Taliban delegation meets Afghan opposition figures in Iran

طالبان اورایران

نو،دس محرم پر افغانستان میں طالبان کی جانب سے مذہبی روداری کے جو مناظر دیکھنے میں آئے۔وہ یقینا بہت سے افراد کے لیئے لائق تحسین ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی ضرور ہوں گے۔خاص طور پر پاکستا ن میں بسنے والا،وہ اقلیتی لبرل طبقہ جس کا یہ عام خیال تھا کہ طالبان مسلکی اور فقہی معاملات میں انتہائی پرتشدد ہیں، کم ازکم حالیہ ایامِ محرم میں کابل کی اہم شاہراؤں پر طالبان کے سیکورٹی حصار میں عاشورہ کے ماتمی جلوس اور تعزیے دیکھ کر انہیں زبردست مایوسی ہوئی ہوگی۔ واضح رہے کہ مستقبل قریب میں ایران اور طالبان کے تعلقات کی مضبوطی اور خطے میں دیرپا استحکام کے لیئے از حد ضروری تھا کہ افغانستان کے تمام بڑے اور معروف شہروں میں عزادری کے اجتماعات کا انعقاد پرامن انداز میں بہر صورت یقینی بنایا جائے۔

نیزنئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بالخصوص دنیا بھر میں بسنے والی شیعہ برادری کے نقطہ نظر سے بھی طالبان کے معتدل رویے کے اَب تک کے تمام تر دعووں کو جانچنے اور پرکھنے کے لیئے یہ ایک بہت مشکل ٹیسٹ کیس بھی تھا،جس میں طالبان بلا شک و شبہ امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہونے میں کامیاب رہے۔ہوسکتا ہے کہ عالمی ذرائع کے نزدیک طالبان کا یہ مثبت رویہ بڑی خبر نہ ہو۔ لیکن ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے لیئے یہ واقعی ایک انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ طالبان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے نہ صرف بہت کچھ سیکھ لیا ہے بلکہ وہ اپنی گزشتہ غلط اقدامات کو درست کرنے کے لیئے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات بھی اُٹھارہے ہیں۔

یادرہے کہ اسلامی دنیا میں ایران اکثریتی شیعہ آبادی رکھنے والا واحد ملک ہے۔ اس لیئے دنیا بھر میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ہر بڑی مشکل یہ کسی بھی قسم کے سرد،گرم سیاسی حالات وواقعات میں مدوو اعانت کی غرض سے سب سے پہلے ایرانی حکومت کی جانب ہی اُمید بھری سے نظر وں سے دیکھتا ہے۔ جبکہ ایران نے بھی ہمیشہ اپنے سیاسی و سفارتی اثرورسوخ کو شیعہ آباد ی کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کے لیئے بھرپورانداز میں استعمال کیا ہے۔ چونکہ افغانستان میں کثیرتعداد میں ہزار ہ قبائل بستے ہیں۔جن کا شیعہ مسلک سے تعلق ہے۔اس لیئے اِن کے مستقبل کے متعلق ایرانی حکومت کا پریشان ہونا بالکل ایک فطری بات ہے۔جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ہر سیاسی تبدیلی اور اقتدار کی کشمکش کا براہ راست اثر سب سے زیادہ ہزارہ آباد ی پر ہی پڑتا ہے۔

ماضی میں جہاں طالبان کا رویہ افغانستان میں بسنے والی ہزارہ برادی سے کچھ مناسب نہیں رہا تھا تو وہیں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے قبائل نے بھی طالبان کی حکومت کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا تھا اور طالبان کے خلاف ہونے والی ہر مزاحمت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس لیئے کابل پر طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے بعد افغانستان میں استحکام کے لیئے مخلصانہ کوششیں کرنے والی قوتوں کو اہم ترین مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ملک میں بسنے والی ہزاری آبادی اور طالبان کے آپسی معاملات مستقبل میں کس نوعیت کے ہوں گے؟۔اچھی بات یہ ہے کہ یوم عاشورہ کے موقع پر طالبان قیادت نے ہزاری برادری کے مذہبی اجتماعات میں شرکت فرما کر، انہیں جس طرح سے فول پروف سیکورٹی فراہم کی۔اُس کے بعد طالبان،ایران اور ہزاری برادری کے درمیان تفریق اور منافرت پھیلانے والی تما م اندیشے، خبریں اور تجزیے اپنی موت آپ مرگئے ہیں۔

شاید ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت ایران اور طالبان رہنما ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی اور مثالی روابط استوار کرنے کے لیئے ”باہمی اعتماد“ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ اگر دونوں فریقین کے درمیان اسی طرح تیزی رفتاری سے مثبت پیش رفت ہوتی رہی تو بہت جلد ایران اور طالبان اسلامی اُخوت اور بھائی چارے کے اٹوٹ بندھن میں بندھ جائیں گے۔ جس کا اولین ثبوت ایران نے طالبان کی درخواست پر افغانستان کو گیسولین، گیس اور پیٹرول کی برآمدات دوبارہ شروع کرکے دے بھی دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی تیل، گیس اور پٹرو کیمیکل ایکسپورٹرز یونین نے بتایا ہے کہ ”طالبان نے ایرانی حکومت کو پیغامات بھیجے تھے کہ آپ پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کو جاری رکھ سکتے ہیں“۔جس کے جواب میں نہ صرف ایران نے گیسولین،گیس اور پیٹرول کے برآمدات کا ایک بار پھر سے آغاز کردیا ہے بلکہ طالبان نے بھی خیر سگالی کے طور پر ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر ٹیکس میں 70 فیصد تک حیران کن کمی کردی ہے۔

علاوہ ازیں طالبان کی سفارتی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے تہران میں پریس بریفنگ کے دوران ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ”افغانستان کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہم افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور وہاں کے مختلف گروہوں سے رابطے میں بھی ہیں،جبکہ ہماری حکومت ایران افغان گروپوں کے درمیان تعاون اور مذاکرات کو آسان بنانے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ افغانستان میں تمام گروپوں اور سیاسی سیاستی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں“۔سعید خطیب زادہ کا مزید کہناتھا کہ ”ایران افغانستان میں ایک متفقہ حکومت کو اقتدار کی پرامن منتقلی کا حامی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ ایک متفقہ اور جامع حکومت غیر ملکی افواج کے انخلا کے اہم ترین موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کی تعمیر میں کامیاب ہو جائے گی“۔

ایران کی جانب سے حاصل ہونے والی غیر مشروط حمایت سے طالبان کے ازلی حریف شمالی اتحاد اور اس سے منسلک جنگجو گروہوں کی متوقع اور غیر متوقع مزاحمت کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔اس وقت صرف پنج شیر کے علاقے میں شمالی اتحاد کے جہادی جنگجو احمد شاہ مسعود کے صاحب زادے احمد مسعود اور سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح طالبان کو مزاحمت کی دھمکی دے رہے ہیں۔ مگر صورت احوال یہ ہے کہ پنج شیر کے اردگرد کا سارا علاقہ طالبان کے کنٹرول میں اور طالبان نے حقیقی معنوں میں پنج شیر کا سخت محاصرہ کیا ہوا ہے۔اس لیئے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امراللہ صالح اور احمد مسعود کے جنگجوؤں کو طالبان سے لڑنے کے لیئے بیرونی امداد میسر آئے گی۔نیز ایران اور روس کی جانب سے بھی پنج شیر میں موجود شمالی اتحاد کے جنگجو گروہ سے مکمل اعلانیہ لاتعلقی کا اظہار کردیا گیا۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایران کی حمایت کے بغیر شمالی اتحاد کے رہنما اور جنگجو ایسے ہی ہیں جیسے سانپ بغیر زہر کے ہوتا ہے۔ یعنی شمالی اتحاد اگر طالبان کے ساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھ جائیں تو اُن کے حق میں بہت بہتر ہوگا۔وگرنہ اگلے چند روز میں اُنہیں طالبان کے غیض و غضب کا سامان کرنے کے لیئے پوری طرح سے تیار رہنا چاہئے۔

ویسے بھی شمالی اتحاد کی تمام عسکری قوت اور سیاسی بھرم صرف ایرانی حمایت کے دم قدم سے ہی قائم تھا۔ اَب چونکہ ایران نے افغانستان سرزمین پر کام کرنے والے اپنے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے تمام گروہوں کو طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنے کا حکم صادر کردیا ہے۔اس لیئے اَب آپ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں کھینچ سکتے۔جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ شمالی اتحاد کے معروف جہادی رہنما گل بدین حکمت یارہیں۔جنہوں نے گزشتہ کئی دہائیاں ایرانی اور روسی حمایت سے طالبان کی مخالفت میں بسر کردی تھیں۔ آج کل وہ بھی کابل میں اہم ترین طالبان رہنماؤں کے ہمراہ افغانستان میں مستقبل کی وسیع البنیاد حکومت ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ رواں ہفتے اہم ترین طالبان رہنماؤں کے ہمراہ لی گئی ایک تصویر عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا خوب وائر ل ہورہی ہے،جس میں گل بدین حکمت یار، باجماعت نماز کی امامت فرمارہے ہیں اور اُن کے پیچھے طالبان کے جید رہنما پورے خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہِ الہیٰ میں سجدہ ریز ہورہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اُجلی تصویر ایران اور طالبان کے تعلقات میں بگاڑ کے خواب دیکھنے والوں کے لیئے کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان کی مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت قائم ہونے سے ایران کو پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کے سرحدی علاقے مغربی قوتوں کی جانب سے پلانٹ کی گئی ایران مخالف پراکسیز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ ہوجائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کو گیسولین،گیس اور پیٹرول کی فروخت کے لیئے کئی ممالک پر پھیلی ہوئی ایک وسیع منڈی میسر آ جائے گی۔ جس کی وجہ سے ایران کو درپیش مختلف طرح کے معاشی مسائل سے چھٹکارا پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ جبکہ اگر افغانستان میں آباد ہزارہ آباد ی،امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے اور ان مظلوموں کو بھی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے خوب مواقع میسر آتے ہیں تو ایران کو مستقبل قریب میں افغان سرزمیں سے کثیر تعداد میں ایسے مذہبی سیاح بھی میسر آسکتے ہیں۔ جو ایران سرزمین پر موجود مقدس زیارات سے حاصل ہونے والی آمد نی میں غیرمعمولی اضافہ کا باعث بھی بن سکتے ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کی موجودگی ایران کے لیئے چین کے عظیم الشان معاشی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ میں شمولیت کی راہ بھی ہموار کرے گی۔یہ ہی وہ بیش بہا سیاسی،سفارتی اور معاشی فوائد ہیں، جن کو پیش نظر ایران نے بھارت نواز شمالی اتحاد کو یکسر نظر انداز کر کے طالبان کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز بھرپور انداز میں کردیا ہے۔

دوسری جانب طالبان کو بھی ایران کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے صلے میں بے شمار فوائد ملنے کی اُمید ہے۔ جیسے ایران کی سرحد سے منسلک افغانستان کا طویل علاقہ پرامن ہوجائے گا۔ نیزطالبان حکومت کو درکار پیٹرول کی ایک بڑی ضرورت بھی ایران باآسانی پورا کرسکے گا۔ جبکہ ایران افغانستان کی تعمیرو ترقی خاص طور اسکولوں،ہسپتالوں اور تباہ حال سرکاری اداروں کا نیا جال بچھانے میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال سکتا ہے۔خاص طور پر ہزارہ اکثریتی علاقوں کی بحالی کے کام کے لیئے طالبان نے ایران کو کہا تو غالب امکان یہ ہی ہے کہ ایرانی حکومت لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دامے، ورمے،سخنے مصروف ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ایران کے قریب آنے سے طالبان کو دنیا بھر میں اپنا مسلکی طور پر پرتشدد ہونے کا تاثر، زیادہ بہتر بنانے کا موقع میسر آئے گا۔مسلم امہ کے لیئے سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اگر ایران اور طالبان مختلف عالمی معاملات اور تنازعات پر مشترکہ موقف اختیار کرتے ہیں تو۔اُن کے اس طرز عمل سے سنی اور شیعہ ممالک کے درمیان،مسلم دشمن قوتوں کی جانب سے ایک سازش کے تحت پیدا کی جانے والی صدیوں پرانی مسلکی مخاصمت، افقہی ختلافات اور سیاسی خلیج ختم نہیں تو،بہرحال کم ضرور ہوسکتی ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 26 اگست 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں