US diplomats to boycott 2022 Beijing Winter Olympics

بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 امریکاکے نشانے پر

انسانی تاریخ میں جب سے کھیلوں کی باقاعدہ ابتداء ہوئی ہے، تب سے لے کر آج تک کھیلوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت ہی کھیلاجاتا رہا ہے اور خیر سگالی کے اسی معروف اور مستحسن جذبے کو ”اسپورٹس مین اسپرٹ“ کے نام سے پکارا جاتاہے۔جبکہ ہر کھیل میں ”اسپورٹس مین اسپرٹ“ کو سب سے مقدم اور ملحوظ خاطر رکھنا کھلاڑیوں، منتظمین سمیت تمام فریقین کی بنیادی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور کھیل کے میدان اور میدان سے باہر خیر سگالی کے جذبہ سے لبریز،خوش کن مظاہرے ہی کھیلوں کی اہمیت کو دوچند بناتے ہیں۔ہماری دانست میں اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو کھیل کے میدان میں منعقد ہر مقابلہ کا اختتام ہار، جیت پر نہیں بلکہ تالیوں کی گونج پر ہوا کرتا ہے اور سامعین کی تالیاں جہاں جیتنے والے کی لیئے دادِ تحسین ہوتی ہیں،وہیں یہ تالیاں ہارنے والے کی ہمت کے لیئے زبردست خراج تحسین بھی گردانی جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ کھیل کبھی بھی تنازعات پیدا نہیں کرتے،کیونکہ اگر ہم چاہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ کھیل،کھیل میں اپنے کئی دیرینہ تنازعات کو نمٹا سکتے ہی نہیں بلکہ نمٹا بھی چکے ہیں۔ کھیل کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنے کی حکمت عملی ”اسپورٹس ڈپلومیسی“ کہلاتی ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں دنیا کے بے شمارممالک نے ”اسپورٹس ڈپلومیسی“ کے مدد سے اپنے سیاسی، سفارتی اور سرحدی تنازعات صرف حل ہی نہیں کیئے بلکہ چند ایک بار تو ”اسپورٹس ڈپلومیسی“ سفارتی جادو کے طفیل دو ممالک کے مابین یقینی جنگ بھی روکی جاچکی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ”اسپورٹس ڈپلومیسی“ کو اپنے حریف ممالک کے ساتھ کشیدگی کم یا ختم کرنے کے بجائے اُسے مزید بڑھانے کے لیئے پورے شد و مد کے ساتھ استعمال کررہے ہیں۔ جس کا تازہ ترین مظاہرہ امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے اگلے ماہ بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کرکے کیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے وائٹ ہاؤس کے متعدد قابل بھروسہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ خبر بریک کی ہے کہ”اگلے ماہ فروری میں چین میں منعقدہ سرمائی اولمپکس کھیلوں کے عالمی مقابلے میں امریکی حکومت کا کوئی بھی عہدیدار شرکت نہیں کرے گا۔ کیونکہ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 میں امریکی کھلاڑیوں کو روکے بغیر امریکی عہدیداروں کو اولمپکس مقابلے میں شریک ہونے پر روک لگانے سے بین الاقوامی سطح پر چین سخت سفارتی دباؤ میں آجائے گا اور یوں چین کی عالمی سفارتی ساکھ کو سخت دھچکا لگ سکتاہے“۔ بیجنگ سرمائی اولمپکس کا یہ جزوی بائیکاٹ چین کے علاقے اویغور اور تبت میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کی جھوٹی سچی خبروں کو بہانہ بنا کر کیا جارہاہے۔نیزاس تقریب کا سفارتی طور پر بائیکاٹ کرنے والے ممالک میں امریکا کے علاوہ برطانیہ، آسٹریلیا، اور کینیڈا شامل ہیں جبکہ شمالی کوریا نے کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون وبائی مرض کا حوالہ دیتے ہوئے اس ایونٹ میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔

نیز ان ممالک کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کی جانب سے بھی مغربی ممالک کو بیجنگ اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہونے کے لیئے بار بار تاکید کی جارہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ”چین عالمی میگا ایونٹ کا استعمال کر کے اپنے ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کو چھپانے کی کوشش کرے گا“۔ اگر ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی دلیل کو من و عن درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھارت میں تو کھیل کا کوئی عالمی مقابلہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہونا چاہئے۔کیونکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی جتنی خلاف ورزیاں بھارتی ریاست کی سرپرستی میں روزانہ ہورہی ہوتی ہیں، اُن خلاف ورزیوں کا مقابلہ تو دنیا کے تمام ملک مل کر بھی نہیں کرسکتے۔کیا دنیا کا کوئی ایسا ملک ہے جس نے کشمیر جتنے چھوٹے سے رقبے پر 7 لاکھ فوج تعینات کر کے وہاں کے مکینوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید کیا ہوا ہو؟۔لیکن شاید ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو دائریکٹر کو بھارت بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی دکھائی ہی نہیں دے سکتی کیونکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں وہی کچھ دیکھ سکتی ہیں، جسے دیکھنے کے لیئے امریکا کی جانب سے واضح ہدایت اور توجہ دلائی جائے۔

یاد رہے کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ کے خبر کی بازگشت سب سے پہلے گزشتہ برس سنائی دی تھی، جب نومبر2021 میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ٹیلیفون کال کے فوری بعد، اشارہ دیا تھا کہ”ہوسکتا ہے وہ آپ کے ملک میں ہونے والے کھیلوں کا سفارتی بائیکاٹ کریں“۔وائٹ ہاؤس کے تحریری بیان کے مطابق’’صدر بائیڈن نے سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں (عوامی جمہوریہ چین کے) طرز عمل کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے“۔حیران کن طور پر امریکہ کی طرف سے گزشتہ41 سال میں اولمپکس ایونٹ کا یہ دوسرا بائیکاٹ ہوگا۔ اس سے پہلے جمی کارٹر انتظامیہ نے1980 میں افغانستان پر سوویت یونین کے 1979 کے حملے کی وجہ سے امریکی ایتھلیٹس کو ماسکو میں ہونے والے گرمائی کھیلوں میں جانے سے روک کر اس ایونٹ کا بائیکاٹ کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمائی بیجنگ اولمپکس کے بائیکاٹ کے معاملہ پر جوبائیڈن اور اور امریکی اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی میں شدید اختلاف پایا جاتاہے۔امریکی اولمپک اور پیرا لمپک کمیٹی (یو ایس او پی سی) نے بدھ کے روز کہا کہ وہ چین کے بیجنگ میں مجوزہ سن 2022 کے سرمائی اولمپک کھیلوں کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔یو ایس او پی سی کی صدر سوزان لیانس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ”گو کہ بائیکاٹ کی حمایت میں مسلسل آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن اس سے ان ایتھلیٹوں کو کافی تکلیف پہنچے گی جو طویل عرصے سے اِس عالمی مقابلے کے لیے سخت محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ چین میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے، لیکن اس کے باوجود ہم کھیلوں کے سیاسی و سفارتی بائیکاٹ کے فیصلہ کی حمایت کبھی بھی نہیں کریں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں اور بالخصوص 1980میں بھی اس طرح کے بائیکاٹ موثر ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ویسے بھی اس طرح کے بائیکاٹ سے صرف اُن محب وطن اور محنتی کھلاڑیوں کو تکلیف ہوتی ہے جو اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے زندگی کا ایک بڑا حصہ تربیت حاصل کرنے میں صرف کردیتے ہیں“۔یہ امریکی اولمپک اور پیرا اولمپک کمیٹی کا احتجاجی دباؤ ہی ہے کہ امریکا اپنے کھلاڑیوں کو بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت سے روک نہیں سکا اور وائٹ ہاؤس انتظامی کو بیجنگ میں منعقدہ عالمی ایونٹ کے سفارتی بائیکاٹ کا فلاپ ڈرامہ کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لی جیان نے امریکی صدر کے فیصلے پر اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ”بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جانا چاہیے اور اس عمل سے حتی المقدور اجتناب کرنا ہی امریکا کے لیے بہتر ہوگا تاکہ چین اور امریکا کے درمیان اہم شعبوں میں جاری تعاون اور بات چیت متاثر نہ ہوسکے۔ تاہم امریکا اگر اپنے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کر کے ہمارے ایونٹ میں شریک ہونے کا فیصلہ نہیں کرتا تو پھر چین بھی جواب میں ضرور سخت سے سخت اقدامات امریکا کے خلاف اُٹھانے کا حق محفوظ رکھتاہے“۔بیجنگ جوبائیڈن کو منہ توڑ سفارتی جواب دینے کے لیئے مستقبل قریب میں کیا اقدامات کرتاہے؟۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کو لے کر ”اسپورٹس ڈپلومیسی“کے بدترین دور کا آغاز ہوچکاہے۔

بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ جس طرح انسانی ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، بلکل اسی مثال کے مصداق امریکا کے چند ایک اتحادی ممالک کے علاوہ کسی بھی دوسرے اہم ترین مغربی ملک نے واشنگٹن کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے ابھی تک بیجنگ سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے تو ایک قدم آگے بڑھا کر کچھ بڑے مغربی ممالک کی جانب سے سفارتی طور پر بائیکاٹ کے فیصلہ کو عملی طور پر رد کرتے ہوئے بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں باضابطہ طور پر شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چینی ذرائع ابلاغ میں پاکستانی وزیر اعظم کی جانب ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے پیشگی اعلان کو بہت زیادہ اہمیت دی جاری ہے۔جبکہ بعض چینی تجزیہ کاروں کی جانب سے تو یہاں تک بھی کہا جارہا ہے کہ ”وزیراعظم پاکستان کے اعلان کے بعد بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کے عالمی ایونٹ کا امریکی ایما پر بائیکاٹ کرنے والے ممالک دنیا بھر میں سفارتی تنہائی سے بچنے کے لیئے اپنے فیصلے پرنظر ثانی کرسکتے ہیں“۔

اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ مختلف عالمی محاذ پر امریکا اور چین کے درمیان کشمکش کے تناظر میں بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کا کامیاب انعقاد چینی عوام کے لیئے ایک بہت بڑا چیلنج اور مشکل امتحان بن چکا ہے۔ اگر چین سفارت کاری اور کھیل کے میدان میں ہونے والی امریکا کی تمام تر مخالفت کے باوجود اِس عالمی ایونٹ کو منعقد کروانے کا سنگِ میل کامیابی کے ساتھ عبور کرلیتاہے تو بلاشبہ عالمی منظر نامہ میں اسے دنیا چین کی ایک بڑی فتح کی صورت میں ہمیشہ یاد رکھے گی۔ کیونکہ کھیل کو جنگ امریکا نے بنایا ہے اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کھیل میں ہار، جیت اور جنگ میں فتح و شکست کا نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے۔لہٰذا بیجنگ سرمائی اولمپکس کے میدان میں جوبائیڈن اور شی جی پنگ میں سے کس کی فتح و شکست کا نقارہ بجتاہے، پردہ اُٹھنے کے لیئے ساری دنیا کی نگاہیں بڑی بے چینی سے منتظر ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 31 جنوری 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں