Kashmir

یوم یک جہتی کشمیر

مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ روا ظلم و جبر کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئی ہیں کہ جن کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ رواں برس کشمیری عوام کی جدوجہد ِ آزادی،76 ویں برس میں داخل ہوچکی ہے اورتحریک آزادی کشمیر کے اِس طویل عرصے میں مظلوم کشمیریوں کو بے شمار مشکلات،کھٹنائیوں اور صبر آزمامراحل سے گزرنا پڑا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیری عوام نے غاصب بھارت کے ہر ریاستی جبر وستم کو نہ صرف کمال ضبط، استقامت اور پامردی کے ساتھ برداشت کیا بلکہ ہندو توا نظریہ کے حامیوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی ظلم و ستم کی ہر سنگین کارروائی کو اپنے قومی جدوجہد ِ آزادی کے سینے پر کسی تمغہ کی مانند سجاکر فخرو مباہت کا اظہاریہ بھی بنالیا ہے۔یعنی جب بھی بھارتی افواج نے آزادی کشمیر کے لیئے بلند ہونے والی مظلوم آوازوں کو دبانے کے لیئے کشمیریوں پر منظم اور بھرپور انداز میں طاقت کا استعمال کیا،تو بہادر کشمیریوں نے زیر ہونے کے بجائے،اُلٹا اُسی سانحہ اور حادثہ کو اپنی آواز، اقوامِ عالم تک پہنچانے کے نقارہ میں تبدیل کردیا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام سال کے 365 دنوں میں سے اکثر ایّام،ایسے ہی الم ناک سانحات اور جگرسوز حادثات کی یاد میں احتجاج، ہڑتال، جلسے اور جلوس منعقد کرکے دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروانے کی مقدور بھر کوشش کرتی رہتی ہے۔ چونکہ پاکستان ہمیشہ سے ہی مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کا سب سے بڑا داعی رہا ہے۔لہٰذا، غاصب بھارتی ریاست کے خلاف کشمیری عوام کے منائے جانے ہر”یوم ِ سیاہ“میں شرکت کرنا ریاستِ پاکستان اپنا فرض منصبی سمجھتی ہوئے آزادیئ کشمیر کے ولولہ انگیز نعروں کو عالمی برادری کے مقتدر ایوانوں تک پہنچانے کی دامے، ورمے، سخنے بھرپور کوشش کرتی رہتی ہے۔ یاد رہے کہ یومِ یک جہتی کشمیر بھی ایک ایسا ہی ”یومِ احتجاج“ ہے،جسے پاکستانی قوم گزشتہ کئی برس سے باقاعدگی کے ساتھ سرکاری اور قومی سطح پر منا رہی ہے۔نیز اِس روز ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے، تاکہ وطن عزیز کے ہر قریہ، گاؤں اور شہر میں لوگ یومِ یک جہتی کشمیر بھرپور اہتمام کے ساتھ مناسکیں۔

یومِ یک جہتی کشمیر کیوں منایا جاتا ہے؟
قومی سطح پر منائے جانے والے ایّام بہرصورت کوئی نہ کوئی تاریخی نسبت ضروررکھتے ہیں اور ہر برس پانچ فروری کو قومی سطح پر منائے جانے والے یومِ یک جہتی کشمیر کی بھی ایک خاص تاریخی نسبت اور حیثیت ہے۔یہ دن بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم ہند کے وقت بھارتی آئین میں دی گئی منفرد حیثیت کو مسخ کرنے والے معاہدہ ”کشمیر ایکارڈ“ کے نفاذ کے خلاف بطور احتجاج منایا جاتاہے۔یاد رہے کہ ”کشمیر ایکارڈ“ جسے ”اندرا،عبداللہ ایکارڈ“ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک ایسا متنازعہ معاہدہ تھا، جس نے مقبوضہ جموں وکشمیر کا نظم و نسق بھارتی آئین کے تابع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس بدنام زمانہ ”اندرا،عبداللہ ایکارڈ“ دستاویز کے مقبوضہ جموں وکشمیر کی پارلیمان سے منظور کیئے جانے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 1974 میں اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کشمیری رہنما شیخ عبداللہ سے ایک ملاقات میں اُنہیں یہ پیشکش کی کہ اگر وہ تعاون پر آمادہ ہوں تو اُن کو مقبوضہ و جموں کشمیر کا اقتدارِ اعلیٰ دے دیا جائے گا۔

شیخ عبداللہ جو ایک بار پھرسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا اقتدار حاصل کرنے کے لیئے انتہائی بے چین تھے،وہ فور ی طور پر کانگریس کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے کے لیئے راضی ہوگئے۔ جس کے بعد 13 نومبر1974 کو ایک خفیہ میٹنگ میں شیخ عبداللہ کی جانب سے نامزد نمائندہ،مرزا محمد افضل بیگ اور دہلی حکومت کے نمائندہ مسٹر جی پارتھا سارتھی نے ”کشمیر ایکارڈ“کی دستاویز پر دستخط کیئے۔جس کے تحت فریقین نے متفقہ طور پر بہت سے قانونی و انتظامی اختیارات بھارتی پالیمان کو تفویض کر دیئے گئے۔

مثال کے طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں گورنر کی تقرری،اختیارات،خدمات،فرائض استحقاق اور استثناء بھارتی پارلیمان کے سپرد کردیا گیا۔نیز مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کروانے سے متعلق تمام اختیارات یعنی حلقہ بندیاں، انتخابی فہرستوں میں اندراج کی اہلیت، بالغ رائے دہی کا تعین اور قانون ساز کونسل کی تشکیل بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا کے حلقہ اختیار میں دے دی گئی۔24 فروری 1975 کو ”کشمیر ایکارڈ“معاہدہ پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارتی لوک سبھا کو اعتماد میں لیتے ہوئے،اسے بھارت کی تاریخی کامیابی قرار دیا۔دوسری جانب ”کشمیر ایکارڈ“ کے عوضانہ کے طور پر25 فروری 1975کو کانگریس کی ریاستی پارلیمانی پارٹی نے شیخ عبداللہ کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیئے اپنا قائد منتخب کرکے اُنہیں وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارت نوازشیخ عبداللہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنتے ہی اندرا گاندھی کی واضح ہدایات کی روشنی میں پہلے سے دستخط شدہ دستاویز ”کشمیر ایکارڈ“ کے مسودہ کی اپنی کابینہ سے توثیق کروالی۔

کشمیری عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے خلاف بھارت نواز کشمیری رہنما شیخ عبداللہ اور نئی دہلی کے مابین ہونے والی اِس گٹھ جوڑ کے خلاف اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو نے فروری کے آخری جمعتہ المبارک کو پاکستانی اور کشمیری عوام سے بیک وقت علامتی ہڑتال کی اپیل کی۔ چنانچہ،28 فروری 1975 کوبھارت کے زیرانتظام کشمیر میں زبردست ہڑتال ہوئی اور جنت نظیر وادی کشمیر کی فضا ئیں ”اندرا، عبداللہ گٹھ جوڑ مردہ باد“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اُٹھیں۔ جبکہ اِس روز پاکستانی عوام نے بھی بھرپو ر انداز میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا دن منایا۔ اُس زمانے کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی مختلف واقعاتی رپورٹس کے مطابق یہ احتجاج اِس قدر سخت تھا کہ پاکستان میں دُکانیں و بازار مکمل طور پر بند رہے، کسی قسم کی کوئی ٹریفک شاہراؤں پر نہ نکلی، پاکستانی عوام نے کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیئے بھی بازار میں قدم نہ رکھا اور اِس روز شاذ ہی کسی گھر میں چولہا جلایا گیا ہو۔حد تو یہ ہے لوگوں نے اپنے مویشیوں تک کو پانی بھی نہیں پلایا۔یقینا پاکستانی عوام نے اوّلین یوم ِ یک جہتی کشمیر کو ا نتہائی غیر معمولی انداز میں منایا تھا۔جس کی بازگشت اُس وقت کے عالمی میڈیا میں بھی شہ سرخیوں کی زینت بنی تھی۔

تاہم مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کا متفقہ فیصلہ پاکستانی قیادت نے 1990 میں کیا اور آنے والے برسوں میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔لیکن پانچ فروری کے یوم یک جہتی کشمیر کو سرکاری طور پر منانے کا آغاز 2004 میں ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان، میر ظفر اللہ خان جمالی نے یہ دن سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیااور انہوں نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر سال پانچ فروری کو پاکستان اور کشمیر کی سیاسی قیادت کا ایک مشترکہ اجلاس مظفر آباد،آزاد کشمیر میں منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان یا ان کا نامزد نمائندہ خصوصی اس اجلاس میں شرکت کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتاہے۔

یومِ یک جہتی کشمیر منا نا کیوں ضروری ہے؟
عین ممکن ہے کہ بعض عاقبت نااندیش افراد کے نزدیک 5 فروری،دوسرے دنوں کی طرح بالکل ایک عام سا یوم ہو، اوراُنہیں اِس دن ملک کی گلی گلی، کوچے کوچے میں آزادی کشمیر کے لیئے لگنے والے ولولہ انگیز نعروں کی ٹھیک سے سمجھ بھی نہ آتی ہو۔ دراصل آزادی کے نعروں کی اہمیت اُن لوگوں کو واقعی، کبھی سمجھ آبھی نہیں سکتی،جن کی آنکھیں ہی ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں کھلی ہوں۔ایک آزاد مملکت کی اصل قدر و قیمت تو صرف وہی جان سکتاہے،جس کے شب وروز ایک غلام ملک میں دشمن کے نرغے میں بسر ہورہے ہوں اور جسے اپنی آزادی کے لیئے نعرہ لگانا تو بہت دُور کی بات ہے، اپنی چشم ابرو سے لفظ آزادی کا اشارہ کرنے کی بھی اجازت حاصل نہ ہو۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر صرف گزشتہ سال 2022 میں قابض بھارتی فورسز نے وادی میں خاتون اور نوعمر لڑکوں سمیت 214 معصوم کشمیریوں کو شہید کردیااوربھارتی ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرنے والے 134 کشمیری مظاہرین کو شدید زخمی کردیا۔ جبکہ محاصروں اور تلاشیوں کے دوران 1350 کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا اور 44 مکانات تباہ کردیئے گئے۔یاد رہے کہ قابض بھارتی فورسز گزشتہ 34 برسوں میں 96 ہزار 163 سے زائدکشمیریوں کو شہیدکرچکی ہیں۔

کشمیریوں کو بھارت کی جانب سے مسلط کیئے جانے والے ظلم و بربریت اور اپنے جذبہ حریت کے بارے میں آگاہی عالمی برادری تک پہنچانے کے لیئے کسی طاقت ور اور مؤثر وسیلہ اظہار کی ضرورت ہے۔کیونکہ8 لاکھ بھارتی افواج کی موجودگی میں کشمیری عوام ابلاغ کے ہر جدید و قدیم ذریعہ سے محروم ہیں اور وہ آزادی سے ایک سانس بھی نہیں لے سکتے،چہ جائیکہ وہ بھارتی جبرو استبداد کے خلاف لگائے گئے اپنے آزادی کے بلند بانگ نعروں کی آواز عالمی ایوانوں تک پہنچاپائیں۔ لہٰذا،یومِ یک جہتی کشمیر کو اپنے مظلوم کشمیری بہنوں اور بھائیوں کی طرف سے آزادی کشمیر کے نعروں کی صدائیں،عالمی برادری کے بلند و بالا ایوانوں تک پہنچانے کا فریضہ ہم پاکستانی انجام دیتے ہیں۔

یوم یک جہتی کشمیر منانا اِس لیئے بھی ضرور ی ہے کہ غاصب بھارت کی تمام قیادت بھولنے نہ پائے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملہ پر پاکستان ابھی تک اپنے اصل اور اصولی موقف پر بدستور قائم و دائم کھڑا ہے اور پوری پاکستانی قوم یک جان ہوکر مظلوم او رمحکوم کشمیری عوام کے ساتھ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ آئندہ بھی کھڑے رہنے کا یہ ایفائے عہد کرتی ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے کشمیری بھائیوں کوتنہا چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگی۔نیز یومِ یک یکجہتی کشمیر قومی سطح پر منانے سے اقوام عالم تک یہ پیغام بھی پہنچتاہے کہ کشمیر ایک متنازع اور حل طلب مسئلہ ہے اور یہ دو ممالک کے درمیان تھوڑے سے قطعہ اراضی کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ یہ سواکروڑ انسانوں کی آزادی، انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کا سنگین مسئلہ ہے۔جن کی آزادی پر ایک بدمعاش ریاست نے محض اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر فوج کشی کرکے قبضہ کررکھا ہے اور مظلوم کشمیری بھارتی افواج کی یک طرفہ بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔

یوم یک جہتی کشمیر پر ریاست پاکستان دنیا بھر کے فیصلہ ساز طبقات کو یہ ذہن نشین کروانے کی کوشش بھی کرتی ہے کہ کشمیری عوام جس حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے ہیں،وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اُصول ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حق میں پاس ہونے والی وہ تمام قراردادیں ہیں۔جنہیں اقوام متحدہ حق خودارادیت کی ذیل میں شمار کرتی ہے اور جن پر وقت کی دبیز گرد پڑنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔جبکہ 24 جنوری 1957 کو اقوام ِ متحدہ کی سلامتی میں پاس ہونے والی قرارداد میں واضح الفاظ میں درج کردیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی کسی بھی نام نہاد دستور ساز اسمبلی میں بھارت کے ساتھ الحاق کے لیئے پیش کی جانے والی ہر قراردار اور منظور کیئے جانے والا ہر قانون سراسر غیر موثر ہی سمجھا جائے گا۔کیونکہ بین الاقومی قانون کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف استصوابِ رائے کے ذریعے ہی کیا جاسکتاہے۔یعنی پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ضرور ہیں،لیکن وادی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار فقط کشمیری عوام کو ہی حاصل ہے۔

یومِ یک جہتی کشمیر کیسے منائیں؟
یقیناماضی کی طرح آج بھی پاکستان میں یومِ یک جہتی کشمیر بھرپور انداز میں منایا جائے گا اورملک کے ہر بڑے شہر میں کشمیر کے عنوان پر سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد ہورہی ہوں گی۔نیز چھوٹے شہروں میں بھارت کے خلاف احتجاجی جلسے،جلوس اور ریلیاں نکالی جارہی ہوں گی۔ جبکہ دیہات و قصبات میں کشمیر یوں سے اظہار محبت کے لیئے کئی کلومیٹر طویل ہاتھوں کی زنجیریں بھی بنائی جائیں گی۔ یہ سب بہت اچھے اور بھرپور انداز میں کرپانا اِ س لیئے ممکن ہوسکے گا کہ پاکستان کی 30 فیصد آبادی جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کی سچی داستانوں کی چشم دید گواہ ہے،وہ حالیہ یوم یک جہتی کشمیر منا نے میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کررہی ہے۔ لیکن کیا آئندہ بھی یوم یک جہتی کشمیر ایسے ہی روایتی جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتارہے گا؟اس کا فیصلہ پاکستان کی وہ نوجوان نسل کرے گی،جو ملکی آبادی کا 70 فیصد ہے اور وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں صرف اُتنا ہی جانتی ہے، جتنا اُن کے بڑے اُن کو بتا دیتے ہیں۔

خاص طور پر ہمارے ملک کی مقبول سیاسی قیادت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی کیا تشریح اپنے نوجوان کارکنان اور فالورز کے سامنے پیش کرتی ہے،وہ نئی نسل کی ذہن سازی کے لیئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اگر کسی ایک سیاسی جماعت کا قائد،اپنے ذاتی اقتدار کے حصول کے لیئے نکالی جانے والی پرتشدد احتجاجی ریلی، پر پولیس کی جانب سے ہونے والی انتظامی کارروائی کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے ظلم سے بھی زیادہ ہونے کی دہائیاں دے گاتو پھر آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ہماری نوجوان نسل مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور اقتدار کی جنگ کے درمیان تفریق کیسے اور کیونکر کرسکے گی؟۔ ہم آج کے روز جہاں عالمی برادری کو دنیا بھر میں جاری مذہبی،سیاسی دہشت گردی کی لہر اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو الگ الگ کسوٹی پر پرکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں تو وہیں، ہمیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی یہ مشورہ ضرور دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی اقتدار کے لیئے کی جانے والی سیاسی جدوجہد کا موازنہ کشمیری عوام کی فقید المثال جہد ِ حریت کے ساتھ کر کے نہ تو پاکستانی عوام کو شرمندگی سے دوچار کریں اور نہ ہی غیور،بہادر کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کا مذاق اُڑائیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 05 فروری 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں