Father Day

باباجان، اپنے بچوں پر قربان!!!

بوڑھا درزی اپنے کام میں پوری طرح سے منہمک تھا کہ اچانک اُس کا گیارہ سالہ بیٹا دوڑتے ہوئے دُکان میں داخل ہوا اور باپ کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کرتے ہوئے بڑے لاڈ سے کہنے لگا ”بابا جان میں امتحان میں کامیاب ہوگیا ہوں اور اُستاد نے مجھے اگلی جماعت میں ترقی دے دی ہے“۔ بوڑھے درزی نے مسکراتے اپنے بیٹے کو کامیابی کی مبارک باد دی تو بیٹے نے جھٹ سے کہا ”بابا جان!آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں اگلی جماعت میں چلا جاؤں گا تو آپ مجھے کامیاب زندگی بسر کرنے کا گُر بتائیں گے۔ تو اَب آپ اپنا وعدہ پورا کریں“۔بوڑھے درزی نے بیٹے کا گال پیار سے تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا”ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے،میں ذرا سا کام نمٹالوں تو پھر تمہیں راز کی بات بتاتا ہوں،تم مجھے وہ قینچی تو پکڑاؤ“۔ بیٹے نے باپ کے ہاتھ میں قینچی تھمائی تو بوڑھے درزی نے ایک بڑے سے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کردیا۔ کپڑا کاٹنے کے بعد اُس نے قینچی کو زمین پر پھینک دیا، پھر اُس نے سوئی اُٹھائی،سوئی میں دھاگہ ڈالا اور کاٹے گئے کپڑے کے ٹکڑوں کو سینے لگ گیا، تھوڑی ہی دیر میں بوڑھے درزی نے کٹے ہوئے کپڑوں کو ایک قمیص میں بدل دیا اور سوئی کو اپنے سر پر بندھے ہوئے عمامہ پر لگادیا۔جبکہ باقی بچ جانے والے دھاگے کو اپنی جیب میں ڈال لیا۔

درزی کا بیٹا جو اپنے والد کی ایک ایک حرکت بڑے غور سے دیکھ رہا تھا،اُس نے حیرت و استعجاب کے عالم میں سوال کیا ”بابا جان! آج تو آپ نے بہت عجیب انداز میں تمام کام انجام دیئے ہیں،میں نے اس سے پہلے آپ کو اِس انداز میں کام کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔آپ نے مہنگی قینچی کو زمین میں پھینک دیا اور اس کے مقابلے میں ایک معمولی سی سوئی کو سرپر بندھے اپنے عمامہ کی زینت بنا لیا، آخر ایسا کیوں کیا بھلا؟“۔بیٹے کا سوال سُن کربوڑھے درزی نے مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ ”پیارے بیٹے! میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی طرح تھا۔ جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، تو سمجھو قینچی اُس حاسدشخص کی طرح ہوئی جو مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتاہے اور انہیں الگ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، اور سوئی کی مثال اُس سمجھ دار باپ کی مانند ہے جو ٹوٹے رشتوں کو دوبارہ سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔ جب کہ دھاگہ تو ایک مخلص،مددگار دوست یا رشتہ دار جیسی چیز ہوتا ہے۔ جو اگر سوئی کے ناکے میں نہ ہو تو اس سے کچھ بھی سلائی نہیں کیا جا سکتا۔

اے میرے بیٹے زندگی بھر میری یہ نصیحت گرہ سے باندھ کررکھنا کہ بظاہر نہایت قیمتی نظر آنے والے حاسد لوگ خاندان کو تقسیم کردیتے ہیں۔لہٰذا، وہ قینچی کی طرح زمین پر ہی رکھنے کے لائق ہیں، جبکہ تعلق اور رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرنے والاباپ بظاہر سوئی کی طرح بالکل عام سا دکھائی دیتا ہے۔ مگر اسے ہمیشہ سَر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے اور اولاد کو اُس کے ہر فیصلے کی اطاعت کرنی چاہیے،کیونکہ باپ کے نزدیک خاندان کی بہتری سب سے مقدم ہوتی ہے۔ آخری بات یہ کہ دھاگہ میں نے اپنی جیب میں رکھ لیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم بڑے ہوکر خاندان کے سربراہ بن جاؤ اور کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے لگو تو اپنے آس پاس مخلص،مددگار دوست ضرور رکھنا۔تاکہ جذبات سے مغلوب ہوکر غلط فیصلے کرنے سے بچ سکو۔قدیم عربی ادب سے ماخوذیہ حکایت خاندان میں باپ جیسی عظیم ہستی کی اہمیت و ضرورت کی بہت اچھی طرح سے وضاحت پیش کرتی ہے۔

بلاشبہ باپ اپنی اولاد کے لیے سائبان کی مانند ہوتا ہے اور جب تک باپ کا سایہ عاطفت اولاد کے سرپردراز رہتا ہے، وہ زندگی کے نامساعد حالات کے ہر طوفان سے محفوظ و مامون رہتے ہیں۔کیونکہ سر پر باپ کا سایہ فگن رہے تو اولاد کو دنیا کے سارے خوف، ساری پریشانیاں، ساری آفات سے بچ جانے کا پختہ یقین رہتاہے اور پشت پر باپ کا مضبوط وجود ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت اور پریشانی بھی پھول جیسی ہلکی محسوس ہوتی ہے۔ شاید اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر باپ اپنی اولاد کے چہرے بشرے سے ہی اُس کی تمام پریشانیاں پڑھ کر اُنہیں دُور کرنے میں جُت جاتاہے۔یعنی ایک باپ اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور ان کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت جدوجہد کرتا رہتاہے اور خود کو مشقت میں ڈال کر اُن کی ہرخواہش کو پورا کرنا اور ضرورت پڑنے پر اپنے بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کے لیے اپنی جان تک کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔معروف شاعر معراج فیض آباد ی نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے کہ ”مجھے تھکنے نہیں دیتا ہے یہ ضرورت کا پہاڑ۔۔۔میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے“۔

باپ کی زندگی بیٹے کے نام
یاد رہے کہ باپ امیر یا غریب نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک ایسا محبت کرنے والا، لافانی کردار ہوتاہے،جس کے نزدیک اُس کی اولاد سے زیادہ بیش قیمت کوئی بھی شئے نہیں ہوتی۔ یعنی جیسے ایک غریب باپ اپنی اولاد کو بادشاہوں کی طرح نازو نعم سے پرورش کرنے کی کوشش کرنے میں جُتا رہتا ہے۔ بالکل ویسے ہی تاریخ میں کئی ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں، جو اپنی اولاد کی صحت و عافیت کے لیئے تخت و تاج چھوڑ کر ایک عام آدمی کی زندگی تک بسر کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ دراصل باپ فقیر ہو یا پھر بادشاہ، اگر معاملہ اولاد کی زندگی کا تحفظ یا اُسے آسائش فراہم کرنے کا ہوتو پھر اِس نازک مقام پر دونوں ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مغل شہنشاہ بابر کی بطور باپ اپنے بیٹے کے ساتھ محبت بھی ضرب المثل ہے۔کہا جاتاہے کہ ایک دن مغل بادشاہ بابر کو دہلی سے خبر موصول ہوئی کہ شہزادہ ہمایوں کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور تپ محرکہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ بادشاہ نے علاج معالجہ کے لیئے بیمار شہزادہ ہمایوں اور اُس کی والدہ کو اپنے پاس آگرہ بلا لیا۔ماں اور بیٹا جب آگرہ پہنچے تو اُنہیں کر دیکھ بادشاہ بابر،سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا۔کیونکہ جواں سال شہزادے کی حالت واقعی سخت خراب تھی اور تیز بخار کے ساتھ دردِ شکم نے بھی اُسے حال سے بے حال کر رکھا تھا۔

فرمان شاہی سے شاہی طبیبوں نے علاج کی کوششیں شروع کر دیں۔مگر مرض کی شدت کم ہونے کا نام نہ لیتی تھی،شفا گویا مریض سے روٹھ گئی تھی۔حاذق حکیم نسخے پر نسخہ آزما رہے تھے۔لیکن کوئی دوا کارگر نہ ہوتی تھی،اُوپر سے شہزادہ ہمایوں کی والدہ نے رو رو کر اپنے آپ کو ہلکان کرلیا تھا۔ ”آپ تو بادشاہ ہیں۔ آپ کے اور بھی بیٹے ہیں۔آپ کو ہمارے بیٹے ہمایوں کی فکر نہیں، میرا تو ایک ہی بیٹا ہے“۔ماں آخر بیٹے کی جاں بلب حالت دیکھ کر ضبط نہ کر سکی اور بادشاہ سے شکوہ کرنے لگی۔ لیکن بادشاہ بابر بھی اپنے بیٹے کی صحت سے ہرگز غافل نہ تھا اور بادشاہ بھی وہ جس کی ساری زندگی عزیزو اقارب کے ناز نخرے اُٹھاتے اور دلجوئی کرتے گزری تھی۔ یہاں تو اپنا ہونہار فرزند تھا، سب سے خوب صورت اور ذہین۔ بادشاہ بابر نے بیگم کو تسلی دی اور راج دربار کی ساری مصروفیات ترک کرکے دن رات اپنے بیٹے شہزادہ ہمایوں کی تیمارداری میں مصروف ہوگیا۔آخر ایک روز طبیبوں نے تھک ہار کر اپنی لاچاری تسلیم کرتے ہوئے عرض کی کہ”بادشاہ سلامت، ہم نے تمام نسخے آزما لیے۔ کوئی تدبیر کام نہیں ہو رہی،بیماری بڑھتی جا رہی ہے،اب وقت دعاہے“۔بادشاہ حضور نے نفلی روزے رکھنے شروع کردیئے۔ وہ روزے کی حالت میں ہمایوں کے بستر کے پاس بیٹھ کر وقفے وقفے سے دعائیہ اشعار پڑھتے اور شفایابی کے لیئے آسمان کی جانب اپنے ہاتھ بلند کردیتے۔

شہزادہ ہمایوں کے مرض کی طوالت کے باعث راج دربار سے وابستہ ہر شخص رنجیدہ تھا۔غم و یاس کی اندوہناک فضا میں شہزادہ کی صحت یابی کے لیئے دُعا کی غرض سے آنے والے ایک صوفی بزرگ نے بادشاہ سے کہاکہ ”وہ اگر ہمایوں کی جان بچانا چاہتے ہیں تو اپنی عزیز ترین چیز کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا خدا سے پختہ پیمان باندھ لیں۔ بادشاہ بابر نے کہا کہ میرے پاس سب سے قیمتی چیز میری جان ہے۔یہ کہہ کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور بار گاہ ایزدی میں عرض کی،”اے زندگی اور موت بخشنے والے اگر جان کا بدلہ جان ہو سکتا ہے تو میری جان لے لے اور میرے بیٹے ہمایوں کی زندگی بخش دے“۔مغل شہنشاہ بابر، دعا مانگتے جاتے اور شہزادے کے بستر کے اردگر دائرہ کی صورت چکر لگاتے جاتے۔شہزادی گلبدن بیگم نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ہمایوں نامہ“میں لکھاہے کہ اس کے بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شہزادہ ہمایوں تندرست ہو کر کالنجر روانہ ہو گئے اور بادشاہ حضور بیمار پڑ گئے اور بیماری اتنی بڑھی کہ آخر کا ر زندگی کے 47 ویں برس مغل بادشاہ بابر اس جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ فرما گئے۔یعنی ایک باپ نے اپنی بادشاہت اور زندگی کے عوض خدا سے اپنے بیٹے کی زندگی کا سوداکرلیا۔

ایک لخت جگر کا جگری باپ
اکثر آپ نے یہ جملہ تو سُنا ہی ہوگا کہ فلاں میرا جگری دوست ہے۔ یہ جملہ کہنے والے کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرا فلاں دوست مجھ سے اتنی والہانہ اور پرخلوص محبت کرتا ہے کہ اگر کبھی مجھ پر مشکل وقت آ پڑے تو وہ دوست اپنا سب کچھ مجھ پر قربان کردے گا؟۔مذکورہ تعریف پر پورا اُترنے والے جگری دوست آج کل کسی کو دستیاب ہیں یا نہیں،فی الحال اِس بحث میں اُلجھے بغیر ہم آپ کو ایک سچ مچ کے جگری باپ کی بپتا سناتے ہیں۔امریکی شہر نیویارک کے رہائشی برائن من اور اِن کی اٹھائیس سالہ اہلیہ بریٹنی کو اللہ تعالیٰ نے ایک چاند سے بیٹا دیا،جس کا نام انہوں نے کیلب رکھاتھا۔ کیلب جب پیدا ہوا تو اُسے یرقان کی شکایت تھی جو کہ عموماً ہر نوزائیدہ بچے کو ہوتی ہی ہے۔لہٰذا، ماں باپ یہ سوچ کر زیادہ پریشان نہیں ہوئے کہ آئندہ چند دنوں میں اُن کا بیٹا شفایابی حاصل کرلے گا۔ مگر جب کیلب کا یرقان تین ماہ گزرنے کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہو ا،تو برائن کیلب کو طبی معائنہ کے لیئے شہر کے معروف اسپتال ماونٹی فیورے میڈیکل سینٹر میں لے کر گیا۔ جہاں کیلب میں آخری مرحلے کی جگر کی بیماری کی تشخیص کی گئی اور ڈاکٹروں نے فوری طورکیلب کی سرجری کرکے اِس کی بند نالیوں کو آنتوں سے تبدیل کردیا۔تاکہ تبدیل شدہ آنتیں نئی بائل ڈکٹ کے طور پر کام کرکے کیلب کے جگر کو از سرنو فعال بنادیں۔

مگر بدقسمتی سے سرجری کے ایک ماہ بعد ہی کیلب کی طبیعت اچانک شدید خراب ہوگئی اور اِسے انتہائی تشویشناک حالت میں اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ جہاں ڈاکٹر ز نے برائن کو یہ بُری خبر سنائی کہ اُن کے بیٹے کیلب کی گزشتہ ماہ کی گئی سرجری مکمل طوپر ناکام ہوگئی ہے اور اَب کیلب کی جان بچانے کے لیئے واحد حل، فوری طور پر جگر کی پیوندکاری ہے۔ نیز ڈاکٹر ز نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کیلب نئے اعضا ء کے عطیہ کے لیئے چند روز سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتا کیونکہ زیادہ تاخیر اُس کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ برائن اور اُس کی اہلیہ پر یہ خبر بجلی بن کرگری اور انہوں نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیئے جگر کا عطیہ تلاش کرنے کے لیئے تگ و دو شروع کردی۔ اگرچہ کیلب اور اُس کی والدہ کے خون کا گروپ ایک ہی تھا،لیکن بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ماں کی صحت اَب اس قابل نہیں رہی تھی کہ وہ ایک حساس اور بڑے آپریشن کی تکلیف کو برداشت کرسکے۔

دوسری طرف برائن سے کیلب کا خون مطابقت نہیں رکھتا تھا۔دو ہفتے کے کٹھن انتظار کے بعد جب کہیں سے بھی جگر کے عطیہ کا بندوبست نہ ہوسکا تو بحالت مجبوری ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا! کیلب کے والد، برائن سے ہی جگر کا عطیہ لینے کا خطرہ مول لے لیا جائے۔دراصل ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ ایک سال سے کم عمر بچے، غیر ملاپ شدہ خون کے ساتھ بھی عطیہ دہندگان سے انسانی اعضاء کی پیوند کاری وصول کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک سال سے پہلے بچے کا جسم اینٹی باڈیز نہیں بناتا ہے۔ لہذا، کیلب کے لیے نئے جگر کو مسترد کرنے والی اینٹی باڈیز کا خطرہ نہیں تھا۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ ڈاکٹر جگر کی پیوند کاری انجام دے سکتے ہیں۔ بظاہر مذکورہ سرجری میں کئی طرح کے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق تھے، لیکن برائن نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیئے ڈاکٹر ز کو سرجری کے لیئے آمادہ کرلیا۔یوں باپ اور بیٹے 30مارچ 2015 کو ایک ساتھ سرجری کے عمل سے گزرے، جس میں برائن نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا اپنے لخت جگر کو عطیہ کردیا۔اس کامیاب سرجری کے بعد برائن تیزی سے صحت یاب ہو نا شروع ہو گیا لیکن کیلب کے اس سرجری کے بعد بھی دو اور سرجریاں کی گئیں اور آخر کار13 اپریل2015 کو کیلب مکمل صحت یابی کے بعد اسپتال سے واپس اپنے گھر لوٹ آیا۔

باپ اور اولاد کے درمیان دوریوں کا مسئلہ
ایک باپ دنیا میں سب سے زیادہ محبت اپنی اولاد سے کرتا ہے تو دوسری جانب ہر سعادت مند اولاد کے لیئے اُن کا والد ہی ایک آئیڈیل شخصیت ہوتی ہے۔ لیکن جب اولاد، بچپن سے جوانی اور باپ ضعیف العمری کی پہلی دہلیز قدم رکھتا ہے توگھر کے دروازے پر باپ کا بے چینی کے ساتھ انتظارکرنے والی اولاد نہ جانے کہاں غائب ہوجاتی ہے۔قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ ملازمت سے سبکدوش باپ سارا دن گھر میں رہ کر بھی اپنے بچوں سے ملاقات نہیں کر پاتااور اگر کبھی خوش قسمتی سے کسی اہم موقع پر بچوں کے ہمراہ وقت بتانے کے چند لمحات میسر آجائیں، اوّل تو اسمارٹ فون کی اسکرین میں مگن بچے باپ کی کوئی بات سنتے ہی نہیں اور اگر باپ اور بچوں کے مابین گفتگو کا سلسلہ شروع ہو بھی جائے تووہ سلسلہ جنبانی اکثر ہوں ہاں، دیکھیں گے، سوچیں گے، اچھا پھر بات کرتے ہیں، جیسے مختصر اور بے معنی جملوں پر جا کر ختم ہوجاتاہے۔ دورِ جدید میں ایک باپ کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ اپنے نوجوان بیٹے یا بیٹی کو اسمارٹ فون،کمپیوٹر اور ٹی وی اسکرین چھوڑ کر خودسے بات چیت کرنے پر کیسے آمادہ کرے؟۔

یقینا اکثر والدمذکورہ سوال کا جواب ساری زندگی تلاش نہیں کرپاتے،مگر جیمی کلارک وہ خوش قسمت والد ہیں،جنہوں نے اپنی ذہانت سے اِس مسئلہ کا حل ڈھونڈنے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کینیڈین شہر کیلگری میں رہائش پذیر جیمز کلارک کو بھی دنیا کے ہر والد کی طرح یہ ہی مصیبت درپیش تھی کہ وہ اپنے 18 سالہ بیٹے خھوبی کو اُس کے اسمارٹ فون سے جدا کرکے کیسے اُسے اپنے آپ سے بات چیت پر آمادہ کرے؟۔کئی بار یہ مسئلہ جیمز کلارک کے ذہن میں آیا اور ہر بار اُس نے یہ سوچ کر اپنے ذہن سے جھٹک دیا کہ ”اگر میرا بیٹا تمام وقت اسمارٹ فون میں خود کو غرق کیئے رکھتا ہے تو اصل قصور وار بھی تو میں ہی ہوں۔کیونکہ بہت چھوٹی عمر میں میں نے ہی تو خھوبی کو اسمارٹ فون خرید کر دیا تھا اور صرف موبائل فون ہی نہیں بلکہ کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور پلے اسٹیشن بھی یہ سوچ کر اُسے بطور تحفہ دیا تھا کہ کہیں، میرا بیٹا دنیا سے پیچھے نہ رہ جائے“۔

ایک روز جیمز کلارک کھانے کی میز پر اپنی بیگم اور بیٹے کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ بیگم نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”کلارک اگلے ہفتہ آپ کی 50 ویں سال گرہ آرہی ہے، اِسے ہم کہاں جاکر منائیں گے؟“۔بیگم کی بات سُن کر کلارک کے ذہن میں انوکھے خیال کا ایک کوندا سالپکا اور اُس نے فوری طور پر جو اب دیا ”سکئی لاج میں“۔ طے شدہ ویک اینڈ پروگرام کے عین مطابق اگلے ہفتے وہ سب سکئی لاج میں تھے۔ایک ایسی جگہ جہاں موبائل فون اور وائی فائی کے سگنل بالکل بھی نہیں آتے تھے۔ ابتداء میں تو خھوبی کو ایسی جگہ وقت گزارنا بہت دشوار لگا،جہاں ٹوئٹر،فیس بک، واٹس ایپ،انسٹاگرم وغیرہ کچھ نہ تھا۔ مگر پھر وہ خوب صورت،پرفزا مقام کے حسین مناظر اور اپنے والد جیمز کلارک کے ساتھ خوش گپیوں میں ایسا مصروف ہوا کہ اُسے ایک دن اور پوری رات گزرنے کی خبر ہی نہ ہوئی۔جب دونوں باپ بیٹے ویک اینڈ گزار کر اپنے گھر میں داخل ہوئے تو وہ اپنے درمیان دوری کی وسیع خلیج کو کافی حدتک کامیابی کے ساتھ پاٹ چکے تھے۔

جیمز کلارک کو سکئی لاج میں گزارے ہوئے خوش گوارلمحات سے مہمیز ملی کہ وہ باپ اور بیٹے تعلقات کو مزید بہتر اور ٹھیک کرنے کے لیئے سیاحت کا کوئی اور انوکھا پروگرام ترتیب دے۔ ایک روز کلارک نے خھوبی سے منگولیا کاسفر کرنے کی بات کی۔ ابتدا ء میں خھوبی نے باپ کی تجویز یہ کہہ کرمسترد کردی کہ اُسے پہاڑ یا پتھریلے علاقے پر موٹر سائیکل چلانے سے ڈر لگتاہے۔ مگر بعد ازاں وہ اپنے والد کے اصرار پر منگولیا کا سفر کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دونوں باپ بیٹے 28 جولائی2019 کو منگولیا روانہ ہوئے اور کم و بیش ایک ماہ کی مدت میں انہوں نے موٹر سائیکل،گھوڑے اور اونٹ کے ذریعے منگولیا میں 2200 کلومیٹر سے زیادہ سفر طے کیا۔ اگرچہ دورانِ سیاحت کئی ایسے قابل دید مناظر کی تصویر کشی کرنے کے بعد خھوبی کا دل للچایا کہ وہ اُنہیں اپنے انسٹاگرام یا فیس بُک اکاؤنٹ پر پوسٹ کردے۔ لیکن پھر اُسے باپ سے کیا گیا وعدہ یاد آجاتا کہ ”چاہے کچھ بھی منگو لیا کے سفر کے دوران کسی بھی موقع پرانٹرنیٹ استعمال نہیں کرنا“۔ خھوبی کے لیئے موبائل فون اور انٹرنیٹ سے دُور رہنا ایک چیلنج تھا اور اِس نے انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے کے اپنے وعدہ پر بہت اچھے سے عمل کیا۔ ایک نیوز ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں خھوبی کا کہنا تھا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ سارا وقت اپنے فون میں گم رہنے سے آپ کی ہر حقیقی چیز میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ جب بھی میں بور ہوتا ہوں تو یو ٹیوب آن کرسکتا ہوں۔ لیکن وہاں میں کیا کروں گا،جہاں سرے سے انٹرنیٹ ہی دستیاب نہ ہو؟یقیناآسمان پر ستارے دیکھوں گا یازمین ایستادہ فلک بوس پہاڑ دیکھوں گایا خود سے بات کروں گا اور سب سے بڑھ کر اپنے پاس موجود والد کو جاننے کی کوشش کروں گا“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 18 مئی 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں