بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

2022 میں پہلی بار لیبارٹری میں تیار کیا گیا خون دنیا کے اوّلین کلینیکل ٹرائلز میں دو جیتے جاگتے انسانوں کو لگانے سے اُن مریضوں کی آنکھوں میں اُمیدوں کے دیے روشن ہوگئے،جن کا خون انتہائی کم یاب ہوتاہے۔نیز اِسی برس خوراک اور ادویات کے امریکی نگران ادارے ایف ڈی اے کی کیلی فورنیا کی ایک کمپنی کے تیار کردہ مصنوعی گوشت کو انسانی خوراک کے لیے محفوظ قراردینے کے بعد لیبارٹری میں بنایا گیا گوشت برطانیہ کی سپر مارکیٹوں میں فروخت ہونے لگا۔جبکہ ماہرارضیات نے زمین کی تہہ میں بہتا ہوا چھٹا سمندر بھی دریافت کرنے کا انکشاف کرکے دنیا بھر کو انگشت بدنداں کردیا۔جی ہاں! 5 قابل مشاہدہ سمندروں بحر اوقیانوس، بحرالکاہل، بحرعرب، بحرقطب شمالی اور بحر قطب جنوبی کے علاوہ ہماری زمین کے اوپری اور نچلے حصے کے درمیان ایک سرحدی پرت پر سطح سے تقریبا 400 میل نیچے دنیا بھر میں پھیلا ہوا ایک چھٹا سمندر بھی موجود ہے۔ نیز گزرے برس،پین سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایسا خام مواد بناکر دنیا بھر کے نظارے کے لیئے پیش کردیا جو اپنے تئیں ”سوچ“ بھی سکتاہے اور اپنے خیال پر ازخود عمل بھی کرسکتاہے۔ اس مناسبت سے عبدالحمید عدم نے کیا خوب کہا ہے کہ ”رفتارِ زمانہ کا لہجہ سفاک دکھائی دیتا ہے۔۔۔ بروقت کوئی تدبیر کرو،آفات کی نیت ٹھیک نہیں“۔ 2022 میں سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اُفق پرنت نئی اختراعات، دلچسپ ایجادات اور متنوع انکشافات کی صورت میں کیا کچھ مزید ظہور میں آتا رہا اُس کا ایک مختصر سا جائزہ زیر نظر مضمون میں پیش خدمت ہے۔

سالِ گزشتہ دنیائے سائنس سے بنی نوع انسان کی بہتری کے لیئے جس منفرد،دریافت کا تذکرہ عالمی ذرائع ابلاغ کے اُفق پر چھایا رہا، وہ یہ تھی کہ معروف خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئیں ہماری کائنات کے انتہائی دوردراز مقام پر موجود ستاروں، کہکشاؤں کی تصاویر دنیا بھر کے ملاحظہ کے لیئے انٹرنیٹ پر جاری کردی ہیں۔ یاد رہے کہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا خلائی منصوبہ قرار دی گئی جیمز ویب خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی رنگین تصاویر کائنات کی اَب تک کی سب سے انوکھی اور اوّلین صورت دکھاتی ہیں۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے کھینچی گئی تصاویر کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا اور تفصیلی انفرا ریڈ نظارہ ہے، جن میں کہکشاؤں کی ایسی روشنی بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جس نے اربوں سال کی مسافت طے کی ہے۔ یعنی سائنس دان اِن تصاویر کی مدد سے کائنات کے اُن بعید ترین مقامات کا مشاہدہ کرنے کے بھی قابل ہوگئے ہیں، جو آج سے پہلے کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھے۔ دسمبر 2021 میں 10 ارب ڈالر مالیت سے تیار کی گئی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو خلا میں روانہ کرتے وقت سائنس دانوں نے امید کا اظہار کیا تھا کہ اب خلا میں کائنات کے نت نئے راز افشاں ہو سکیں گے اور توقع کے عین مطابق جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ستارے کی واضح ترین تصویر عکس بند کرنے میں کامیاب بھی رہی۔

نیز گزشتہ برس میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ایسا منفرد کپڑا تیار کرنے کی نوید بھی سنائی جس سے تیار کردہ ٹی شرٹ یا پوشاک اُسے پہننے والے کے دل کی دھڑکن نہ صرف سُن سکتی ہے بلکہ دھڑکنوں کے زیروبم کا مکمل ریکارڈ محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔ یہ آرام دہ اور خوب صورت کپڑا،ایم آئی ٹی کے ڈاکٹر وائی یان اور اُس کے ساتھیوں کی مشترکہ ایجاد ہے۔ ابتدائی طور پر کپڑے سے 2عدد ٹی شرٹس بنائی گئی ہیں، ایک ٹی شرٹ اسٹھیتھو اسکوپ کی طرح دل کی دھڑکن سن کر اُس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے اور مذکورہ کپڑے سے ہی تیار کی جانے والی دوسری ٹی شرٹ پشت پر نصب دو پیزو الیکٹرک پیوند کی بدولت ریکارڈ کیا گیا تمام مواد سُنا بھی سکتی ہے۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس طرح کی طبی پوشاکوں کو مریضوں کی ای سی جی کے لیئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جبکہ سال ِ 2022 میں امریکی ماہرین حادثاتی طور پر ایسی نئی ٹیکنالوجی ایجادکرنے میں کامیاب ہوگئے، جسے زیرِ استعمال لانے سے صرف چند منٹوں میں ہوا،سے 99 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف ہوجاتی ہے۔ اس ماحول دوست انقلابی ایجاد کا قصہ کچھ یوں ہے کہ یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم پچھلے کئی سال سے نئی قسم کے فیول سیلز تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ جنہیں ایچ ای ایم، فیول سیلز کا نام دیا گیا تھا۔اس تحقیق میں انہیں بدترین ناکامی کا سامنا ہوا کیونکہ تجرباتی فیول سیلز، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے معاملے میں بہت ناقص تھے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر پاتے تھے۔ایچ ای ایم فیول سیلز کا منصوبہ تو ناکام ہوگیا لیکن سائنس دانوں نے اسی تیکنیکی نقص کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسے نظام پر کام شروع کردیا جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ الگ کرنے کے رائج تمام طریقوں سے بہتر ہو۔اب انہوں نے مذکورہ ٹیکنالوجی سے ایک پروٹوٹائپ سسٹم بھی تیار کرلیا ہے جس کی جسامت کولڈ ڈرنک کے ایک چھوٹے کین جتنی ہے اور وہ ایک منٹ میں 10 لٹر ہوا سے 99 فیصد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ الگ کرکے ہوا کوصاف کرتا ہے۔ماہرین کو امید ہے کہ اس پروٹوٹائپ کی بنیاد پر بہت جلد ایسی بڑی مشینیں بنائی جاسکیں گی جو کم خرچ پر، کم توانائی استعمال کرتے ہوئے، بہت تیزی سے ہوا،کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرسکیں گی۔علاوہ ازیں سال 2022 میں امریکی سائنسدانوں نے ہائیڈرو جل کی مانند ایک ایسا فوم بھی ایجاد کرلیا، جو ہواکو بھی پانی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ ابتدائی تجربات میں اس ہائیڈرو جل نے صرف 30 فیصد نمی والی ہوا سے ایک دن میں 5.87 لیٹر فی کلوگرام کی شرح سے پانی حاصل کیا۔اس ہائیڈروجل کی کارکردگی مزید بہتر کرنے کے بعد یہ نظام غریب، صحرائی، دور افتادہ اور پسماندہ مقامات پر پانی کی فراہمی کے لیئے استعمال کیا جاسکے گا۔

دوسری جانب سال2022 کے طب کا نوبل انعام سوئیڈس سائنس دان ”سوانتے پابو“ کو معدوم ہوجانے والے انسانوں کے جینوم اور انسانی ارتقاء کے حوالے سے کی جانے والی دریافتوں پر دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اپنی تحقیق کے ذریعے سوانتے پابو نے آج کے انسان کی معدوم قسم نِینڈرتھل کے جینوم کو ساخت دے کر بظاہر ناممکن کو ممکن کر دِکھایا اور انہوں نے ڈینیسووا نامی انسانی قسم کی دریافت بھی کی جو اس سے قبل نامعلوم تھی۔سوانتے پابو کی اس تحقیق سے سائنس کی ایک نئی شاخ’’پیلیوجینومکس‘‘ کا آغاز ہوا ہے۔جبکہ رائل سوئیڈش اکیڈمی کی جانب سے سال 2022 کے لیئے طبیعات کا نوبل انعام ”کوانٹم مکینکس“ پر تحقیق کرنے والے امریکا، آسٹریا اور فرانس سے تعلق رکھنے والے تین سائنس دانوں فرانس کے ایلین ایسپیکٹ، امریکا کے جان کلوزر اور آسٹریا کے اینتون زِیلِنگر کو ایٹمی زرات کے تعامل سے متعلق کی جانے والی تحقیق مثلاً ”الجھے ہوئے فوٹون“ پر تجربات کرنے،’’بیل اِن اکویلیٹیز“ کی خلاف ورزی ثابت کرنے اور”کوانٹم انفارمیشن سائنس“ متعارف کرانے پر دیا گیا۔ جیوری کے مطابق تینوں سائنس دانوں کی تحقیق سے سُپر کمپیوٹر اور اِنکرپٹڈ کمیونیکیشن کے میدان میں تحقیق کے مزید امکانات پیدا ہوں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فزکس کی طرح کیمیا کا نوبل انعام برائے 2022 بھی تین سائنس دانوں کے نام رہا جنھوں نے کیمسٹری کی دو نئی شاخوں کلک کمیسٹری اورآرتھوگونل کیمسٹری کا تصور پیش کیا تھا۔یوں کیمسٹری کا نوبل انعام امریکی یونیورسٹی، اسٹینفورڈ سے وابستہ خاتون سائنس دان کیرولین آر برٹوزی، ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے مورٹن میلڈال اور امریکی تحقیقی ادارے اسکریپس ریسرچ سے منسلک کے بیری شارپلس کو مشترکہ طور دیا گیا۔

اگر2022 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی پیش رفت اور ترقی کی بات کی جائے تو کہا جاسکتاہے کہ سال ِ گزشتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں زبردست بہتری اور ترقی کے بے شمارنئے در وا کرنے کا سبب بنااور سال کی ابتداء میں ہی ٹیک کمپنی ایپل نے دنیا کی پہلی ٹریلیئن ڈالر کمپنی بننے کا منفرد اعزاز اپنے نام کرلیا۔کسی ٹیکنالوجی کمپنی کے لیئے یہ کتنا بڑا سنگ میل ہے، اس کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ برطانیہ کی پوری معیشت کا حجم 2.8 ٹریلیئن ڈالر ز ہے،جبکہ تنہا ایپل کمپنی کے اثاثے اَب 3 ٹریلیئن ڈالرز پر جا پہنچے ہیں۔ نیز گزشتہ برس معروف ٹیک کمپنی مائیکرو سافٹ نے کینڈی کرش سمیت اَن گنت مشہور گیمز بنانے والی کمپنی ”ایکٹیویژن بلیزارڈ“ 68.7 ارب ڈالرکی خطیر رقم میں خرید لی۔ اس خریداری کے ساتھ ہی نہ صرف ”ایکٹیویژن بلیزارڈ“کے گیمز سمیت تمام مصنوعات اور اثاثہ جات مائیکروسافٹ کی ملکیت ہو گئے ہیں بلکہ مائیکروسافٹ کو روایتی آن لائن گیمنگ سے آگے بڑھ کر موبائل گیمنگ کی دنیا میں تیزی سے آگے بڑھنے کا سنہری موقع بھی میسر آگیا ہے۔ جبکہ گزشتہ برس ایک اور مقبول عام گیم پب جی، کی خالق”کرافٹن کمپنی“نے بلاک چین کمپنی ”سولینا لیبس“کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کرلیا۔مذکورہ معاہدہ کی رو سے دونوں کمپنیاں مل کر بلاک چین اور این ایف ٹی گیمز کی ڈیزائننگ، تیاری اور مارکیٹنگ کریں گی۔

نیز سالِ گزشتہ امریکا میں دنیا کا نیا تیز ترین کمپیوٹر بھی متعارف کرا دیا گیا۔ امریکی محکمہ توانائی کی اوک رِج نیشنل لیبارٹری میں نصب کیا گیا یہ فرنٹیئر سسٹم 500 تیز ترین کمپیوٹرز میں سرفہرست ہے۔یہ سپر کمپیوٹر اتنا طاقت ور اور تیز رفتار ہے کہ اس کا مقابلہ 7 سپر کمپیوٹر مل کر بھی نہیں کر سکتے۔قبل ازیں دنیا کے تیز ترین کمپیوٹر ہونے کا اعزاز دو برس تک جاپان کے رائیکن سینٹر فار کمپیوٹیشنل سائنسز میں نصب فُوگاکُو سسٹم کے پاس تھا، جو فرنٹیئر سسٹم کے متعارف کرائے جانے کے بعد دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔فرنٹیئر کمپیوٹر صرف سب سے زیادہ تیزرفتار کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ یہ دنیا کا پہلا ایگزا اسکیل سسٹم بھی ہے۔ یعنی ایک ایسا کمپیوٹرجو ایک سیکنڈ میں 1018 یعنی 10 لاکھ کھرب آپریشنز کرنے کے قابل ہو۔جبکہ سال 2022 میں دنیا کا سب سے بڑا روبوٹ تیار کرنے کا دعوی چین نے کردیا۔ چینی انجینئروں نے اپنے تخلیق کردہ، روبوٹ کو ”میکنیکل یاک“ یعنی ”روبوٹ بیل“ کا نام دیا ہے۔ یہ روبوٹ خالص فوجی مقاصد کے لیئے تیار کیا ہے جو ایسے دشوار گزار علاقوں میں دشمن کی نگرانی کرسکے گا جہاں پہنچنا اور پہرہ دینا انسانوں کے بس سے باہر ہو۔اس روبوٹ کی اونچائی ایک عام انسان کے مقابلے میں نصف، جبکہ لمبائی تقریباً انسان جتنی ہے۔یہ چار پیروں پر آگے اور پیچھے چلنے کے علاوہ دائیں بائیں بھی گھوم سکتا ہے اور اپنا رُخ ہر سمت بدل سکتا ہے۔یہ روبوٹ 160 کلوگرام وزنی سامان لاد کر 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ناہموار چٹانوں، سیڑھیوں، کیچڑ سے بھرے راستوں، ریگستانوں اور برف سے اَٹے میدانوں تک میں باآسانی دوڑ بھی سکتا ہے۔

علاوہ ازیں سال 2022 میں جان ہاپکنز یونیورسٹی، امریکا میں تیار کردہ ایک اور، روبوٹ سرجن نے دنیا میں پہلی بار مکمل خودکار انداز میں بغیر کسی انسانی مدد 4 کامیاب آپریشن کرکے سرجری کی نئی تاریخ رقم کردی۔پیٹ کے یہ تمام آپریشن تجرباتی تھے جو سؤروں پر کیے گئے تھے۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اُمید ہوچلی ہے کہ بہت جلد روبوٹ سرجنز انسانوں کے خودکار آپریشن کرتے دکھائی دیں گے۔یاد رہے کہ یہ صرف ایک کلینیکل روبوٹ ہی نہیں بلکہ روبوٹ بازو، تھری ڈی کیمروں، سینسرز اور خصوصی الگورتھم پر مشتمل ایک پورا نظام ہے۔ جسے کمپیوٹر سائنس اور مکینیکل انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر حامد سعیدی اور ان کے ساتھیوں نے 2016 میں تیار کیا تھا۔تقریباً پانچ سال تک مسلسل بہتر بنانے کے بعد، اب’’اسٹار“ نامی یہ روبوٹ سرجن اس قابل ہوگیا ہے کہ کسی بھی قسم کی انسانی مداخلت یا رہنمائی کے بغیر، مکمل خودمختار انداز میں آپریشن کا پیچیدہ عمل انجام دے سکے۔جبکہ گزشتہ برس،سوئٹزرلینڈ کی اینالگونا اور اسپین کی رابرٹولانون کی مشترکہ کمپنی ”زاؤنڈریم“ نے ایک ایسا آلہ ایجاد کرلیا، جو شیر خوار بچے کے رونے کی آواز سن کر معلوم کرلیتا ہے کہ بچہ کس لیے رو رہا ہے۔اسے ”بے بی ٹی“ کا نام دیا گیا ہے اوریہ کسی بچے کے رونے کی صورت میں اُس کی چار طرح کی ضروریات کا پتا لگا سکتا ہے۔ مثلاً بھوک، درد، گیس اور گود میں آنے کی خواہش وغیرہ۔ اس میں مصنوعی ذہانت سے استفادہ کرنے والا الگورتھم بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کے سافٹ ویئر کو تربیت دینے کے لیئے دنیا بھر کے کئی ہزار شیر خواربچوں کے رونے کی آوازوں کے نمونے جمع کر کے آزمائش کرلی گئی ہے۔ ”بے بی ٹی“ نامی یہ منفرد آلہ آئندہ چند ماہ میں عام فروخت کے لیئے پیش کردیا جائے گا۔

دوسری جانب گزشتہ برس ڈیجیٹل روپیہ یعنی کرپٹو کرنسی کی قدر میں ریکارڈ کمی، واقع ہوئی اور دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی بٹ کوائن24 ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ایک بٹ کوائن کی قیمت 17 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے چلی گئی، جو نومبر 2020 کے بعد سب سے کم قیمت ہے۔ کرپٹو کرنسی کی قدر میں تاریخی گراوٹ سے عالمی کرپٹو مارکیٹ کو 200 ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہو گیا۔جبکہ دنیا کی ایک بڑے کرپٹو کرنسی پلیٹ فارم ”ایف ٹی ایکس“ نے امریکہ میں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا اورکمپنی کے چیف ایگزیکٹیو”سیم بینک مین فرائیڈ“ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے۔یاد رہے کہ کرپٹو کنگ کے نام سے دنیائے انٹرنیٹ پر معروف 30سالہ”سیم فرائیڈ“ سال2022 کے موسمِ بہار تک 26 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ تاہم جولائی 2022 میں کمپنی کے اثاثے تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئے اور ایف ٹی ایکس اور کرپٹو کرنسی کی گرتی ہوئی ساکھ نے انہیں کنگال کردیا۔32 بلین ڈالرز سے زائد مالیت کے اثاثہ جات رکھنے والے کرپٹو پلیٹ فارم کا اچانک دیوالیہ ہوجاناکرپٹوانڈسٹری کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جارہاہے،کیونکہ اِس واقعہ کے بعد صارفین کا اعتماد کرپٹوکرنسی پر بری طرح سے متزلزل ہوا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے میگزین میں 15 جنوری 2023 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں