زکوۃ دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا اہم ترین رُکن ہے۔نیز شریعت میں فرض نماز کے بعد زکوۃ ہی کا ہی درجہ آتاہے اور قرآن ِ کریم میں میں اکثر مقامات وہ ہیں،جہاں نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرما تاہے کہ ”اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ دو“۔(سورۃ، البقرہ: 34)۔جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ ”اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا“۔ (صحیح بخاری،8:14)۔
فرض زکوۃ کی مذہبی اہمیت کے علاوہ سماجی و معاشی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں سماجی لحاظ سے زکوۃ کی ادائیگی معاشرہ کے محکوم طبقات کو غربت و افلاس سے نجات دلاتی ہے، وہیں معاشی اعتبار سے نظامِ زکوۃ بعض افراد کی جانب سے غیر ضرور ی طور پر ذخیرہ کی ہوئی دولت کو گردش میں لا کر معاشرہ میں معاشی مساوات کوقائم کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔دراصل، دین ِ اسلام، احکام ِزکوۃ کے ذریعے ایک ایسا مفید معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں معاشی وسائل کسی ایک خاص طبقہ کے پاس مرتکز نہ ہونے پائیں۔ کیونکہ اجتماعی معاشی وسائل کی حیثیت کسی بھی معاشرہ کے لیئے وہی اہمیت رکھتی ہے،جو انسانی جسم کے لئے خون کی ہے۔یعنی جس طرح دورانِ خون کی سرگرمی میں ذرا سا بھی خلل واقع ہوجانے کے سبب اگر خون، انسانی جسم کے کسی ایک حصہ کو نہ پہنچے تو وہ عضو مفلوج ہوکر ناکارہ ہو جاتا ہے۔بالکل ایسے ہی کسی بھی معاشرہ میں مال و دولت کے چند مخصوص طبقات کے پاس جمع ہوجانے سے اُس معاشرے کے دیگر تمام طبقات مکمل طورمفلوج ہو کر بے کار ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا،معاشرے کی بقا کا تمام تر انحصار فقط اِس ایک اقتصادی اُصول پر قائم ہے کہ سماج میں معاشی وسائل کی تقسیم مساویانہ طور پر کیئے جانے کا پوری طرح سے التزام کیا جائے۔تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی معاشی ضروریات بہم پہنچتی رہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے کہ ”تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)“۔ (سورۃ،الحشر، 59: 7)۔مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں باآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ زکوۃ کسی بھی انسانی معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے پیدا شدہ طبقاتی منافرت، انتشار اور ابتری سے پیشگی بچنے کے لیئے ایک بہترین معاشی بندوبست ہی نہیں بلکہ انسانی اُخوت و مساوات کے عظیم اسلامی اُصول کو زندہ جاوید حقیقت بنانے کا انتہائی مؤثر وسیلہ بھی ہے۔
زکوۃ کا معنی و مفہوم
عربی زبان میں لغوی اعتبار سے زکوۃ کا لفظ دو معنوں کاحامل ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے کا ہے اور دوسرا معنی نشوونما اور بالیدگی کا ہے جس میں کسی چیز کے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کے پہلے معنی کی وضاحت میں جو پاکیزگی و طہارت پر دلالت کرتا ہے قرآنِ حکیم کچھ یوں ارشاد فرماتاہے کہ ”بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (برائیوں سے) پاک کر لیا“۔(سورۃ الشمس، 91: 9)۔مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیہ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے، مفسرین نے اسے مدِ نظر رکھنے ہوئے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے حلال مال پر کیا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے نیک اعمال انسانی نفس کو گناہ کی آلائشوں سے پاک کرتے ہیں۔
زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس حلال مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ”آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے“۔ (سورۃالتوبہ، 9: 103)۔ مذکورہ آیت قرآنی کے مطابق زکوۃ ہمارے مال کا وہ میل کچیل ہے جسے نکال دیا جائے تو دولت آلودگی سے پاک و صاف ہو جاتی ہے۔نیز زکوۃ کی ادائیگی اتنی بڑی نیکی ہے جس سے بے شمارفیوض و برکات حاصل ہوتی ہیں اورزکوۃ دینے والے کا مال بجائے گھٹنے کے مزید بڑھ جاتا ہے۔
خیرات اور زکوۃ میں فرق
واضح رہے کہ زکوۃ نہ تو خیرات اور صدقہ ہے اور نہ ہی رضاکارانہ بھیک یا بخشش ہے۔یہ غریب و مساکین کا وہ حق ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے ہر صاحبِ حیثیت،حامل نصاب فرد کو ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔چونکہ ہمارے ہاں لفظ صدقہ کا عام معنی ”خیرات“ کے مراد لے لیئے جاتے ہیں جبکہ قرآن کریم اور کتبِ احادیث میں بھی بعض مقامات پر زکوۃ کے فضائل و احکام بیان کرتے ہوئے لفظ صدقہ کا صراحت کے ساتھ استعمال کیا گیاہے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگ علمی مغالطہ کا شکار ہوکر خیرات اور زکوۃ کو ایک ہی شئے سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ فقہائے کرام نے زکوۃ اور خیرات کے درمیان معنوی اشکال سے بچنے کے لیئے الگ الگ اصطلاح وضع فرمائی ہے۔لہٰذا، اسلامی فقہ میں رضاکارنہ طور پر دیئے جانے والی خیرات اور صدقات کے لیئے ”صدقتہ التطوع“ اور زکوۃ کے لیئے ”صدقتہ الفرض“ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ تاکہ رضاکارانہ صدقات اور فرض زکوۃ کے درمیان حدِ فاصل قائم ہوجائے اور کوئی بھی شخص معنوی مغالطہ کا شکار ہوکر اپنے صدقات کو زکوۃ کی ذیل میں شمار نہ کرے۔
لہٰذا، شریعت مطہرہ میں لفظ صدقہ ہر قسم کی خیرات کے لیئے استعمال کیا جاتاہے۔جبکہ لفظ ”زکوۃ“ کی اصطلاح صرف فرض صدقہ کے لیئے مستعمل ہے۔ یہاں صدقہ کے ضمن میں ایک غلطی فہمی کا ازلہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ ہمارے ہاں ایک غلط تصور،رواج پاگیا ہے کہ خداانخواستہ صدقہ یا زکوۃ کوئی ضرررساں شئے ہے اور اِس سوچ کے حامل لوگ بالعموم صدقہ اور زکوۃکے نام پر دی ہوئی رقم لینے یا استعمال کرنے سے گھبراتے ہیں کہ شاید ایسا کرنے سے ان پر صدقہ دینے والے کی کوئی مصیبت یا پریشانی نازل ہوجائے گی۔ حالانکہ صدقہ یا زکوۃ کی ماہیت پر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے معاشرے کے صاحبِ حیثیت افراد کو صدقات و زکوۃ راہِ خدا میں اِس لیے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔تاکہ معاشی مشکلات کا شکار افراد کی دل جوئی اور امداد ممکن ہوسکے۔ لہٰذا، صدقات اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے یعنی انفاق اور ایثار ہی کا دوسرا نام ہے اور جو شخص بھی صدقہ و زکوۃ لینے کا استحقاق رکھتا ہو، اُسے یہ وصول کرتے ہوئے کسی قسم کی گھبراہٹ یا وہم کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
زکوۃ کا نصاب اور مصارف
شریعت ِ اسلامی کی نگاہ میں ہر وہ عاقل بالغ شخص صاحب ِ نصاب کہلاتا ہے،جو613 گرام چاندی یا ساڑھے ستاسی (87.5)گرام سونے کا مالک ہو اور اگر دونوں چیزیں اس مقدار سے کم ہوں تو ان دونوں کی قیمت 613 گرام چاندی کے برابر ہوجائے یا نقد روپے یا تجارت کا سامان 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو اور اگر سب چیز تھوڑی تھوڑی ہوں تو ان سب کی قیمت ملاکر 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو اس پر پورا ایک سال گزر جانے پر (2.5%) ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔واضح رہے کہ دینِ اسلام میں زکوۃ خرچ کرنے کے مصارف بھی بیان کیئے گئے ہیں یعنی ہر و ہ صاحبِ نصاب جس پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوجائے اُسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق زکوۃ خرچ کرنے کی آزادی نہیں دی گئی بلکہ زکوۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت قرآن حمید فرقان مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ”صدقات (زکوٰۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور (زکوۃ جمع کرنے والے)عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے“۔ (سورۃ التوبہ: 60)۔
مذکورہ آیت میں زکوۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں۔جن کی تفسیر و تشریح مفسرین اِسلام نے کچھ یوں فرمائی ہے اوّل،فقیر۔ایسا شخص ہے جس کے پاس روز مرہ ضروریات کاکچھ مال و اسباب تو موجود ہو، مگر اُسے اتنی مالی فراغت میسر نہ ہو کہ اُس کا صاحب نصاب افراد کی ذیل میں شمار کیا جاسکے۔ دوم، مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی دوسروں کا دست نگر ہو۔سوم، عاملین۔عامل وہ ہے جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ اور عشر لوگوں سے وصول کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو، واضح رہے کہ عامل کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں ہے۔چہارم،مؤلفۃ القلوب۔ یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جاسکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو مصلحت کے تحت زکوہ و صدقات دیئے جاتے تھے۔ تاکہ اسلام کو مادی قوت بہم دستیاب رہے اور بعض لوگ مال و زر کے لالچ کی وجہ سے دشمنانِ دین اسلام کے آلہ کار نہ بن سکیں۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے۔
یادرہے کہ جب اسلام کو غیر معمولی قوت و اختیار حاصل ہوگیا اور کفار کے شر سے بچنے اور نومسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لیے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو یہ مصلحت بھی ختم ہوگئی، اس لیے اب ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا۔پنجم، الرقاب۔رِقاب سے مراد وہ غلام ہے،جس کو آقا نے مال کی کوئی مقدار مقرر کرکے کہہ دیا کہ اتنامال کماکر ہمیں دو تو تم آزد ہو، اس کو فقہاء کی اصطلاح میں مکاتب غلام بھی کہا جاتا ہے۔دراصل، قبل از اسلام دنیا میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قراردیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً واخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔مگر بعض اسلامی اسکالرز کا موقف ہے کہ جو مسلمان کشمیر و فلسطین میں آج کل ظالم وغاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء وآزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔وہ محکوم ومظلوم مسلمان بھی ہمارے مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں۔
ششم، غارمین۔غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی ایسا شخص جس پر اتنا قرض ہو کہ اسے اداکرنے کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہ رہ سکے۔ہفتم، فی سبیل اللہ۔یعنی راہ خدا میں خرچ کرنا،اِس مصرف میں زکوۃ کو خرچ کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر کسی مستحق طالب علم کو تحصیل ِ علم کے لیئے زکوۃ دے سکتے ہیں۔ نیز کسی غریب شخص کے علاج معالجہ پرزکوۃ خرچ کرسکتے ہیں۔ جبکہ آج کل فلاحی اداروں کو دی جانے والی زکوہ و عطیات بھی اِسی مصرف کے تحت دیئے جاتے ہیں۔ ہشتم، ابن سبیل۔اس سے مراد وہ مسافر شخص ہے، جس کے پاس چاہے اپنے وطن یا علاقے میں زکوۃ کے نصاب کے برابر مال و دولت موجود ہو، لیکن سفر میں اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں، جن سے وہ اپنی سفر کی ضروریات پوری کر کے واپس وطن جاسکے تو ایسے شخص کو اِسے مصرف کے تحت زکوۃ لینے کا پورا پورا استحقاق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں فقہاکرام کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا اپنے دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ،وہ اپنی زکوۃبیان کیئے گئے ایک مصرف پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہاں زکوۃ کے آٹھ مصارف کی مختصر تشریح سادہ الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔لہٰذا، زکوۃ کی ادائیگی سے قبل مصارف زکوۃ کی تفصیلات و جزیات جاننے کے لیئے کسی عالم باعمل شخص سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔تاکہ اِس اہم ترین دینی فریضہ کی دائیگی میں کوئی ابہام اور کوتاہی کا اندیشہ باقی نہ رہے۔
زکوۃ اور ماہِ صیام
بظاہر تو زکوۃ کی ادائیگی کا تعلق رمضان المبارک سے خاص نہیں ہے۔کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی ہر صاحب نصاب شخص پر سال پورا ہوتے ہی فرض ہو جاتی ہے۔ یعنی جب کوئی بھی شخص صاحب نصاب ہوا،اور اس کے نصاب پر پرا ایک برس گزر گیا تو اَب زکوۃ فرض ہوگئی۔ چاہے وہ مہینہ کوئی بھی ہو۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ماہ شعبان کی دس تاریخ کو صاحبِ نصاب ہوا ہے تو پھر اگلے سال اسی مہینہ اور اسی تاریخ پر اُس پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوجائے گی۔ البتہ ماہ صیام میں چونکہ فرض عمل کرنے والے کو ستر گنا بڑھا کر ثواب دیا جاتاہے، اس لیئے سال مکمل ہونے سے پہلے اگر کوئی صاحبِ نصاب شخص ماہ رمضان المبارک میں اپنی زکوۃ ادا کردے تو یہ ایک مستحسن عمل گردانا جائے گا۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے میگزین میں 02 اپریل 2023 کی خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023