Unlucky Tokyo Rolls the Olympic Dice Again

ٹوکیو اولمپکس کا میدان جنگ

قدیم زمانے سے لے کر آج کے جدید دور تک انسان نے ایک دوسرے سے جنگ کرنے کے جتنے طریقے ایجاد کیئے ہیں اُن میں سے ایک انداز ِ جنگ ”کھیل“ بھی ہے۔ بس! جنگ اور کھیل میں فرق اتنا سا ہے کہ کھیل میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے سے قبل ہی لڑنے کے اُصول و ضوابط دونوں فریقین کی جانب سے خوشی خوشی طے کرلیئے جاتے ہیں جبکہ جنگ میں قواعد و شرائط پر متفق ہونے کا یہ ہی کام بحالت مجبوری، اختتام پر یعنی جنگ کے بعد مذاکرات کی میز بھی بیٹھ کر کیا جاتا ہے۔ یا بہت ہی سادہ الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ جنگ،دوسرے پر اپنی برتری اور سبقت ثابت کرنے کا انتہائی ہول ناک اور بدصورت طریقہ ہے۔جبکہ کھیل میں شکست و فتح کا یہ ہی کھیل خاص تہذیب اور قرینہ کے ساتھ کھیلا جاتاہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگ اور کھیل میں حصے لینے والوں کے ذہنی و قلبی جذبات و احساسات یکساں نوعیت کے ہی ہوتے ہیں یعنی جلد ازجلد اپنے مخالف کو شکست کے مزہ سے آشنا کروانا۔مثال کے طور پر کشتی جسے انگریزی زبان میں ریسلنگ بھی کہتے ہیں زمانہ قدیم میں جب ابھی انسان نے آتشی ہتھیار ایجاد نہیں کیئے تھے، اُس وقت تک ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا سب سے مقبول طریقہ دو بدو پنجہ آزمائی کرنا ہی تھا۔ لیکن جب آسانی سے جان لینے والے مہلک ہتھیار ایجاد ہوگئے تو دو بدو لڑائی کو کشتی،پہلوانی اور ریسلنگ کا نام دے کر ایک عام سے کھیل کا درجہ دے دیا گیا۔ آج کل دنیا بھر میں رائج زیادہ تر کھیل قدیم حربی دور کی ہی یادگاریں ہیں۔ چونکہ اکثر کھیل لڑائی،جھگڑے اور جنگ کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیئے دنیا کے کئی ممالک کھیل کے میدان میں اپنے روایتی حریف کے خلاف اس طرح اُترتے ہیں۔جیسے انہیں عظیم معرکہ جنگ درپیش ہے۔

زیادہ دور کیوں جاتے ہیں،آپ رواں ماہ ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کی ہی مثال لے لیں، جس میں امریکا اور چین کے کھلاڑیوں کے لیئے کھیل کا میدان، درحقیقت جنگ کا میدان بنا ہوا تھا اور دونوں ممالک کے کھلاڑی عسکری سپاہیوں کی مانند ٹوکیو اولمپکس کی جنگ جیتنے کے لیئے بھرپور کوشش کرتے دکھائی دیتے رہے۔خاص طور پر امریکا،چین کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیئے سب کچھ کرنے کے لیئے تیار نظر آتا تھا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اولمپکس میں طلائی تمغوں کی دوڑ میں خود کو سرفہرست رکھنے کے لیئے اولمپکس مقابلوں میں جائز،ناجائز ہتھکنڈوں کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ اولمپکس مقابلوں میں چین کے مقابلے پر امریکا کو زیادہ سے زیادہ،برتری دلانے کے لیئے امریکی سازشوں اور بے ایمانیوں پر قواعد و ضوابط کا پردہ ڈالنے کے لیئے اولمپکس کمیٹی نے بھی خوب”قانونی تعاون“ فرمایا۔نیز امریکی میڈیا نے بھی ٹوکیو اولمپکس کی ایسے متعصبانہ زاویہ سے کوریج کرنے کی کوشش کی،جیسے اولمپکس مقابلے میں چین اور امریکا کے درمیان حقیقی جنگ کا میدان سجا ہوا ہے اور اس میں امریکا کا فتح یاب ہونا دنیا بھر میں امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیئے از حد ضروری ہے۔

حالیہ اولمپکس مقابلوں کی ابتداء میں ہی چین کی شاندار کارکردگی کو لے کر امریکی ذرائع ابلاغ کس قدر پریشان اور تشویش کا شکار تھا اس کا اندازہ اس ایک خبر سے بخوبی لگایا جاسکتاہے،جو امریکا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے سی این این نے چین کی جانب سے اولمپکس مقابلہ میں پہلا طلائی تمغہ جیت جانے پر نشر کی۔ سی این این نے بریکنگ نیوز دی تھی کہ ”چین کا طلائی تمغے اور کورونا کے نئے کیسز کے ساتھ اولمپکس میں پہلے دن کا آغاز“۔ اس خبر کو سننے کے بعد ہر سامع نے کم ازکم ایک تو ضرور سوچا ہو گا کہ چین کے طلائی تمغے جیتنے کا کورونا کے نئے کیسز سے کیا تعلق بنتا ہے۔ دراصل امریکی ذرائع ابلاغ چینی کھلاڑیوں کو حاصل ہونے والے طلائی تمغوں کو کورونا کے ساتھ نتھی کر کے اولمپکس میں چین کی فتح کو منفی انداز میں پیش کر کے ملیامیٹ کرنا چاہتاتھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ ہی امریکی ذرائع ابلاغ ہے،جس کا دعوی ہے کہ ”وہ دنیا کا سب سے زیادہ غیرجانب دار میڈیا ہے“۔ جبکہ حقیقت احوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے چین میں متاثرہ مریضوں کی تعداد، ہلاکتیں اور چینیوں کی کارکردگی کی صورت حال امریکا کے مقابلے میں ہزار ہا درجے بہتر ہے۔مگر تمام تر حقائق کو جاننے کے باوجود سی این این کی جانب سے چین کے طلائی تمغہ کو کورونا وائرس کے ساتھ ملادینا صرف صحافتی بددیانتی ہی نہیں بلکہ چین سے روا رکھی جانے والی امریکا کی دیرینہ نفرت، بغض اور عدوات کا کھلم کھلا اظہار بھی تھا۔

حد تو یہ ہے کہ ایک اور امریکی نشریاتی ادارے نے ٹوکیو اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں چین کے دستے کے مارچ پاسٹ کے موقع پر میدان میں داخلے کے وقت چین کا جھنڈا دکھایا تو جان بوجھ کر اس میں تائیوان اور کچھ دیگر علاقے نہ دکھا کر چین کی جغرافیائی نقشہ کو تلپٹ کرکے چینی حکومت کو پریشان اور زچ کرنے کی کوشش کی۔یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکی نشریاتی ادارے نے یہ نقشہ نشریات میں اپنے طور پر شامل کیا تھا جبکہ اولمپکس کی افتتاحی تقریب کی اصل لائیو نشریات میں مقابلوں میں شریک ممالک کے نقشے سرے سے شامل ہی نہیں کیئے گئے تھے۔بعض امریکی نشریاتی اداروں کا تو بس نہیں چلا، وگرنہ عین ممکن تھا کہ وہ اولمپکس مقابلوں کی کوریج کے دوران چین کے خلاف دشنام طرازی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عام طور کہا جاتا ہے دنیا کے ہر کھیل کو کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کو ”اسپورٹس مین اسپرٹ“ یعنی کھیل میں بہترین اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ مگر حالیہ ٹوکیو اولمپکس میں امریکا کے کھلاڑیوں، آفیشلز، اعلیٰ حکام اور ذرائع ابلاغ نے چینی کھلاڑیوں سے دورانِ مقابلہ بار،بار جس مذموم اور معاندانہ رویے کا مظاہر کیا،اُسے کینہ توز جنگی جذبات کا طاقت ور اظہار تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسپورٹس مین اسپرٹ ہر گزقرار نہیں دیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں 23 جولائی کو شروع ہونے والے اولمپکس کے مقابلے 16 روز جاری رہنے کے بعد8 اگست کو اختتام پذیر ہوگئے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اولمپکس شروع ہونے کے بعد 15 روزتک مسلسل چین طلائی تمغوں کی دوڑ میں سرفہرست رہاتھا،لیکن آخری روز کمال”تیکنیکی کاریگری“ سے امریکہ چین کے مقابلے میں ایک اضافی طلائی تمغہ حاصل کرکے پہلی پوزیشن پر براجمان ہوگیااور یوں غیرمتوقع طور پر امریکا نے اولمپکس ایونٹ میں چین پر اپنی برتری ثابت کرکے ہی دم لیا۔اولمپکس کے قوانین کے مطابق سب سے زیادہ طلائی تمغہ جیتنے والا ملک ہی ایونٹ کی دوڑ کا اصل فاتح کہلاتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اُس ملک نے چاندی یا کانسی کے تمغے مجموعی طورپر کم حاصل کیئے ہیں یا زیادہ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً رواں اولمپکس مقابلوں میں برطانیہ نے مجموعی طور پر 65 تمغے جیتے،جبکہ میزبان ملک جاپان کو ملنے والے تمغوں کی کل تعداد 58 تھی۔ مگر چونکہ برطانیہ نے سونے کے 22 تمغے جیتے اور جاپان سونے کے27 تمغے حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔اس لیئے اولمپکس کی دوڑ میں میزبان ملک جاپان تیسرے اور برطانیہ پانچویں نمبر پررہا۔

قصہ مختصر ٹوکیو اولمپکس میں امریکا نے سب سے زیادہ تمغے جیت کر اولمپکس کا”میدان جنگ“ مار لیا،جہاں اس نے سونے کے 39، چاندی کے 41 اور کانسی کے 33 تمغوں کے ساتھ مجموعی طور پر 113 تمغے حاصل کیے۔اولمپکس میں چین دوسرے نمبر پر رہا، جس کے مجموعی تمغوں کی تعداد 88 رہی تاہم سونے کے تمغوں میں امریکا سے فقط ایک قدم پیچھے رہا۔چین کے ایتھلیٹس نے سونے کے 38، چاندی کے 32 اور کانسی کے 18 تمغے اپنے سینوں پر سجائے۔یہاں ایک وضاحت کرنا از حد ضروری ہے کہ حالیہ ٹوکیو اولمپکس بنیادی طور پرسال ِ گزشتہ2020 میں منعقد ہونا تھے لیکن عالمی سطح پر کورونا وائرس کی تباہی کاریوں کے باعث دیگر مقابلوں کی طرح اولمپکس کو بھی ایک برس کے لیئے مؤخر کردیا گیا تھا، تاہم اولمپکس مقابلے 2021 میں منعقد ہونے کے باجود گیمز کا نام ٹوکیو اولمپکس 2020 رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ویسے تو اولمپکس مقابلوں کی پوری تاریخ ہی تنازعات سے بھری ہوئی ہے لیکن حالیہ برس منعقد ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں امریکا نے جس طرح سے کھیل کے میدان کو ”جنگ کے اکھاڑے“ میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی،اُس کی ماضی میں کوئی ادنیٰ سی بھی مثال نہیں ملتی۔

آخری بات یہ ہے کہ ٹوکیو اولمپکس کے اختتام پر امریکی صدر جوبائیڈن بہت زیادہ خوش نظر آئے کہ ان کے ملک نے اولمپکس کے”میدان جنگ“ میں چین کو سونے کے ایک تمغے کے فرق سے پچھاڑ دیا۔ لیکن ہمیں کامل اُمیدہے کہ چینی صدر شی زی پنگ بھی ٹوکیو اولمپکس مقابلوں میں چینی کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی پر خوب شاداں و فرحاں ہوں گے۔ کیونکہ ٹوکیو اولمپکس مقابلوں کے ذریعے چین کے کھلاڑیوں نے تمام دنیا کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ چینیوں کو اپنے حریف سے جیتنے کی اتنی بھی جلدی نہیں ہے کہ وہ اُس کے لیئے اپنے اُصول،اپناصبر اوراپنی ایمانداری سے ہی دستبردار ہوجائیں۔ یقینا چین 2024 کے اگلے اولمپکس مقابلوں میں خوب تیاری اور بندوبست کے ساتھ شرکت کرنے آئے گا اور امریکا کو اولمپکس کے ”میدان ِ جنگ“ میں بھی شکست کا تلخ مزہ چکھائے گا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 اگست 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں