ملکی تاریخ میں پہلی بار جامع منصوبہ بندی اور ہر گھر اورفرد کی معلومات کے اندراج کو یقینی بنانے کے لیئے ڈیجیٹل مردم شماری کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس کی تکمیل کادورانیہ یکم مارچ سے یکم اپریل تک طے کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ مردم شماری صرف لوگوں کی گنتی کرنے جیسا ایک سادہ سا عمل ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ کسی خاص علاقے یا ملک میں آباد لوگوں کے متعلق ایک معین یاطے شدہ طریقہ کار کے تحت مختلف نوعیت کی مصدقہ معلومات اور اعدادو شمار جمع کرکے اُ ن کا سائنسی انداز میں تجزیہ کرنے کا نام مردم شماری ہے۔ جبکہ خانہ شماری میں انسانوں سے متعلق کسی بھی شئے کے اعدادوشمار بالعموم مردم شماری کے دوران ہی اکٹھے کرلئے جاتے ہیں۔ مثلاً مکانات، دُکانیں،ٹرانسپورٹ کے ذرائع سمیت ہر چیز جسے گنا جا سکتاہو۔عام طور پر مردم شماری کا عمل تین مختلف مراحل میں مکمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں گھر گھر جا کر لوگوں سے سوالنامہ کی صورت میں اُن کی افرادی قوت،معاشی حیثیت اورذاتی شناخت سے متعلق جملہ کوائف جمع کیئے جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلہ میں حاصل کردہ مواد کی اچھی طرح سے چھان پھٹک کرکے اُسے مرتب کرلیا جاتا ہے اور تیسرے اور آخر ی مرحلہ میں تصدیق شدہ مواد کا سائنسی انداز میں تجزیہ کرکے کچھ ضروری نتائج اخذ کیئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں حاصل شدہ حتمی نتائج کی روشنی میں ہی عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کے لیئے جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ماہرین سماجیات کا ماننا ہے کہ کسی ملک میں آباد لوگوں کے مابین وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیئے ازحد ضروری ہے کہ ہر تھوڑے عرصہ بعد مردم شماری کی سرگرمی تسلسل کے ساتھ انجام دی جاتی رہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں مردم شماری کا عمل ہر 10 برس بعد باقاعدگی کے ساتھ دہرایا جاتاہے۔
خانہ و مردم شماری کی تاریخ
بعض تاریخی اساطیر اور روایات کے مطابق قدیم زمانے میں بھی انسانی بستیوں میں آبادی اور وسائل کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیئے مردم شماری کروائی جاتی تھیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق بابل ایران، مصر اور چین کے مختلف تہذیبی ادوار میں بھی مردم شماری جیسا ملتا جلتا عمل تواتر کے ساتھ کیئے جانے کے قوی شواہد پائے گئے ہیں۔نیز، قبل از مسیح دور کی عظیم رومن سلطنت نے فوجی و سیاسی مقاصد اور جائیداد کی رجسٹریشن کے لیے رومن تہذیب میں پہلی باقاعدہ خانہ و مردم شماری کروائی تھی۔ جبکہ دین اسلام کی آمد کے بعدعہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیئے بعض افراد کو مقرر کرکے 2 ہجری میں مدینہ شہر میں پہلی مردم شماری کروائی گئی تھی۔ تاکہ مدینہ کے صاحبِ حیثیت افراد سے زکوۃ، خیرات و صدقات وصول کرکے اُنہیں معاشرے کے ضرورت مند اور مفلوک الحال طبقات افراد میں منصفانہ طورپر تقسیم کی کیا جاسکے۔نیز،15 ہجری میں خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے دوسری بار کہیں زیادہ منظم انداز میں بلاد ِعر ب میں باقاعدہ مردم شماری کا انعقاد کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے ادوار میں شہر کوفہ میں کروائی گئی مردم شماری کے کوائف کی پرانی دستاویز آج بھی بعض کتبِ تاریخ میں محفوظ ہیں۔
دورِ جدید میں جن قوائد و ضوابط کے مطابق مردم و خانہ شماری کا عمل انجام دیا جاتا ہے، اُس کے موجد امریکا،برطانیہ اور سوئیڈن ہیں۔ امریکا میں اولین،جسے آپ جدید دنیا کی پہلی مردم شماری بھی کہہ سکتے ہیں، 1790 میں منعقد ہوئی تھی۔13 امریکی ریاستوں میں ہونے والی مذکورہ مردم شماری پر 45 ہزار امریکی ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔یاد رہے کہ امریکا ہی دنیا کا وہ پہلا ملک بھی ہے، جس نے مردم شماری کا عمل ہر10 برس بعد لازمی کروانے کی شق کو اپنے آئین کا حصہ بنایا۔جبکہ برطانیہ میں 1801 میں پہلی بار مردم شماری کروائی گئی تھی،تب سے لے کر اَب تک ہر 10 سال بعد برطانوی حکومت نے یہ سرگرمی اپنے مقررہ وقت پر ہی دہرائی ہے۔ سوائے 1941 میں جب جنگ عظیم دوم کے باعث برطانیہ میں مردم شماری کا انعقاد نہیں کیا جاسکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی قانون کی رو سے مردم شماری کے عمل میں شامل ہونا ہر شخص کے لیئے لازمی ہے اور مردم شماری کے لیئے دیا گیا فارم پُر نہ کرنے پر ایک ہزار برطانوی پاؤنڈ کا جرمانہ بھرنا پڑتاہے۔یاد ش بخیر! 1983 تک دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں ایک بار مرتبہ مردم شماری کا عمل وقوع پذیر ہوچکا ہے۔
ڈیجیٹل مردم شماری سے کیا مراد ہے؟
خانہ و مردم شماری کس قدر پیچیدہ اور وقت طلب سرگرمی ہے، اس کا بخوبی اندازہ 1880 میں امریکا میں ہونے ہونے والی مردم شماری سے لگایا جا سکتاہے۔جس کے حتمی نتائج مرتب کرنے میں پورے10 برس کا عرصہ لگ گیا تھا۔ مردم شماری کے صبر آزما اور وقت طلب کام کو سہل اور تیز رفتار بنانے کے لیئے امریکا میں مردم شماری کروانے کے ذمہ دار، ادارے کے اعلیٰ عہدیداران نے اپنے ہی دفتر میں کام کرنے والے ایک اہلکار ”ہر من ہولر یتھ“کی ایجاد کردہ ”الیکٹرک ٹیبلٹنگ سسٹم“کو مردم شماری کے لیئے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ یوں 1890 میں امریکا میں ہونے والی مردم شماری اِس لحاظ سے منفرد اور قابل ذکر کاوش تھی کہ اِس نے دنیا میں پہلی بار مردم شماری کے پورے عمل کو جدت سے روشناس کروایا۔
کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون او ر دیگر جدید آلات کی مدد سے خانہ و مردم شماری کی سرگرمی کو انجام دینے کے عمل کو ہی ”ڈیجیٹل مردم شماری“ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ دنیا کے اکثر ممالک طویل عرصے سے مردم شماری کے روایتی اور پرانے طریقہ کار کو ترک کرکے ڈیجیٹل مردم شماری کے مؤثر نظام کو اپنا چکے ہیں۔ مگر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں رواں ہفتہ پہلی بار، ڈیجیٹل مردم شماری کا انعقاد کیا جارہاہے۔ واضح رہے کہ مردم شماری کے پرانے طریقہ کار میں ریاست کا پیسہ بھی بہت لگتا تھا اوراُس کے نتائج کو مرتب کرنے میں وقت بھی بہت زیادہ درکار ہوتا تھا۔مثال کے طور پر ماضی میں ہونے والی ہرخانہ و مردم شماری کے لیئے حکومت کو بڑے پیمانے پر سوالنامے چھپوانے پڑتے تھے، اسٹیشنری خریدنا پڑتی تھی اور پھر اِس سارے ساز و سامان کو محفوظ رکھنے کے لیئے بڑے بڑے ہال نما کمروں میں جگہ بنانا پڑتی تھی۔ جبکہ گھر گھر جاکرخانہ و مردم شماری کرنے والے اہلکاروں کو پینسل، ربڑ، پین، پیپرز،فائلیں،کلپ بورڈ اور اسٹیشنری کا بہت سارا دوسرا سامان بھی مہیا کرنا پڑتا تھا۔ روایتی طریقہ کار کے تحت کی جانے والی مردم شماری کا سب سے مشکل اور متنازعہ مرحلہ، ہاتھ کی لکھائی سے بھرے ہوئے فارم کو پڑھنا ہوتاہے۔ بعض اوقات تو لکھائی اِس قدر شکستہ اور بدخطی کا نمونہ ہوتی تھی کہ نتائج مرتب کرنے والوں کے لیئے”لکھے مُو سا اور پڑھے خود آ“ محاورے والامعاملہ بن جاتاتھا۔
اُمید ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کروانے سے مذکورہ تمام مسائل سے حکومت وقت کی جان خلاصی ہوجائے گی۔نیز مردم و خانہ شماری کے درمیان کوائف کو جمع کرنے میں وقت بھی کم خرچ ہوگا۔جبکہ غیر ضروری اسٹیشنری،سامان کی نقل و حمل کے لیئے درکار مہنگی ٹرانسپورٹ اور فارموں کے بھاری بھرکم پلندوں کو محفوظ رکھنے کے لیئے عمارتوں کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی اخرجات میں بھی نمایا ں کمی آئے گی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کاغذ کے بجائے کمپیوٹرائزڈ طریقے سے لوگوں کے کوائف جمع کرنے سے کسی سہو یا غلطی کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہی رہ جائے گا۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیادی پر ”اکنامک ڈیٹا“ مرتب کرنے والوں کو ہوگا۔ جبکہ درست اقتصادی اعدادو شمار سے اُبھر کر آنے والی قومی آبادی کی تصویر کو پیش نظر رکھ کر حکومت مستقبل کے لیئے بہتر،موثر اور جامع منصوبہ بندی وضع کرسکے گی۔
ڈیجیٹل مردم شماری کے چند منفرد پہلو
ملک میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم و خانہ شماری کا اہم ترین جزو،12 لاکھ 6 ہزار جدید ٹیبلیٹس اور اُس میں کوائف کے اندراج کے لیئے انسٹال کیا گیا خاص سافٹ وئیر ہے۔ یاد رہے کہ مردم و خانہ شماری کو دیجیٹل خطو ط پر استوار کرنے کے لیئے مہیا کئے گئے تمام جدید ٹیبلیٹس کی اسمبلگنگ او ر سافٹ وئیر کی تیاری کا تمام تر عمل نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)نے مقامی طور پر انجام دیا ہے۔ نیز نادرا نے ڈیجیٹل مردم شماری میں حصہ لینے والے 90 ہزار سے زائد اہل کاروں کو ٹیبلٹ چلانے اور سافٹ وئیر پر کوائف کے اندراج کرنے کے لیئے تربیت کا انتہائی مشکل دکھائی دینے والا غیر معمولی کام، اپنے 100 انتہائی تربیت یافتہ ماہرین کی ٹیم کی مدد سے ملک کے 932 مختلف مقامات پر صرف 9 روز میں کامیابی کے ساتھ مکمل کر کے فقید المثال کارنامہ انجام دیا ہے۔ یعنی نادرا کی قابل ٹیم نے کاغذ کے بجائے فقط چند کلکس کی مدد سے مردم شماری کرنے والے حکومت کے جانب نامزد کردہ، تربیت یافتہ شمارکنندگان خاص طریقہ کار کے تحت گھرگھر جاکر اعداوشمار جمع کرنے کے قابل بنادیئے گئے ہیں۔ دوسری جانب جدید ٹیبلیٹ میں انسٹال سافٹ ویئر، اینڈروائڈ سسٹم پر بنایا گیا ہے۔جو ایک کلک پر فارم اسکرین پر ظاہر کردے گا۔جس پر خاص چیکس لگے ہوئے ہیں اور یہ سافٹ وئیر گوگل جی پی ایس سسٹم سے بھی منسلک ہوگا۔ جس کی براہ راست نگرانی،پاکستان ادارہ شماریات کے قائم کیئے گئے مرکزی کنٹرول روم میں ماہرین کی ایک ٹیم کررہی ہوگی۔ بظاہر مردم شماری کے عمل میں غلط اندراج کرنا کافی حد تک ناممکن بنادیا ہے۔ علاوہ ازیں نادرا نے آن لائن ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے ایک خود شماری (Self-Enumeration) پورٹل بھی بنایا ہے۔جس کا لنک صرف پاکستان ادارہ شماریا ت کی آفیشل ویب سائٹ پر مہیا کیا گیا ہے۔جہاں شہری اپنی معلومات کا از خود آن لائن اندراج بھی کرسکیں گے۔مگر یہ لنک صرف 20 فروری سے 3 مارچ تک ہی فعال رہے گا اور اِس آن لائن پورٹل پر مہیا کی گئی معلومات کے اندراج کی یہ خصوصی سہولت آپشنل ہے۔
ساتویں خانہ ومردم شماری کیسے ہوگی؟
پاکستان کی ساتویں خانہ و مردم شماری کو ماضی سے مختلف اور جامع بنانے کے لئے جو 3 بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں یا اصلاحات کی گئی ہیں اُن کے مطابق اوّل،مردم شماری کے کوائف ڈیجیٹل آلات کی مدد سے موقع پر (گوگل میپ کی وساطت سے) محفوظ کئے جائیں گے اور اِس مقصد کے لئے ”ایک لاکھ چھبیس ہزار“ ٹیبلٹس تربیت یافتہ اہلکاروں کو فراہم کردیئے گئے ہیں۔دوم، مردم شماری کے عمل میں غیرملکیوں کو بھی شمار کیا جائے گا اور سوم، مردم شماری کے ساتھ کسی فرد یا خاندان کے اقتصادی کوائف (اکنامک ڈیٹا) بھی جمع کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ خانہ و مردم شماری کرنے کے 2 معروف طریقے ہوتے ہیں۔ ایک کو’’ڈی جور“ (De-jure)اور دوسرے طریقہ کار کو’’ڈی فیکٹو“ (De-fecto) کہا جاتا ہے۔ اِس مرتبہ ملک بھر میں مردم شماری ”ڈی جور‘‘ طریقے کے مطابق کی جارہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عرصہ 6 ماہ سے جہاں مقیم ہوگا اُسے وہیں پر شمار کرلیا جائے گا۔ یوں اندازوں اور تخمینوں پر مبنی مردم شماری نہیں کی جارہی اور یہ طریقہ ملک میں چھوٹی قومیتوں کے دیرینہ مطالبہ سے عین مطابقت رکھتاہے۔مثال کے طور پر اگر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے سلسلے میں کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں یا پھر تھرپارکر وچترال جیسے کسی دورافتادہ علاقہ میں رہائش پذیر ہے تو اُسے بطور ایک اکائی ہزارہ برادری میں ہی شمار کیاجائے گا۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی بدولت،ماضی میں ہونے والی مردم شماری کی بہ نسبت کسی بھی علاقے میں آبادی کی زیادہ درست تعداد اور زیادہ جامع تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ جس سے ریاستی اداروں کو وطن عزیز کو درپیش مختلف النوع معاشی مسائل کو حل کرنے کے علاوہ سیاسی و انتخابی منصوبہ بندی بہتر انداز میں کرنے میں مدد ملے گی۔
ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پر قومی اتفاق رائے ممکن ہوسکے گا؟
یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے،سرِ دست جس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔کیونکہ وطن عزیز پاکستان میں مختلف ادوار میں 6 بار خانہ و مردم شماری کا عمل دہرایا جاچکا ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہر مردم شماری کے نتائج کم یازیادہ مختلف اعتراضات کی زَد میں ہی رہے ہیں۔اگرچہ مردم شماری کی اہمیت و افادیت کو ملک کی ہر سیاسی جماعت کی قیادت بسرو چشم قبول کرتی ہے۔مگر جب مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرنے کی باری آتی ہے تو پھر سب سے زیادہ شکوے و شکایات کے انبار بھی سیاسی جماعتوں کی جانب ہی سے لگائے جاتے ہیں۔ کبھی ایک سیاسی جماعت مردم شماری کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمارے لوگوں کی گنتی درست نہیں کی گئی تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کو اعتراض ہوجاتاہے کہ ہمارے علاقوں کی آباد ی کو جان بوجھ کر کم کر کے دکھایا گیا ہے۔المیہ ملاحظہ ہو کہ پورے 19 سال کے طویل عرصہ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر اور افواج پاکستان کی نگرانی میں ہونے والی گزشتہ خانہ و مردم شماری بھی ہماری سیاسی قیادت کی نظر میں سندِ قبولیت نہ حاصل کرسکی تھی۔بلاشبہ تیکنیکی طور پر تو ڈیجیٹل مردم شماری کاطریقہ کار نہ صرف ہر قسم کی خامیوں، بے قاعدگیوں اور اغلاط سے مکمل طور پر مبرا ہے، بلکہ دنیا بھر میں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے اعدادوشمار کوبالکل درست بھی تسلیم کیا جاتاہے۔ لیکن کیا ہماری تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنے بعض وقتی سیاسی مفادات سے دست کش ہوکر ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو ملک کے وسیع تر مفادات میں من و عن تسلم کرلیں گی؟۔فی الحال پوری قوم کو اپنی سیاسی قیادت خوش اُمیدی تو یہ ہی رکھنی چاہیے کہ جی ہاں! ملکی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پر قومی اتفاق رائے کرلیا جائے گا۔
ڈیجیٹل مردم شماری اور اگلے قومی انتخابات
اگر 2023 ملک میں قومی انتخابات کے انعقاد کا سال ہے تو پھریہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیانئے قومی انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کی نتائج کی روشنی میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر منعقد کیئے جائیں گے؟۔ بادی النظر میں ایسا ہونا بالکل ممکن دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ ڈیجیٹل مردم شماری میں فیلڈ ورک مارچ کے اختتامی ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔جس کے بعد جمع شدہ اکنامک ڈیٹا کی تصدیق کا مرحلہ درپیش ہوگا اور بلاک ڈیٹا کی مکمل تصدیق میں 2 سے 3 ہفتے لگ سکتے ہیں۔ جس کے بعد ڈیجیٹل مردم شماری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو منظوری کے لیئے مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش کیا جائے۔اگر وہاں سے ڈیجیٹل مرد شماری کے اقتصادی اعدادوشمار کے فور ی منظوری کا حتمی نوٹی فیکیشن جاری ہوجاتاہے تو اگلے چند ماہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان بہت آسانی سے ملک بھر میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے عمل کو مکمل کرسکتاہے۔ اگر بالفرض محال ڈیجیٹل مردم شماری کا حتمی نوٹی فی کیشن جاری ہونے میں غیر ضروری تاخیر ہوجاتی ہے تو پھر اگلے قومی انتخابات گزشتہ مردم شماری کی بنیاد پر ہوہی منعقد ہوں گے۔ کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 51(5) کہتا ہے کہ ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کو قومی اسمبلی کی نشستیں آخری منظور شدہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کے مطابق آبادی کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 26 فروری 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023