Iran

تہران نیوکلیئر ڈیل ڈے زیرو؟

بر س ہا برس سے امریکا نے تہران پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔اگرچہ ایرانی قوم عالمی معاشی پابندیوں کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ چکی ہے۔مگر اس کے باوجود غیر معمولی معاشی ترقی کے لیئے ازحد ضروری ہے کہ تہران عالمی معاشی پابندیوں کے چنگل سے چھٹکارا پائے۔ اس حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اب ان پابندیوں کے ہٹنے کے آثار واضح طو ر پر دکھائی دینے لگے ہیں اور حال ہی میں ایران کے سرکاری ٹی وی چینل نے واشنگٹن اور تہران کے درمیان مستقبل قریب میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی کچھ معلومات جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ”واشنگٹن نے تہران کے 17 بینکوں پر سے پابندیاں ہٹانے اور جنوبی کوریا میں منجمد 7 ارب ڈالر مالیت کے ایرانی اثاثوں کو جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے۔نیز واشنگٹن نے ایران کے 155بڑے اداروں پر معاشی پابندیاں نرم کرنے پر رضامندی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ تہران کو 120 دنوں کے اندر 50 ملین بیرل تیل فروخت کرنے کی اجازت عام دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے“۔ علاوہ ازیں ایرانی ذرائع ابلاغ کا یہ بھی کہنا ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان طے پاجانے والی یہ متوقع نیوکلیئرڈیل آئندہ چند ماہ میں نافذ العمل ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ آسٹریا کے شہر ویانا میں ایران اور بڑی عالمی طاقتوں جن میں برطانیہ، فرانس، روس، چین اور امریکہ شامل ہیں، کے مابین گزشتہ 17 ماہ سے جاری مذاکرات کے کئی ادوار کے بعدمذکورہ جوہری معاہدے کا مسودہ تیار ہوا ہے۔بظاہر باضابطہ طور پر تو واشنگٹن یا تہران میں سے کسی ایک نے بھی دونوں ممالک کے مابین نیوکلیئر ڈیل طے پاجانے کا اعتراف نہیں کیاہے۔لیکن عالمی اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے بیشتر سیاسی تجزیہ کاراپنے ذرائع کے حوالے سے پورے شد و مد کے ساتھ اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان نہ صرف نیوکلیئر ڈیل کا مسودہ تیار ہوچکا ہے بلکہ دونوں ممالک کے سربراہان نے جوہری معاہدہ کے مندرجات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس پر اپنے اپنے اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے۔یوں ایک طویل مدت کے بعد اس بات کے واضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ 2015 میں واشنگٹن اور تہران کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ”جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن“ جسے عرفِ عام میں ”جے سی پی او اے“ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے، بہت جلد مکمل طور پر بحال ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ ”جے سی پی اواے“ جوہری معاہد ہ 2015 میں امریکا کی ڈیموکریٹک حکومت کے دور میں اُس وقت طے پایا تھا،جب باراک اوبامہ صدراور جوبائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ”جے سی پی او اے“نامی اس جوہری معاہدہ کو اُس وقت کے عالمی منظرنامہ میں ایک بہت بڑی مثبت پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔دراصل یہ جوہری معاہدہ امریکہ، یورپی طاقتوں، روس، چین اور ایران کے درمیان ہوا تھا جس میں طے کیا گیا تھا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی طاقت بننے کی کوشش نہیں کرے گا، جس کے بدلے میں ایران پر اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے عائد ہونے والی تمام تر معاشی،سیاسی اور سفارتی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔مگر جب 2016 میں ری پبلیکن صدر، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے تو اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں امریکا کی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلیاں کرنا شروع کردیں۔ جن میں سے ایک بڑی تبدیلی2018 میں تہران کے ساتھ طے پاجانے والے”جے سی پی او اے“ معاہدے سے دیگر فریقین کو بنا اعتماد میں لیے یک لخت نکل جانا تھا۔

حیران کن طور پر،ٹرمپ نے امریکا کو تو ”جے سی پی او اے“ معاہدہ سے الگ کرلیا تھا، لیکن برطانیہ، فرانس، چین اور روس نے اس جوہری معاہدہ کو ایران کے ساتھ برقرار رکھا۔لیکن امریکا کے جوہری معاہد ہ سے علحیدہ ہوجانے کے بعد مذکورہ معاہد ہ زیادہ موثر اور مفید نہیں رہا تھا اور امریکہ کی جانب سے عائد ہونے والی معاشی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بدستور دباؤ میں رکھا۔جس کے بعد ایران نے امریکاکے اتحادی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیئے دھمکی دی کہ ”امریکا کے اتحادی ممالک، واشنگٹن کو جوہری معاہدے میں واپس لائیں اور تہران پر سے معاشی پابندیاں جلد ازجلد ہٹوائیں۔

وگرنہ تہران بھی معاہدے سے نکل کر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دے گا“۔جب امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے تہران کی دھمکی کو قابل غور نہیں سمجھا تو بالآخر، جنوری 2020 میں ایران نے بھی مذکورہ جوہری معاہدہ سے نکلنے کا اعلان کردیا اور مبینہ طور پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے یورینیم کی افزودگی بھی شروع کردی۔ بہرکیف ایک اچھی بات یہ ہوئی، اس سے پہلے کہ یورنیم افزودگی کے جرم میں الزام پر مزید عالمی معاشی پابندیاں لگتیں،امریکا میں ڈیموکریٹ کی حکومت آگئی اور یوں پھر سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان نیوکلیئر ڈیل ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

توقع کے عین مطابق جو بائیڈن نے برسراقتدار آتے ہی اپریل 2021 میں ”جے سی پی او اے“ کی بحالی کا عندیہ دے دیا۔ لیکن اِس بارامریکہ نے ایران سے براہ راست مذاکرات کرنے کے بجائے بلاواسطہ یعنی یورپی یونین کے وفود کے ذریعے سے بات چیت کرنے کی راہ اختیار کی۔جس کی وجہ سے یہ مذاکرات کا دورانیہ انتہائی طویل ہوگیا۔دراصل ایران اب کی بار مذاکرات میں ایسی یقین دہانیاں مانگ رہا تھا کہ امریکہ پھر سے جوہری معاہدہ سے یک طرفہ طور پر نہ نکل پائے۔ مزید مبینہ طور پر تہران نے ایک اضافی شرط یہ بھی رکھی تھی کہ پاسداران انقلاب کی افواج کو امریکہ کی طرف سے جاری دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا جائے۔یاد رہے کہ پاسداران انقلاب ایران کی وہی افواج ہیں جو ایران سے باہر ایرانی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور مختلف ممالک بالخصوص عراق اور شام وغیرہ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف پراکسی جنگوں میں بھی مصروف عمل ہے۔

بعض مصدقہ ذرائع کے مطابق، مذاکرات کے8 ادوار مکمل ہونے کے بعد ویانا میں ایرانی مذاکراتی ٹیم اور یورپی یونین نے طے پاجانے والے مبینہ جوہری معاہدہ کا مسودہ گزشتہ ماہ8 اگست کو امریکہ کو بھجوا دیا تھا۔غالب گمان یہ ہی ہے کہ اِسے وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے بھی منظور کرلیا ہے۔ اگر آنے والے ایام میں امریکا اور ایران کے درمیان طے پاجانے والی مذکورہ نیو کلیئر ڈیل کا باضابطہ طور پر اعلان ہوتا ہے تو اس جوہری معاہدے کے لاگو ہوتے ہی ایران پر سے امریکی پابندیاں ہٹالی جائیں گی اور وہ عالمی دنیا میں آزادانہ تجارت کرپائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والی اِس نیوکلیئر ڈیل پر مرحلہ وارعمل کیا جائے گا۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں واشنگٹن اور تہران کی ڈیل کے بارے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ جس کے مطابق مذکورہ نیوکلیئر ڈیل پر 4 مختلف مراحل میں عمل درآمد ہوگا اور اس میں 165 دن کا عرصہ لگے گا۔

واضح رہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان ہونے والی نیوکلیئر ڈیل کے پہلے مرحلہ کو ”ڈے زیرو“ کا نام دیا گیا ہے اور اِس مرحلہ میں ایران امریکی قیدی رہا کرے گا۔ جس کے بدلے میں ایران کی جوبھی مالیاتی ذخائر مختلف ممالک میں فریز ہیں،وہ اُسے جاری کردیئے جائیں گے۔ نیز ایران ایٹمی طاقت بننے سے متعلق تمام تر سرگرمیوں کو فوری طور پر روک دے گا،لیکن اَب تک وہ جو بھی یورینیم افزدہ کرچکا ہے، اُسے اپنی تحویل میں ہی رکھے گا۔

نیوکلیئر ڈیل کے دوسرے مرحلہ میں امریکا مذکورہ معاہدہ کو 5 دن کے اندر اندر کانگریس کو پیش کرے گا اور کانگریس کو نیوکلیئر ڈیل کے جائزے اور اس کے منظوری کے لیئے 30 دن کی مدت دی جائے گی۔ امریکی کانگریس سے منظور ی تک امریکا ایران سے معاشی پابندیاں اُٹھانے کا اعلان نہیں کرے گا۔ کانگریس سے معاہدہ کی توثیق و منظوری کے بعد معاہدہ کا تیسرا مرحلہ شروع ہوجائے گا اور امریکا اقوام ِ متحدہ میں اپنے اپنے مستقل مندوب کے ذریعے اقوام متحدہ اور عالمی ایٹمی ایجنسی کو ایران کے ساتھ ہونے ہونے والی ڈیل کے متعلق آگاہ کرے گا۔ ڈیل کے آخری اور چوتھے مرحلہ میں امریکا اور ایران کے رہنما عالمی ذرائع ابلاغ کو ایک مشترکہ بیان جاری کریں گے اور امریکا ایران پر عائد تمام تر معاشی پابندیاں ہٹانے کا باضابطہ طور پر اعلان کردے گا۔

سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ مذکورہ ڈیل کے تحت 165 ایام میں تہران کو امریکی پابندیوں کے چنگل سے باعزت طور پر آزاد کردیا جائے گا اور یوں ایرانی معیشت بھی تین دہائیوں کے بعد دوبارہ سے عالمی معاشی نظام کا ایک کل پرزہ بن جائے گی۔ واشنگٹن اور تہران کے درمیان ہونے والی ڈیل کا سب سے زیادہ فائدہ یورپی یونین کو ہو گا۔دراصل یورپی ممالک رواں برس دسمبر سے روس سے تیل خریدنا بند کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ یقینا روس کا متبادل ایران کے سوا کوئی دوسرا ملک تو ہو نہیں سکتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان اِس ڈیل کو طے کروانے میں سب سے زیادہ کاوش یورپی یونین کے ممالک نے ہی کی ہے۔ یہاں سادہ سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران یورپی ممالک کے لیئے روس کا متبادل بنتا ہے تو کیا اِس سے روسی معیشت کو نقصان ہوگا؟۔

اکثر معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے مابین ہونے والی ڈیل سے روس کی معیشت کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوگا۔کیونکہ روس اور ایران پہلے ہی سے مضبوط سیاسی، سفارتی اور معاشی بندھن بندھے ہوئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا،روسی صدر ولادی میر پیوٹن، بہرصورت امریکا،ایران ڈیل کو اپنے معاشی فوائد کے لیئے استعمال کریں گے۔ مثال کے طور پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے حال ہی میں ایران کا دورہ میں اپنے ہم منصب کو فراخدلانہ پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”آپ کی جتنی تیل کی پیداوار ہے ساری یورپی یونین کی مارکیٹ میں بیچ دو۔جبکہ اپنی ضرورت کا تیل ہم سے خرید لینا اور اس کے پیسے ہمیں دے دینا۔ اس طرح آپ کا کام بھی بن جائے گا، ہمارا بھی اور دنیا کا بھی“۔دوسری جانب افغانستان کا روس کے ساتھ تیل خریداری کا معاہدہ بھی آخری مراحل میں ہے۔جس کے بعد روس کو اپنے خام تیل کا ایک اور نیا خریدار مل جائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 15 ستمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں