Ramzan-Kareem-And-Our-Digital-Life2

ماہِ صیام اور ہماری ڈیجیٹل زندگی

قرآن مجید فرقان ِ حمید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرماتاہے کہ ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“ (سورۃ البقرہ آیت381)۔لغوی اعتبار سے رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور عربی لغت میں رمضا اس بارش کو بھی کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے مکمل صاف و شفاف کر دیتی ہے۔اس دلکش معنوی مناسبت سے ہم مراد لے سکتے ہیں کہ ماہ صیام وہ مبارک مہینہ ہے،جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی جانب سے رحمت کی بارش کا خصوصی نزول فرماتاہے اور اِس روحانی برسات سے تمام مومنوں کے جمیع گناہ، گردو غبار کی مانند دھل جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ عربی زبان میں روزہ کے لیئے لفظ صوم کا استعمال ہوا ہے۔ جس کے سب سے معروف معنی رُک جانے اور ٹہر جانے کے ہیں۔یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری میں جائز نفسانی خواہشات اورحلال و طیب کھانے پینے سے بھی صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ازخود، رُک جانا شریعت اسلامی کی اصطلاح میں روزہ کہلاتاہے۔

لفظ رمضان اور صوم کے معنی و مفہوم پر اگر ہم فرمانِ خداوندی کی روشنی میں غورو فکر کریں تو منکشف ہوتاہے کہ ماہِ رمضان المبارک کی بنیادی غرض و غایت اور مقصد ہی اہل ایمان کی زندگیوں کو تقوی کے زیور سے آراستہ اور مزین کرنا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی سائل نے سوال کیا کہ”اے امیر المومنین تقویٰ کیا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ”کیا تیرا گزر کبھی خاردار جھاڑیوں سے پُر کسی راہ گزر سے ہوا ہے؟ تو، تُو وہاں سے کیسے گزرتا ہے؟“سائل نے عرض کی کہ”اے امیر المومنین! اپنے دامن کو سمیٹ کر اور کانٹوں سے بچ کر گزرتا ہوں کہ کہیں خاردار کانٹوں کی وجہ سے میرا جسم زخمی نہ ہو جائے“ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا”تیرا یہی طرزِ عمل تقویٰ ہے کہ مسلمان اس دنیا میں گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر بخیر و عافیت اپنی اُخروی منزل تک پہنچ جائے“۔

چونکہ روزہ رکھنے کا بنیادی مقصد وحید تقوی کا حصول ہے۔ اس لیئے کسی روزہ دار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فقط بھوکا،پیاسا رہ کر وقت گزارنے کو ہی اپنے روزہ کی معراج تصور کرلے۔دراصل روزے میں نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر مادی و شہوانی جذبات کو سست اور کمزور کرنے کی”روحانی تدبیر“ اختیار کرنے کا حکم الہٰی دیا ہی اس لیئے گیا ہے تاکہ کمتر سے کمتر روحانی قوت رکھنے والے انسان کے لیئے بھی اپنے گناہوں کو ترک کرکے نیک اعمال کی جانب پیش قدمی کرنا آسان ہو سکے اور وہ بھی تقوی کی منزل تک پہنچ سکے۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم آج کل روزہ رکھ کر اپنی جسمانی اور سماجی مصروفیات کو ترک یاپھر کم کرکے اپنے اردگرد ایک ایسا ڈیجیٹل جہان آباد کر لیتے ہیں، جہاں نفسانی جذبات و احساسات کو طاقت بخشنے والا ہر قسم کا سامانِ لذت بہم موجود ہوتاہے۔ بظاہر ہمارا جسم روزہ سے ہوتا ہے لیکن ہماری آنکھیں،دماغ،احساسات اور خواہشات اپنی من پسند سفلی و گناہ آلود خوراک سے ہمہ وقت لطف اندوز ہورہی ہوتی ہیں اور یوں ہم اپنی خود ساختہ ڈیجیٹل زندگی کے فریب کا شکار ہوکر ماہِ صیام میں روزے کی اصل برکات و اہداف سے خود کو یکسر محروم کرلیتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اپنی جسمانی حیات کے ساتھ ساتھ اپنی ڈیجیٹل زندگی کو بھی روزے کی بنیادی غایت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ منظم، متوازن اور ہم آہنگ بنانے کے لیئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔

موبائل فون پر زیادہ گفتگو سے پرہیز کریں
آج سے فقط چند برس قبل تک،جب موبائل فون کی سہولت ابھی عام نہیں ہوئی تھی تو سحری کا اختتام ہو جانے کے بعد تمام روزے دار نماز کی ادائیگی، قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر و اذکار میں ازخود ہی کسی میکانکی انداز میں مشغول ہوجاتے تھے اور شاذ و نادر ہی بعد از سحری کسی روزے دار کو غیرضروری بات چیت یا گفتگو کا موقع میسر آتاتھا۔ مگر اَب تو سحری سے قبل یافوراً بعد عزیز،رشتہ داروں اور دوست احباب سے موبائل فون پر خیر،خیریت لینے کا رواج پورے معاشرے میں تیزی سے فروغ پاتا جارہاہے۔لمحہ فکر یہ ہے کہ موبائل فون کمپنیوں کے درمیان بھی ماہِ رمضان المبارک میں ایسے خصوصی”کال پیکجز“ مہیا کرنے کا مقابلہ شرو ع ہوجاتا ہے۔جن میں موبائل صارفین کو سحر و افطار کے اوقات میں انتہائی ارزاں نرخوں یا بالکل مفت میں لاتعداد کالیں کرنے کی پیشکش فراہم کردی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں تو سحری اور افطاری بھی صرف اس لیئے بروقت بننے سے رہ جاتی ہے کہ اہلِ خانہ موبائل فون پر ایک دوسرے کے ساتھ لایعنی قسم کی باتوں مصروف ہوتے ہیں۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ موبائل فون پر گفتگو کا آغاز ”کیا آپ سحری کے لیئے اُٹھ گئے ہیں“ جیسے مختصر جملہ سے ہوتا ہے اور پھر دورانِ فون کال کب سحری کا اختتام ہوجاتاہے،بات چیت کرنے والوں کو کچھ خبر ہی نہیں ہوپاتی۔ ویسے تو فضول اور غیر ضروری گفتگو کبھی بھی نہیں کرنی چاہئے لیکن روزے کی حالت میں غیر ضرور ی اور فضول گفتگوسے روزہ جیسی عبادت کی افادیت میں نقص و کمی واقع ہونے کا شدید احتمال پایا جاتاہے۔یاد رہے کہ ایسی گفتگو جس کی ضرورت ہو اور نہ کسی کو فائدہ حاصل ہو غیر ضروری گفتگو کہلاتی ہے۔جبکہ ایسی بات چیت جو فائدہ مند تو ہو لیکن بلا ضرورت ہو فضول گوئی کی فہرست میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالی روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”بُری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخ ہے اور فضول باتیں کرنا نفاق کی علامت ہے“۔(ترمذی شریف)۔حضرت سفیان ثوری ؒ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ ”زبان اور کان کابھی روزہ ہوتا ہے،پس! غیبت،عیب جوئی کرنے یا سننے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے“۔

فیس بک وال کے چہرہ سے جھوٹ کی گرد صاف کریں
ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر قرآنی احکام،احادیث اور متفرق موضوعات پر مبنی اسلامی پوسٹوں کا ایک سیلاب سا اُمڈ آتا ہے۔اکثر پوسٹوں میں اللہ،رسولﷺ کے نام کا واسطہ دے کر لائیک اور شیئر کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ نیز بعض پوسٹوں پر تو یہ دھمکی آمیز وضاحت بھی نمایاں الفاظ میں درج ہوتی ہے کہ ”اگر آپ نے اس پوسٹ کو لائیک یا شیئر نہیں کیا تو آپ کو جلد ہی کسی ناگہانی عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے“۔ ہمارے زیادہ تر روزہ دار اس قدرمعصوم، رقیق القلب اور آسان ثواب کے متمنی ہوتے ہیں کہ وہ اِن پوسٹوں کو مکمل پڑھے بغیر ہی لائیک بھی کر دیتے ہیں اور بخوشی دوست احباب کو شیئر بھی کردیتے ہیں۔بلایہ سوچے سمجھے کہ وہ ایک غیر تصدیق شدہ اسلامی پوسٹ کو آگے پھیلا کر نیکی کمانے کے بجائے، اُلٹا ایک سنگین گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔قرآن حکیم،فرقانِ حمید میں ارشاد ِ باری تعالی ہے کہ ”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم کسی جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔“(سورہ الحجرات، آئیت نمبر 6)۔ نیز صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے پھیلادے“۔مفسرین اور شارحین حدیث نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ درج بالا آیت کریمہ اور حدیث رسول ﷺ میں بطور خاص سخت تنبیہ ہے ایسے لوگوں کے لیئے جو ہر سنی ہوئی (یا پڑھی ہوئی) بات آگے دوسروں تک بلاکسی تحقیق اور تصدیق کے پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

یاد رہے کہ فیس بک دنیا بھر میں اپنی بات،خیالات اور افکار انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلانے کا سب سے سہل اور مؤثر ذریعہ ہے۔ لیکن ہم اِس جدیدترین ابلاغی وسیلہ کو کس قسم کی معلومات یا علم کی تشہیر کے لیئے استعمال کرتے ہیں،اس بات کی تمام تر ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے نہ کہ فیس بک پر۔ اس لیئے فیس بک پرزیادہ سے زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے فراق میں اخلاق باختہ، فتنہ و فساد اور انتشار پھیلانے والی پوسٹیں بنانے والوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اُن کی ایک جھوٹی پوسٹ جتنے افراد کو گمراہی اور گناہ میں مبتلاء کرنے کا سبب بنے گی،اُن سب کا بوجھ روز قیامت اُنہیں اپنے کاندھوں پر تنہا اُٹھانا پڑے گا۔لائیکس کے رسیا ایسے تمام فیس بک ایکسپرٹ سے گزارش ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں اپنی فیس بک وال سے فقط تصدیق شدہ اور حوالہ جات سے مزین تعمیری اور اصلاحی مواد پوسٹ کریں۔ہوسکتاہے کہ اس طرح آپ کو لائیکس تو کم ملیں لیکن خاطر جمع رکھئے گا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نیکیاں خوب ملیں گی۔ جبکہ ایسے افراد جو ہر غیر مصدقہ اسلامی پوسٹ کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے جنون میں مبتلاء ہیں،اُنہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کے جھوٹ کو پسندیدگی کی سند دینے والا اور اُس کی تشہیر کرنے والے کا انجام بھی جھوٹ گھڑنے اور ایجاد کرنے والے کے ہمراہ ہی ہوگا۔

ٹویٹر کو دشنام طرازی سے محفوظ بنائیں
اچھے اور بامعنی خیالات کو کم سے کم الفاظ میں بیان کردیا جائے تو وہ جملہ ”قولِ زریں“ یا (Golden Word) بن جاتاہے۔دنیا کا ہر حقیقی دانشور، ادیب،شاعر، سائنس دان، مصلح اور مفکر کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ خیالات سمونے کا ہنر بخوبی جانتاہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہم بڑے لوگوں کی زبان اور قلم سے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے جملوں کو ”اقوال زریں“ قرار دے کر اُنہیں اپنی روزمرہ گفتگو کا لازمی جز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا عام آدمی بھی قولِ زریں لکھ سکتاہے؟۔اس سوال کے جواب کی تلاش ہی ٹویٹرکی ایجاد کا سبب بنی تھی۔شاید ہمارے قارئین نہ جانتے ہوں لیکن سچ یہ ہی ہے کہ ٹویٹر میں ایک ٹویٹ لکھنے کے لیئے 140 حروف کی پابندی ہی اس لیئے لگائی گئی تھی کہ عام لوگوں کو بھی اپنے زیادہ سے زیادہ خیالات کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔

گو کہ ٹویٹرنے گزشتہ برس ٹویٹ کے لیئے حروف کی تعداد کو 280 حروف تک بڑھا دیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ٹویٹر پر موجود اختصار کے حامل ٹویٹ ہی دنیا ئے انٹرنیٹ پر مقبول عام اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔حیران کن طورپر ٹویٹر پرموجود 70 فیصد ٹویٹس 140 حروف سے کم پر مبنی ہوتے ہیں۔جبکہ 12 فیصد ٹویٹس 140 حروف، 5 فیصد ٹویٹس 190 حروف اور صرف ایک فیصد ٹویٹس ہی 280 حروف کی آخری حد عبور کرپاتے ہیں۔اس طویل تمہید سے قارئین کو فقط یہ باور کروانا ہے کہ ساری دنیا ٹویٹر پر مختصر اور پُر اثر ”اقوالِ زریں“ لکھ رہی ہے اور ہم ٹویٹس کی صورت میں اپنے مخالف خیالات و نظریات رکھنے والوں کی گالم گلوچ سے طبیعت صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر صرف پاکستان کی 100نامور ترین شخصیات کے ٹویٹر ہنڈل سے کیئے جانے والے ٹویٹس کے ذیل میں درج کمنٹس کی چھان پھٹک کی جائے تو چھوٹی بڑی”زریں گالیوں“ کا ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا باآسانی معرض وجود میں آسکتاہے۔

بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ اپنے مخالف ٹویٹ کی ذیل میں ایسے لوگ بھی گالیاں درج کردیتے ہیں کہ جنہوں نے شاید ہی کبھی اپنی زبان سے کسی کو گالی دینے کے قبیح جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ ایک قدیم ضرب المثل ”بندر کے ہاتھ میں اُسترا“ من و عن ہمارے اور ٹویٹر کے تعلق پر منطبق کی جاسکتی ہے۔افسوس! ٹویٹر انسانی خیالات کے سمندر کو الفاظ کے کوزے میں مقید کرنے کی لیئے ایجاد کیا گیا تھا لیکن یہ ہی ٹویٹر گویا ہمارے خیالات کو مادر پدر،بے راہ روی عطا کرنے کا بنیادی وسیلہ بن چکا ہے۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ دین اسلام کے نزدیک ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور دشنام طرازی کرنا سخت ممنوع ہے۔

قرآن حکیم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے“(الأنعام، 6: 108)۔جبکہ ایک حدیث شریف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”مسلمان کو گالی دینا فسوق،نافرمانی، ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“۔(متفق علیہ:بخاری؛6044 مسلم؛الایمان64)۔علاوہ ازیں ایک دوسری حدیث میں حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں“۔(صحیح ابن حبان؛5696)۔واضح رہے کہ ماہ ِ صیام میں روزے کی کیفیت میں ٹویٹر پر اپنے مخالفین کے ساتھ بدکلامی، بدگوئی،گالم گلوچ اور دشنام طرازی کرنے سے ہمارے نفس کو لذت و راحت تو مل سکتی ہے لیکن اس طرز عمل سے روزہ کی تمام تر برکت،روحانیت اور اجرو ثواب ختم ہوکر رہ جاتاہے۔ اس لیئے ماہ رمضان المبارک کی پرکیف ساعتوں میں ٹویٹر ضرورت استعمال کیجئے گا مگر فقط علم و حکمت پر مبنی ”قولِ زریں“ لکھنے کے لیے۔

حرفِ آخر
کہتے ہیں کہ عقل مند کے لیئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے،اس لیئے کم لکھے ہوئے کو ہی زیادہ جانیں اور اپنی ڈیجیٹل زندگی کے دیگر جدید گوشے مثلاً ٹِک ٹاک، یو ٹیوب،واٹس ایپ، انسٹاگرم،اسکائپ اور ٹیلی گرام جیسی مفید اور کارآمد سہولیات کو بھی رمضان المبارک میں فقط سخت ضرورت کی صورت میں اور وہ بھی خاص نظم و ضبط اور معروف انسانی اخلاقی اُصول و اقدار کے تناظر میں ہی استعمال کریں۔جبکہ مستحسن تو یہ ہی ہوگا کہ روزہ کی حالت میں اپنا زیادہ تر وقت مختلف طرح کی ذکری، فکری،عملی عبادات اورفلاحی سرگرمیوں کی نذر کردیاجائے۔تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ماہ رمضان المبارک کی خیر و برکات سے ہماری ظاہری اور باطنی زندگی کو خوب آراستہ فرمادے۔آمین۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 25 اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں