Ramadan

رحمتوں، برکتوں، فضیلتوں کا مہینہ

ماہِ صیام ہجری کلینڈر کا نواں مہینہ ہے۔جس میں مسلمانوں کو روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز یہ ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بنی نوع انساں کی ہدایت و سرفرازی کے لیئے قرآن کریم نازل کیا گیا اور اِسی ماہ میں ایک ایسی عظیم رات اُمت ِ محمدیہ کو عطا کی گئی،جس میں کی گئی عبادت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہزار مہینوں کی مسلسل عبادات سے بھی افضل قراردیا ہے۔ جبکہ ماہِ صیام میں ہی نفل نماز کا ثواب فرض نماز کے برابر اور فرض نماز کا ثواب ستر فرض نمازو ں کے برابر ملنے کی خوش خبری بھی سنائی گئی ہے۔ قرآن حکیم فرقان حمید میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ ”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے(سراسر) ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس! تم میں سے جو کوئی اس (مقدس) مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے۔اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور تمہیں چاہیئے کہ(روزوں کی) گنتی پوری کرو۔اس لیئے کہ اِس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور للہ کی بڑائی بیان کرو تاکہ تم شکر گزار (بندے)بن جاؤ۔‘(البقرۃ، 2: 185)۔جبکہ ماہِ صیام کی اہمیت کے متعلق حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”مومن پر ماہ ِ رمضان سے بہتر اور منافق پر رمضان سے سخت کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کے شروع ہونے سے پہلے (ہی اپنے علم ِ ازلی سے) اس کا اجر وثواب لکھ دیتے ہیں اور منافقین کا گناہوں پر اصرار اور بدبختی بھی پہلے سے لکھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین اس مہینے میں عبادت کے لیے طاقت مجتمع کرتے ہیں اور غافل منافقین لوگوں کے عیوب کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں،پس یہ مہینہ مومنین کے لیے غنیمت ہے، جس پر فاسق وفاجر رشک کرتے ہیں۔(مسند احمد)۔

واضح رہے کہ روزہ ایک فرض عبادت ہے اور اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ روزہ دار، اپنے آپ کو بھوک اور پیاس کی مشقت میں ڈال کر اور گناہوں سے رُک کر تقوی اور پرہیزگار ی اختیارکرے۔ قرآن کریم فرقان حمید میں روزہ کے لیئے لفظ صوم کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے معنی رُکنے اور چپ رہنے کے ہیں۔ مگر اصطلاحی معنوں میں روزہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں نہ صرف اپنے آپ کو صبح صادق سے لے کر شام تک کھانے پینے سے روکے رکھے بلکہ خود کو دیگر تمام ظاہری و باطنی خواہشات اور برائیوں سے بھی بچاکر رکھے۔ روزہ میں بے شمار دینی اور دنیاوی حکمتیں اور رموز پوشیدہ ہیں، جو صرف روزہ دار پر ہی منکشف ہوتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزہ دار کے لیئے اخروی زندگی میں بے شمار فضیلت اور انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔

روزہ دار جنت میں باب الرّیان سے داخل ہوں گے
ایک حدیث مبارکہ میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریّان ہے، روزِ قیامت اس میں روزے دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوجائیں گے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے میں سے داخل نہیں ہوگا اور جب وہ داخل ہوجائیں گے یہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پس اس دروازے سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا“۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم)۔یاد رہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لیئے یوں توآٹھ دروازے ہیں مگر جنت کے سب سے خاص دروازے کا نام باب الریّان ہے۔عربی زبان میں ریّان کا معنی ہلکی ہلکی پھوار والی بارش ہے۔ یعنی ایسی بارش جس سے موسم اتنا خوشگوار ہوجائے کہ نہ سخت گرمی کی تپش باقی رہے اور نہ ہی زمین پر کہیں بارش کے پانی سے کیچڑ ہونے کا اندیشہ لاحق ہو۔جبکہ لفظ، ریّان کا ایک دوسرا معنی سیراب ہونا بھی ہے۔دراصل جب شدید پیاس میں مبتلا کوئی شخص شیریں اور ٹھنڈا مشروب پی کے سیراب ہوجائے، تب اہل عرب ایسے پیاسے شخص کی سیرابی اور سیری کو لفظ ریّان سے بیان کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر عمل ِ خیر کا اجر و ثواب تعداد کے حساب سے مقرر فرمایا ہے اور انسان کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے۔مگر شریعت مطہرہ میں روزے کے لیئے اجرو ثواب کی کوئی معین تعداد کہیں بیان نہیں کی گئی ہے۔بلکہ روزہ دار کے بارے میں ایک حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”ابن آدم کا ہر عمل(خود) اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا“۔(صحیح بخاری، کتاب الصوم 2: 673)۔واضح رہے کہ روزہ دار کو بارگاہِ ایزدی سے ملنے والی وہ جزا کیاہوگی؟۔کتنی تعداد میں ہوگی؟۔ اور کس صورت میں روزہ دار کو دی جائے گی؟۔ اُسے مکمل طور پر مخفی رکھا گیا ہے۔ البتہ روزہ دار کو آخرت میں دیئے جانے والے اجرو انعام کی تھوڑی س جھلک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد پاک میں ضرور ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ”روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت(نصیب) ہوتی ہے۔ افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو خوش ہوگا“۔(صحیح بخاری، کتاب الصوم، 2: 673)۔

مذکورہ حدیث کی تفسیر میں بعض محدثین نے لکھا ہے کہ ”چونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے داروں کو باب الرّیان یعنی سیرابی کے دروازہ سے جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔لہٰذا، روزہ دار کوجنت میں دیدار الہٰی کی نعمت سے سرفراز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے روزے دار تو نے صرف میری خاطر بھوک برداشت کی، آج میں اپنے دیدار کے ذریعے سے تیری بھوک کو رفع کرتا ہوں۔ تو نے خالص میری رضا کے لیئے سخت گرمی میں شدت کی پیاس برداشت کی، آج اپنے دیدار کے شربت سے تیری پیاس کو سیرابی عطاکرتاہوں۔ تو نے میرے حکم کی خاطر اپنے نفس کی شہوانی لذتوں کو خیر باد کہا،آج میں اپنی ملاقات کے ذریعے تجھے اپنی قربت کی لذت عطا کرتا ہوں۔ تو نے میرے حکم کی بجاآوری میں بہت سی حلال نعمتیں اور راحتیں اپنے اوپر حرام کرلیں تھیں تو آج میں اپنے وصال کی راحت سے تجھے ہمکنار کرتا ہوں۔پس! روزہ دار کو حاصل ہونے والی یہ سیرابی اللہ کی قربت سے، وصال ِ الہٰی اور دیدار الہٰی متصف ہوگی۔

روزہ دار کے لیئے پانچ امتیازات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ میری اُمت کو رمضان المبارک میں (روزہ داروں) کو پانچ چیزیں خصوصی طور پر دی گئی ہیں،جو پہلی امتوں کو نہیں ملی تھیں۔ اوّل، یہ کہ روزہ دار کے منھ کی بواللہ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔دوم، روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں بھی سحر سے افطار تک دُعا کرتی رہتی ہیں۔سوم، اللہ تعالیٰ روزے داروں کے لیے ہر روز جنت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عن قریب میرے نیک بندے (دنیا کی)مشقتیں اتار پھینک کر تیری طرف آئیں گے۔چہارم، ماہِ صیام میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں،تاکہ روزہ دار، وسواسِ شیطانی کا شکار ہوکر ان برائیوں تک نہیں پہنچ سکیں،جن تک ماہِ صیام کے علاوہ پہنچنا بہت آسان ہوتاہے۔ پنجم، رمضان المبارک کی آخری رات میں تمام روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔یہ جملہ سننے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمین نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کہ کام کرنے والے کو، کام پورا کرنے پر مزدوری دے دی جاتی ہے۔(بہیقی، مجمع الزوائد)

روزہ دارکی دُعا قبول ہوتی ہے
ماہِ صیام کے فضائل میں سے روزہ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت روزہ دار کی دُعا قبول فرماتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوری صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرمایا کہ ”تین آدمیوں کی دُعا رَد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت۔دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی دُعا۔ جس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اُوپر اُٹھالیتا ہے اور آسمان کے دروزے اس(دعا) کے لیئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا۔گو(کسی حکمت خداوندی کے تحت)کچھ دیر ہوجائے۔ (ترمذی شریف)۔نیز ایک دوسر ی حدیث میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ”ماہِ رمضان کی ہر رات میں ایک فرشتہ منادی کرتاہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے! متوجہ ہو اور آگے بڑھ، اے برائی کے طلب گار!بس کراور آنکھیں کھول۔اس کے بعد فرشتہ کہتاہے کہ کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے؟۔کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے؟۔کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا پوری کی جائے۔کوئی سوال کرنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے؟۔ (الترغیب و الترہیب)۔ مذکورہ احادیث کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ سحرو افطاری کے اوقات میں روزہ دار کو دُعا ضرور مانگنی چاہیے۔ مگر جب بعض اوقات قبولیت دُعا کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا تو روزہ دار سوچتاہے کہ میری دُعا مندرجہ بالا احادیث کے مطابق قبول ہونی چاہیے تھی،لیکن دُعا قبول نہیں ہوئی۔یاد رہے کہ بعض احادیث کے مطابق جب ایک مسلمان دُعا کرتاہے۔بشرط کہ قطع رحمی یا کسی گناہ کی دعا نہ کرے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارگاہ سے اُسے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے۔ یا وہ شئے مل جاتی ہے، جس کی دُعا کی گئی۔یا دُعا کے بدلے میں اُس پر سے کوئی برائی یا مصیبت دور کردی جاتی ہے۔ یا آخرت میں صاحبِ دُعا کے لیے اجرو ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔

روزہ قیامت کے دن شفاعت کرے گا
حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”روزہ اور قرآن کریم مومن کی شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا کہ بار الہٰی میں نے اس کو دن میں کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا تھا۔ لہٰذا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کریم کہے گا میں نے اس کو رات میں (تلاوت کے باعث)سونے سے روکے رکھا۔اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔لہٰذا، اِن دونوں کی شفاعت کو (قیامت کے دن) قبول کر لیا جائے گا۔(السنن کبری بیہقی)۔واضح رہے کہ اجماع اُمت ہے کہ قیامت کے روز تمام مسلمانوں کے حق میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔تاکہ آپ کی اُمت کے زیادہ سے زیادہ لوگ بخش دیے جائیں۔ بالکل اِسی طرح روزہ اور قرآن کریم بھی بارگاہ ایزدی میں مومنوں کے حق میں شفیع ثابت ہوں گے۔ مگر صرف اُن کے لیئے جنہوں نے روزہ اور قرآن کو پورے خلوص نیت کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوگا۔

روزہ دار،شہید سے پہلے جنت میں
ایک بار سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ ِ رسالت میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسا افضل عمل بتائیں جسے اپنی زندگی میں اختیار کرلوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ روزہ کو لازم کرلو کیونکہ اس کے مثل (برابر) کوئی عمل نہیں ہے۔ (سنن نسائی)۔مسند امام احمد کی ایک حدیث کے مطابق قضاعہ قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہی وقت میں مسلمان ہوئے تھے، ان میں سے ایک شہید ہو گیا اور دوسرا اس سے ایک سال بعد (طبعی موت) فوت ہوا۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے خواب آیا کہ جنت کا دروازہ کھولا گیا اور بعد میں (طبعی موت) فوت ہونے والا، شہید ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل ہوا، مجھے بڑا تعجب ہوا! جب صبح ہوئی تو میں نے اس خواب کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا اس نے(ایک سال پہلے شہید ہونے والے کے بعد) رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور ایک سال کی (فرض نمازوں کی) چھ ہزار رکعت اور اس سے زائد اتنی اتنی نفل رکعتیں ادا نہیں کیں؟۔(مسند احمد،8339)۔یعنی روزہ دار اپنی زائد نماز اور روزوں کی دائیگی کی وجہ سے اپنے سے پہلے شہید ہونے سے قبل ہی جنت میں داخل ہوگیا۔

روزہ دار کے لیئے انعاماتِ خداوندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ رمضان کی پہلی تاریخ میں آسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جو مہینے کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں۔ جو بندہ یا بندی ان راتوں میں نماز پڑھے،اسے ہر سجدے کے بدلے ایک ہزار سات سو نیکیاں ملتی ہیں۔ جنت میں اس کے لیے سرخ یاقوت کا محل بنایا جاتا ہے، جس کے ستر ہزا ر دروازے ہوں گے۔ یہ سب دروازے سونے کے ہوں گے، جن میں سرخ یاقوت جَڑے ہوں گے۔جب کوئی بندہ پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کے آخر تک اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور یہ دوسرے رمضان تک کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ وہ جتنے روزے رکھتا ہے، اس کے ہر روزے کے بدلے میں اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل بنایا جاتا ہے، جس کے ایک ہزار دروازے ہوں گے۔ ستر ہزار فرشتے صبح سے شام تک اس کے لیے بخشش کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔دن رات میں وہ جتنے سجدے کرتا ہے، ہر ایک سجدے کے بدلے میں جنت میں ایک درخت عطا ہوگا اور اس درخت کا سایہ اتنا وسیع ہوگا کہ ایک گھڑ سوار، سو برس تک(مسلسل) اس میں چلتا رہے، تب بھی وہ (سایہ)ختم نہ ہو۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد)۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 26 مارچ 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں