سیاسی اثرورسوخ سے آزاد سندھ پولیس؟

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ کراچی سے متعلق بظاہر میڈیا میں تاثر یہ پیش کیا جارہاہے کہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان تمام تر متنازعہ فیہ معاملات بحسن و خوبی طے کرلیئے گئے ہیں۔جبکہ واقفانِ حال کا اصرار یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی باہمی ملاقات میں کچھ بھی طے نہیں ہوسکا، سوائے اس ایک مسئلہ کے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے وفاق،سندھ حکومت کے تحفظات کے مطابق جلد از جلد فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن لگ یہ رہا ہے وفاقی کابینہ کی میٹنگ اور جی ڈی اے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی سے فی الحال آئی جی سندھ کلیم امام کی جگہ پیپلزپارٹی کی مرضی کا آئی جی سندھ تعینات کرنے کا ارادہ بھی ملتوی کردیا ہے۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کا سندھ میں شروع ہونے والا ”سیاسی رومانس“ چند گھنٹوں میں ہی اپنے فطری انجام کو پہنچا۔ حالانکہ کوشش کرنے والوں نے اپنی طرف سے تو کسی بھی قسم کی کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی تھی مگر شومئی قسمت کہ سندھ میں سیاسی گروہ بندی ہی کچھ اِس قسم کی ہوئی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف میں در آنے والا اور پاکستان پیپلزپارٹی سے ”سیاسی تعلق“ رکھنے والا گروپ جتنی چاہے کوشش کرلے لیکن تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو کم ازکم سندھ کی حد تک تو ایک ”سیاسی لڑی“ میں پرونا بالکل ہی ناممکن ہے۔

اُس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ سندھ کی سیاست کے تین بنیادی مراکز ہیں۔سندھ میں سیاست کا پہلا مرکز دیہی سیاست کا ہے جو پیپلزپارٹی کے گرد گھومتا ہے،جبکہ سندھ میں شہری سیاست کے دوسرے سیاسی مرکز کو ایم کیوایم اپنے گرد گھماتی ہے اور تیسرا سیاسی مرکز آج کل جی ڈے اے کے گرد بڑی تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہے، جسے جی ڈی اے نے پیپلزپارٹی کے انتخابی حلقہ میں نقب لگا کر زبردستی حاصل کیا ہے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ سندھ میں سیاست کے یہ تینوں مراکز ایک دوسرے سے سخت مخالفت رکھتے ہیں۔خاص طور پر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی ساری سیاست تو قائم ہی پیپلزپارٹی کی مخالفت پر ہے۔لہذا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سندھ کی سیاست کے دو طاقتور ترین مراکز تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی بھی ہوں اور عمران خان کے پیپلزپارٹی کے ساتھ شروع ہونے والے ”سیاسی رومانس“ کو خاموشی سے برداشت بھی کرلیں۔اِس لیئے شنید یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان سندھ سے متعلق جن بھی سیاسی و انتظامی معاملات پر اتفاق ہوا۔صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی اُن تمام اُمور پر جی ڈے اے رہنماؤں نے عمران خان سے اپنے شدید ترین سیاسی تحفظات کا کھل کراظہار کر کے واضح کردیا ہے کہ جی ڈے اے سندھ کی سیاست میں سندھ حکومت کی سیاسی من مانیوں پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے کہنے پر بھی خاموشی اختیار نہیں کرسکتی۔



دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان کے رہنمابھلے ہی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ کراچی میں اُن سے ملاقات کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ اپنا ”سیاسی پیغام“ بڑی خاموشی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ ایک بار پھر سے غیر مشروط طور پر تحریک انصاف کی حکومت سے دستِ تعاون دراز کرنے کے لیئے تیار ہیں۔ اِس پیغام کی بحفاظت وصولی کے بعد عمران خان اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ اَب اُنہیں سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی تعاون کی مزید ضرورت نہیں رہی ہے۔جس کا پہلا اشارہ سندھ حکومت کے ترجمانوں کی تازہ ترین پریس کانفرنس سے بھی صاف جھلک رہاہے کہ سندھ حکومت اور وفاق دوبارہ سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے سیاسی معرکہ آرائی کے لیئے کھڑے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ سوال اَب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف متحرک کرنے کے لیئے تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے مزید کیا کیا سیاسی مراعات دی جائیں گی؟۔کیونکہ ایم کیو ایم ہو یا جی ڈی اے ہمیشہ سے ان دونوں کی بنیادی شکایت ہی یہ رہی ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اُنہیں سندھ حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیئے بھرپور انداز میں انتظامی و سیاسی طاقت فراہم نہیں کی جاتی۔جس کی وجہ سے انہیں پیپلزپارٹی سے سیاسی مقابلہ کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سندھ میں جب اختیار اور انتظامی طاقت کی بات آتی ہے تو پھر سب کی نظریں ”سندھ پولیس“ پر جاکر رُک جاتی ہیں۔کیونکہ سندھ میں اختیارات و انتظامی طاقت کے اظہار کا بنیادی منبع ”سندھ پولیس“ ہی ہے۔یعنی جس کی سیاسی مٹھی میں ”سندھ پولیس“ ہے۔وہی اصل میں پورے سندھ کی سیاست کا مالک و مختار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کی سیاست میں چند دن اطمینان کے نہیں گزرتے ہیں کہ”سندھ پولیس“ میں تقرر و تبادلے کی خبریں میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنانا شروع کرہوجاتی ہیں۔ پولیس میں تقرر و تبادلے پاکستان کے ہر صوبے میں ہوتے ہیں اور ایک نہیں بے شمار بار ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی وہ خبریں میڈیا کی شہ سرخیاں نہیں بن پاتیں۔ کیونکہ صوبہ سندھ کے علاوہ ہر صوبے میں سیاست کو کنٹرول کرنے کے پولیس کی طاقت کے علاوہ دیگر سیاسی و انتظامی ذرائع بھی ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سندھ میں گزشتہ کئی برسوں سے سیاست کا مرکز و محور”سندھ پولیس“ ہی بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بطور ایک انتظامی ادارہ سندھ پولیس کے وقار کے لیئے قطعی مناسب نہیں ہے کہ اِسے باربار سیاست کے میدان ِ کارزار میں گھسیٹا جائے مگر کیا کریں ہمارے اربابِ اختیار سمجھتے ہی نہیں کہ اُن کے اِس مذموم طرز عمل سے سندھ پولیس کے ادارہ کی ساکھ کو کتنا شدید نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔جس دن اِس بابت بھی سوچنے کی زحمت گوارا کرلی گئی، اُس دن کے بعد یقینا سندھ پولیس کسی سیاسی تنازع کا شکار نہیں ہو گی بلکہ سیاسی مسائل و تنازعات کو حل کرنے کا باعث بنا کرے گی۔فی الحال سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ”سندھ پولیس“ ایک خواب ہے،دیکھتے ہیں کہ سندھ کے باسیوں کو اِس خواب کی تعبیر کب ملتی ہے؟

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 06 فروری 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

سیاسی اثرورسوخ سے آزاد سندھ پولیس؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں