Car-Pooling

کار پُولنگ : گاڑی وسیلہ بچت ہے

ہوش رُبا مہنگائی کے اِس دور میں اپنی کار کو منافعے کا سبب بنائیں

سلیم جنرل منیجر کے کیبن سے باہر نکلا، تو اُس کازرد چہرہ، جھکے کندھے،دھیمی چال اور پسینہ سے شرابور پیشانی دیکھ کر ہی قاسم کو اندازہ ہوگیا کہ یقینا آج پھر سلیم کو اپنی کسی غلطی پر منیجر کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔زنانہ ملبوسات تیار کرنے والی شہر کی سب سے بڑی فیکٹری میں سلیم گزشتہ چھ برس سے بطور اکاؤنٹنٹ اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ جبکہ قاسم بھی اِسی کمپنی کے دفتر میں سلیم کے اسسٹنٹ کے طور پر اُس کے ساتھ چار ماہ سے کام کررہا تھا۔بظاہر دفتر میں سلیم اور قاسم کے درمیان افسر اور ماتحت کا رشتہ تھا۔لیکن عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونے اور زبردست آپسی ذہنی ہم آہنگی کے باعث دونوں اچھے دوستانہ ماحول میں مل جل کر کا م کرتے تھے۔
”کیا حساب کتاب میں پھر کوئی سنگین غلطی نکل آئی؟“قاسم نے سلیم سے فائل لے کر اپنی میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
”غلطی نہیں غلطان کہو۔۔۔سمجھ میں نہیں آرہی آخر کچھ روز سے مجھے کیا ہوگیا ہے،اَب تو حساب کتاب میں مجھ سے ایسی ایسی بھول چوک ہونے لگی ہے کہ بس رہے نام اللہ کا“۔سلیم نے اپنی کرسی پر نیم دراز ہوکرگہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
قاسم نے ٹھنڈے پانی سے بھرا گلاس سلیم کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا۔”تم مانو یا نہ مانو، لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ آپ کی اِس غائب دماغی کے پس پردہ ضرور کوئی بہت بڑی پریشانی ہے۔اگر آپ چاہیں تو مجھے اپنا مسئلہ بتا سکتے ہیں، شاید اِس معاملہ پر میں آپ کی کوئی مدد کرسکوں“۔
”تمہارا اندازہ بالکل درست ہے، میں پریشان تو واقعی ہوں“۔سلیم نے پانی کے دو گھونٹ پی کر اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا”قاسم! تم تو جانتے ہو کہ چند ماہ پہلے میں نے بینک سے قسطوں پر گاڑی نکلوائی تھی۔میرا خیال تھا کہ چونکہ میرے گھر سے دفتر کا فاصلہ زیادہ ہے۔ لہٰذا، میرے پاس اپنی گاڑی ہوگی، تو جہاں دفتر آنے جانے میں وقت کی بچت ہوگی،وہیں میرے یومیہ سفری اخراجات بھی کافی حد تک کم ہوجائیں گے۔ چند ماہ پہلے تک تو سارے معاملات میری توقع کے عین مطابق چل رہے تھے اور میں ایک عدد گاڑی کامالک بن کر بہت خوش تھا۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں تین سے چار بار ایندھن کی قیمت میں جو ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے، اُس نے میرا سارا بجٹ تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے“۔
”بے شک آپ کی اُلجھن سنگین توہے،لیکن اتنی بھی نہیں کہ اِسے سلجھایا نہ جاسکے،بلکہ یہ مسئلہ آج ہی حل کیئے دیتے ہیں اور آپ کی پریشانی کے ساتھ ہی میری طیب اور عدیل کی مشکل بھی حل ہوجائے گی“۔قاسم نے سلیم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اچھا۔۔کیا واقعی“۔
”جی ہاں!سلیم صاحب،بس آپ مجھے،طیب اور عدیل کو ”کارپُولنگ“ کی سہولت مہیا کردیں۔کارپُولنگ سے صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ ہم سب کی بھی اضافی سفری اخراجات سے جان چھوٹ جائے گی“۔
قاسم کا مشورہ سُن کر سلیم نے استفہامیہ لہجہ میں سوال کیا:”یہ کار پُولنگ کیا ہے؟“۔
”کل آپ دفتر آتے ہوئے مجھے،طیب اور عدیل کو لیتے ہوئے آنا،کارپُولنگ کے بارے میں ساری تفصیلی گفتگو گاڑی میں ہوگی، فی الحال ہم دونوں مل کر وہ غلطیاں درست کرتے ہیں،جن کی وجہ سے جنرل منیجر نے صبح آپ کو ڈانٹ ڈپٹ کی تھی“۔قاسم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

کار پُولنگ کیا ہے؟
دنیا بھر میں ایندھن کے بڑھتے نرخ اور روز افزوں مہنگائی سے مقابلہ کے لیئے ”کار پُولنگ“(Car-pooling) کی سہولت سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جارہا ہے۔ سادہ الفاظ میں ”کار پُولنگ“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے آس پڑوس میں چند افراد ایسے رہتے ہیں،جن کا دفتر،اسکول اور کالج آپ کے دفتر،اسکول اور کالج سے قریب ہے تو آپ تمام احباب علحیدہ علحیدہ گاڑیوں میں روزانہ اپنی منزل مقصود کی جانب جانے کے بجائے تین سے چار افراد ایک ساتھ مل کر ایک ہی گاڑی میں اپنے کام یا ملازمت کے مقام پر روانہ ہوجائیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ”کارپُولنگ“ کی تیکنیک روزمرہ زندگی میں استعمال کرنے سے جہاں باہمی شراکت داری سے سفری اخراجات میں خوب بچت ہوتی ہے،وہیں ”کارپُولنگ“ مہیا کرنے والے شخص کو ٹھیک ٹھاک اضافی ماہانہ آمدنی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔یاد رہے کہ ”کار پُولنگ“ کی اصطلاح صرف گاڑیوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جس کے پاس ذاتی موٹر سائیکل کی سواری ہے،وہ اُسے بھی ”کار پُولنگ“ کے لیئے استعمال کرسکتا ہے۔جبکہ کسی پڑوسی یا موٹر سائیکل سوار دوست کے ساتھ شراکت داری کرکے بھی ”کار پُولنگ“ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔اگر آپ بھی ایک عدد گاڑی یا موٹر سائیکل کے مالک ہیں تو روز بروز ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہونے کے بجائے آج ہی بلاکسی تاخیر ”کار پُولنگ“کی تدبیر آزما کر دیکھ لیں۔اگر مہنگائی کے اِس دورِ فتن میں ”کارپُلنگ“ کے بیش بہا فوائد نے آپ کو حیرت زدہ نہ کردیا تو پھر کہیے گا۔

”کارپُولنگ“ کی تاریخ
حیران کن بات یہ ہے کہ ”کار پُولنگ“کا تصور نیا نہیں ہے بلکہ اس کا سب سے پہلا استعمال ہمیں دوسری جنگ عظیم کے درمیان ریاست ہائے متحدہ امریکامیں دکھائی دیتا ہے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے باعث پیدا ہونے والی عالمی کساد بازاری اور بدترین مہنگائی کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیئے امریکی دفتر آف سویلین ڈیفنس نے سرکاری سطح پر”کار کلب“ اور ”کار شیئرنگ کلب“ قائم کیئے تاکہ عوام اور خواص کو ایک گاڑی میں باہمی شراکت داری کی ترغیب ملے تاکہ اُن کا ملک ایندھن پر خرچ ہونے والا اپنا قیمتی زرِ مبادلہ بچا سکے۔ بعدازاں 1973 کے تیل کے بحران اور 1979 میں توانائی کے بحران میں باقاعدہ ”کار پُولنگ“کی اصطلاح مشہور و معروف ہونے لگی اور عام عوام کے علاوہ بعض نجی ادارے مثلاً کرسلر اور 3M بھی اپنے ملازمین کو ”کار پُولنگ“کی جانب راغب کرنے کے لیئے خصوصی تربیتی پروگرام کا اہتمام کرنے لگے۔

لیکن 1970 اور 2000 کی دہائی کے درمیان”کارپُولنگ“میں تیزی سے کمی واقع ہوئی اور ”کارپُولنگ“ کی سہولت استعمال کرنے والے افراد کی شرح میں 45 فیصد کی نمایاں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ جس کی بنیادی وجہ عالمی معاشی حالات میں زبردست بہتری اور عام لوگوں کا معیار زندگی کا اچانک سے بلند ہوجانا تھا۔تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں انٹرنیٹ،سمارٹ فونز اور جی پی ایس کے میدان میں ہونے والی غیر معمولی ترقی نے ایک بار پھر سے دنیا کو ”کار پُولنگ“ کی جانب متوجہ کیا اور ”کار پُولنگ“ اپنے بیش بہا فوائد کے پیش نظر تاریخ میں پہلی بار مقبولیت کی نئی منازل کی طرف محوپرواز ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بہت جلد ”کارپُولنگ“دنیا میں رہنے والے ہرشخص کی بنیادی ضرورت قرار پائے گی تو ایسا کہنا عین قرین قیاس ہوگا۔

سفر کے مشترکہ اخراجات اور وقت کی بچت
ملٹی ڈسپلنری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹیوٹ (Multidisciplinary Digital Publishing Institute) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ”کار پُولنگ“ کی ذریعے آپ ایک سال میں ہزاروں ڈالر تک بچا سکتے ہیں اور ایک کالر پولر(Car-pooler) اوسطاً ہر ماہ سفر پر تقریباً 600 ڈالر کی بچت باآسانی کرسکتاہے۔ لیکن بچائی گئی رقم کا زیادہ تر انحصار فاصلہ اور کار پُولنگ کی سہولت استعمال کرنے والے افراد کی تعداد پر منحصر ہوتاہے۔ نیز اگر وقت کی بچت کے متعلق بات کی جائے تو اِس سہولت کوبروئے کار لانے والے افراد کم ازکم 5 سے 30 منٹ تک روزانہ ”کارپُولنگ“ سے باآسانی بچا سکتے ہیں۔ عموماً یہ وقت کی وہ بچت ہوتی ہے،جو زیادہ تر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے اسٹاپ تک پہنچنے اور بعدازاں بس اور وین کے انتظار میں ضائع کردیتے ہیں۔

خوش گوار سفر
”کارپُولنگ“کے متعلق حال ہی میں کیئے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ”کار پُولنگ“ کرنے والے 60 فیصد سے زائد افراد ایک دوسرے سے نہ صرف اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ آپس میں بہت اچھے دوست بھی ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ ”کارپُولنگ“ کی یہ ایک ایسی اضافی مثبت خوبی ہے جو ہمارے روزانہ کے سفر کو زیادہ خوش گوار، بامعنی اور بامقصد بھی بنادیتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ”کارپُولنگ“سے استفادہ کرنے والے افراد ایک ہی دفتر میں ملازم ہیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ سفر میں مختلف دفتری اُمور پر بھرپور انداز میں تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ نیز مشترکہ تعلیمی ادارے میں ایک ساتھ جانے والے احباب دورانِ سفر آپس میں علمی بحث و مباحثہ چھیڑ کر ایک دوسرے کے علم میں گراں قدر اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ جبکہ ایک ہی تجارتی و کاروباری مقام پر کام کرنے والے افراد،اپنے سفر کو کاروباری میٹنگ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ یعنی اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ”کار پُولنگ“ کو اختیار کرکے معاشرہ میں مکالمہ کی فضا کو مہمیز دی جاسکتی ہے۔

فضائی آلودگی میں کمی
ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ہمارے ملک میں گاڑی رکھنے والا ہر شخص ہفتے میں کم ازکم صرف ایک دن بھی اپنے آس پڑوس کے لوگوں کو ”کار پُولنگ“ کی سہولت فراہم کردے تو اِس عمل سے شہر کی مصروف شاہراؤں پر ٹریفک کے بہاؤ میں 20 فیصد تک کی غیر معمولی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ نیز اگر آپ صرف اکیلے بھی ہفتے میں فقط پانچ دن ”کا ر پُولنگ“ کسی نہ کسی صورت میں استعمال کرتے ہیں تب بھی آپ، ہر برس 1600 پاؤنڈ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ایک شہر میں ہرروز100 افراد باقاعدگی کے ساتھ ”کارپُولنگ“ کریں تو فضا میں 1320 پاؤنڈ کاربن مونو آکسائیڈ اور 2,376,000 پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائید کی سالانہ کمی ہوجائے گی۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ”کارپُلنگ“ کس قدر ماحول دوست ہے۔

”کار پُولنگ“بنائے آپ کا سفرزیادہ محفوظ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ تنہا سفر کرنے کے نقصانات کو اس طرح جانتے جیسا کہ میں جانتا ہوں، تو کوئی مسافر رات میں تنہا سفر نہ کرتا۔(صحیح بخاری، 2998)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث شریف کو فقہائے کرام نے اکیلے سفر کی ممانعت، جواز اور عدم جواز کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے۔لہٰذ ادین اسلام میں ضرورت کے وقت یا کسی مصلحت کی خاطر تنہا سفر کرنا بالکل جائز ہے۔ہاں! اگر راستہ پر امن نہ ہو، اور کوئی ڈر و خوف لاحق ہو تو پھر اکیلے سفر سے اجتناب کرنا انسانی جبلت ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت حد شفیق ہیں اور ہر چیز میں اپنی امت کی راحت کو مقدم رکھتے ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج بالا حدیث میں تنہا سفر پر کسی ہم سفر کے ساتھ سفر کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ بہر کیف ہمارے ملک میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا گراف تقاضا کرتاہے کہ ”کار پُولنگ“ کی بدولت ہم اپنے سفر کو زیادہ محفوظ اور آرام دہ بنائیں۔ خاص طور پر طویل سفر میں ”کار پُولنگ“ ایک نعمت غیر متبرکہ ثابت ہوسکتی ہے۔

”کار پُولنگ“اور مضبوط پاکستانی معیشت کا خواب
قومی اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021-22 کے پہلے دس ماہ میں پاکستان نے 17.03 بلین ڈالر کا آئل درآمد کیا۔ فکر کی بات یہ ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہمارے آئل کے امپورٹ بل میں 95 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دراصل ہمارے ملک کا شمار تیل کی پیداوار رکھنے والے ممالک کی فہرست میں نہیں ہوتا۔لہٰذا ہمیں اپنی ضرورت کا زیادہ تر آئل درآمد کرنا ہوتاہے اور یوں ہر سال ہمارے ملکی بجٹ کا بڑا حصہ ملک میں ایندھن کی کھپت پورا کرنے میں ہی خرچ ہو جاتاہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ”کار پُولنگ“کو دنیا کے بیشتر ممالک میں ایندھن کی کھپت کم کرنے کے لیئے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ہماری حکومت بھی اپنی توجہ اِس مسئلہ کی جانب مبذول کرے اور ”کار پُولنگ“ کے متعلق عوام میں شعور و آگہی کے لیئے ملک گیر مہم اشتہاری مہم چلائے تو یقینا اِس کے زبوں حال ملکی معیشت پر انتہائی دور رَس اثرات مرتب ہوں گے۔ یاد رہے کہ ”کار پُولنگ“ کے ذریعے غیر ملکی ایندھن پر انحصار کو 40 فیصد تک کم کیا جاسکتاہے اور یوں ہمارا آج اُٹھا یا گیا ایک چھوٹا سا قدم پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانے کا خواب پورا کرسکتاہے۔

ہم ”کار پُولنگ“ کی ابتداء کیسے کریں؟
عمران کے سامنے میز پر رکھے ہوئے اسمارٹ فون کی اسکرین اچانک روشن ہوئی،اُس نے اپنا فون اُٹھا کر دیکھا تو واٹس ایپ پر کاشف کا پیغام درج تھا:”میں کل حیدرآباد سے کراچی جارہا ہوں، اگر کوئی دوست میرے ساتھ ”کارپُولنگ“کرنا چاہے تو ابھی رابطہ کرے“۔ عمران نے فوری طور پر کاشف کو جوابی پیغام بھیجا کہ ”مجھے بھی کراچی سے شاپنگ کرنی ہے،لہٰذا اپنی گاڑی میں میر ی نشست محفوظ کرلینا“۔اگلے روز کراچی لے جانے کے لیئے کاشف اپنی گاڑی لے کر اُس کے دروازے پر موجود تھا۔جیسے ہی عمران گاڑ ی کی ا گلی نشست پر بیٹھا تو یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کی انتہانہ رہی کہ پچھلی نشستوں پر دانش، فیضان اور عرفان پہلے ہی سے موجود تھے۔ یوں پانچوں دوست ”کار پُلنگ“ کے منفرد آئیڈیے کے طفیل جہاں علحیدہ علحیدہ گاڑیوں میں تنہا سفر کی بوریت سے محفوظ رہے،وہیں انہوں نے حیدرآباد سے کراچی کے طویل سفر میں کم ایندھن خرچ کرکے خوب مالی بچت بھی کی۔

اگر آپ بھی چاہیں تو بیان کردہ کچھ ایسے ہی ملتے جلتے انداز میں سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس ایپ کو استعمال کرکے ”کار پُلنگ“کی ابتداء کر سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو شروع میں اپنے دوست احباب کو ”کارپُلنگ“ کی دعوت دینے میں کچھ جھجھک محسوس ہو۔ لیکن اُمید رکھیے کہ جیسے ہی آپ کو ”کار پُلنگ“ کے حوالے سے جان پہچان کے لوگ اچھا رسپانس دینا شروع کریں گے،آہستہ آہستہ آپ کا حوصلہ بھی بڑھتا جائے گا اور بہت جلد اپنے حلقہ احباب میں آپ ”کار پُلر“ کے طورپر مشہور و معروف ہوجائیں گے۔ لیکن خیال رہے کہ ”کار پُلنگ“ کی دعوت صرف قابل بھروسہ اور واقف کارو ں کو ہی دیں اور اجنبی افراد کو ”کار پُلنگ“ کی دعوت دینے سے ہمیشہ احتراز برتیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 24 جولائی 2022 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں