Power Outages

جب بجلی کے چراغوں میں روشنی نہ رہی

جس طرح انسانی زندگی کی تمام ہما ہمی جسم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بچھائے ہوئے رگِ جال میں دوڑنے والے خون کی مرہونِ منت ہے، بالکل اِسی مصداق ہماری جدید دنیا کی ساری گہما گہمی بجلی کے چند تاروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یہ انوکھا انکشاف پاکستانی عوام پر تب ہوا،جب 23 جنوری کو علی الصبح 7 بج کر 34 منٹ پر نیشنل گرڈ سے منسلک بجلی کی مین لائنوں میں کسی تیکنیکی خرابی کے نتیجے میں یاپھر انسانی غفلت کے باعث اچانک ملک بھر میں برقی رو کا سلسلہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا۔جس کی وجہ سے اسلام آباد، کراچی،لاہور اور پشاور جیسے بڑے شہروں سمیت ملک کے تقریباً تمام علاقے بجلی سے مکمل طور پر محروم ہوگئے۔ملک میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہونے سے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسزشدیدمتاثر ہوئیں، اسپتالوں میں آپریشن ملتوی ہوگئے،فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام رک گیا، گھروں،دُکانوں اور دفاتر میں بجلی فراہم کرنے کے متبادل ذرائع مثلاً یوپی ایس وغیرہ کے جواب دینے سے اندھیرا چھا گیا، لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کا پہیہ جام ہوگیا، کراچی میں دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر پانی کی لائن پھٹ جانے ملک کے سب سے بڑے شہر میں پینے کے پانی کی فراہمی یکسر بند ہوگئی۔جبکہ سرکاری و نجی دفاتر،تجارتی مراکز اور مالیاتی اداروں میں مسلسل جنریٹر چلتے رہے،جس پر پاکستانی عوام کے نہ صرف ہزاروں روپے کی اضافی اخراجات ہوئے بلکہ ملک کے 50 فیصد سے زائد پٹرول پمپس پر پٹرول بھی ختم ہوگیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ بجلی کے مذکورہ بریک ڈاؤن کے حوالے سوشل میڈیا پر پہلے تو افواہوں کا ”سستابازار“ گرم ہوااور صارفین ملک میں جنگ چھڑنے سے لے کر حکومت تبدیل ہوجانے تک کی کوڑیاں دُور،دُور سے تلاش کر کے لاتے رہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پوسٹ کرتے رہے۔ بعدازاں جب افواہوں کی دُکان داری زیادہ دیر تک نہ چل سکی تو پھر وہ خوش قسمت صارفین،جنہوں نے اپنے موبائل فون اور ڈیوائسز بجلی کا بریک ڈاؤن ہونے سے قبل چارج کرلیئے تھے،وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بجلی کے بریک ڈاؤن سے حاصل ہونے والی اذیت کو ہنسی مذاق میں اُڑاتے ہوئے طرح طرح کی،کڑوی،کسیلی،سیاسی،غیر سیاسی،طنزیہ اور مزاحیہ میمز بنابنا کر پوسٹ کرنے لگے۔ کسی نے بجلی بریک ڈاؤن پر بلاول بھٹو زرداری کا ایک پرانا بیان شیئر کیا،جس میں کہا گیا تھا کہ”پرانے پاکستان میں خوش آمدید۔کیا ہم نے کبھی پرانے پاکستان کو چھوڑا بھی تھا؟“۔

نیز ایک صارف نے ان لوگوں کی حالتِ زار پر جن کے موبائل فون چارج نہیں تھے، تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ہم آپ کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں“۔ ہفتے کے پہلے ہی روز بجلی بریک ڈاؤن پر ایک شخص نے میم پوسٹ کی کہ ”جب پیر ایسا ہے تو پورا ہفتہ کیسا ہوگا“۔جبکہ برقی آلات کے ذریعے اپنے پیشہ ورانہ اُمو ر انجام دینے والے لوگوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ایک صارف نے ٹوئٹ کی کہ ”سمجھ نہیں آرہا کہ لیپ ٹاپ استعمال کروں یا اِس کی چارجنگ میٹنگ کے لیئے بچاکر رکھوں“۔فیس بک پر ایک صارف نے لکھا کہ’’قسط ادا نہ کرنے پر آئی ایم ایف والے پاکستان کا بجلی کا میٹر اتار کر لے گئے ہیں“۔علاوہ ازیں بعض صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پر جہاں بجلی کے طویل ترین بریک ڈاؤن پر اربابِ اختیار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا،وہیں وہ اُن سے ہر تھوڑے عرصہ بعد ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہونے کے اسباب اور وجوہات بھی پوچھتے دکھائی دیئے۔

یادرہے کہ ماضی میں 9 جنوری 2021 اور 13 اکتوبر 2022کو بھی پاکستان میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن ہونے کے واقعات ہو چکے ہیں اور تب بھی ملک بھر میں بجلی کو مکمل طور پر بحال کرنے میں کئی کئی گھنٹے لگ گئے تھے۔یعنی نئے اور پرانے پاکستان کی واحد انتظامی قدر مشترک بجلی کے طویل ترین بریک ڈاؤن کو ہی قرار دیا جاسکتاہے۔ بہرکیف،کیا بجلی کا طویل بریک ڈاؤن بار، بارفقط پاکستان میں ہی ہوتا ہے یا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بجلی کی طویل بندش کے اذیت ناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔شاید آپ کو سُن کر حیرت ہو مگر حقیقت احوال یہ ہی ہے کہ دنیا کے بے شمار ممالک میں لاکھوں افراد گھنٹوں،دن اور حد تو یہ ہے کہ مہینوں تک بھی بجلی کے بریک ڈاؤن کے اندھیرے تلے بالکل ویسے ہی زندگی بسر کر نے کی پریشانی سے گزر چکے ہیں،جیسے بجلی کے حالیہ بریک ڈاؤن میں پاکستانی عوام نے بمشکل گزاری تھی۔

بجلی کے بغیردو ماہ اور چھ دن
تاریخ کے سب سے طویل عرصہ تک ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن میں سے ایک19 فروری 1998 کو نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ میں اُس وقت ہوا تھا۔جب شہر میں بجلی فراہمی کے ذمہ دار سینٹرل انرجی لمیٹڈ کے آلات نے تیکنیکی خرابی کے باعث اچانک کام کرنا چھوڑ دیاتھا۔بجلی کے اچانک بند ہونے سے سینکڑوں افراد دفاتر، شاپنگ مالز اور ہوٹلوں کی لفٹوں میں پھنس گئے۔جبکہ بعض عمارتوں میں نصب سیکورٹی الارمز نے خودکار انداز میں فعال ہوکر خطرے کے الارمز بجانا شروع کردیئے،جنہیں سُن کر لوگوں میں سخت خوف و ہراس پھیل گیا اور اچانک ہونے والی بھگڈر کی نتیجے میں بے شمار افراد زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ سڑکوں پر ریکارڈ تعداد میں ٹریفک حادثات ہوئے کیونکہ لوگوں کو اسٹریٹ لائٹس کی روشنی کی سہولت کے بغیر گاڑیاں شاہراؤں پر چلانے کی عادت نہیں تھی۔

یادرہے کہ سینٹرل انرجی لمیٹڈ کے اہلکاروں اور عملے نے آکلینڈ شہر کو دیگر علاقوں سے بجلی فراہمی کی کئی کوششیں کیں مگر جس علاقہ کے بجلی سسٹم کو بھی سینٹرل انرجی لمیٹڈ سے منسلک کیا جاتا،شومئی قسمت کہ یک لخت وہ سسٹم بھی کام کرنا چھوڑ دیتا۔بالآخر بلیک آؤٹ سے نمٹنے کے لیئے ملک کے دیگر شہروں اور پڑوسی ملک آسٹریلیا سے جنریٹر ز منگوائے گئے اور اُنہیں شہر کی سڑکوں پر رکھ کر چلایا گیا۔ ہر وقت چلنے والے جنریٹرز کے شور سے شہریوں کا ذہنی سکون غارت ہوکر رہ گیا۔ بجلی کے بریک ڈاؤن کا سب سے زیادہ اثر نیوزی لینڈ کی سیاحت پر پڑا، اور 40 فیصد ہوٹلوں کی بکنگ پہلے ہفتے میں ہی کینسل ہوگئی۔ جبکہ چھوٹے کاروبار مثلاً کیفے، پب، ریسٹورنٹ، بوتیک وغیرہ مکمل طور پر تباہ برباد ہوگئے۔ ایک سروے کے مطابق بجلی بریک ڈاؤن کے دوران خسارہ میں جانے والے ایک ہزار خوردہ فروشوں میں سے بعدازاں صرف 200 ہی ازسرنو اپنے کاروبار کا آغاز کرسکے۔بجلی کے اِس بریک ڈاؤن کے باعث شہر کے کچھ حصوں میں بجلی بحال ہونے میں پانچ ہفتے لگے،جبکہ اکثر علاقوں میں بجلی کی فراہمی بحال کرنے میں پورے دو ماہ اور چھ دن کا عرصہ لگااور اس مدت کے دوران بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کے باعث شہر کا نظام زندگی مکمل طو ر پر مفلوج رہاتھا۔

دی بگ بلیک آؤٹ
اگر دنیا میں جدیدسہولیات اور حسن انتظام کے حامل بہترین شہروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو بلاشبہ اُس میں سرفہرست معروف امریکی شہر نیویارک کا نام ضرور شامل گا۔جبکہ نیویارک شہر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا اور اس میں جلتے ہوئے برقی قمقمے رات میں بھی دن کاسا سماں بنائے رکھتے ہیں۔مگر 9 نومبر 1965 میں نیویارک سمیت امریکا کی مشرقی ساحل کی آٹھ ریاستوں میں بجلی کا بدترین بریک ڈاؤن ہو۔خاص طور پر نیویارک شہر میں علی الصبح 5 بجے کے وقت،جب شہر کی سڑکوں پر دفاتر اور کاروباری جگہوں پر جانے والے افرادکابے تحاشا رش تھا کہ اچانک فٹ پاتھ پر نصب اسٹریٹ لائٹس نے ٹمٹمانا شروع کیا اور پھرچند سیکنڈوں میں، مین ہیٹن، برونکس، کوئنیز میں مکمل بلیک آؤٹ ہوگیا۔ صرف بروکلین کے علاقے میں 8 لاکھ سے زائد افراد سب وے پر پھنس گئے، ٹرینوں کی آمدورفت مکمل طو ر پر بند ہوگئی،ائیرپورٹس پربجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہرطرف افراتفری پھیل گئی اور کئی مسافر طیارے، رن وے دکھائی نہ دینے کے باعث فضاؤں میں ہوائی اڈوں کے گرد چکر کاٹتے رہے۔

چونکہ بجلی کے تعطل سے متاثرہ علاقوں میں تمام ٹیلی ویژن اسٹیشن غیر فعال ہوگئے تھے، لہٰذا، بجلی کے بریک ڈاؤن کا شکار علاقوں میں عجیب و غریب افواہیں گردش کرنے لگیں،بعض لوگوں نے خلا سے اُڑن طشتری کی زمین پر آمد کو بجلی کی بندش کا ذمہ دار ٹہرایا تو کسی نے پڑوسی دشمن ملک کے حملہ کا خدشہ ظاہر کیا۔ لیکن حقیقت میں بجلی کایہ بریک ڈاؤن جسے بعدازاں امریکی ذرائع ابلاغ نے ”دی بگ بلیک آؤٹ“ کا نام دیاتھا،پاور گرڈ پروٹیکشن سسٹم میں تیکنیکی خرابی کے باعث ہوا تھا۔مذکورہ بریک ڈاؤن سے 13 گھنٹوں تک کم و بیش 30 ملین افراد بجلی سے مکمل طور پر محروم رہے اور بجلی کی بحالی میں 10 ہزار قومی محافظ رضاکاروں اور 5 ہزار پولیس اہلکاروں سے مدد لی گئی تھی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ٹھیک 12 برس بعد 13 جولائی 1977 کو آنے والے بادو باراں کے ایک طوفان نے بارِ دگر نیویارک شہر میں بجلی کاتمام ترسیلی نظام تہس نہس کر کے رکھ دیا اور شہر گزشتہ ”بگ بلیک آؤٹ“ سے بھی زیادہ سنگین اور بڑے بجلی کے بریک ڈاؤن کی زد پر آگیا۔بجلی کے اِس دوسرے بریک ڈاؤن کی وجہ سے لگورڈیا اور کینڈی ہوائی اڈے بند ہوگئے، مسافر ٹرینوں کومعطل کردیا گیا۔جبکہ سب وے سسٹم سے 4000 لوگوں کو ریسکیو کرکے ہنگامی طور پر کسی محفوظ مقام پر منتقل کروانا پڑا۔ 24 گھنٹے تک رہنے والے بجلی کے اِس بریک ڈاؤن میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لیئے سب سے تشویش ناک اور بدنامی کی بات یہ تھی کہ بجلی کی بندش کے دوران نیویارک کی سڑکوں پر بے تحاشہ لوٹ مار کی وارداتیں ہوئیں۔ لوگ دُکانوں سے کپڑے،کھانے پینے کا سامان ہی نہیں بلکہ شورومز میں فروخت کے لیئے کھڑی ہوئی کاریں تک چوری کرکے لے گئے۔مذکورہ بریک ڈاؤن میں لوٹ مار، چوری،فسادات، اور آگ لگانے کے دس ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے اور ضروریات ِ زندگی کے مال و اسباب سے بھری ہوئی1600 دُکانوں کومکمل طور پر سامان سے خالی کردیا گیا۔

دنیا کی 10 فیصدآبادی اندھیرے میں
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی سات ریاستوں میں 30 اور 31 جولائی 2012 کو فنی خرابی کے باعث یکے بعد دیگرے بجلی کے دو بڑے سنگین بریک ڈاؤن ہوئے۔جس میں تقریباً 670 ملین افرادیعنی دنیا کی 10 فیصد سے زائد آبادی شدید متاثر ہوئی۔ شمالی بھارت میں ہونے والے بجلی کے اِس بریک ڈاؤن میں دہلی،پنجاب،ہریانہ، ہماچل پردیش، اترپردیش، مقبوضہ جموں وکشمیر اور راجستھان کے علاقے مکمل طور پربرقی رو سے محروم ہوگئے۔ نیز مذکورہ واقعہ میں بجلی کی اچانک بندش سے بھارتی ریلوے نظام سب سے زیادہ متاثر ہوا اور نچلے و درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مسافراپنی منزل مقصود تک بروقت نہ پہنچ سکے۔ جبکہ بھارتی دارلحکومت دہلی میں میٹروسروس بند اورمتاثرہ علاقوں کی سڑکوں پر تاریخ کا بدترین ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔ نیز اسپتالوں، تجارتی مراکزاور دفاتر میں ہر قسم کی سرگرمیاں کئی گھنٹوں تک مکمل طور پر معطل ہوگئیں۔واضح رہے کہ بھارت میں بجلی بریک ڈاؤن کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ماضی میں 2 جنوری 2001 میں بھی بھارت کی کئی ریاستوں میں بیک وقت بجلی کا شدید بریک داؤن ہوا تھااور 12 گھنٹے تک رہنے والی بجلی بندش سے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم ازکم 230 ملین افراد اذیت اور پریشانی کا شکار ہوئے تھے۔دراصل بے ہنگم آبادی،ناکافی انفراسٹرکچر اور توانائی کی کمی کی وجہ سے بھارت کا شمار اُن ممالک میں کیا جاتاہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ بجلی کے بریک ڈاؤن ہونے کا خطرہ ہروقت موجود رہتاہے۔جبکہ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت میں درمیانے درجے کے تقریباً درجن بھر کے قریب بجلی کے بریک ڈاؤن ہونے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

ترکی بہ ترکی بلیک آؤٹ
ترکی کا شمار اُ ن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام نہ صرف انتہائی جدید خطوط پر استوار ہے بلکہ اِس ملک میں کام کرنے والی توانائی کی کئی کمپنیاں دنیا کے دیگر ممالک میں بجلی کے ترسیلی نظام قائم کرنے کے لیئے اپنی پیشہ ورانہ خدمات بھی مہیا کرتی ہیں۔ مگر چند برس قبل ترکی بھی بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن سے گزر چکا ہے۔ترکی میں 14 اپریل 2015 کو ہونے والے بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن نے ملک کے تمام81 صوبوں میں نظام زندگی کو مفلوج اور معطل کر کے رکھ دیاتھا۔نیز اسنتبول اور انقرہ سمیت مختلف شہروں میں میٹرو،ہائی اسپیڈ ٹرین، ٹرام سروس بند ہونے سے شہریوں کی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ شہر کی مرکزی شاہراؤں پر بدترین ٹریفک جام ہونے سے لوگوں کو نقل و حمل میں سخت دشواری پیش آئی۔ یاد رہے کہ ترکی میں واقع بجلی کی ترسیل کا نظام کئی یورپی ممالک جیسے یونان اور بلغاریہ کے ساتھ بھی منسلک ہے اور ترکی میں بلیک آوٹ ہونے کے بعد یہ خدشات بھی پیدا ہونے لگے تھے کہ کہیں دیگر ممالک بھی ترکی میں ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کی زد پر نہ آجائیں۔اگر ایسا ہوجاتاتو اِس کا براہ راست اثر وسطی یورپ کے ساتھ قائم ترکی کے اقتصادی روابط پر پڑتا۔

مذکورہ خدشہ کے پیش ترکی کے دو بڑے پاور پلانٹ جو صوبہ ایجیئن میں ازمیر اور صوبہ بحیرہ روم میں اڈانا کوکورووا میں واقع ہیں۔اُنہیں ترکی کے دیگر پاور پلانٹس اور مرکزی گرڈ اسٹیشن سے منقطع کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے ترکی میں ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کے منفی اثرات سے یونان اور بلغاریہ مکمل طورپر محفوظ رہے۔ تقریباً 9 گھنٹے تک رہنے والی بجلی کی ملک گیر بندش کی زد میں 70 ملین افراد آئے۔ ترکی کے بعض حلقوں نے مذکورہ واقعہ کوکسی دشمن ملک کی جانب سے ہونے والے سائبر حملے کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ حملہ ترکی کے یورپی پاور نیٹ ورک کا حصہ بننے سے روکنے کے لیئے کیا گیا،تاکہ دنیا کو باور کروایا جاسکے کہ ترکی بجلی کی لائنیں محفوظ نہیں ہیں اور اِس کے ساتھ یورپی پاور نیٹ ورک کا معاہدہ کرنے سے یورپی عوام میں بجلی کی ترسیلی نظام میں خلل واقع ہونے کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں“۔دوسری جانب ترکی حکومت کی تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں ہر سازشی نظریے کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ”انہیں سائبر حملہ ہونے کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا اور بجلی کا بریک ڈاؤن خالص تیکنیکی اور فنی خرابی کے باعث ہوا تھا“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 12 فروری 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں