Lie

جھوٹ۔ ۔ ۔ فعلِ قبیح، موذی مرض

جھوٹ سے مراد کسی بھی شخص سے جان بوجھ کر یا غلطی سے ایک بات کو حقیقت کے خلاف بیا ن کرنایا پھر کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق خلافِ حقیقت خبردینا ہے۔ جھوٹ ایک فعل قبیح ہے اور دنیا کے ہر معاشرہ میں نہ صرف جھوٹ کو ایک بُری عادت سمجھ کر اس سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے بلکہ جمہور پسندریاستیں اپنے سماجی ڈھانچے کو اعلی اخلاقی معیار پر استوار کرنے کے لیے انسداد جھوٹ کے لیئے ضروری قانون سازی کر کے بعض معاملات میں جھوٹ بولنے پر سخت سزائیں بھی مقرر کرتی ہیں۔مثال کے طور پر عدالت کے سامنے غلط بیانی کا مرتکب ہونے یا پھر ریاستی آئین کے تحت اُٹھائے گئے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزاؤ ں کا ہر ملک کے آئین میں درج ہونا اِسی ذیل میں شمار کیا جاسکتاہے۔ جبکہ تمام الہامی مذاہب میں بھی جھوٹ کو ایک سنگین گناہ قرار دے کر جھوٹے شخص کو بعد ازمرگ سخت سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔

دین اسلام میں جھوٹ ایک ناقابل قبول عمل ہے اورشریعت مطہرہ کے مطابق اگر جھوٹی بات کرنے والے کو اس بات کا علم ہو کہ وہ جو بات بھی بیان کررہا ہے، سراسر مبنی بر جھوٹ ہے، تو وہ سخت گنہگار ہوگا اور ایسا شخص گناہ ِ صغیرہ کا مرتکب قرار پائے گا۔ نیز وہ جھوٹ اگر کسی دوسرے شخص یاگروہ کے لیے نقصان، پریشانی اور ضرر کا سبب بنے، تو یہ ہی جھوٹ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا۔چونکہ جھوٹ ایک ایسا مرض ہے جوافراد کے درمیان عداوت و دشمنی کا سبب بنتاہے اور معاشرہ میں بگاڑ اور انتشار کو پروان چڑھاتا ہے۔لہٰذا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بے شمار مواقع پر جھوٹ کی بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کوئی بھی بات بلا تحقیق جان بوجھ کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی اور قرار واقعی سزا کے لیے قیامت کے دن کا انتظار کرے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ ”اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل(کے بارے میں) ہر شخص سے اِن سب کی پوچھ ہوگی“۔(سورۃ الاسراء،آیت،36)۔

یاد رہے کہ انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کی جانب سے مقرر، دو فرشتے کراماً کاتبین اسے اپنے پاس من و عن لکھتے رہتے ہیں۔یعنی انسان کوئی بھی کلمہ اپنی زبان سے نکالتا ہے تو یہ نگراں فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھ لیتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔کراماً کاتبین کی جانب سے لکھی جانے والی زندگی بھر کی بات چیت روزِ قیامت بارگاہ الہٰی میں انسان کی جزو سزا کے لیئے پیش کردی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے“۔(سورۃق،آیت 81)۔واضح رہے کہ بعض جھوٹ گناہ کبیرہ کی ذیل میں شمار ہوتے ہیں اور قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”لعنت کریں اللہ کی اُن (انسانوں)پر جو کہ جھوٹے ہیں“۔(سورۃ آل عمران، آیت 16)۔

جبکہ بے شمار احادیث میں بھی مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کے لیئے بار بار تاکید کی گئی ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو ایمان کے یکسر برخلاف عمل قراردیا ہے۔ حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب ارشاد فریایا ”ہاں۔“ پھر سوال کیا گیا، کیا مسلمان بخیل (کنجوس) ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر عرض کیا گیاکہ کیا ایک مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”نہیں (مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا)“۔(موطا امام مالک،428)۔نیز ایک دوسری حدیث میں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ ”جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ ایمان کے(بالکل) مخالف ہے“۔ (مسند امام احمد،1913)۔جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی (انسان کو) جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی جب (ہر وقت صرف) سچ (ہی) کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں (لگا) رہتا ہے،یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو، اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ (تک)لے جاتا ہے، اور(جو) آدمی مسلسل جھوٹ بولتا (رہتا)ہے اور(ہروقت) اسی کی جستجو میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)۔

انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے ہر شخص کے پاس جھوٹ بولنے کی اپنی نرالی ہی منطق،بہانہ اور جواز موجود ہوتاہے۔دراصل جھوٹ کے بارے میں جتنا سوچتے جائیں گے،اتنا ہی جھوٹ بولنے کی وجوہات آپ پر منکشف ہوتی جائیں گی۔ کیونکہ جھوٹ کی اَن گنت اقسام کا مکمل احاطہ کرنا انسانی دسترس سے باہر ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے معاشرہ میں جھوٹ بولنے کی کم ازکم پانچ وجوہات بہت مشہور و معروف ہیں۔اوّل، مجبوری کا جھوٹ۔ بعض لوگ اپنی کسی غلطی یا غلط فعل کو دوسروں سے چھپانے کے لیئے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اُنہیں ڈر ہوتا کہ اگر اُن کا غلط کام یا غلط بات لوگوں پر عیاں ہوگئی تو اُس صورت میں انہیں کسی سخت تادیبی کارروائی یا پشیمانی کا سامنا کر پڑسکتاہے۔یہ ہی وہ جھوٹ ہے جس کے بار ے میں مثل مشہور ہے کہ انسان کو اپنا ایک جھوٹ چھپانے کے لیئے بعدازاں سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

دوم، تعریفی جھوٹ۔عام طور پر یہ جھوٹ کسی محفل میں دوسروں سے اپنی واہ واہ کروانے کے لیئے بولاجاتاہے اورمذکورہ جھوٹ کی عادتِ بد میں مبتلاجھوٹے لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ذہین، بذلہ سنج اور جانِ محفل ثابت کرنے کے لیئے من گھڑت جھوٹے سچے واقعات خوب مرچ مصالحہ لگا کر دوسروں سے بیان کرتے ہیں۔ سوم،حبِ جاہ کا جھوٹ۔اکثر لوگ اپنی شان و شوکت کا جھوٹا بھرم قائم رکھنے کے لیے تواتر سے جھوٹ بولتے ہیں یعنی اُن کے پاس عہدہ،دولت،گاڑی اور بنگلہ کچھ بھی پاس نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کواحساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیئے بطور خاص ایسی بے باکی سے جھوٹ گھڑتے ہیں کہ جیسے اُن کے پاس عہدہ، دولت، گاڑی اوربنگلہ وغیرہ سب کچھ موجود ہو۔ چہارم،تجارتی جھوٹ۔خرید و فروخت یا تجارت کے کسی بھی شعبہ سے منسلک تاجر حضرات گاہک کو اپنا مال زیادہ سے زیادہ نفع پر بیچنے کے لیئے جھوٹ کی اِس قسم کو بڑی مہارت کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں۔

المیہ ملاحظہ ہوکہ تجارتی شعبہ میں جھوٹ بول کر مال بیچنے کو بُری عادت کے بجائے کاروبار کو نفع بخش بنانے کی ایک اضافی اہلیت تصور کیا جاتاہے۔ نیز بعض تجارتی کمپنیوں کی جانب سے تو اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیئے باقاعدہ جھوٹ بولنے کی خصوصی تربیتی نشستیں کروا کر اپنے عملے کو سکھایا اور باور کروایا جاتا ہے کہ اِس ملازمت کی بنیادی شرط ہی اپنے گاہکوں سے چرب زبانی کے ساتھ جھوٹ بولنا ہے۔ یعنی سیلز کی نوکری میں جھوٹ کو بطور سٹریٹجی یا حکمت عملی کے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور سیلزمین کو گاہک کی پسند اور نا پسند کے برعکس اُسے اپنا مال فروخت کرنے کے گُر سکھانے لاکھوں روپے کا سرمایہ بھی خرچ کیا جاتاہے۔پنجم، فضول جھوٹ۔ یعنی ایک ایسا جھوٹ جس کا بظاہر جھوٹ بولنے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ اپنی بات کو غیر ضروری طول دینے کے لیئے دورانِ گفتگو اِدھر اُدھر کی ہانکے جاتا ہے۔

جھوٹ کی یہ قسم آج کل سب سے زیادہ ٹی ٹاک شوز کرنے والے اینکرز،سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانے والے یو ٹیوبرز اور سیاسی قائدئن کے سیاسی جلسوں میں سماعت کی جاسکتی ہے۔ جبکہ اِس جھوٹ کے بعض مظاہرے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں گھر اور دفاتر میں بھی عام مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً کسی میزبان نے اپنے گھرآئے مہمان سے سوال کیا: ”ہمارے گھر کا کھانا پسند آیا؟“۔ تو مہمان نے مُروّت میں آ کرجھٹ سے کہہ دیا کہ ”جی، بہت پسند آیا۔“ حالانکہ کھانے والا کو وہ کھانا بالکل بھی پسند نہیں آیاتھا۔یا دفتر میں کسی نے اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھی سے پوچھ لیا کہ ”بتاؤ آج میں کیسا لگ رہا ہوں؟“۔ تو سامنے والے کو سوال کرنے کی طرز ِ آرائش و زیبائش میں لاکھ کیڑے ہی کیوں نہ دکھائی دے رہے ہوں،مگر وہ پھر بھی اُس کی حسن انتخاب کی داد دینے پر اِس لیئے مجبور ہوگا کیونکہ رائے دریافت کرنے والا اُس سے برتر و اعلیٰ عہدہ کا حامل ہے۔

جھوٹ سے کیسے بچیں؟
بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ دورِ جدید میں جھوٹ سے مکمل طور پر بچ پانا اِس لیئے ناممکن ہے کہ انسان کو اپنی خانگی، سیاسی اور سماجی زندگی کو خوش گوار اور معتدل بنانے کے لیئے قدم قدم پر اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں سے مفاہمت اور صلح جوئی پر مبنی رویہ اختیار کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات اپنی بات کو بنانے، سنوارنے یا کسی بگڑے ہوئے معاملہ کو درست کرنے یا اُسے مزید بگاڑ سے بچانے کے لیئے گفتگو میں تھوڑا بہت مبالغہ کرنااور جھوٹ بولنا مجبوری بن جاتاہے تو کیا ایسی غیر معمولی صورت حال میں بھی دین اسلام جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا؟۔مذکورہ سوال کا سادہ اور دو ٹوک جواب تو یہ ہی ہے کہ شریعت کی جانب سے جھوٹ بولنے کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو جھوٹ کے شائبے سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ”ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے پکارا،جلدی سے آؤ میں تجھے کچھ دوں گی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً میری والدہ سے پوچھا، تم اِس بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو۔والدہ نے کہا میں اِسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یاد رکھنا اگر اس (جملہ کے)کہنے کے بعد تم بچے کو کوئی چیز نہیں دیتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا“۔(مجمع الزوائد)۔

مذکورہ حدیث مبارکہ کے نفس مضمون سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ دین اسلام بے ضررسے ایسے جھوٹ کی بھی اجازت نہیں دیتا،جس کے بارے میں کسی کو جھوٹ کا گمان بھی نہ ہوتاہو۔ دراصل اسلام اور شارح اسلام اپنے پیروکاروں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ غیرمعمولی حالات میں بھی اپنی ذہانت اور دانش مندی سے صرف اور صرف سچ بول کر ہی ہرقسم کی پیش آمدہ مشکل صورت حال سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ اِس ضمن میں ایک بہت ہی عمدہ اور قابلِ تقلید مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ سے پیش کی جاسکتی ہے۔ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ سے مدینہ منورہ کی جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے ہمراہ طویل سفرِ ہجرت کر رہے تھے تو کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لیے راستے میں مکہ اور مدینہ کے مضافات میں رہنے والے اپنے کئی آدمیوں کو پھیلا دیاتھا۔

سفرِ ہجرت کے دوران ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جاننے والا ایک شخص مل گیا،جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش پر مامور کیا گیا تھا۔ اُس شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ ”یہ آپ کے ساتھ دوسرا شخص کون ہے؟۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی سادگی اور اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ ”ایک شخص ہے جو مجھے راستہ دکھاتاہے“۔بظاہر ایسی مشکل صورت حال میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کو چھپانا بھی ضروری تھا اور سوال کا درست جواب دینا بھی ضرور ی تھا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ نے اِس غیر معمولی نازک موقع پر بھی جو جواب دیا وہ سراسر مبنی بر سچ تھا کہ پیغمبر سے بڑھ کر صحیح راستہ دکھانے والا بھلا کون ہوسکتاہے؟۔ لیکن سننے والا نے سمجھا کہ چونکہ صحرائی سفر میں ہادی یعنی راستہ دکھانے والے کے بغیر سفر کرنا ممکن نہیں ہوتا،اس لیئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کرائے پر لیا ہوا ایک راستہ دکھانے والا ہادی ہے۔

یہ واقعہ ثابت کرتاہے اگرا نسان ذہانت اور فہم و فراست سے مملو ہو تو وہ سچ بول کر بھی اپنی گفتگو کے اصل نفس مضمون کو دوسروں سے باآسانی پوشیدہ رکھ سکتاہے۔ مگر اِس کام میں لگتی ہے تھوڑی محنت زیادہ۔جبکہ ہم ٹہرے ذہنی افلاس کا شکار سطحی سوچ رکھنے والے عاقبت نا اندیش لوگ جو اپنے بڑے سے بڑے جھوٹ کو بھی یوٹرن قرار دے کر دوسروں سے اپنی کذب بیانی پر داد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی میں جھوٹ اِس قدر،رَچ بَس گیا ہے کہ اَب تو معاشرہ میں جھوٹ کو پورا سچ سمجھ کر ہی بولا جاتاہے۔ والدین کی جانب سے بچوں کو بہلانے اور اُنہیں وقتی طور پر خوش کرنے کے لیئے تحفے تحائف دینے کے جھوٹے وعدے۔تاجروں کی جانب سے مہنگا مال بیچنے کے لیئے جھوٹی قیمتیں۔عدالت میں مقدمہ جیتنے کے لیئے حلفیہ اُٹھائی جانے والے جھوٹی قسمیں۔کسی سے اپنا کام یا مطلب نکلوانے کے لیئے کی جانے والی جھوٹی تعریفیں۔ نام نہاد مقبول سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مخالفین پر لگائے جانے والے جھوٹے الزام، ووٹروں کو لبھانے والے جھوٹے نعرے،عدالتی پیشیوں سے بچنے کے لیئے جھوٹے بہانے اور ڈرامے۔ جبکہ تھوڑے سے ذاتی مفاد کے حصول کے لیئے جھوٹے سرٹیفکیٹ،جھوٹی رپورٹ، جھوتے بل،

غرض زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا مقام یا لمحہ ہو جب ہم جھوٹ سے اپنے اعمال اور احوال کو آلودہ نہ کررہے ہوتے ہوں۔ اگر کوئی عمل کرنا چاہے تو جھوٹ کی موذی بیماری سے بچنے کا ایک سریع التاثیر نسخہ حکیم لقمان نے بھی بتایا ہے۔یاد رہے کہ حکیم لقمان نبی نہیں تھے،مگر اِن کا شمار خطہ عرب کے عظیم حکما میں ہوتا تھا اور اِن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ایک بار حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ آ پ کو جو بلند درجہ ملا ہے،آپ اس پر کس طرح سے پہنچے ہیں، تو حکیم لقمان نے کہا کہ بات کی صداقت سے،امانت کی ادائیگی سے اور اپنی ذات سے غیر متعلق باتوں سے اجتناب کرنے کی بنا پر۔ اگر ہم فقط ان تین باتوں پر عمل پیرا ہوجائیں خاص طو ر پر آخری بات یعنی غیر متعلقہ معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھنے کی پختہ عادت ہی اپنا لی جائے تو شاید جھوٹ بولنے کی کوئی حاجت اور ضرورت ہی نہیں رہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 09 اپریل 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں