Quran

قرآن مجید کے مسلمانوں پر حقوق

اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتاہے کہ ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی(کتاب) ہے“۔(سورۃالبقرہ،185)۔بے شمار علمائے سلف اور فقہاء کرام کی رائے یہ ہے قرآن مجید کی حقیقی تعریف و توصیف کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔مگر پھر بھی مفسرین نے محدود انسانی عقل اور خام علم سے قرآن مجید کی ایک جامع تعریف کرنے کی عاجزانہ کاوش کی ذیل میں لکھا ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام ہے۔ غیر مخلوق ہے۔لاحاصل گفتگو سے خالی ہے۔ اس کے ظاہری الفاظ اپنا خاص معنی و مفہوم رکھتے ہیں،یہ انسانی عقل کو عاجز کر دینے والا کلام ہے۔ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر روح الامین حضرت جبرائیل کے ذریعے نازل ہوا،یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے۔ جس کی تلاوت کو عبادت جانا گیا ہے۔ اور جسے اہل ِ ایمان نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور پورے خشوع خضوع کے ساتھ اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہے۔

جبکہ ایک حدیث مبارکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار خود صاحب قرآن نے کتاب ِ ہدایت کا تعارف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”خبردار رہنا! عنقریب فتنے اٹھیں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ کی کتاب(کی مدد) سے۔ جس میں تم سے پہلے جو کچھ ہوا اس کی خبریں ہیں اور جو بعد میں ہوگا اس کی بھی اطلاعات ہیں، جو تمہارے مابین اختلاف ہوگا اس کا فیصلہ بھی ہے۔یہ(ایک) فیصل کتاب ہے(کوئی) مذاق (کی بات)نہیں ہے۔ جو مغرور (شخص)اسے چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اسے توڑ کر رکھ دے گا۔ جس نے اس کے علاوہ کہیں اور سے راہنمائی (طلب)کی اسے اللہ بھٹکا دے گا۔یہ قرآن اللہ کی بڑی مضبوط رسی ہے اور بڑا حکیمانہ ذکر ہے۔ یہ ہی صراط مستقیم ہے۔ یہ ہی (وہ) قرآن ہے جس سے(انسانی) خواہشات کبھی نہیں بہکتیں نہ ہی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں، علماء اس سے کبھی سیراب نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ بار بار پڑھنے سے پرانا لگتا ہے۔اس کے عجائبات نہ ختم ہونے والے ہیں۔ یہ وہی قرآن ہے جسے سن کرجن نہ رک سکے اور پکار اٹھے”بلاشبہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راستی کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لائے“(سورہ الجن) جس نے اس قرآن کے مطابق بات کہی اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے کہے پر عمل کیا اس نے اجر پایا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ دیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اسے صراط مستقیم کی راہ دکھا دی گئی۔(سنن ترمذی،باب فضائل القرآن،6092)

قرآن مجید کے چھ حقوق
ہر کتاب کا ایک موضوع ہوتاہے اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید کو جمیع انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔لہٰذا، اکثر اکابر علمائے کرام نے قرآن کا موضوع انسان کو قرارد یا ہے۔یعنی اگر انسان اپنی زندگی کو تعلیمات قرآنی کے مطابق ڈھال لے تو نہ صرف اِس دنیا میں اُسے کامیابی و کامرانی میسر آئے گی بلکہ اِس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد وہ اُخرو ی زندگی میں بھی ہمیشگی فلاح پالے گا۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں انسانی کے زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں رشدو ہدایت کے رہنما اسباق و احکام موجود ہے۔مثال کے طور پر جہاں کلام الٰہی میں انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت اور آخرت کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،وہیں اس کتابِ رشد و ہدایت میں انسان کے ذمہ واجب الادا،حقوق اللہ،حقوق العباد، عائلی زندگی، یتیموں، غریبوں، مساکین سے سلوک، معاملات حکومت، تجارت و کاروبار غرض انسان کی ہدایت کے لیے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔مگر قرآن مجید فرقان حمید میں بیان کردہ اسباق و احکامات سے فقط وہ ہی صاحبِ ایمان صحیح معنوں میں مستفید ہوسکتاہے۔ جو اس کے حقوق ادا کرنے کا عہد کرتاہے۔ جی ہاں! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں ہی ہر مسلمان مر د،عورت کو قرآن مجید کے پانچ حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

پہلا حق،قرآن حکیم پر ایمان لانا
قرآن مجید کا سب سے پہلا حق یہ کہ اس بات پر صدق دل کے ساتھ ایمان لایا جائے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی آسمانی کتاب ہے، جسے انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے اور اس کلام میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید سمیت تمام سابقہ الہامی کتب و صحائف کی تصدیق کرنا بھی ارکان ایمان میں سے ایک بنیادی رُکن ہے۔جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ ”اے ایمان والو! اللہ پر اس کے رسول پر اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اُتاری ایمان لاؤ اور اُن کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کی گئی ہیں“۔(سورۃ النساء، 136)۔ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ دین کی بنیاد پانچ باتوں پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنے پر ایمان قبول نہیں کرتا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توحید کا صدق دل سے اقرار کرنا، اِس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی کے فرشتوں پر، اس کی (سابقہ)کتابوں پر اور اس کے تمام(بھیجے گئے) رسولوں پر ایمان لانا۔(کنزالعمال،151)۔

دوسرا حق، قرآن کریم کی تلاوت کرنا
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم میں سے بعض افراد جنہوں نے اپنے دورِ طالب علمی میں ناظرہ قرآن کی تعلیم پائی تھی،وہ تلاوت قرآن پاک کو ایک طویل مدت ہوئی ترک کیئے ہوئے ہیں یا پھر شاذو نادر کسی مرگ، سوئم یا پھر چہلم کے موقع پر منعقدہ قرآن خوانی میں ایک دو سپارہ پڑھ لینے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارا یہ طرز عمل صریح گناہ ہے اور قرآن کریم کو چھوڑ دینے ذیل میں شمار ہوتاہے۔ ہماری اس دانستہ کوتاہی کی بابت آٹھویں صدی ہجری کے معروف محدث اور فقیہ حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ”الفوائد“ میں ”ہجرِ قرآن“ یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دینے، پس پشت ڈال دینے اور نظر انداز کر دینے کی عادت پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ کیسی عجیب سی صورت حال ہے کہ ہم یہ ایمان تو رکھتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام ہے مگر ہم پھر بھی تلاوتِ قرآن کے لیئے تھوڑا سا وقت نکالنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے۔کیا روزِ آخرت کسی تارکِ قرآن کا یہ دعوی قبول کیا جاسکے گا کہ وہ دنیا میں قرآن پاک پر حقیقی معنوں میں ایما ن رکھتاتھا“۔ قرآنِ کریم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے،اور فقط اُسی طرح تلاوت کی جائے جس طرح جبرئیل امین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قرآن کی تلاوت فرمائی تھی اور بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کو سکھائی تھی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ ”جب ہم(جبرئیل کے واسطے سے تمہارے سامنے) قرآن پڑھیں تو جس طرح وہ پڑھتے ہیں آپ بھی اسی طرح پڑھیں“۔(سورۃ القیامتہ، 81)۔قرآن پاک کو ترتیل کے ساتھ یعنی اچھی طرح ٹہر ٹہر کر پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ”پورا قرآن جلدی جلدی پڑھنے کے مقابلے میں میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں صرف سورہ البقرہ وآل عمران کی تلاوت کروں“۔ (تفسیر ابن عباسؓ)۔قرآنِ مجید کو درست پڑھنے کے لئے علمائے دین نے باقاعدہ تجوید کا علم ترتیب دیا ہے جس میں قرآنِ مجید کے حروف کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی زبان میں کل انتیس حروف ہیں۔صرف اِن کو ایک بار صحیح مخرج کے ساتھ ادا کرنے کا طریقہ سیکھ لیا جائے تو درست عربی قواعد کے مطابق باآسانی تلاوت قرآن کریم کی جا سکتی ہے۔اگر تھوڑی سے دلچسپی لی جائے تو یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں ہے۔

تیسرا حق، قرآن کو سمجھنا اور غوروفکر کرنا
قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کے مضامین پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پراس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل فہم اس سے نصیحت حاصل کریں“۔(سورۃ ص، 92)۔نیز ایک دوسرے مقام پر قرآن حکیم میں غور و فکر نہ کرنے والوں کی یوں مذمت فرمائی گئی ہے کہ ”کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگ ہوئے ہیں؟“۔(سورۃ محمد،42)۔مذکورہ آیات قرآنی سے معلوم ہوتاہے کہ نرول قرآن کابنیادی مقصد وحید یہ ہے کہ اس کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور ان سے نصیحت و رہنمائی حاصل کی جائے۔ایک حدیث مبارکہ میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے سمجھ کر پڑھنے پڑھانے اور(ایک دوسرے کے ساتھ)مکالمہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے سکون و اطمینان کا نزول ہوتا ہے، رحمت الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر خیر فرماتے ہیں“۔(صحیح مسلم، 2699)۔مذکورہ حدیث مبارکہ میں قابل غور نکتہ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر قسم کی فضیلت یعنی سکون و اطمینان کا نزول، رحمت الہی کا ڈھانپنا اور فرشتوں کے درمیان ذکر خیر یہ سب فقط ایسی تلاوت کے عوض میں قاری کو دیا جائے گا،جس میں قرآن کو سمجھنا اور غور و فکر کرنا بھی شامل ہو۔یہاں بعض لوگوں یہ مغالطہ لاحق ہوسکتا ہے کہ چونکہ قرآن حکیم میں غور وفکر کرنے کے لیے عربی ادب، علم لغت، علم التجوید اور علم تفسیر کاجاننا ازحد ضروری ہے۔لہٰذا، قرآنی آیات میں تفکر و تدبر کرنا صرف امام،مجتہداور علمائے دین کا ہی کام ہے۔ حالانکہ یہ ایک بالکل غلط طرز فکر ہے۔خاص طور پر دورِ جدیدمیں جب دنیا کی تقریباً ہر زبان میں قرآن کے تراجم اور تفاسیر دستیاب ہوں توہر مسلمان اپنے گھر میں کوئی مستند ترجمہ اور تفسیر رکھ کر اور گاہے گاہے اس کا مطالعہ کرکے پیغام قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرسکتاہے۔

چوتھا حق، قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا
چوتھا حق قرآن کریم کا یہ ہے کہ اس میں جو ہدایات و احکامات بھی اللہ رب العزت نے ہمیں دی ہیں ان کو اپنی زندگی میں من و عن نافذ کیا جائے۔ یعنی ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ قرآن مجید کے اس اہم ترین حق کو پوری طرح سے ادا کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے۔کیونکہ قرآن پڑھنے، سیکھنے اور سمجھنے کے بعداُس پر عمل پیراہونے کا ہی کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآن کریم مکمل ضابطہ حیات ہے اور اِس میں انسانی زندگی کی ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یا د رہے کہ کلام الٰہی وہ علم نہیں ہے، جس پر عمل نہ ہوسکے،قرآنی تعلیمات پر عمل کا یہ حکم نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا ہے، جن کی حیات طیبہ کل کائنات کے لیے نمونہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ ”اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق کہ جو اللہ نے(اپنی کتاب میں) نازل فرما یا تو ایسے ہی لوگ تو کافر ہیں“۔(سورۃ المائدہ)۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کے ذریعے مزید تفسیر و تشریح کرتے ہوئے فرمادیا ہے کہ”جو شخص بھی قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرائے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا“۔(ترمذی شریف)۔المیہ ملاحظہ ہو کہ قرآن کریم پر عمل کرنے کی جب بھی بات آتی ہے تو ہمیں یہ مرحلہ انتہائی دشوار اور سخت کٹھن لگتا ہے اور باربار ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ قرآن پر عمل کی شروعات کب، کیسے اور کہاں سے کی جائے؟۔

اس کے برعکس ختم قرآن ہمیں بہت سہل عمل لگتا ہے۔کیونکہ تلاوت کلام پاک ہم محض ثواب پانے اور نیکیاں جمع کرنے کے لیے کر رہے ہوتے ہیں، عمل کرنے کے لیے نہیں۔قرآنی تعلیمات پر اپنی روزمرہ زندگی میں عمل کرنے ایک سریع التاثیر نسخہ یہ ہے کہ جب بھی ہم باترجمہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے بیٹھیں تو ایک قلم اور نوٹ بک بھی اپنے پاس رکھ لیں۔مثال کے طور پر ہم سورۃ ابراہیم کی آیت7 پڑھتے ہیں، جس کا ترجمہ ہے ”اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا“ اب اس ترجمہ کو اپنی نوٹ بک میں درج کرلیں اورپھر دن میں اسے کئی بار کھول کر دیکھیں اور مذکورہ ترجمہ پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہر حال میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ چاہے کسی کام میں ناکامی ملے یا کامیابی حاصل ہو، کسی بات پر رنج ہو یا خوشی ہو، ہر نعمت ملنے پر، ہر اچھی خیر سنتے ہی الحمداللہ کہہ کر فوراً اپنے رب کا شکر بجالائیں۔ ابتدا میں یہ کام کچھ مشکل لگے گا مگر جب اسے اپنی عادت بنالیں گے تو سب کچھ سہل ہو جائے گا۔اِسی طرح اپنی پسند کی آسان اور مختصر آیات کے ترجمہ کو اپنی نوٹ بک میں لکھنے کو اپنی عادتِ ثانیہ بنالیں۔ جیسے سورۃ النحل کی آیت 125 کا ترجمہ ”اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے“۔ الحجرات کی 12 ویں آیت کا ترجمہ ”تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے“۔وغیرہ وغیرہ۔اس طریقہ کار پر عمل کے کچھ دنوں بعد آپ خود حیران رہ جائیں گے کہ قرآن مجید فرقان حمید کی بہت ساری آیات،احکامات اور نصیحتیں آپ کی روزمردہ عادات میں ڈھل چکی ہیں۔

پانچواں حق، قرآن مجید کو دوسروں تک پہنچانا
قرآن مجید کا پانچواں حق ہے،اسے دوسروں تک پہنچانا۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے(دوسروں تک) پہنچا دے، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا“۔(سورۃالمائدہ،67)۔مذکورہ آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے اس قرآن کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اِس فرمانِ خداوندی کے نزول کے بعد ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کا آفاقی پیغام کل عالم تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیااور اس کے خاطر بے پناہ مشکلات جھیلیں، تکلیفیں برداشت کی،کفار سے مجادلے اور مباہلے کیئے، جنگیں لڑیں، بدر و احد کے معرکے پیش آئے۔ آج ہر مومن پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مشن یعنی قرآن کو دوسروں تک پہنچانے اور نشرواشاعت میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہوجائے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کو دوسروں تک پہنچانے کی بات کے کئی معنی و مفہوم مراد لیئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی طالب علم کے پاس قرآن پاک حاصل کرنے کی مالی استطاعت نہیں ہے تو آپ اُسے قرآن پاک کا کوئی نسخہ ہدیہ کرکے اُس تک قرآن کو پہنچا سکتے ہیں۔ نیز ناظرہ قرآن کی تعلیم کا حامل شخص اپنے اردگرد رہنے والے کسی دوست عزیزو اقارت جو قرآن پڑھنا نہ جانتاہو اُسے قرآن کی تعلیم مہیا کر کے بھی اِس حق کو اداکرسکتاہے۔ جبکہ اگر کوئی شخص قرآنی احکامات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو اُسے دوسروں کو سکھلا سکتاہے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ”تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 16 اپریل 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں