dharna

بلدیاتی انتخابات سے آگے بھی تو بڑھیں

ایک تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا ہی بڑی مشکل سے ہے، اَب جب کہ صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کرلیئے گئے ہیں اورموصولہ نتائج کے لحاظ سے سندھ کی حکمران جماعت، پاکستان پیپلزپارٹی کو دیگر حریف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تاریخ ساز برتری بھی حاصل ہوچکی ہے۔ ایسی حوصلہ افزا انتخابی کامیابی کے باجود بھی سندھ حکومت کی جانب سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو اُن کی انتظامی ذمہ داریوں تفویض کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لینا سمجھ سے یکسر بالاتر ہے۔یاد رہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 26 جون 2022 کو مکمل ہوا تھا اور آخری مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج جاری ہوئے ہوئے بھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں۔مگرنہ تو ابھی تک بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں منتخب ہونے والے بلدیاتی اُمیدوار اپنے اپنے علاقوں کے میئر اور ڈپٹی میئر کو منتخب کرسکیں ہیں اور نہ ہی بلدیہ عظمی کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئرکا انتخاب عمل میں آسکا ہے۔ حالانکہ کراچی سمیت سندھ بھر کے اکثر اضلاع کے بلدیاتی اداروں میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں نے ہی میئر اور ڈپٹی میئرز منتخب ہونا ہے۔

چلیں تھوڑی دیر کے لیئے فرض کرلیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کراچی کی 6 یونین کونسل کے رُکے ہوئے نتائج کے جاری ہونے اور 11 یوسیز پر ملتوی ہونے والے انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے بعد ہی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ممکن ہوسکے گا۔ مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ صوبہ سندھ کے جن اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج جاری ہوئے بھی تقریباً 8 ماہ کی طویل مدت گزر چکی ہے۔وہاں بلدیاتی اداروں میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں کیا امر مانع ہے؟۔سندھ حکومت کو کم ازکم وہاں تو منتخب بلدیاتی نمائندوں کو انتظامی اختیارات فوری طور پر دے دینے چاہیئے۔تاکہ عوام نے اپنے علاقوں میں جن لوگوں کو بھی مقامی مسائل کے حل کے لیئے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ہے، اُن سے وہ اپنے کام نکلوا سکیں۔ بظاہر صوبہ بھر میں عوام کے ہزاروں بلدیاتی نمائندے گلی محلے کی سطح پر موجود ہیں۔ لیکن جب لوگ اُ ن کے پاس اپنے کسی مسئلہ کے حل کے لیئے جاتے ہیں تو منتخب کونسلر،چیئر مین اور وائس چیئرمین کی جانب سے ٹکا سا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ”ابھی تک تو میں نے اپنے عہدہ کا حلف بھی نہیں اُٹھایا ہے تو میں کارِ سرکار میں مداخلت کر کے آپ کا مسئلہ کیسے حل کرسکتاہوں“۔

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں 11 یوسیز پر انتخابی شیڈول جاری نہ کرنے کے خلاف الیکشن کمیشن کے خلاف علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ”اگر کراچی میں جلدازجلد بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہ ہوا تو وہ ٹرین مارچ کے ذریعہ اسلام آباد پہنچیں گے اور ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کریں گے“۔غالب اِمکان یہ ہی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کی احتجاجی دھمکی جلدیا بدیر ضرور اثر دکھائے گی اور بالآخر سندھ حکومت، بلدیہ عظمی کراچی کے دروازے میئر اور ڈپٹی میئر کے لیئے کھولنے پر مجبور ہوجائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کا میئر پیپلزپارٹی سے ہی ہو گا اور جماعت اسلامی کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ ڈپٹی میئر کا عہدہ ہی آسکے گااور وہ بھی صرف اُس صورت میں جب جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے مابین اتحاد ہوجائے۔ بصورت دیگر اِس بات کابھی قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی سیاسی جوڑ توڑ کرکے میئرکے ساتھ ساتھ ڈپٹی میئر بھی اپنا لے کر آسکتی ہے۔

اگرچہ حافظ نعیم الرحمن کا میئر کراچی بننا ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ اُس کے باوجود اُن کا سارا سیاسی اصرار اور احتجاجی دباؤ اِس ایک نقطہ پر مرکوز ہے کہ جلد سے جلد کراچی کے تمام اضلاع میں بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے۔ یعنی حافظ نعیم الرحمن کی اوّلین کوشش ہی یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کے ذریعے جہاں تک ممکن ہوسکتاہے،وہ اپنے حلقوں میں لوگوں کو دیرینہ مسائل کو حل کریں۔ یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جسے کراچی کی عوام میں خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ دوسری جانب سے ایم کیوا یم پاکستان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور حلقہ بندیوں کے خلاف باربار احتجاج اور دھرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ فی الحال تو ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے یہ دھرنا بحریہ کی اَمن مشقیں ختم ہونے تک موخر کردیا ہے۔ لیکن اگر مستقل قریب میں یہ دھرنا اپنی پوری سیاسی قوت کے ساتھ ہو بھی جاتاہے اور جاری بھی غیر معینہ مدت تک رہتا تب بھی میرا نہیں خیال اِس کا کوئی اثرحالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں پر پڑ سکتاہے۔

واضح رہے کہ ایم کیوا یم پاکستان حالیہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے کراچی کے بلدیاتی نظام سے اُس وقت تک مکمل طور پر خود کوبے دخل کر چکی ہے جب تک کراچی میں اگلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ جہاں تک نئی حلقہ بندیوں کے لیئے سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے دینے کا تعلق ہے تو اُس کا کوئی فوری فائدہ تو ایم کیو ایم پاکستان کو سیاسی طور پر حاصل ہونہیں سکتا۔ کیونکہ اگر ایم کیوایم پاکستان کے مطالبہ پر نئی حلقہ بندیاں ہوبھی جاتی ہیں تو ایم کیوایم کو اُس کا فائدہ تو پھر بھی اگلے بلدیاتی انتخابات میں ہی ہوسکتاہے۔

ویسے بھی چند ہفتوں بعد ملک بھر میں پہلی بار ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کا آغاز ہونے والا ہے۔ اگر مذکورہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پر تمام سیاسی جماعتوں کا کامل اتفاق رائے ہوجاتاہے تو پھر نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں نئی حلقہ بندیاں کا عمل تو دہرایا ہی جائے گا۔ توکیا ایم کیوا یم کی قیادت کے لیئے یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ پہلے ڈیجیٹل مردم شماری ہونے کا انتظار کرلے۔بالفرض محال اگر اُس کے بعد بھی نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوتیں تو پھر وہ اس معاملہ پر شوق سے احتجاج کرسکتی ہے۔ تب تک ایم کیوایم پاکستان اگلے قومی انتخابات یا ضمنی انتخابات میں ماضی سے کچھ اچھی کارکردگی دکھانے کے لیئے اپنی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے مل کر کسی سیاسی حکمت پر دل جمعی کے ساتھ کام کرلے۔ جبکہ سندھ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ جلد ازجلد بلدیہ عظمی کراچی میں نئے میئر کی تقریب حلف برداری کا اہتمام کرے تاکہ صوبہ سندھ کی اتھل پتھل سیاست میں وقتی طور پر سہی کچھ سیاسی استحکام تو دیکھنے کوملے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 فروری 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں