Artificial-Politics-vs-Real-Politics-in-Sindh

مصنوعی سیاست بمقابلہ حقیقی سیاست

یہ تو سب ہی کو بہت پہلے سے معلوم تھا پاکستان پیپلزپاٹی کراچی،سانگھڑ اور تھرپارکر میں ہونے والے ضمنی انتخابات باآسانی جیت لے گی لیکن انتخابی سیاست میں ”آسانی“ کی بھی کچھ”سیاسی اقسام“ ہوا کرتی ہیں۔ہمارے خیال میں جس آسانی سے پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو شکست فاش دی ہے۔یقینا”سیاسی آسانی“ کی یہ سب سے بدترین قسم ہی قرار دی جا سکتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ کسی ایک ضمنی نشست پر بھی تحریک انصاف اور جی ڈی اے کا مشترکہ اُمیدوار پاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کے مقابلے میں اتنے سے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکاکہ جتنے ووٹ کسی انتخابی اُمیدوار کو، کونسلر کی نشست جیتنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

خاص طور پر انتخابی حلقہ 88 ملیر کے متعلق عوام میں ضمنی انتخابی معرکہ شروع ہونے سے قبل ایک مبہم سی اُمید ضرور پائی جاتی تھی کہ شاید یہاں کے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے اُمیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو میسر آجائے۔ مگر شومئی قسمت کہ اس انتخابی نشست پر بھی نہ تو عمران اسماعیل کی گورنری کا جادو چلا اور نہ ہی حلیم عادل شیخ کی سیاسی پھرتیاں اپنا رنگ جما نے میں کامیاب ہوسکیں اورپاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدواریوسف بلوچ نے 21731 حاصل کر کے بھاری برتری کے ساتھ تحریک انصاف کے اُمیدوار جان شیر جونیجو کو تاریخی شکست سے دوچار کردیا۔ یاد رہے کہ اس انتخابی حلقہ میں تحریک انصاف کے اُمیدوار نے صرف 4753 ووٹ حاصل کیئے جبکہ پی ٹی آئی سے لاکھ درجے بہتر انتخابی کارکردگی کا مظاہر ہ تو نوزائیدہ سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیکھنے میں آیا کہ جس کا اُمیدوار 4476 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ یعنی اگر تحریک لبیک پاکستان 278 ووٹ مزید حاصل کرلیتی تو تحریک انصاف اس انتخابی حلقہ میں دوسرے درجہ کی سیاسی جماعت بھی نہ رہ پاتی۔

یکے بعد دیگرے تین ضمنی نشستوں پر واضح کامیابی سے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی اعتماد میں زبردست ہوا ہے،وہیں سندھ حکومت کے انتظامی حوصلے بھی خوب بلند تر ہوچکے ہیں اور یہ ”سیاسی اعتماد“ اور”انتظامی حوصلے“کا مشترکہ،کرشمہ ہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ کے متحرک ترین رہنما حلیم عادل شیخ کو جیل کی چاردیواری میں قید کردیا گیا ہے۔حالانکہ چند ہفتے قبل تک یہ ہی حلیم عادل شیخ لہک لہک کر وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے سیاسی دعوے کررہے تھے۔ لیکن آج حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ مراد علی شاہ پوری تمکنت کے ساتھ وزیراعلی سندھ کے منصب پر براجمان ہیں جبکہ حلیم عادل شیخ کو تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی موجودگی میں پابند سلاسل کیا جاچکا ہے۔بظاہر سندھ حکومت اس بات سے انکاری ہے کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری میں کسی بھی طرح سے اُس کا ”انتظامی عمل دخل“ہے۔لیکن جاننے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری سندھ حکومت کی رضا مندی یا سیاسی منشا کے بغیر کی ہی نہیں جاسکتی تھی۔دراصل حالیہ ضمنی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی سے سندھ حکومت کو سیاسی دباؤسے باہر نکلنے کا جو موقع ملا ہے،اُسے بروقت بروئے کار لاتے ہوئے، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے تحریک انصاف سندھ کی قیادت کے خلاف کُھل کر سیاسی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم بعض سیاسی تجزیہ کاروں کو خدشات لاحق ہیں تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان شروع ہونے والی اس نئی جارحانہ سیاسی چپقلس کے نتیجے میں سندھ کی سیاست آنے والے ایام میں سنگین قسم کے بحرانوں کی زد میں بھی آسکتی ہے۔

مثال کے طور پرتحریک انصاف کراچی کی قیادت کی جانب سے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کا تمام تر ”سیاسی نزلہ“سندھ پولیس پر گرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کراچی کی اعلیٰ قیادت نے باضابطہ طور پر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو اپنا پیغام پہنچایا ہے کہ”آئی جی سندھ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سیاسی ایماء پر تحریک انصاف کے ساتھ امتیازی سلوک کے مرتکب ہورہے ہیں لہٰذا انہیں فی الفور تبدیل کردیا جائے“۔حالانکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ کی مقامی قیادت،سیاسی و انتخابی محاذ پر پاکستان پیپلزپارٹی سے مقابلہ کرنے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ جسے ہماری اس رائے پر ذرہ برابر بھی شک ہو وہ گزشتہ تین برسوں پر محیط تحریک انصاف کی مقامی قیادت کی صوبہ بھر میں سیاسی و انتظامی کارکردگی ملاحظہ کرسکتاہے۔دراصل تحریک انصاف کراچی کی قیادت کا سارا وقت اور توانائی ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے میں ہی گزر جاتاہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے رہنما سوشل میڈیا پر تصاویر میں تو بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عوامی حلقوں انہیں تلاش کرپانا،کسی وسیع و عریض صحرا میں ایک سوئی کو ڈھونڈنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی سندھ کی قیادت کو آپ لاکھ بُرا،بھلا کہیں مگر ان میں یہ خوبی بہر صورت پائی جاتی ہے وہ اپنے حلقے کی عوام کے ساتھ ہمہ وقت منسلک و مربوط رہتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں پیپلزپاٹی کے حصہ میں فقید المثال کامیابی حصے میں آئی۔

حالیہ سیاسی تناظر میں اگر واقعی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پیپلزپارٹی کو سند ھ کے سیاسی میدان ِ کارزار میں مشکلات سے دوچار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر یقیناسب سے پہلے تحریک انصاف کے قائدین کو سوشل میڈیا کی”مصنوعی سیاست“کے خول سے باہر نکل کر اپنے اپنے عوامی حلقوں میں عوام کی سمت جانا ہوگا۔خاص طور پر کراچی کے عوامی حلقے جہاں سے گزشتہ قومی انتخابات میں تحریک انصاف کو زبردست انتخابی کامیابی حاصل ہوئی تھی،وہاں کے عوام ہنوز تحریک انصاف کے اُن سیاسی نمائندوں کے شدت کے ساتھ منتظر ہیں جنہیں انہوں نے ووٹ دے کر ایوانِ اقتدار تک رسائی دی تھی۔ اہلیان کراچی کے انتظامی مسائل اور سیاسی دُکھوں کا مداوا کرنا تحریک انصاف کی عوامی نمائندوں کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔فقط یہ ایک واحد عوامی شاہراہ ہے جس سے گزر کر تحریک انصاف کی قیادت صوبہ سندھ میں سیاسی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ بصورت دیگر آئی سندھ کی تبدیلی حتی کہ وزیراعلیٰ سندھ کے تبدیل ہوجانے سے بھی صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کا تاریک سیاسی مستقبل،ہر گز روشن اور تابناک ہونے والا نہیں ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 25 فروری 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں