد 17 ہزار 547 تک پہنچ گئی ہے۔ مگر المیہ ملاحظہ ہو کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ ملک میں موبائل فون اور انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اُس سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ آن لائن فراڈ اور دھوکہ دہی کی وارداتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
آن لائن فراڈ کی وجوہات
پاکستان میں آن لائن فراڈکے واقعات میں اضافہ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ راتوں رات امیر ہونے کا لالچ اور دوسری وجہ ڈیجیٹل بینکنگ استعمال کرنے کے حوالے سے درست آگاہی، معلومات اور ضروری تربیت کا فقدان ہے۔ یاد رہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ کی وجہ سے چونکہ مالیاتی لین دین کے زیادہ تر اختیارات بینک صارف کے اپنے پاس موجود ہوتے ہے لہذا بینک عملے کے جانب سے دھوکہ دہی میں ملوث ہونے کے امکانات تو بہت حد تک کم ہو گئے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ڈیجیٹل بینکنگ کا نظام رائج ہونے بعد آن لائن فراڈ کا شکار ہونے والے صارفین اکثر اوقات اپنی غلطی کی وجہ سے اپنے قیمتی سرمایہ سے محروم ہوتے ہیں اور کئی بار وہ ایسے زیرک اور چالاک آن لائن فراڈیوں کا جھانسے میں آجاتے ہیں جو دھوکہ دہی کی کارروئیاں کرنے میں مہارت ِ تامہ رکھتے ہیں۔ مثلاً کچھ صارفین اپنی فطری لاپرواہی کے باعث اپنا اے ٹی ایم یا موبائل بینکنگ کی ایپ کا پاس ورڈ جانے انجانے میں دوسروں لوگوں کو بتا دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل بینکنگ نظام کے متعلق ہماری واقفیت کا اندازہ اِس ایک بات سے لگالیں کہ بعض صارفین کو اپنا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنا بھی نہیں آتا اور وہ اپنا ڈیبٹ کارڈ لے کر اے ٹی ایم مشین کے باہر کھڑے ہوکر انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ کوئی شخص آئے گا تو وہ اُسے اپنا کارڈ دے کر رقم نکال کر دینے کا کہیں گے۔ نیز کئی لوگ اپنے پاس ورڈ کسی ایسی جگہ لکھ دیتے ہیں،جہاں دوسرے لوگوں کی رسائی ہوتی ہے۔جبکہ کچھ لوگ تو صرف ایک فون کال پر ہی اپنے بنک اکاؤنٹ سے متعلق ہر معلومات جعلی بنک نمائندہ کو پوری تفصیل کے ساتھ بتادیتے ہیں۔
آن لائن ڈبل شاہ
وزیر آباد کے رہائشی سید سبط الحسن شاہ المعروف ڈبل شاہ نے رقم دوگنی کرنے کا جھانسہ دے کر محض 18 مہینوں میں 7 ارب روپے کمائے۔ڈبل شاہ شروع میں صرف 15 دنوں میں رقم دوگنی کر کے واپس کر دیا کرتا تھا۔ بعد میں یہ مدت بڑھتے بڑھتے 70 دنوں تک جا پہنچی اور ایک وقت آیا کہ وہ لوگوں کا سارا سرمایہ سمیٹ کر غائب ہوگیا۔ مگر بعدازاں وہ بہت جلد قانون کی گرفت میں آگیا اور عدالت نے اُسے جعل سازی اور دھوکہ دہی کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنادی۔کہنے کو تو30 اکتوبر 2015 کو ڈبل شاہ اِس دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوگیا تھا لیکن آج بھی جہاں کہیں لوگ پیسے ڈبل کرکے دینے کی کسی فراڈ اسکیم کے بارے میں سنتے ہیں تو اُنہیں فوراً ڈبل شاہ یاد آجاتاہے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں پیسے ڈبل کرنے کی جعلی اسکیموں کو پونزی اسکیم کے نام سے جاناجاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پونزی اسکیم کی وجہ تسمیہ بھی ڈبل شاہ کی طرز کا ہی ایک پراسرار کردار ہے۔ معروف امریکی جعل ساز چارلز پونزی نے 1920 کی دہائی میں ہزاروں افراد کا سرمایہ اس وعدے پر حاصل کیا تھا کہ وہ 90 دنوں میں انھیں 50 فیصد منافع کما کر دے سکتاہے اور اس نے ٹھیک ٹھاک پیسہ اکٹھا کرلیا تو یہ بھی ہمارے ڈبل شاہ کی طرح لوگوں کا سرمایہ لے کر بھاگ گیا۔
واضح رہے کہ پونزی سکیم میں جعل ساز نئے سرمایہ کاروں سے پیسے وصول کر کے پرانے یا ابتدائی سرمایہ کاروں میں بانٹ دیتے ہیں تاکہ انھیں یہ تاثر دیا جا سکے کہ منافع ہوا ہے۔ ان پیسوں سے سرمایہ کاری کے بجائے مزید لوگوں کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے لیئے تشہیر کی جاتی ہے تاکہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھا جا سکے۔ حال ہی میں پاکستان میں کام کرنے والی ایک مقامی موبائل اپلی کیشن جس کا نام آئی ڈی اے بتایا جاتاہے نے پاکستان کے لاکھوں صارفین سے کروڑوں روپے کا فراڈ کر کے رفوچکر ہوگئی ہے۔ آئی ڈی اے موبائل ایپس پر 121ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر دو ڈالر روزانہ 30دفعہ موبائل ایپس پر کلک کرنے کی صورت میں صارفین کو دیے جاتے تھے اور ساتھ یہ بھی شرط رکھی گئی تھی کہ تین مزید افراد کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کیا جائے۔ آئی ڈی اے ایپ پر 121ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر صرف چار روز میں ڈبل منافع دینے کا موبائل فون صارف کو لالچ دیا جاتا تھا۔ گزشتہ ہفتے یہ ہی موبائل فون ایپ عید آفر کے نام پر پاکستان کے لاکھوں صارفین سے کروڑوں ڈالر کا فراڈ کرنے کے بعد بند ہو گئی ہے۔چونکہ موبائل صارفین تمام تر سرمایہ کاری صرف موبائل ایپ پر کاروبار کرتے تھے۔لہٰذا موبائل ایپ کے بند ہونے کے بعد متاثرین کو یہ بھی نہیں معلوم اُن کے قیمتی سرمایہ کون لے کر بھاگا ہے؟ اور وہ اَب کس کے خلاف اپنے ساتھ ہونے والی آن لائن دھوکہ دہی اور جعل سازی کی شکایت درج کروائیں؟۔ بعض ٹیکنالوجی ماہرین کے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا اَب تک کا سب سے بڑا آن لائن فراڈ ہے،جس میں ہزاروں لوگوں سے کروڑوں روپے ہتھیا لیے گئے ہیں۔
ای میل کے ذریعے جعل سازی؟
ای میل کے ذریعے جعل سازی کا مطلب یہ ہے کہ جعلی ای میلز تیار کر کے لوگوں کو بھیجنا تاکہ اُن کی حساس مالیاتی اور ذاتی معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اس طرح کی جعل سازی کے لیے تیار کی جانے والی ای میلز مشہور و معروف حقیقی ادارے کی طرف سے بھیجی جانے والی ای میلز جیسی لگتی ہیں۔ یہ ای میل بھیجنے والے زیادہ تر ایسے معروف شخصیات، مشہور اداروں اور بڑی کمپنیوں کے ای میل ایڈریس استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی اچھی ساکھ کے حامل ہوتی ہیں۔مثلاً مائیکروسافٹ، ایلن ماسک،ایف بی آر وغیرہ جیسے معروف اداروں کا نام استعمال کرکے جب یہ فراڈیئے ای میل بھیجتے ہیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ صارف اِسے ایک حقیقی ای میل تصور کرلے گا۔عموماً اس طرح کی ای میلز میں ایک جعلی ویب سائٹ کا لنک دیا ہوتا ہے۔ جس پر کلک کرنے سے صارف کے موبائل اور کمپیوٹر کی تمام تر معلومات ہیک ہوجاتی ہے۔
یاد رہے کہ اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو جعلی ای میل کا سراغ لگانا کچھ اتنا مشکل کام بھی نہیں،کیونکہ جعلی ای میل کی کئی نشانیاں ہوتی ہیں۔ پہلی چیز جو آپ کو دیکھنی چاہیے وہ یہ کہ آپ کو مخاطب کس طرح کیا گیا ہے، کیا آپ کا اصلی نام لے کریا بغیر نام کے۔ ای میل کے ہیڈر کو بہت دھیان سے دیکھیں۔ بھیجنے والے کا ای میل ایڈریس کیا ہے؟ یہ ایڈریسز عموماً بہت احتیاط سے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ بالکل اصلی محسوس ہوں۔ اگر آپ بہت قریب سے اور احتیاط سے دیکھیں گے تو آپ کو بہت سی چیزیں مشکوک نظر آئیں گی۔ اگر ممکن ہو تو ای میل ایڈریس کا اسی کمپنی کی طرف سے بھیجی گئی سابقہ ای میلز کے ایڈریس کے ساتھ موازنہ کریں۔ اگر یہ جعلی ای میل ہو گی تو آپ کو چیزیں بے ربط نظر آئیں گی۔ اگر ابھی تک آپ کو جعلی ای میل نہیں آئی ہے تو یقین مانیئے آج یا کل آپ کو اس طرح کی جعلی ای میل ضرور آئے گی؟۔ کیونکہ جعلی ای میل کے ذریعے لوٹ مار کا طریقہ کار دنیا بھر میں تیزی سے فروغ پار ہا ہے۔
جعلی ای میل کے آن لائن شکنجہ سے بچنے کا سب سے آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی اجنبی شخص یا کمپنی کی جانب سے موصول ہونے والی ای میل میں دیئے ہوئے لنک کو کبھی کلک نہ کریں۔بلکہ یہ عادت اپنالیں کہ اپنے براؤزر میں کوئی بھی ویب سائٹ کھولنے کے لیے اس کا ایڈریس خود ایڈریس بار میں ٹائپ کریں۔ جب آپ سائٹ پر پہنچیں گے تو آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا کہ ملنے والا پیغام اصلی ہے یا جعلی۔ اگر وہ جعلی ای میل ہو تو پھر فیصلہ کریں کہ اسے کہاں بھیجنا ہے۔زیادہ بہتر یہ ہی ہے کہ جن اداروں یا کمپنیوں کا نام استعمال کر کے آپ کو ای میل بھیجی گئی ہے۔اُن اداروں کو بھی یہ ای میل بھیج کر خبردار کردیں کہ کچھ لوگ آپ کے نام سے صارفین کو جعلی ای میل بھیج رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اکثر بڑے ادارے اور کمپنیاں چاہتی ہیں کہ ان کے نام پر ہونے والے آن لائن فراڈ کے بارے میں انہیں بروقت آگاہی ہوتی رہے۔تاکہ وہ اپنے صارفین کو آن لائن فراڈ سے محفوظ و مامون رکھنے کے لیئے اپنے آن لائن سسٹم کو اَب گریڈ کرتے رہیں۔
آن لائن فراڈ سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف دس مائیکرو کریڈٹ ایپلی کیشنز ایسی ہیں جو قانونی ہیں اور کمپنیز ایکٹ 1956 کے تحت ایک غیر بینکنگ مالیاتی کمپنی کے طور پر کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ان دس ایپلی کیشنز کے نام یہ ہیں فنجا، معاون، کریڈٹ پر، ایزی لون پی کے لون،ضود پے اینڈ ضود مال، قسط پے کریڈٹ کیٹ راز کیش، ابھی، بروقت، ادھار پیسہ اور ضرورت کیش۔جبکہ وہ تمام ایپلی کیشنز جواوپر دی گئی فہرست میں شامل نہیں ہیں، غیر قانونی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے لائسنس یافتہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے منظور شدہ مذکورہ بالا تمام موبائل ایپلی کیشنز کو قرض لینے والے صارفین کی فون بک، موبائل فون ڈیٹا یا فوٹو گیلری تک رسائی کی ہرگز اجازت نہیں ہے، چاہے قرض لینے والے نے اس بات کی رضامندی ہی کیوں نہ دے دی ہو۔اچھی بات یہ ہے کہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد معروف بین الاقوامی ٹیک کمپنی گوگل نے آن لائن قرضہ فراہم کرنے والی 75 غیرقانونی موبائل ایپس میں سے چالیس موبائل ایپس کو اپنے گوگل پلے اسٹور سے ہٹا دیا ہے اور باقی موبائل اپلی کیشنز کو 31 مئی تک گوگل پلے سٹور سے مکمل طور پر ہٹا نے کا عندیہ دیا ہے۔ گوگل نے آئندہ بھی اپنے پلیٹ فارمز کو لائسنس یافتہ اداروں تک محدود کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے مرکزی بینک نے مالیاتی اداروں کوہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ کو محفوظ اور فراڈ سے پاک بنانے کے لیئے اگلے آٹھ ماہ کے دوران انسانی چہرے کی شناخت کے سسٹم کے نفاذ کو ممکن بناتے ہوئے ڈیجیٹل ایپس کے استعمال میں چہرے کی شناخت، اوریجنل دستاویزات کی لائیو تصدیق اورفون کال کے ذریعے تصدیق کے نظام کوبھی فعال کریں اور کم از کم ان میں سے دو اقدامات کو لازمی ممکن بنائیں۔نیزاسٹیٹ بینک نے بیرون ملک مقیم شہریوں، غیرملکیوں، جسمانی معذور افراد عارضی معذوری کا شکار افراد کے لیے متبادل انتظامات کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔جبکہ جہاں پر متبادل تصدیق کے مذکورہ آپشن استعمال کرناممکن نہ ہوں، تو پھر وہاں ذاتی تصدیق کاآپشن لازمی استعمال کیا جائے۔مرکزی بینک کی ہدایات کے مطابق آن لائن خدمات فراہم کرنے والے جومالیاتی ادارے یہ اقدامات نہیں کریں گے اور ان کے صارفین کسی قسم کے دھوکے یا فراڈ کا شکار ہوتے ہیں، تو پھر اُن مالیاتی اداروں کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے صارف کی جانب سے آن لائن فراڈ کی شکایت موصول ہونے کے بعد تین دن کے اندر اندر لازمی ان کا نقصان پورا کریں گے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 07 مئی 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023