MQM

ایم کیوایم پاکستان کا مستقبل؟

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 39 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر باغِ جناح میں ایک بڑے اور فقید المثال جلسہ کا انعقاد،یقینا ایم کیوایم پاکستان کی بہت بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ یاد رہے کہ بانی ایم کیوایم کے خلاف لندن میں پارٹی جائیدادوں کی ملکیت کا مقدمہ جیتنے کے بعد کراچی کے سیاسی حلقوں میں پورے شد و مد کے ساتھ یہ سوال گردش کرنے لگا تھا کہ لندن مقدمہ کے منفی اثرات کہیں ایم کیوایم پاکستان کی سیاسی مقبولیت پر اثرانداز تو نہیں ہوں گے؟۔لیکن باغ جناح گراؤنڈ میں عوامی طاقت کے بڑے مظاہرے سے ثابت ہوتاہے کہ بانی ایم کیو ایم کا تخریبی بیانیہ،آہستہ آہستہ دم توڑتا جارہاہے اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے لگایا جانے والا کراچی شہر کی تعمیر و ترقی کا نعرہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہاہے۔ نیز ایم کیو ایم کے ناراض دھڑوں کے یکجا ہوجانے کے بعد جماعت کی صفوں میں سیاسی تحرک بھی بہت زیادہ دیکھنے میں آرہاہے۔ جبکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ذاتی کاوش اور کوششوں کے باعث ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ حکومت کے ساتھ بیک ڈور رابطے بھی بحال ہوچکے ہیں۔جس کے واضح اثرات ایم کیو ایم پاکستان کی بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں کی صورت میں صاف ملاحظہ کیئے جاسکتے ہیں۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے اپنی سیاسی جماعت کے بانی کے خلاف لندن میں پارٹی کی جائیدادوں کی ملکیت کا مقدمہ جیت کر جہاں زبردست مالی فائدہ حاصل کیا ہے،وہیں اپنے سیاسی موقف اور حکمت عملی کو بھی درست ثابت کیاہے۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق، الطاف کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت اور سابق معتمد طارق میر نے نومبر 2022 کے اواخر میں ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف جائیداد کا مقدمہ دائر کیا تھا۔امین الحق کی سربراہی میں درج مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاؤنڈ مالیت کی خطیررقم کا تھا، جس پربانی ایم کیوایم کے سابق سیاسی ساتھیوں نے ملکیت کا دعویٰ لندن کی عدالت میں دائر کیا تھا۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے اثاثوں کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں موقف اختیارکیا تھا کہ یہ جائیداد، ایم کیو ایم پاکستان کی ہے جس کے اراکین ٹرسٹ یا اس کے تحت تعمیری ٹرسٹس سے مستفید ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی یا فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سمیت اس سے حاصل ہونے والے تمام فوائد ایم کیو ایم پاکستان کو’’غریب اور نادار لوگوں“ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف کرنا چاہیے“۔

لندن میں پارٹی جائیدادوں کے حوالے سے مقدمہ کا ٹرائل رواں برس جنوری کے آخر میں مکمل ہوگیا تھا، جس کے دوران ایم کیو ایم کے بانی نے سماعتوں میں شریک ہوکر اپنے ہی سابق وفاداروں کا سامنا کیا۔بانی ایم کیوایم بطور پارٹی سربراہ ان 7 جائیدادوں کا مالک ہونے کا دعویٰ اور مقدمہ کا دفاع کر رہے تھے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز ہائی کورٹ میں بزنس اینڈ پراپرٹی کے جج کے طور پر فرائض انجام دینے والے جائیداد اور کاروباری امور کے جج کلائیو جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پرفیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ ا”یم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے اراکین ہی ٹرسٹ اور جائیدادوں کے حقیقی وارث اورمالک بھی ہیں۔جبکہ بانی ایم کیوایم پارٹی کی کسی بھی جائے داد پر کوئی حق تصرف نہیں رکھتے“۔یعنی لندن کی معزز عدالت نے اگست 2016 میں بانی ایم کیوایم کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد ازسرِ نو تشکیل ہونے والی ایم کیو ایم پاکستان کو ہی اصل اور حقیقی سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ سنادیا۔

لندن مقدمہ میں کامیابی کے بعد ایم کیوا یم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ”ہم عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ اُن کی امانت کا ایک ایک پیسہ خدا کی رضا کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اَب یہ جائیدادیں کوئی بھی شخص اپنی ذاتی منفعت یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کر پائے گا، ہم سب نے مل کر متفقہ طورپر یہ طے کیا ہے کہ ان جائیدادوں میں سے ایک حصہ ڈاکٹر عمران فاروق، کا ہے۔ جن کی بیوہ اور بچے لندن میں کسمپرسی میں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں ہیں، ان کا حق،اُن کے وارثین کو لندن میں ہی دے دیا جائے گا۔جبکہ ہم اِس پیسے کو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں جیسے ہسپتال، یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں کے قیام اور چلانے پر پر خرچ کریں گے“۔اپنے دعوی کے مطابق اگر ایم کیوایم پاکستان لندن مقدمہ میں جیتی گئی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی واقعی عوامی اہمیت کے حامل منصوبہ جات کی نذر کرتی ہے تو یقینا اِس طرزِ عمل سے ایم کیوایم پاکستان کی عوامی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

فی الحال نظر تو یہ ہی آرہا ہے کہ اہلیانِ کراچی کی بھرپور سیاسی حمایت ایم کیوایم پاکستان کو حاصل ہے۔ کیونکہ اگر اُسے یہ سیاسی مقبولیت حاصل نہ ہوتی تو باغِ جناح میں عوامی قوت کا بڑا مظاہرہ کرنا ایم کیو ایم پاکستان کے لیئے شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی نہ حاصل کی جائے،اُس وقت تک کسی بھی سیاسی جماعت کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ واقعی شہر کراچی کا حقیقی عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے۔ اس وقت تو پاکستان پیپلزپارٹی،تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ایم کیوایم پاکستان سمیت سب ہی سیاسی جماعتیں کراچی کا عوامی مینڈیٹ رکھنے کی دعوی دار ہیں۔لہٰذا، ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کا اصل امتحان اگلے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔ جس سے حاصل ہونے والے انتخابی نتائج ہی یہ فیصلہ صاد،کریں گے کراچی کا اصل عوامی مینڈیٹ کس سیاسی جماعت کے پاس ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 20 مارچ 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں