PPP Week in Sindh

سندھ میں پیپلزپارٹی کی گرفت کمزور پڑنے لگی

کئی دہائیوں سے سندھ کے سیاسی اُفق پر بلاشرکت غیرے راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ وہ کثیر الجہتی کل جماعی کانفرنس کا انعقاد کرے اور سندھ کی تما م بڑی سیاسی جماعتیں ہامی بھرنے کے باوجود بھی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے چند گھنٹوں پہلے اچانک شرکت سے انکار کردیں۔آج سے ایک دہائی پہلے کوئی شخص اپنے ذہن میں خیال بھی نہیں لا سکتا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کبھی اس طرح کی سیاسی ہزیمت و شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بہرحال متحددہ قومی موومنٹ پاکستان حالیہ دنوں میں جن سیاسی مسائل سے گزر رہی ہے شاید اسے ہی فلسفہ کے اصطلاح میں ”حالات کا جبر“ کہتے ہیں۔اکثرسیاسی پنڈت گو کہ اس سیاسی واقعہ کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی حالیہ دنوں میں حاصل ہونے والی سب سے بڑی سیاسی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں مگر میری ناقص عقل کے مطابق اس ناکامی میں بھی ایم کیوایم کو بہت بڑی اور بظاہر ناممکن نظر آنے والی فقیدالمثال کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: سیاسی اثرورسوخ سے آزاد سندھ پولیس؟

یہ کامیابی ایم کیوایم کے تمام دھڑوں کا ایک پلیٹ فارک پر اکٹھا ہونا ہے۔ایم کیوایم کی سیاسی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا ہے کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام دھڑوں کی قیادت اعلانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ براہِ راست رابطے میں آئی ہو۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور غدار غدار کے القابات سے ایک دوسرے کو نوازنے والے اگر ٹی وی اسکرینوں کے سامنے اتنی گرمجوشی دکھار ہے ہیں تو پس پردہ ان کے سیاسی تعلقات اور روابط کی نوعیت کیا ہوگی۔ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں ایک جگہ پر جمع ہونا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو راتوں رات عمل پذیر ہوگیا ہوبلکہ ایم کیوایم میں ہونے والے موجودہ سیاسی بریک تھرو سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پیچھے بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی مقتدر قوتوں کا بھی انتہائی اہم اور مرکزی کردار ہوگا۔ جس کا سب سے اہم ترین سیاسی ہدف سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف نئی سیاسی بساط بچھانے کی تیاریاں کرنا ہیں۔

ماضی میں ملک کی سیاسی راہ داریوں میں گردش کرنے والا مائنس تھری کا فارمولا نہ صرف پاکستان کے سیاسی اُفق پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بدستور موجود ہے بلکہ آئین و قانون کے خلاف نوازشریف،آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے اتحاد نے مقتدر قوتوں کے نزدیک اس فارمولے کی اہمیت اور ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔طبقہ اشرافیہ کی نمائندہ پاکستان کی موجودہ سیاسی تکون جو کہ نواز،آصف،الطاف پر مشتمل ہے واضح طور پراس طرح کے اشارے دے رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے قانون اور سلامتی کے اداروں کے خلاف اپنی اپنی پوزیشن لے چکی ہیں،کیونکہ یہ معرکہ اس سیاسی تکون کے لیئے زندگی اورموت کا مسئلہ بن چکا ہے اس لیئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ وہ اس معرکہ میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیئے کسی بھی آخری حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا اثرورسوخ سندھ میں مکمل طور پر ختم کرنے کے لیئے پیپلز پارٹی کے اندرناراض سیاسی خاندانوں اور پیپلزپارٹی مخالف افراد کو میدان میں اُتارنے کے لیئے مشاورت شروع کردی گئی ہے۔سیاسی جوڑ توڑ کے لیئے اضلاع اور تحصیلوں کی سطح پر بااثر سیاسی خاندان اور سیاسی شخصیات سے معاملات طے کیئے جارہے ہیں۔

ملک میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کے پیش نظر سندھ میں سیاسی محاذ پر پیپلزپارٹی کے خلاف سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس کو بھی سیاسی میدان میں اتارنے کے لیئے نئی صف بندی شروع کردی گئی ہے۔اگلے الیکشن میں سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جنرل نشستوں میں سے 40 نشستوں،جبکہ صوبائی اسمبلی کی 80جنرل نشستوں کے حصول کا ہدف مقرر کرلیا گیاہے۔نوازشریف کی نااہلی کے بعد ملک میں پیداہونے والی سیاسی صورتحال میں مقتدر سیاسی حلقے جو کہ گزشتہ دس سالوں سے سندھ میں پیپلزپارٹی کے امتیازی سلوک کو برداشت کررہے تھے اب وہ بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابل طاقتور سیاسی مہرے میدان میں اتارنے کے لیئے سرگرم ہوگئے ہیں۔اس مقصد کے لیئے سندھ کے بااثر سیاسی خاندانوں سے رابطے کرلیئے گئے ہیں۔سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کے بھائی مسعود کھوڑو،تاج محمد شیخ،لوند فیملی،سابق وزیراعلی سندھ سردار علی محمد مہر کاخاندان،انڑ فیملی،چانڈیو فیملی،سید فیملی، ڈاہری فیملی،ارباب خاندان اور مختلف سیاسی خاندان جبکہ قومی اسمبلی کی کراچی اور حیدرآبا دکی نشستوں کے لیئے متحدہ قومی موومنٹ کے تما م دھڑوں کا ایک سیاسی پلیٹ فار م پر اکٹھا کر کے ان کے مسلم لیگ فنگشنل سے معاملات طے کیئے کرائے جانے کا عنقریب قوی امکان ہے۔

اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی مخالف اس سیاسی منصوبہ کو کسی بھی ناکامی یا سست روی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیئے بھی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے، جس کے لیئے آنے والے دنوں میں نیب سمیت ایف آئی اے کو بھی سندھ میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بدعنوان عناصر کے خلاف بھرپو ر کارروائیاں کرنے کا ٹاسک دینے کا قطعی فیصلہ کرلیا گیاہے۔جیسے ہی نیب اور ایف آئی ا ے اپنی بھرپور کارروائیوں کا آغاز کریں گے پیپلزپارٹی سندھ کے سیاسی قلعے میں زلزلے آنے کے یقینی امکانات ہیں۔اس سیاسی زلزلہ کے بپا ہونے کا پیپلزپارٹی کے اندر موجود بہت سی سیاسی قوتیں شدت سے انتظا ر کررہی ہیں۔سندھ میں حالیہ سیاسی صورتحال سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کے لیئے ایک کڑا امتحان ہے اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آصف علی زرداری اس مشکل ترین امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں یا پھر میاں نواز شریف کی طرح وہ بھی سارے پیپروں میں بری طرح فیل ہوجاتے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 31 اگست 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں