صائمہ نے دستر خان پر سجائے گئے انواع اقسام کے کھانوں پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر اطمینان کی گہری سانس لی۔کیونکہ اُس نے دستر خوان پر ہروہ کھانا پورے سلیقے سے چُن دیا تھا،جو اُس کی ہردلعزیز خالہ جان کو پسند تھا۔ صائمہ نے دل ہی دل میں سوچا”کیوں نہ اَب خالہ جان سے دستر خوان پر آکر کھانا کھانے کی درخواست کی جائے،ویسے بھی خالہ جان، حیدرآباد سے تقریباً 2گھنٹے کا طویل سفر کرکے کراچی اُن کے گھر پہنچی ہیں۔اگر وہ وقت پر کھانا تناول کرلیں گی تودوپہر سے شام تک اُنہیں اپنی کمر سیدھی کرکے آرام کرنے کا اچھا خاصا وقت بھی مل جائے گا۔ یہ خیال آتے ہی صائمہ فوری طور پر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھی جہاں اُس کی امی اور خالہ ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں مگن تھی۔
”خالہ جان، دسترخوان تیار ہے، آئیں ہمارے ساتھ۔۔۔“۔ ابھی صائمہ نے اپنی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ خالہ جان نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے انتہائی پیار سے کہا”بیٹی! میرا تو روزہ ہے،اس لیئے آپ سب بے شک کھاناکھالو اور جو کچھ میرے لیئے تم نے پیارسے بنایا ہے، وہ سب میں اپنا روزہ افطار کرنے کے بعد کھالوں گی“۔
”مگر خالہ جان ابھی تو رمضان کا آغاز ہونے میں پورے تین دن باقی ہیں“۔ صائمہ نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”پیاری بیٹی! میں ”استقبال ِ رمضان“ کی نیت سے ماہِ شعبان کے روزے رکھ رہی ہوں“۔ خالہ نے مسکرتے ہوئے صائمہ کو اپنے قریب بٹھاتے ہوئے پیار سے جواب دیا۔
”خالہ جان! ماہِ صیام کے آغازسے پہلے ”استقبال ِ رمضان“ یہ کیا ہوتاہے؟“۔صائمہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
”صائمہ بیٹی! ”استقبال ِ رمضان“ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ سلم کی بہت ہی خوب صورت اور دلکش سنت ہے۔اِس کی تمام تفصیلات میں افطار کے بعد تمہیں بتاؤں گی۔کیونکہ ابھی نمازِ ظہر کاو قت نکلتا جارہاہے“۔ خالہ جان نے پیار سے صائمہ کا ماتھا چوما اور اُسے ”استقبالِ رمضان“ کے حوالے سے کئی سوالات میں غلطاں و پیچاں چھوڑ کر اپنا وضو تازہ کرنے کے لیئے ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئیں۔
”استقبال ِ رمضان“ سے کیا مراد ہے؟
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روحانی برکتوں اور سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیئے ماہِ صیام کا آغاز ہونے سے قبل اپنے آپ کو ذہنی، نفسیاتی،جسمانی اور روحانی طورپر بھرپور اندا ز میں تیار کرنے کی مؤثر شعوری کوشش کرنے کا نام”استقبال رمضان“ہے۔یا د رہے کہ ہمیشہ سے ہی اسلامی معاشرے میں ”استقبال رمضان“کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگر ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انہماک کے ساتھ مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی کریم، سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہلالِ صیام نظر آنے سے کئی ہفتے پہلے ہی بعض معمولات کو اختیار کر کے ”استقبال ِ رمضان“ کا نہ صرف خصوصی اہتمام فرماتے بلکہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ بھی ”استقبال ِ رمضان“ کی جانب بطورِ خاص مبذول فرمایا کرتے تھے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار ماہ شعبان کے آخری ایام میں انتہائی مسرت اور خوشی کے عالم میں ماہِ صیام کا استقبال کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت فرمایاکہ ”کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟“۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض بارگاہِ رسالت میں عرض کیاکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حیرت و استعجاب کے عالم میں سوال کیاکہ پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی میں تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔“۔(الترغیب والترہیب، 2: 64، رقم: 1502)۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان سے انتہائی محبت فرماتے تھے اور اکثر اِسے پانے کی دُعا ئیں بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک حدیث نبوی ؐمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے: اَللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ۔ترجمہ ”اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور (بالخصوص) ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے“۔(مسند احمد، 1: 259)۔جبکہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جس قدر آپ ماہِ شعبان کے ایّام میں (نفلی) روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یہ ایک ایسا(متبرک) مہینہ ہے جو، رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور(اکثر) لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں۔ حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) اعمال اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیئے جاتے ہیں لہٰذا، میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال، روزہ دار ہونے کی حالت میں (آسمانوں کی جانب) اُٹھائے جائیں“۔ (نسائی، السنن، کتاب الصیام، 4: 201، رقم: 2357)۔ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک مہینے میں مسلسل روزے رکھتے (یہاں تک)کہ وہ رمضان المبارک کے روز وں سے مل جاتے۔(نسائی، السنن، کتاب الصیام، 4: 150)۔ متذکرہ بالااحادیث کے روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ”استقبال ِ رمضان“ روزے داروں کے لیئے ایک انتہائی مفید عملِ خیر ہے۔زیرِ نظر مضمون میں ”استقبال ِ رمضان“ کے حوالے چند مفید نکات پیش خدمت ہیں۔
ضروری شرعی مسائل سیکھیں اور سکھائیں
روزہ کے مسائل مثلاً شریعت میں روزہ دار کے لیئے روزہ کی حالت میں کن کاموں کی ممانعت ہے؟یا کن اُمور کے انجام دینے سے روزہ فاسد یا مکروہ ہو سکتاہے۔یہ ایسے ضروری دینی مسائل ہیں۔جنہیں ماہِ رمضان کی آمد سے قبل ہی ہر مسلمان کو سیکھ لینا چاہیے۔ تاکہ ہمیں حالتِ روزہ میں کسی تذبذب اور ذہنی تشکیک وغیرہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز اپنی عبادات کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور نتیجہ خیز بنانے کے لیئے فرض،سنت اور نفل نمازوں کی درست ادائیگی سے متعلق تمام تر دینی احکامات کے علاوہ صلوۃ التراویح، نفل اور مسنون اعتکاف کے جملہ شرعی مسائل بھی رمضان کریم کا آغاز ہونے سے پہلے ہی جان لینے چاہیئے۔ جیسا کہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں مالی حقوق جیسے زکوۃ، عشر، صدقہ فطر، وغیرہ کی ادائیگی کا بھی اہتمام کیا جاتاہے۔لہٰذا زکوۃ و عشر کے مصارف اور صدقہ فطر کا نصاب وغیرہ کے بارے میں بھی تمام توجہ طلب اُمور کا حساب کتاب ماہ شعبان کے آخری ایّام میں ہی نمٹا لیا جائے تو زیادہ اچھی بات ہے۔ تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عائد کردہ مالی حقوق کی ادائیگی میں غیر ضروری تاخیر کا سامنا نہ کرنے پڑے اور آپ کی بروقت ادا کی گئی زکوۃ و عشر وغیرہ سے ضرورت مند غریب و مساکین کو مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیئے عید تک انتظار کی زحمت برداشت نہ کرنی پڑے۔
عبادات کے لیئے نظام الاوقات ترتیب دیں
رمضان المبارک اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے اور خوش الحانی کے ساتھ مناجات کرنے کا مہینہ ہے۔لہٰذا، خوش قسمت لوگ اِس ماہِ سعید میں عبادات اور تلاوت قرآن پاک کی کثرت کو اپناروزمرہ کا معمول بنالیتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسے ہی افراد کی فہرست میں اپنا نام شامل کروانا چاہتے ہیں تو ابھی سے فرض،سنت اور نفل نمازوں کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا شروع کردیں۔ تاکہ رمضان کے متبرک مہینہ میں آپ کو کثرت سے تلاوت قرآن پاک اور عبادات کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔نیزاگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے گزشتہ برس کے کچھ فرض روزے چھوٹ گئے تھے تو ماہِ شعبان کے آخری ایّام میں اَب بہت اچھا موقع ہے کہ اُن روزوں کی قضا کرلی جائے۔اس طرح رمضان شروع ہونے سے قبل جہاں گزشتہ فرض روزوں کا حساب بے باق ہوجائے گا،وہیں روزے رکھنے کی اچھی خاصی ذہنی، جسمانی اور روحانی مشق بھی ہوجائے گی۔جبکہ قرآن کریم کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی ابھی سے یاد کرنا شروع کردیں تاکہ ماہِ صیام میں عبادات کے دوران انہیں پڑھا جاسکے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو صرف دو، چار سورتیں ہی بمشکل یاد ہوتی ہیں اور انہی کو وہ اپنی عبادات میں باربار دہراتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ ایک مثالی طرزِ عمل ہرگز نہیں ہے۔ نیز ماہ شعبان کے آخری ایّام میں اپنا نظام الاوقات بھی مرتب کریں۔ جس میں نماز تہجد، نماز فجراور تلاوت کلام پاک سے لے کر ذکر اذکار اور مسنون دعاؤں کے لیئے بھی مناسب وقت اس طرح تقسیم کیا جائے کہ عبادت الٰہی کے ساتھ ساتھ جسمانی آرام کی بھی رعایت حاصل رہے۔عموما ً اکثر نوجوان یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اُن کا دل مسجد میں نہیں لگتا، اس کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ ابھی سے مسجد میں باجماعت فرض نمازوں کی ادئیگی کے بعد کچھ دیر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے ٹھہرکر ذکرا ذکارکرنے کی عادات بنالیں۔ تاکہ جو لوگ معتکف ہونے کی نیت رکھتے ہیں اُن کے لیئے ماہِ رمضان کے آخری عشرے کے مسنون اعتکاف میں بیٹھنا آسان ہو جائے۔ یاد رہے کہ ماہ ِ صیام دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ بھی ہے، لہذا ابھی سے اپنے آپ کو لمبی دعاؤں کا عادی بنائیں اور کوشش کرکے ماہِ رمضان کے آغاز سے قبل ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چند اچھی اچھی مسنون دعائیں زبانی یاد کرلیں۔اکثر محدثین نے لکھا ہے کہ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی اور اُں کی قبولیت کا امکان بھی بہت ہوتا ہے۔
شب بیداری کے لئے نیند کم کریں
ماہِ صیام میں سحری کھانے کی اہمیت، فضیلت اور اس کے فیوض و برکات کا تذکرہ کتبِ احادیث میں کثرت سے بیان ہوا۔ جبکہ اچھی اور بھرپور سحری روزے دار کے لیئے جسمانی تقویت کا باعث بھی بنتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہتمام کے ساتھ روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ”سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے“۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام، 2: 770)۔جبکہ ایک دوسری حدیث میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے“۔(صحیح مسلم کتاب الصیام، 2: 771)۔واضح رہے کہ سحری کھانے یا اُس کی تیاری کے لیئے ہشاش بشاش بیدا رہونے کا تمام تر دارومدار بروقت سونے پر ہے۔جبکہ رمضان میں شب بیداری کی جملہ عبادات مثلاً نماز تراویح و تہجد وغیرہ کو بہ احسن و خوبی اور بلاتھکاؤٹ انجام دینے کے لیئے بھی ضروری ہے کہ ماہِ صیام کے آغاز سے چند روز قبل ہی دوست احباب کی فضول مجالس اور رات دیر تک جاری رہنے والی سرگرمیوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرلی جائے یا اَن کا دورانیہ آہستہ آہستہ کم سے کم کردیا جائے۔نیز اگر آپ 8گھنٹے سونے کے عادی ہیں تو6 گھنٹے سونے کی عادت ڈالیں تاکہ رمضان میں شب بیداریوں اور نفلی عبادات کا اہتمام کرنے میں کسی بھی کسی قسم کی سستی یا دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اپنے دل کو روحانی آلودگی سے صاف کریں
جس طرح ایک کسان اچھی اور زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیئے سب سے پہلے اپنی زرعی زمین کو خودرو اُگنے والے جھاڑ جھنکار سے اچھی طرح صاف کرکے قابل کاشت بناتاہے بلکہ اسی مثال کے مصداق ہر مسلمان کو ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اپنے دل کی زمین پر اُگی ہوئیں نفرت،کینہ،بغض اور حسد کی کانٹے دار جھاڑیوں کو اُکھاڑ پھینک کر صاف کردینا چاہیے۔تاکہ رمضان المبارک میں اُس کے دل کی زمین پر تقوی و پرہیز گاری کی خوب اچھی فصل کاشت ہوسکے۔ یاد رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن حکیم فرقانِ حمید میں رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت کا اہم ترین مقصد، تقوی وپرہیز گاری کا حصول ہی بتایا ہے۔ لہٰذا، ماہِ صیام کا آغاز ہونے سے پہلے اپنے سب ناراض دوستوں کو منالیں اور جن سے آپ ناراض ہیں اُن سب کو بھی خلوص دل سے معاف کردیں اور کسی شخص کے متعلق بھی ذراسا بھی بغض و کینہ اپنے دل کے نہاں خانے میں پوشیدہ نہ رکھیں۔ حدیث مبارک میں روایت ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ دل کے صاف ہونے سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایاکہ وہ متقی اور صاف ستھرا دل جس میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت، نہ ہی اس کے دل میں کسی کا کینہ ہو اور نہ کسی کے بارے میں حسد“۔(سنن ابن ماجہ)۔جبکہ جن رشتہ دارں سے آپ کسی بھی وجہ تنازع کے باعث قطع تعلق کیئے ہوئے ہیں،اُن سے بھی فوری طور پر اپنے روابط از سر نواستوار کرلیں۔کیونکہ قطع رحمی کرنا یعنی اپنے خونی رشتے دار سے ناطے توڑنا بہت بڑا گناہ ہے اور قطع رحمی کرنے والے کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، لہذا رمضان آنے سے قبل اس سنگین گناہ سے توبہ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا آغاز کریں۔ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ”اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی یعنی رشتے ناطے توڑنے کا معاملہ کیا جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے“۔(بخاری شریف)
بُری عادات ترک کریں، اچھی عادات اپنائیں
اگر ہم سگریٹ، نسوار،پان،گٹکا اورمین پوری کو نشہ آور اشیاء نہ بھی کہیں تب بھی انہیں عاداتِ قبیح کی ذیل میں تو شمار کیا ہی جاسکتاہے۔ کیونکہ مذکورہ اشیاء میں سے کسی ایک کے بھی عادی افراد کو بہت دیر تک اُن کی پسندیدہ چیز مہیا نہ کی جائے تو اُن کے سر میں درد ہونا شروع ہوجاتاہے، جسم ٹوٹنے لگتا ہے اور وقت گزارنا مشکل ہوجاتاہے۔ بعض لوگ صرف اِس لیئے روزہ نہیں رکھتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سگریٹ،نسوار،پان، گٹکا اور مین پوری کے بغیر وہ پورا دن نہیں گزار سکتے۔ شریعت مطہرہ کے نزدیک اُن کا یہ جواز یا بہانہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔کیونکہ اگر انسان اپنی قوت ِ ارادی کو بروئے لائے اور اللہ تعالیٰ سے ہمت، حوصلہ اور مدد کا خواست گار ہوتو باآسانی مذکورہ نشہ آور اشیاء کی علت سے اپنی جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ یعنی اگر ماہِ رمضان سے چند روز قبل سگریٹ، نسوار، پان و دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال انتہائی کم اور محدود کردیا جائے تو قوی اُمید ہے کہ روزے کی حالت میں مذکورہ اشیاء کے عادی شخص کو کسی بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااور عین ممکن ہے کہ ماہِ صیام میں نشہ آور اشیاء سے دور رہنے کی عادت و برکت سے اِن علتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نجات مل جائے۔ نیز ماہِ شعبان کے آخری ایّام میں ہر شخص کو اپنے طرزِ خورو نوش پر نظرثانی بھی ضرور کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اپنی غذا میں سبزی، پھل اور کھجور کا استعمال زیادہ رکھیں اور تھوڑی بھوک رکھ کر کھائیں۔تاکہ رمضان کے آغاز تک آپ کم کھانے کے عادی بن جائیں اور زیادہ کھانے کی عادت، بد ہضمی اور سستی عبادات میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
رمضان سے پہلے پہلے خریداری کرلیں
ماہِ صیام میں ملک کے ہر قریہ اور شہر میں شاہراؤں پر ٹریفک کا رَش اور بازاروں میں لوگوں اژدھام دیکھ کرمحسوس ہوتاہے کہ یہ مقدس مہینہ عبادات کا نہیں بلکہ شاید شاپنگ و خریداری کرنے کا مہینہ ہے۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ ہر شخص جانتاہے کہ رمضان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بے پناہ طلب کی وجہ سے آسمانوں سے باتیں کرنا لگتی ہیں لیکن اِس کے باوجود ہم سب نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے خریداری رمضان شروع ہونے کے بعد ہی کرنی ہے۔ حالانکہ اگر تھوڑی سی منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے کام لیا جائے تو بہت سے اُمور ایسے ہیں،جنہیں باآسانی ماہِ شعبان کے آخری ایّام میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً گھر میں کوئی تعمیراتی یا رنگ وروغن کا کام کروانا ہو،خراب مشین کومرمت کی ضرورت ہو، گاڑی یا سواری کی کسی خرابی کو درست کروانا ہوتو یہ سب ایسے کام ہیں۔جنہیں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے پہلے باآسانی نمٹایا جاسکتاہے۔ نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ جن خاندانوں کو مالی کشادگی عطا فرمائی ہے وہ اگر چاہیں تو رمضان سے قبل ہی عید کی شاپنگ بھی مکمل کرسکتے ہیں۔ جبکہ گھروں،دفاتر اور کارخانوں میں کام کرنے والے ملازمین سے زیادہ محنت طلب اور مشکل کام ماہِ صیام سے پہلے ہی مکمل کروالیں۔تاکہ روزے کی حالت میں ملازمین پر کام کا بوجھ ہلکا رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ”جو شخص رمضان کے مہینے میں اپنے غلام (خادم،ملازم) کے بوجھ کو ہلکا کردے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں، اور اسے آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔(مشکوۃشریف)
ماہ رمضان کے لیے ایک خاص ہدف متعین کریں
جی ہاں! ماہ صیام کی آمد سے پہلے پہلے کسی بھی ایک ایسے خاص ہدف ضرور تعین کریں جو آپ کے آنے والے ماہِ رمضان کو گزشتہ ہر ماہِ صیام سے ممتاز اور منفرد بنادے۔آپ کا یہ ہدف عبادات کے حوالے سے بھی ہوسکتاہے اور معاملات سے متعلق بھی۔ مثال کے طور پر آپ نے ناظرہ قرآن مکمل کیا ہوا ہے تو حالیہ رمضان میں چند سورتوں کو زبانی حفظ کرنے کی نیت کرلیں۔ اگر آپ حافظ قرآن ہیں تو کلامِ الہیٰ کی شرح و تفسیر پڑھنے کی ترتیب بنالیں۔ جبکہ نماز پنجگانہ کے پابند خواتین و حضرات نمازِ تہجد کی پابندی کو اپنا ہدف قرار دے دیں۔ اس کے علاوہ اپنے آس پڑوس میں موجود کسی یتیم کی کفالت کی ذمہ داری لے لیں۔ محلے میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے تو واٹر فلٹر پلانٹ یا بورنگ کا نلکہ لگوادیں۔ کسی غریب مستحق طالب علم کو اگلے رمضان تک ماہانہ فیس اور یونیفارم مہیا کرنے کا اپنے رب سے وعدہ کرلیں یا کسی غریب لڑکی کی رخصتی کے اخراجات کا بندوبست کردیں۔ یعنی رواں ماہ صیام اپنے مالی وسائل، علمی استعداد اور ذہنی رجحان کے مطابق کوئی بھی صرف ایک ایسا کام کرنے کا ہدف طے کرلیں جو آپ نے کبھی ماضی میں نہ کیا ہو۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے میگزین میں 19 مارچ 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023