دانش عید الفطر کی نماز پڑھنے کے بعد عیدگاہ سے باہر نکلا تو اُسے اپنے آس پاس موجود دکھائی دینے والی ہرشئے میں عجیب سی رعنائی اور سنائی دینے والی ہر آواز میں غضب کی نغمگی کا احساس ہوا۔اُس نے دل ہی دل میں سوچا واقعی بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ عیدکی دلکش صبح کا موازنہ کسی دوسرے دن کے ساتھ بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر صبحِ عید کی تما م تر سرشاری و مسرت کے باوجود اُسے اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست عارف سے عید نہ ملنے کا بھی شدید قلق تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے دانش کا یہ معمول رہاتھا کہ وہ عیدکی نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے عارف سے ہی گلے مل کر اُسے عید کی مبارک باد دیتا تھا۔ مگر حیران کن طور پر آج اُسے اپنا پیارا دوست عارف عیدگاہ میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔ عارف کی طرف سب خیریت تو ہوگی نا! دانش خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا اور کچھ سوچ کر وہ سیدھا چلتا چلتا اچانک واپس مڑا اور اُس نے اپنے قدم عارف کے گھر کی جانب بڑھادیئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ عارف کے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجارہا تھا۔ گھر کا داخلی دروازہ کھلا تو سامنے عارف کی والدہ کا شفقت بھرا چہرہ دکھائی دیا،دانش نے اُنہیں عید کی مبارک دیتے ہوئے استفسار کیا ”آنٹی! عارف کی طبیعت تو ٹھیک ہے، وہ آج عید الفطر کی نماز پڑھنے عید گاہ بھی نہیں آیا“۔
عارف کی والدہ نے مسکراتے ہوئے دانش کو گھر کے اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا”اچھا ہوا تم آگئے، تمہارا دوست عارف بالکل ٹھیک ہے اورابھی تک بستر میں لمبی تان کر سویا ہواہے۔میں نے اُسے نماز عید کی ادائیگی کے لیئے جگانے کی بہت کوشش کی مگر و ہ یہ کہہ کر دوبارہ سو گیا کہ میں آج عید کا سارا دن سو کر ہی گزاروں گا۔بیٹا اَب تم ہی اُسے کچھ سمجھاؤ کہ عید کا دن ہے، ملنے جلنے والوں نے آناہے۔کیا وہ یونہی اپنا کمرہ بند کر کے سویا رہے گا؟۔یہ کوئی اچھی بات تو نہ ہوئی نا!“۔باتیں کرتے کرتے عارف کی والدہ دانش کو اُس کمرے میں لے آئیں،جہاں ہرطرف عارف کے خراٹے گونج رہے تھے۔ دانش نے عارف کے بدن کو جھنجھوڑا تو وہ دانش کو اپنے سامنے دیکھ کر ہڑبڑا کر بستر پر بیٹھ گیا اور جماہیاں لینے لگا۔”یار عارف! کیا عید کے دن بھی کوئی ایسے گدھے گھوڑے بیچ کر سوتا ہے، جیسی بے فکری کے ساتھ تم سو رہے ہو اور عید کی نماز پڑھنے بھی عیدگاہ نہیں آئے،آخرکیوں؟“۔دانش نے شکایت آمیز لہجہ میں کہا۔
”بھئی میں یہ سوچ کر رات گئے تک اسمارٹ فون پر گیمز کھیلتارہا تھا۔۔۔۔صبح عید کی چھٹی ہوگی سارا دن آرام سے اپنی نیند پوری کرلوں گا“۔ عارف نے آنکھیں مسلتے ہوئے جواب دیا۔ ”بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ سارامہینہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد بھی تمہاری یہ حالت ہے کہ تم ساری چاند رات گیمز کھیلنے میں گزارتے ہو اور صبح عید الفطر کی نماز پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔کیا تم نے عید الفطر کو ایک عام سا تہوار سمجھ لیا ہے؟“۔ دانش نے غصیلی نظروں سے عارف گھورتے ہوئے کہا۔ ”اچھا تو کیا عیدالفطر ایک عام سے تہوار نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے تہوار وغیرہ ہوتے ہیں؟“۔عارف نے حیرانگی سے پوچھا۔
”بے وقوف آدمی، دین اسلام میں عید الفطر کے دن کو مسلمانوں کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنا ایک انعام قرار دیا ہے۔جو روزہ داروں کو اُن کی محنت کے عوضانہ کے طور پر بطور تحفہ دیا جاتا ہے۔نیز شریعت مطہرہ میں اِس دن کو گزارنے کے آداب بھی صراحت کے ساتھ بتائے گئے ہیں اور جو شخص بھی عیدالفطر کو اس کی حقیقی روح کے عین مطابق مناتاہے تو اُسے اللہ رب العزت صرف دنیا ہی نہیں بلکہ اُخروی زندگی میں بھی عظیم الشان فضیلتوں سے سرفراز فرماتے ہیں۔ شاباش اَب اچھے بچوں کی طرح تیار ہوجاؤ، میں ابھی اجازت چاہتاہوں،گھر پر سب میرا شدت کے ساتھ انتظار کر رہے ہوں گے۔ہاں!شام میں کہیں باہر ملتے ہیں اور عید کی خوشی میں تمہاری طرف سے لذت کام و دہن سے لطف اندوز ہوتے ہیں“۔دانش نے عارف کو خدا حافظ کہا اور اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا۔
عید ایک قدیم روایت ہے
اگر سابقہ اقوام و ملل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ظہورِ اسلام سے قبل بھی ہر قوم اور ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں عید کا تہوار منانے کا تصور موجود رہا ہے۔یعنی عید کا تصور اُتنا ہی قدیم جتنا کہ انسانی سماج اور جب سے کرہ ارض پر تمدنی زندگی کی ابتداء ہوئی ہے، تب سے ہی خوشیوں کا تہوار عید بھی منایا جارہا ہے۔اس بات کی تصدیق تمام الہامی کتب و صحائف سمیت قرآن مجیدکے مطالعہ سے بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ قومیں اورامتیں بھی سال کے کسی خاص دن خوشی اورمسرت کے لیئے باقاعدہ عید کا تہوار منایا کرتی تھیں۔بعض روایات کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔ اس دن دنیا میں پہلی بار تہدید نعمت کے طورپر عید کا تہوار منایا گیا۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی جب ہابیل اور قابیل کے درمیان جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس روز عید منائی تھی، جس روز آپ علیہ السلام پر نمرود کی آگ گل و گلزار بنی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت اِس واقعہ کی یاد میں ہر برس عید کا تہوار منا نے کے لیئے شہرسے باہرایک کھلے میدان میں متواتر تین دن تک میلہ کا انعقاد کرتی تھی،جہاں سب لوگ اپنے اپنے اندازمیں خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ جبکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ سے نجات پائی۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا عیدکا دن وہ یوم تھا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ علاوہ ازیں یہ تو ہم سب آج بھی مشاہدہ کرتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی اُمت حضرت عیسیٰ علیہ السام کی ولادت کے یوم سعید کو بطور عید مناتی ہے۔ جبکہ اسلام کی آمد سے قبل اہل عرب بھی سال میں مختلف تہوار منایا کرتے تھے جن میں شراب نوشی، جواء، شعر و شاعری‘ رقص و سرور کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ الغرض عید کا تصور ہر قوم، ملت اور مذہب میں ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے لیکن عید سعید کی خوشیوں کو منانے کا جتنا عمدہ اور پاکیزہ تصور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کی تعلیم فرمایا ہے،شاید ایسے احسن طریق پر عید کی خوشیاں منانے کا تصور دنیا کے دوسرے کسی بھی مذہب اور تہذیب میں بھی موجود نہیں ہے۔دراصل خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت مبارکہ کے بعدعیداورخوشی منانے کا انداز اور طریقہ یکسر بدل گیا۔ایک حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ نے دو دن عید کے لیئے مقرر کر رکھے تھے، جن میں وہ (خوب دل کھول کر)خوشیاں مناتے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے لوگوں سے پوچھا، یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ان ایام میں ہم لوگ عہد جاہلیت کے اندر خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیئے(عید کے) ان دنوں کو دو بہترین دنوں میں تبدیل فرما دیا ہے یعنی عیدالاضحی اور عید الفطر“۔(ابوداؤد)۔
عیدالفطر کا مفہوم اور فضیلت
عید کا لفظ تین حروف سے مل کر بنا ہے۔ لفظ ”عود“ جس کے معنی بار بار لوٹ کر آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر برس لوٹ کر واپس آجاتی ہے، اسی لئے اس کو ”عید”کہا جاتا ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں، یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔اس مناسبت سے یکم شوال المکرم کو عیدالفطر کہا جاتاہے۔جبکہ اِس یوم کی ایک وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ماہرین لسانیات کہتے ہیں۔چونکہ افطار اور فطر ہم معنی ہیں اور فطر کے معنی کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں۔نیز عربی زبان میں رات بھر کی بھرپور نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کر جس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔جبکہ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کر کے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے۔چونکہ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور عید کی نماز سے پہلے اپنے ذمہ واجب الادا صدقہ فطر ادا کرے اپنے دوسرے مستحق مسلمان بہن بھائیوں کو جو اپنی ناداری اور غربت کے باعث عید کے روز اچھے اچھے پکوان پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے مالی اعانت کرتے ہیں۔
لہٰذا، عید اور صدقہ فطر کی اِس مناسبت سے بھی عید کے دن کو عید الفطر کہا جاتا ہے۔ عید سعید کی فضیلت کے بارے میں ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کرتے ہیں کہ”جب عیدالفطر کی مبارک رات(یعنی چاند رات) تشریف لاتی ہے تو اسے ”لیلۃ الجائزۃ“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جب عید کی صبح طلوع ہوتی ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں۔اے امت محمد! (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں سے پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤگے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (الترغیب والترہیب)۔
عید الفطر منانے کے آداب
شریعت مطہرہ میں عید الفطر روزے داروں کے لیے انعام و عطا کا سالانہ تہوار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عید الفطر کو روزے داروں کے لیے مسرت و رحمت کا پیامبر قرار دیا ہے اور اس روزِ سعید کو ماہِ صیام میں کی گئی عبادت و ریاضت، اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل، حمد و ثناء، درود و سلام اور سحر و افطار کے اجر و ثواب کی ایک علامت کے طور پر مسلمانوں کو عنایت کیاگیا ہے۔اِس لیئے اصل عید تو فقط اُن خوش قسمت اور با مراد روزے داروں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کی پر نور و پرکیف ساعتوں کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے قلوب کے ویران و تاریک گوشوں کو عبادت الٰہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ سلم کے نور سے منور کیا۔یقینا عید الفطرماہِ صیام میں انسانی خواہشات پر عائد چند پابندیوں سے آزادی اور خلاصی کا دن ہے۔ لیکن اِس دن کا ہر ہر لمحہ آغاز سے لے کر اختتام تک کیسے گزارا جائے؟یا عید کی خوشیوں کی کیسے منایا جائے؟۔اُس کے بارے میں بھی ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے پوری صراحت کے ساتھ اپنی اُمت کی رہنمائی فرمائی ہے۔
واضح رہے کہ عیدالفطر کے دن حسبِ ذیل کام کرنا سنت اور مستحب کی ذیل میں شمار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر حجامت بنوانا، ناخن کی تراش خراش کرنا، مسواک کرنا،غسل کرنا، نئے یاصاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، عید الفطر کی نماز پڑھنے کے لیئے عیدگاہ جانے سے پہلے گھر سے کوئی میٹھی چیزکھاکر نکلنا، نمازِ عید کی ادائیگی سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا، صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عیدگاہ چلے جانا، راستے میں تکبیرات تشریق پڑھنا، عیدگاہ کی طرف جاتے اور وہاں سے آتے ہوئے راستہ کو تبدیل کرنا، آپس میں ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینا، بعدازنمازِعید مصافحہ ومعانقہ کرنا (یعنی گلے ملنا)، عید کا سارا دن خوشی ومسرت کا اظہارکرنا،وغیرہ۔ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بُعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے؟ اورعید کا دن تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں ہیں۔ آخر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حراب (چھوٹے نیزے) کا کھیل دکھلا رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے اور کنکریاں اٹھا کر انہیں ان سے مارا۔ لیکن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں کھیل دکھانے دو(آج عید کا دن ہے)۔(صحیح بخاری/ صحیح مسلم)۔ مذکورہ احادیث سے شارحین حدیث نے استنباط کیا ہے کہ عید کے روز شرم و حیا کے اُصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے زرق برق لباس پہننا اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنی خوشی اور مسرت کے اظہار کرنے کا مکمل آزادی ہے۔ بشرط یہ کہ آپ کی منائی جانے والی کسی خوشی کے باعث دوسرے شخص یا گروہ کو دُکھ پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔
حوالہ یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 22 اپریل 2023 کے خصوصی عیدالفطر ایڈیشن میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023