Social Justice

سماجی انصاف ۔ ۔ ۔ ہرجگہ، ہر ایک کے لیئے

سماجی انصاف سے مراد کسی بھی انسانی معاشرے میں عزت نفس کاتحفظ،کام کرنے کے مواقع، معاشی وسائل اور مراعات کی مساوی اور منصفانہ تقسیم ہے۔ یاد رہے کہ جب سے کرہ ارض پر معاشرتی زندگی کی بازیافت ہونا شروع ہوئی ہے،تب سے ہی ہر دور میں اور ہر معاشرہ میں ایسے دانش و بنیش افراد،ضرور موجود رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنے تئیں تمام لوگوں کو بلاکسی تفریقِ مذہب و ملت یکساں مواقع اور مساوی حقوق کی فراہمی جیسے بلند خیالات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں تک ممکن ہوسکا سماجی انصاف کی حامل مفید اقدار و قوانین کے معاشرہ میں نفاذکے لیئے بھرپور عملی جدوجہدبھی کی۔ کبھی اُنہیں اپنی جہدِ مسلسل میں بے مثال کامیابی میسر آئی تو کبھی بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سماجی ناانصافی کے بد سے بدترین ادوار میں بھی لوگ، ایک فلاحی معاشرہ کی تشکیل کا خواب برابر دیکھتے رہے ہیں۔ بلکہ یہاں یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہوگا کہ سماجی انصاف کی لاشعوری خواہش نے ہی افرد کو ایک منظم اور منضبط فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کی راہ سجھائی تھی۔

انسان فطری طور پر سماجی انصاف کو کس قدر پسند کرتا ہے،اس کا اندازہ صرف اِ س ایک بات سے لگایا جاسکتاہے، کہ کسی بھی معاشرہ کے قانون شکن طبقات سے تعلق رکھنے والے بدعنوان افراد مثلاً چور، ڈاکو اور ٹھگوں کو بھی صادق اورامین جیسی صفات ِ حمیدہ رکھنے والے قابل بھروسہ ساتھیوں کی شدت کے ساتھ تلاش ہوتی ہے۔ یعنی معاشرہ میں سماجی انصاف کی اقدار اور نظام کو تہہ و بالاکرنے والے گروہ بھی کم ازکم اپنی ذات کی حد تک ضرور سماجی انصاف کی اہمیت اور اس کے فیوض و برکات کے تہہ دل سے قائل ہوتے ہیں ۔سماجی انصاف، انگریزی زبان کے لفظ Social Justice کا ترجمہ ہے۔سماجی انصاف کی اصطلاح سب سے پہلے 1780 میں معروف برطانوی مصنف اور فلسفی، تھامس پین نے متعارف کروائی تھی۔

جسے بعد ازاں مشہور اطالوی ماہر سماجیات لوجی تپارلی نے اپنے افکار و نظریات کا بنیادی جز قرار دے کر علمی و ادبی حلقوں میں موضوع بحث بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جبکہ اینٹونیا روسمینی سرباتی نے ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں عوام کے لیئے سماجی انصاف کے فعال ادارے قائم کرنے کی اہمیت و افادیت کو ثابت کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح سے سماجی انشورنس، پبلک ہیلتھ، لیبر لاء، پبلک ایجوکیشن، ٹیکس اصطلاحات کے آسان قوانین اور ضابطوں کے عملی اطلاق سے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان مثالی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور سماج کے درمیان وسائل کے منصفانہ تقسیم کا ایک موثر اور دیرپا نظام تشکیل پاتاہے۔ 25 جون 1993 کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی کانفرنس میں ویانا ڈیکلریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کے ذریعے پہلی بار سماجی انصاف کی اصطلاح کو انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 26 نومبر 2007 کو ایک قرار دار منظور کرتے ہوئے اپنی ایک ذیلی تنظیم عالمی ادارہ برائے محنت کے تحت ہر برس 20 فروری کو دنیا بھر میں سماجی انصاف کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو عالمگیر سطح پر منانے کا مقصد کرہ ارض پر رہنے والے لوگوں کوبلاکسی سیاسی،سماجی،مذہبی اور طبقاتی تفریق کے کام اور ملازمت کرنے کے یکساں مواقع اورصحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے علاوہ عدم تحفظ اور عدم مساوات کی حوصلہ شکنی سمیت سماجی انصاف کے فروغ کے لیئے درکار دیگر ضروری اقدامات پر عمل درآمد یقینی بناناہے۔

سماجی انصاف کے تین رہنما اُصول
سماجی انصاف کے پروردہ کسی بھی معاشرہ یا ریاست میں ہر فرد کو چندبنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً، اپنی شناخت کا احترام،اظہار رائے کی آزادی، عدل و انصاف کی فراہمی،صحت کی دیکھ بھال،روزگار کے مواقع اورسرچھپانے کے لیئے ایک محفوظ چھت۔مذکورہ بالا استحقاقات میں سے دو حق فرد کو ریاست کی جانب سے کچھ فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شناخت کا احترام اور اظہار خیال کی آزادی کا حق تب تک ہی ایک فرد کو حاصل رہے گا،جب تک اُس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے فرد کے تشخص اور آزادی اظہارِ رائے کے حق پر گزند نہ پہنچتی ہو۔ یعنی ہر شخص کو سماج میں اپنی شناخت بنانے اور اپنی مرضی کی رائے دینے کا پورا پورا حق حاصل ہے تاکہ دوسرے اُسے جان اور سُن کر اپنے لیئے ایک مثال بناسکیں۔مگر جیسے ہی معاشرہ کا کوئی فرد یا طبقہ ریاست کی طرف سے دیئے گئے،مذکورہ حقوق کو کسی دوسرے فرد یا طبقہ کی شناخت مٹانے یا پھر سماج میں منافرت پھیلانے کے لئے بروئے کار لانے کی کوشش کرے گا تو پھر ایسے شخص یا گروہ کے خلاف ریاست کی جانب سے سخت تادیبی کاروائی کرنا بھی عین سماجی انصاف کی ذیل میں شمار کیا جائے گا۔

دراصل ماہرین سماجیات کی اکثریت کے نزدیک ریاست،ریاستی پالیسیوں اور سماجی انصاف کے مابین ہم آہنگی اور مثالی مطابقت پیدا کرنے کے لیئے تین بنیادی اُصولوں پر عمل درآمد کرنا ازحد ضروری ہے۔ پہلے اُصول کے مطابق حکومت ہر شہری کو مکمل مذہبی،سیاسی،سماجی،ثقافتی آزادی اور انسانی حقوق کا تحفظ فراہم کرنے کا التزام کیاجائے۔ بشمول جائیداد کے حق اور ترقی کے مواقع وغیرہ۔دوسرے اُصول کے مطابق ریاست وقتاً فوقتاً اپنے حکومتی ڈھانچہ میں ایسی اصطلاحات اور پالیسیاں متعارف کروا تی رہے جس سے معاشرہ کے نچلے طبقات اور اقلیتوں کو سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوں۔ یعنی ریاست کو ایسے اقدامات بطور پالیسی اختیار کرنے کا بھی پورا پوا حق حاصل ہے،جس سے بظاہر پہلا فائدہ امراء اور صنعتکاروں کو پہنچتا ہو مگر ساتھ ہی اِن اقدامات سے غریب اور مفلوک الحال عوام کو بھی خاطر خواہ معاشی اور سماجی فائدہ پہنچنے کے روشن امکانات پائے جاتے ہوں۔

مثال کے طور پر ایک جمہوری حکومت اپنے ملک میں صنعت اور زراعت کے فروغ کے لیئے صنعت کاروں اور زمین داروں کو ٹیکس کی مد میں خصوصی رعایتیں یا آسان قرضہ جات وغیر ہ فراہم کرتی ہے۔ نیز ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنے کے لئے خاص سہولیات مہیا کرنے کے اعلانات کرتی ہے۔بظاہر مذکورہ حکومتی اقدامات سے پہلا تاثر یقینا یہ ہی اُبھرتا ہے کہ ریاست طبقہ امراء کو نواز رہی ہے۔ حالانکہ جدید اقتصادی نظام میں اس طرح کے اقدامات کرنے سے صنعتوں کا پہیہ چلتاہے اور عام آدمی کے لیئے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ زراعت کی ترقی سے جہاں اِس شعبہ سے وابستہ افراد کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے، وہیں ملک میں پھلوں اور اجناس کی پیداور میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ جس کے باعث اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں استحکام رہتا ہے اور عوام مہنگائی کے خطرہ سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔ تیسرا اُصول ترجیہی اُصول کہلاتاہے،جس کے مطابق پہلے دو اُصولوں میں سے کوئی ایک بھی اُصول ہر گز ایسے انداز میں بروئے کار آکر دوسرے اُصول پر غالب نہیں آنا چاہیے، جس کے نتیجے میں کسی بھی شہری کی بنیادی آزادی، حق اور وقار پر حرف آنے کا اندیشہ لاحق ہو۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ایک فلاحی ریاست کا بنیادی وظیفہ اور اصل امتحان ہی معاشرہ میں عوامی حقوق اور شہری ذمہ داریوں کے مابین توازن برقرار رکھنا اور افراط و تفریط پیدا نہ ہونے دینا ہے اور اسی کا نام سماجی انصاف ہے۔

ملازمت اور سماجی انصاف
اعداد وشمار جمع کرنے والی معرو ف تحقیقاتی ویب سائٹ ریفرنس ڈاٹ کام کے مطابق دنیا کے تقریباً 70 فیصدافراد ملازمت پیشہ ہیں۔دراصل ملازم صرف وہی لوگ نہیں جو سرکاری یا نجی دفاتر میں کام کرتے ہیں۔بلکہ ملازم (employee) سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی نوعیت کی تنظیم، کمپنی، ادار ے یا کسی بھی فرد کے کاروبار، دُکان پر کام کرنے کا کسی بھی شکل میں معاوضہ وصول کرتا ہو۔نیز گھروں میں کام کرنے والے نوکر، اورکسی شخص کی ملکیتی زرعی زمین پر کاشت کاری کرنے والے کسان بھی درحقیقت ملازم ہی ہیں۔یعنی مالیاتی اُجرت مثلاً روزانہ، ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر تنخواہ یا پھر دیگر مراعات جیسے کھانا،رہائش وغیرہ کے عوض اپنی خدمات فراہم کرنے والے تمام افراد کو جدید اقتصادیات کی اصطلاح میں ملازمت پیشہ ہی سمجھاجاتاہے۔چونکہ دنیا کی ایک تہائی آبادی ملازمت پیشہ ہے، لہٰذا، سب سے زیادہ سماجی ناانصافی کا شکار بھی ملازمت پیشہ طبقہ ہی ہوتاہے۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے محنت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کام کرنے کی جگہیں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور ملازمین کی بڑی تعداد کو کام کے دوران بدترین سماجی ناانصافی اور انتہائی ناروا سلوک کا سامنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کام کی جگہوں پر ذہنی و نفسیاتی تشدد اور ہراسانی کا شکار ملازمین کی درست تعداد کو جانچنا بھی سخت مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ کام یا ملازمت ہاتھ سے نکل جانے کے خوف کی وجہ سے صرف نصف تعداد ہی اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے دوسروں کو آگاہ کرپاتی ہے اور ایسا بھی عموماً تب ہوتا ہے جب متاثرہ فرد کو دورانِ کام تواتر کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی ہراسانی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑے۔

اقوامِ متحدہ اپنے مختلف چارٹرز کے ذریعے، جدید عالمی جمہوری نظام میں دنیا کے تمام رُکن ممالک کو پابند کرتاہے کہ وہ ریاستیں ایسے قوانین بنائیں، جن کے نفاذ سے ہر شعبہ سے وابستہ ملازمین کے ساتھ سماجی ناانصافی پر مبنی کوئی واقعہ نہ ہونے پائے۔چونکہ پاکستان بھی اقوام متحدہ کا متحرک رُکن ہے،اس لیئے پاکستان میں صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی شعبہ جات میں مختلف خدمات انجام دینے والے ملازمین کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیئے وفاقی اور صوبائی سطح پر درجن بھر حکومتی ادارے قائم ہیں۔ مثلاً ملازمین کی بعد از ریٹائرمنٹ یا بعد از مرگ پنشن کے لیئے ایمپلائی اولڈ ایج بینیفٹ، طبی صحت کی نگہداشت کے لیئے سوشل سیکورٹی بورڈ، قانونی معاونت کے لیئے لیبر لاء بورڈ اور ویج بورڈ جیسے کئی حکومتی ادارے موجود ہیں۔ مگر ملک کے دیگر سرکاری اداروں کی مانند یہ ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں سے یکسر غافل ہیں۔ مثال کے طو ر پر حکومت پاکستان کی جانب سے نجی شعبوں کے ملازمین کو بعد ازملازمت پنشن، ناگہانی حادثہ کی صورت میں معذوری پنشن اور امدادی گرانٹس فراہم کرنے کے لیئے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس ایکٹ کا نفاذ 1976 میں عمل میں لایا گیا تھا، جس کا اطلاق ان تمام صنعتی اور تجارتی اداروں بشمول بنک،پرائیویٹ اسکولزیا کام کرنے کی ہر ایسی جگہ پر ہوتا ہے،جہاں پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد ملازم ہوں یا پچھلے بارہ ماہ میں کسی وقت بھی ملازم رہے ہوں۔ اگر صرف یہ ہی ایک ادارہ صحیح معنوں میں فعال ہوکر مختلف نجی شعبوں میں کام کرنے والے افرا د کو اپنے پاس رجسٹرڈ کر لے تو یقین مانیئے! ملک کے ایک تہائی ملازمین”جاب سیکورٹی“ میسر آجانے کی بناء پر کافی حد تک ذہنی و نفسیاتی آسودگی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

انصاف ہوگا،ضرور ہوگالیکن کب ہوگا؟
ہمارے ہاں ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ ”دادا کا کیس عدالت میں جائے اور اگر پوتے کو انصاف مل جائے بڑی بات ہے“۔یہ مقولہ اُس وقت بالکل درست ثابت ہوگیا،جب 2018 میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ سنایا تو بعدازاں انکشاف ہوا کہ مذکورہ مقدمہ کو نظام ِ انصاف میں دائر ہوئے پورے ایک سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔واضح رہے کہ بہاول پور کے علاقے خیر پور ٹامے والے کے رہائشی محمد نصراللہ کی پڑدادی روشنائی بیگم نے جو تقسیم ہند سے قبل بھارتی صوبہ راجستھان کی رہائشی تھیں۔ انہوں نے جائیداد کی قانونی تقسیم کے حوالے سے اپنے بھائی شہاب الدین کے خلاف 1918 میں مقامی سول عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ جو کئی دہائیوں کا سفر طے کرکے اور مختلف عدالتی مراحل سے گزرتاہوا سال 2005 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں پہنچا، جہاں 13 برس کی عدالتی کارروائی کے بعد مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاخیر سے انصاف ملنے کا یہ پہلا اور آخری عدالتی فیصلہ نہیں ہے، کیونکہ عدالتوں میں بروقت مقدمات کے فیصلے نہ ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ انصاف نہ ہونا یا تاخیر سے ہونا دونوں باتیں ہی سراسر سماجی ناانصافی کی ذیل میں شمار ہوتی ہیں۔

لیکن ہم نظام ِ انصاف کی زبوں حالی کی تمام تر ذمہ داری تنہا عدلیہ پر اِس لیئے نہیں ڈال سکتے کہ ایک متحرک اور فعال عدالتی نظام کے لیئے جس قدر مالی وسائل،افرادی قوت اور سیاسی آزادی ہماری عدلیہ کو درکار ہے نہ تو کبھی اِس کا احساس حکومتوں نے کیا ہے اور نہ ہماری عوام نے اِسے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یقینا نظام ِ انصاف کو بہتر اور مؤثر بنانے کی اوّلین ذمہ داری ریاست اور عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔مگر اِس وقت عدالتوں میں جو لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرسماعت ہیں۔اس کے براہ راست ذمہ داری پاکستانی عوام پر عائد ہوتی ہے۔جو ذرا سے گھریلوجھگڑے، چھوٹے سے تنازع کو بھی زبردستی کھینچ کھانچ کر عدالتی چوکھٹ تک لے جاتی ہے۔ ماشاء اللہ!ہم عوام ریاست اور ریاستی اداروں سے تو سماجی انصاف فراہم کرنے کامطالبہ کرتے ہیں۔مگر کیا کبھی اپنے گھر، گلی اور محلے میں اپنے کسی دوست،عزیز یا رشتہ دار کے ساتھ مبنی بر سماجی انصاف کوئی سلوک یا طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کی ہے؟۔

یاد رہے کہ افراد کے مجموعہ سے ہی ایک معاشرہ کی صورت گری ممکن ہوتی ہے۔ اگر ایک فرد، ہی سماجی انصاف کی اعلیٰ قدروں کو اپنی بنیادی خوبی بنانے کے بجائے اُلٹا اِسے اپنے قدموں تلے پامال کرنا چاہے گا تو پھر ایسے معاشرہ میں مختلف حکومتوں کی طرف سے چاہے جتنے اچھے اچھے قوانین بنا کر نافذ کردیے جائیں، مگر سماجی انصاف کہیں دکھائی نہیں دے گا۔کیونکہ فرد ہی معاشرہ کا حقیقی چہرہ ہوتاہے۔ اگر آج، ترقی یافتہ ممالک کے ریاستی اداروں میں سماجی انصاف کی خیرہ کن روشنی دکھائی دیتی ہے تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن گھر،دفاتر،کاروباری ادارے اور گلی محلے بھی سماجی انصاف کی اعلیٰ قدروں کے حسین قمقموں سے پوری طرح مزین ہیں۔ دراصل سماجی انصاف کی تالی ریاست اور عوام جب دونوں باہم مل کر بجاتے ہیں تو تب ہی بجتی ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 19 فروری 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں