اتنا تو مولوی ہدایت اللہ کو بھی بہت اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ قاسم خان جتنے بڑے سرکاری افسر ہیں، اُن کے ہاں عید الاضحٰی پر قربانی بھی اُتنے ہی بھاری بھرکم اور مہنگے جانور کی ہوگی۔ مگر جب قاسم خان کے بنگلہ میں داخل ہونے کے بعد مولوی ہدایت اللہ نے لان میں کھڑے قربانی کے جانورپر ایک نگاہ دوڑائی تواُن کے تصور میں کلبلانے والے تمام اندازے سمٹ کر، رائی کے دانے برابر ہو گئے اور اُن کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔کیونکہ مولوی ہدایت اللہ کو آج تک عید الاضحی پر قربان ہونے والے جتنے بھی جانوروں کے ذبیحہ کے لیے تکبیر پڑھنے کے لیئے بلایا گیا تھا۔ بے شک قاسم خان کے وسیع وسرسبز لان میں ٹہلنے والا قربانی کا جانور اُن سب سے توانا،بھاری بھرکم اور خوب صورت تھا۔مولوی ہدایت اللہ دل ہی دل میں خوش ہونے لگے،اتنے بھاری جثہ والے قربانی کے جانور پر ذبیحہ کے لیے تکبیر پڑھنے کا ہدیہ بھی یقینا اُسے اچھا خاصا ہی ملے گا۔یہ سوچ کر مسکراتے ہوئے مولوی ہدایت اللہ قریب ہی کھڑے قاسم خان کے ملازم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ”ماشاء اللہ، کیا خوب صورت قربانی کا جانورہے، کتنا کاخریدا ہے اِسے قاسم صاحب نے؟“۔ ”اگر ہمارے قاسم صاحب کو بھی قربانی کا جانور خرید کر قربانی کرنا پڑے تو پھر وہ سرکار کے اتنے بڑے افسر کس بات کے ہوئے“۔ملازم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”میں کچھ سمجھا نہیں قاسم صاحب کی افسری کا قربانی کے جانور سے کیا لینا دینا؟“۔مولوی ہدایت اللہ نے حیرت سے کہاتو قاسم خان کے ملاز م نے احترام کے ساتھ مولوی ہدایت اللہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے سرگوشی کی۔”مولوی صاحب،آپ بھی کتنے سادہ ہیں،کیا آپ واقعی نہیں جانتے کہ قاسم خان جیسے بڑے افسر قربانی کا جانور خریدتے نہیں ہیں، بلکہ لوگ اُنہیں تحفے میں دیتے ہیں۔ یہ سامنے کھڑا ہوا بچھڑا تو کچھ بھی نہیں ہے، آئیں! میں آپ کو سرونٹ کوارٹر میں کھڑے ہوئے چار بکرے دکھاؤں، جنہیں عید کے دوسرے اور تیسرے دن قربان کیا جائے گا۔ میرا دعوی ہے کہ اتنے بھاری تن و توش کے بکرے آپ نے آج تک اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے ہوں گے“۔
”کیا وہ بکرے بھی قاسم خان کو تحفے میں ملیں ہیں؟“۔مولوی ہدایت اللہ نے اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ کندھے پررکھے رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
”اور نہیں تو کیا،اس سال قاسم صاحب کو آٹھ بکرے اور چاربچھڑے تحفے میں مل رہے تھے،لیکن ہمارے صاحب عید کے دن زیادہ بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ لہٰذا، انہوں نے بس ایک بچھڑا اور چار بکرے قربانی کے لئے اپنے ملنے والوں سے تحفے میں قبول کر۔۔۔۔“۔ابھی قاسم خان کے ملازم نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ مولوی ہدایت اللہ نے لقمہ دیتے ہوئے کہا ”عیدالاضحی پر قربانی صرف اپنے حلال مال سے خریدے گئے جانورکی جائز ہوتی ہے، رشوت میں ملنے والے جانور کی قربانی اللہ سبحانہ و تعالیٰ قبول نہیں فرماتے“۔
”مولانا صاحب! ہمارے صاحب یہ قربانی کا جانور رشوت میں تھوڑی لیتے ہیں، وہ تو اُن سے ملنے جلنے والے بعض احباب اُنہیں بطور تحفہ جانور دے جاتے ہیں، آخر اِس میں قباحت ہی کیا ہے؟اور ویسے بھی شریعت میں تحفہ لینا حرام تو نہیں ہے نا؟“۔ملازم نے مولوی ہدایت اللہ کو سمجھاتے ہوئے استفسارکیا۔
”میرے نزدیک یہ قاسم خان کو ملنے والے تحفے نہیں بلکہ اُن کے طاقت ور عہدے کی وجہ سے ملنے والی رشوت ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ جن لوگوں نے آج اُنہیں قربانی کے جانور دیئے ہیں،کل وہ اِن سے اپنے جائز و ناجائز کام نکلوائیں گے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب قاسم خان قربانی کے جانور اتنی بڑی تعداد میں بطور رشوت وصول کررہا ہے تو یقینا اُس کا ماتحت عملہ بھی دفتر آنے والے مجبور لوگوں سے قربانی کے جانور بطور رشوت طلب کررہا ہوگا۔ یہ سراسر ناجائز، حرام اور سنت ابراھیمی کی حقیقی روح کو پامال کرنے کے مترادف ہے“۔مولوی ہدایت اللہ بولتے بولتے طیش میں آگئے۔
جب قاسم خان کے ملازم نے دیکھا کہ مولوی ہدایت اللہ کو رام کرنا مشکل ہے تو اُس نے اُن کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے مسکین سی صورت بنا کر بولا”مولوی صاحب، اگر سامنے کھڑے جانور کی قربانی ناجائز ہے تو برائے مہربانی آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں کیونکہ یہ باتیں آپ نے اگر قاسم خان کے سامنے کردیں تو وہ آپ کو تو صرف تھانے میں بند کروائیں گے مگر مجھے بیوی بچوں سمیت جان سے ہی مروادیں گے۔ آپ مجھ پر نہیں تو میرے بچوں پر آج عید کے دن کچھ رحم فرمادیں“۔ ملازم کے روہانسے لہجے سے متاثر ہوکر مولوی ہدایت اللہ انتہائی غصے کے عالم میں پاؤں پٹختے ہوئے قاسم خان کے بنگلے سے باہر نکل گئے۔
یہ افسوس ناک کہانی صرف ایک قاسم خان کی ہی نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ آپ کو اپنے اردگر د قاسم خان جیسی قبیل کے کئی صاحب ثروت اور اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری مناصب پر فائز اشخاص دیکھنے کو مل جائیں، جن کی عیدالاضحٰی کی قربانیاں اُن کے پاس کسی غرض سے آنے والے سائلین کی جانب سے بطور تحفے دیئے ہوئے جانور وں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دکھاوے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی خواہش میں ہم قربانی کے اصل مفہوم کو ہی یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ ویسے تو عید الاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار اسلامی تہوار ہے، جو سنتِ ابراھیمی ؑ کے پیروی میں منایا جاتاہے۔لیکن کتنی بدقسمتی کی با ت ہے کہ ہم نے اِس عظیم، روحانی فضیلتوں اور برکتوں سے معمور تہوار کو بھی اپنی نام و نمود اور جھوٹی آن بان شان کی نمائش کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
واضح رہے کہ عیدالاضحی کے دن کی جانے والی قربانی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹہرا کر پیش کی جاتی ہے اور عید الاضحی کے روز سنت ابراہیمی کی یاد کو منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی حقیقی روح، ایمان کی کیفیت اور اپنے ربّ کے ساتھ محبّت و وفا داری کا جذبہ پیدا ہو، جس کا عملی مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی میں دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان اس پیغمبرانہ شعور کے بغیر صرف اپنی جھوٹی نمود و نمائش کے لیئے کسی جانور کو قربان کرتا ہے، تو وہ اس جانور کا ناحق خون بہاتا ہے، جس کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوقطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم نے عید الاضحی کے خالص اسلامی تہوار کو بھی اپنی نفسانی خواہشوں اور دنیا بھر کی مخرب الاخلاق آلائشوں سے آلودہ کردیا ہے اور اِس بابرکت دن پر ہونے والی قربانی کے ساتھ ہم نے ایسے عجیب و غریب اور غیر اسلامی تصورات وابستہ کردیئے ہیں۔ جن کا عید الاضحی اور سنت ِ ابراھیمی ؑ کی پیروی میں کی جانے والی حقیقی قربانی سے دور دور تک کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔
مقصود الہٰی خوب صورت جانور نہیں،آپ کی نیت ہے
اکثر آپ نے یہ جملے تو ضرور سُنے ہوں گے کہ ”اے بہن! تھوڑے سے پیسے اور ڈال لیتی تو اِس سے کہیں زیادہ خوب صورت جانور مل جاناتھا“۔یا ”میں نے جانور بیس ہزار اضافی روپے دے کر اِس لیئے خریدا ہے کہ یہ پوری بکرامنڈی میں سب سے خوش شکل تھا“۔یا ”دیکھو تو سہی! ہمارا قربانی کا جانور تمہارے قربانی کے جانور کے مقابلے میں کتنا خوب صورت لگتا ہے“۔یا ”کیا تمہارے اتنے سوکھے سڑے،مریل اور کمزور جانور کی قربانی اللہ سبحانہ وتعالیٰ قبول کرلے گا؟“۔ یہ اور اِس طرح کے بے شمار طنزیہ جملوں سے صاف یہ مطلب نکلتاہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ عیدالاضحی کے روز قربان کیئے گئے جانوروں میں صرف اُن جانوروں کی قربانی قبول کرتاہے، جو شکل و صورت کے اچھے اور گوشت سے خوب فربہہ ہوتے ہوں گے۔ یقینا قربانی کا جانور خریدنے کے لیئے، شریعت مطہرہ نے چند ضروری شرائط بیان کی ہیں اور ہر صاحب ِ استطاعت شخص کے لیئے قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے اُن کا پوری طرح سے لحاظ کرنا لازمی بھی ہے۔مگر قربانی کے جو جانور شریعت مطہرہ میں طے شدہ شرائط پر پورا اُترتے ہوں،پھر فخر و مباہات کے اظہار کے لیئے اُن کے درمیان مقابلہ حسن کی کیفیت پیدا کر کے دوسرے کو نیچا اور خود کو برتر ثابت کرنا اورلوگوں کی دل آزاری کرنا ایک ایسا فعل قبیح جس کی دین ِاسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔
قرآن حکیم فرقان حمید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“۔ (سورۃالحج:37)۔ جبکہ ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری(ظاہری) صورتوں کو نہیں دیکھتا،بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔(صحیح مسلم)۔دراصل،عید الاضحی کے روز سنتِ ابراہیمی کی یاد میں کی جانے والی قربانی کا اصل مقصد مسلمانوں میں جذبہ ایثار کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کی نیت پیداکرناہے۔آج کل ہم میں سے بہت سارے لوگ ذاتی نمود ونمائش کے لیے قربانی میں بہت زیادہ غلو کرنے لگے ہیں۔
نیزاپنی دولت و اَمارت کا رعب جمانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اخلاص وتقویٰ سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں اور انتہائی فخریہ انداز میں اپنے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں اور خوب صورتی کا بیان کرتے ہوئے کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ”ہم نے اعلیٰ سے اعلیٰ نسل کے اتنے جانور ذبح کیے ہیں“۔ جبکہ وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا انحصار جانور کی قیمت،خوب صورتی یا اُس کی فربہی پر نہیں، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں قربانی کا جانور قربان کرنے والے شخص کی اچھی اور پرخلوص نیت پر ہوتاہے اور جس شخص کی نیت میں سادگی و اخلاص ہی نہ ہو، تو اُس شخص کی بڑی سے بڑی اور مہنگی سے مہنگی قربانی بھی رائیگاں ہی جائے گی۔
گوشت کی تقسیم میں میانہ روی ضروری ہے
کبھی کبھی دل پر یہ موہوم سا گمان گزرتا ہے کہ اگر فقہائے کرام نے قربانی کے گوشت کے تین حصے واضح طور پر اور پوری صراحت کے ساتھ بیان نہ کیئے ہوتے اور قربانی کے گوشت کی تقسیم قربانی کرنے والے فرد پر ہی مکمل طورپر چھوڑ دی جاتی تو پھر ہمارے معاشرے میں عید ِقرباں کے روز کیا کیا تماشے اور مناظر دیکھنے کو ملتے۔ کیونکہ جس طرح سے ہمارے ہاں، اکثر گھروں میں قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کی جاتاہے،وہ ایک ایسا جادوئی انداز ہے، جس میں صاف ستھرا گوشت تو فقط صاحب ِ خانہ کے ایک حصے میں سما جاتاہے اور باقی بچ جانے والی چربی،ہڈیاں اور دیگر آلائشیں دو حصوں میں چلی جاتی ہیں۔
قربانی کے گوشت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم کا انداز اتنا زیادہ ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکا ہے کہ قربانی کا گوشت تقسیم کرنے والوں کو اَب تو احساسِ ندامت بھی نہیں ہوتا کہ وہ شریعت کے بتائے ہوئے قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کے احکامات کا کس لاپرواہی اور بے باکی کے ساتھ تمسخر اُڑارہے ہیں۔ بدقسمتی سے قربانی کا گوشت تقسیم کرنے والوں نے کچھ اپنے ہی خودساختہ فارمولے اور اقوالِ ذریں ایجاد کرلیئے ہیں۔ جن میں دو تو بہت ہی عام ہیں۔پہلا یہ کہ گھر میں افراد زیادہ ہوں تو قربانی کا گوشت سب سے پہلے اپنے کھانے کے لیئے رکھ لینے کی اجازت شریعت نے دی ہوئی ہے،کتنے دن کے لیئے؟۔ اِس سوال کا جواب کسی عالم باعمل،مفتی یا فقہیہ سے حاصل کیئے بغیرقربانی کا سارا گوشت ریفریجریٹر اور دیپ فریزر میں سال بھر کے لیئے منجمد کردیا جاتاہے۔
دوسری طرف بہت کم ہی سہی لیکن ایسے متشدد مذہبی عقائد رکھنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کا ماننا ہے کہ قربانی کا سارا گوشت تقسیم کردینا چاہیے اور گوشت کی ایک بھی بوٹی اپنے گھر میں نہیں رکھنی چاہیئے۔ ایسے ہی زریں مذہبی خیالات رکھنے والے گھرانے میں ہمارے ایک بدنصیب دوست کو بطور مہمان عید ِ قرباں کے پہلے روز جانے کا اتفاق ہوا تو اُنہیں شام کے کھانے میں بغیر بگھاری ہوئی دال ملی۔ بیچارے مہمان نے بدمزہ دال کا پہلا لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے،بے چارگی کے عالم میں اپنے میزبان سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”بھائی جان! قربانی کی گائے میں سے گھر آنے والے مہمان کے لیے دو،چار گوشت کی بوٹیاں بچا کررکھ لیتے تو آخر کون سا ایسا گناہ ہوجانا تھا،جس کی بعد میں تمہیں معافی نہ ملنی تھی“۔
شریعت اسلامیہ کے مطابق حج یا عید الاضحی کی قربانی میں سے صدقہ کرنا واجب ہے، چاہے تھوڑی سی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے کہ ”تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ، ہم نے اس جانور کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے، تا کہ تم شکر گزار بنو۔(الحج: 36)۔مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین قرآن نے لکھا ہے کہ ”سفید پوش“ سے مراد ایسا تنگ دست آدمی ہے جو قناعت اور عفت پسندی کی وجہ سے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔اور”مانگنے والے“ سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے۔چنانچہ غریب فقراء کا بھی قربانی میں حق ہے، اگرچہ یہ آیت مبارکہ حج کی قربانی کیلئے ہے۔ تاہم فقہائے کرام کے نزدیک عیدالاضحی کی قربانی کا بھی یہی حکم ہے۔(الموسوعۃ الفقہیۃ۔115)۔
نیز ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو، اور صدقہ دو“۔(صحیح مسلم: 1971)۔معروف فقہیہ شیخ ابن عثیمین رحمتہ اللہ علیہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو شخص قربانی کا مکمل گوشت پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟۔تو انہوں نے جواب دیاکہ”اُس کا یہ عمل غلط ہے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دیے ہیں، اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں۔(سورۃ،الحج: 28)۔دراصل فقہائے کرام کے نزدیک قربانی کے گوشت کی تقسیم کا سب سے بہتر اور مستحسن طریقہ یہ ہے کہ اس میں سے ایک حصہ غرباء میں دے دیا جائے، ایک حصہ رشتہ داروں میں بانٹ دیا جائے اور ایک حصہ اپنے کھانے کے لیئے رکھ لیا جائے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 25 جون 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023