تعلیم ہی بہترین سرمایہ ہے

تعلیم سے مراد کسی بھی معلوم یا نامعلوم شئے کے متعلق آگاہی حاصل کرناہے۔انگریزی زبان میں تعلیم کے لیئے ایجوکیشن Education کا لفظ مستعمل ہے۔جو لاطینی مصدر ایجوکیشیوEducatio) (سے مشتق ہے،جس کے معانی ہیں، پڑھانا،سکھانا اور تربیت کرنا۔سادہ ترین الفاظ میں تعلیم وہ سرگرمی ہے جس کے ذریعے ایک شخص اپنی عادات، تجربات،مشاہدات اور معلومات کسی دوسرے فرد کو منتقل کرتا ہے۔جبکہ تیکنیکی معنوں میں تعلیم سے مراد ایک ایسا رسمی یا غیر رسمی منظم تدریسی طریقہ کار ہے، جس کے توسط سے ایک معاشرہ اپنا مجموعی،علم و ہنر،روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے۔ دراصل تعلیم سیکھنے اور سکھانے کا ایک ایسا عملِ مسلسل ہے،جس کی کوئی ایک متعین یا طے شدہ تعریف نہیں کی جاسکتی۔ بعض ماہرینِ تعلیم کے نزدیک درس گاہ میں نصاب کا پڑھادینا ہی تعلیم ہے،نیز کچھ اہل ِ علم کا خیال ہے کہ تعلیم لوگوں کے ذہن کو ایک خاص سمت میں تربیت دینے کا نام ہے۔جبکہ کئی دانش ور، نصاب اور تربیت کے ملاپ کوہی اصل تعلیم قرا ردیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین تعلیم،اساتذہ،فلسفی اور دانش ور تعلیم کی کسی ایک تعریف پر متفق ہوں یا نہ ہوں مگر اُن سب کے مابین کم ازکم اِ س ایک بات پر کامل اتفاق رائے ضرور پایا جاتاہے کہ تعلیم فرد کے لیئے ہی نہیں بلکہ کسی قوم کی سیاسی،سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیئے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ تعلیم کی غیر معمولی اہمیت و افادیت کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے3 دسمبر 2018 کو منعقدہ اجلاس میں تعلیم کو ہر شخص کے لیئے بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے ہر سال 24 جنوری کو عالمی یومِ تعلیم کے طور پر منانے کی قرارد ادمنظور کی تھی۔یوں دنیا بھر میں پہلا عالمی یومِ تعلیم 24 جنوری 2019 کو منایا گیا تھا، جبکہ رواں برس پانچواں عالمی یوم ِ تعلیم”انسانوں میں تعلیم کے ذریعے سرمایہ کاری کریں“ کے تھیم یا عنوان کے تحت منایا جارہاہے۔ یاد رہے کہ اقوام ِمتحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے مطابق اپنی عوام کے لیئے مفت اور معیاری تعلیم کا بندوبست کرنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔

عالمی یوم خواندگی اور عالمی یومِ تعلیم کا فرق
”جب اقوام متحدہ کی جانب سے منظورکردہ قرار داد کے تحت 8 ستمبر 1967 سے ہر سال دنیا بھر میں عالمی یومِ خواندگی باقاعدگی کے ساتھ منایا جا رہاہے تو اقوام متحدہ نے عالمی یومِ تعلیم منانے کی قرارداد کیوں منظور کی؟۔یہ وہ سوال جو اکثر لوگوں کی طرف سے سننے میں آتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض نیوز چینلزاور اخبارات بھی عالمی یوم خواندگی اور عالمی یوم ِ تعلیم کی تفریق کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے اور عالمی یوم ِ خواندگی کی خبروں پر عالمی یومِ تعلیم کی شہ سرخیاں چسپاں کرنے کا سہو کر گزرتے ہیں۔ عموماً یہ مغالطہ لفظ خواندگی(Literacy) اور تعلیم (Education)کے مابین پایا جانے والا باریک سا معنوی فرق کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ خواندگی سے مراد کسی شخص کی پڑھنے لکھنے کی استعداد کار ہے۔یعنی جو شخص صرف پڑھنا اور لکھنا جانتاہے،وہ خواندہ کہلاتا ہے،جبکہ جو فقط، پڑھنے کی صلاحیت کا حامل ہواُسے نیم خواندہ سمجھا جاتاہے۔ اس کے برعکس تعلیم سے مراد علم وہنر کی وہ تخصیصی مہارت ہے،جس کو بروئے کار لا کر ایک شخص اپنی عقل وشعور، عادات و اطوار،عقائد و نظریات اور فہم و فراست کا کھل کر اظہارکرتاہے۔ لہٰذا، اگر خواندگی علم کی وسیع و عریض اقلیم کی طرف انسان کا بڑھنے والا پہلا قدم ہے، تو تعلیم، اِس اقلیم میں کیئے جانے والے پورے سفر کا نام ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق 8 ستمبر کو عالمی یومِ خواندگی کے طور پر منانے کا مقصد دنیا بھر کے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو لوگوں میں پڑھنے اور لکھنے کی بنیادی صلاحیت پیدا کرنے کے لیئے اقدامات اُٹھانے کی ترغیب دینا ہے۔جبکہ اقوامِ متحدہ کے نزدیک 24 جنوری کو عالمی یومِ تعلیم کے طور پر منانے کا مقصد، دنیا بھر کے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کو لوگوں کا معیارِ تعلیم بلند سے بلند کرنے کے لیئے سیاسی، سماجی اور معاشی وسائل خرچ کرنے کی جانب توجہ مبذول کرواناہے۔

انسانوں میں تعلیم کے ذریعے سرمایہ کاری کریں
واضح رہے کہ کسی بھی قوم،معاشرہ،ملک اور علاقہ میں انسان کی تعلیم و تربیت اور پیشہ ورانہ مہارتوں میں اضافے کی غرض سے کی جانے والی سرمایہ کاری کو جدید اقتصادی نظام کی اصطلاح میں ”انسانی سرمایہ کاری“یا (Human Capital)کہا جاتا ہے۔”انسانی سرمایہ کاری“ کا تصور سب سے پہلے اٹھارویں صدی میں ایڈم سمتھ نے پیش کیا تھا،بعدازاں ماہر معاشیات گیری بیکر نے اپنی تحقیق میں ”انسانی سرمایہ کاری“ غیرمعمولی افادیت کو دلائل و براہین سے ثابت کیا۔ جبکہ 2004 میں ماساچیوئٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سے وابستہ دو، ماہرین ِ معاشیات رابرٹ گبن اور مائیکل والڈ مین نے ”انسانی سرمایہ کاری“ کے عملی تصور کو مزید وسعت دیتے ہوئے اِس میں ہنر مندی اور مہارت کو بھی شامل کردیاتھا۔انہوں نے اپنی تحقیق میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر اسکولوں میں ”انسانی سرمایہ کاری“ کو بروئے کار لا کر طلباء و طالبات کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر بھی سکھائے جائیں تو فارغ التحصیل ہونے والے طلبا وطالبات کو لگی بندھی ملازمت کے علاوہ بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بہترین مواقع حاصل ہوسکیں گے اور وہ اپنی ڈگری کے علاوہ ہنرمندی اور مہارت کی بنیاد پر بھی بڑی کمپنیوں میں قابل عزت نوکریاں تلاش کرسکیں گے“۔

یاد رہے کہ ہر شعبہ زندگی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے غیر معمولی عمل دخل نے پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی کے اُصول و ضوابط کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور دورِ جدید میں ”انسانی سرمایہ کاری“ کے تصور نے پیشہ ورانہ مہارت اورہنرمندی کو بڑھانے کے لیئے نئے امکانات پیدا کیئے ہیں۔ گزشتہ چند برس کے مشاہدات و تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ”انسانی سرمایہ کاری“ سے فرد کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھرتی ہیں اور اِس میں بہتر اور معیاری کام کرنے کی صلاحیت پنپنے لگتی ہے،جس سے کسی بھی معاشرہ کی معاشی قدر و قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوتاہے۔ ”انسانی سرمایہ کاری“ کسی بھی دوسری سرمایہ کاری سے اِس لیے بھی ممتاز اور منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ سماجی و معاشرتی زندگی کے ہر شعبہ میں مسلسل ترقی اور جدت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا، کسی بھی ملک،علاقے یا معاشرہ کی معیشت کا پہیہ چلانے والے ہر سرکاری یا نجی ادارے میں کام کرنے والے کارکنان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔ تاکہ اِن اداروں کے بنیادی ڈھانچہ میں آئے روز متعارف ہونے والی نت نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ افرادی قوت کی کمی نہ ہونے پائے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کی تعلیم و تربیت پرسالانہ لاکھوں ڈالر کا سرمایہ خرچ کررہی ہیں اور عام مشاہدہ بھی یہ ہی ہے کہ جو کمپنیاں ”انسانی سرمایہ کاری“ کی ضرورت اور اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں وہ بہت تیز رفتاری سے معاشی خسارہ کا شکار ہوکر گم نامی کے اندھیروں میں گم ہوتی جارہی ہیں۔

پاکستان میں تعلیم کی حالتِ زار
بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ معیار تعلیم کا ہی ہے۔پروگرام برائے بین الاقوامی طلباء کی تشخیص (PISA) کے جائزے کے مطابق پاکستان میں سرکاری درس گاہوں سے ہی نہیں بلکہ نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات کی تعلیمی قابلیت اور استعداد کار کا معیار بھی دنیا کے دیگر ممالک کے طلباء کے مقابلے میں انتہائی ناقص ہے۔ وطن عزیز میں غیر معیاری تعلیمی نظام رائج ہونے کے بے شمار عوامل ہیں۔جن میں سرفہرست تعلیمی اداروں کا، ناکافی انفراسٹرکچر، تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور بنیادی سہولیات کا موجود نہ ہونا ہے۔ایک محتاط اندازہ کے مطابق پاکستان کے آدھے سے زیادہ سرکاری اسکول تو پینے کے صاف پانی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی ضروریات ِزندگی سے بھی محروم ہیں۔ جبکہ ملک کے چھوٹے، بڑے شہروں میں قائم 70 فیصد سے زائد پرائیویٹ اسکولز جو طلباء کو معیاری تعلیم دینے کا بلند بانگ دعوی کرکے والدین سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں، کھیل کے میدان،کشادہ ہوا دار کلاسز،عملی تجربہ گاہوں اور لائبریریوں سے یکسر محروم ہیں۔

المیہ ملاحظہ ہوکہ ہمارے ملک میں ایک یا دو کمروں پر مشتمل پرائیویٹ اسکولز ہی موجود نہیں ہیں بلکہ دو، تین کمروں کے حامل نجی کالجز بھی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ دراصل پاکستان میں اسکولز،کالجز یا یونیورسٹیاں حکومت کے وضع کردہ کسی قانون، خاص طریقہ کار یا فارمولے کو ملحوظ خاطر رکھ کر نہیں بلکہ چند طبقات کی سیاسی اور معاشی ضروریات کو سامنے رکھ کر قائم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر زیادہ تر سرکاری اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان سیاسی اکابرین اپنے حلقہ کے ووٹروں کو خوش کرنے اور بعدازاں اُن میں سرکاری نوکریاں بانٹنے کے لیئے کرتے ہیں۔دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیاں کاروباری اور مال دار لوگ، خوب پیسا کمانے کے لیئے بناتے ہیں۔سادہ الفاظ میں یوں جان لیجئے کہ سرکاری درس گاہیں ہمارے اربابِ اقتدار کے نزدیک اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کی موثر ترین سیاسی حکمت عملی ہے تو وہیں، پرائیویٹ تعلیمی ادارے بعض افراد کے لیئے نفع بخش انڈسٹری سے زیادہ کچھ وقعت یا حیثیت نہیں رکھتے۔ جب کسی ملک کا تعلیمی نظام سیاست اور پیسے کے قدموں میں سجدہ ریز ہوجائے گا تو پھر وہاں کے تعلیمی اداروں میں لفظ تعلیم کی چیخ و پکار تو ضرور سنائی دے گی،لیکن”معیار“ ڈھونڈنے سے بھی کسی کو نہ مل سکے گا۔

نظام ِ تعلیم،قومی تعلیمی پالیسیوں کی نرغے میں
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار نے اپنی دانست میں قومی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کئی کوششیں کی ہیں اور اِن کی انتظامی کاوشوں کا اندازہ صرف اِس ایک بات سے لگایا جاسکتاہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اَب تک ملک میں تعلیم کی بہتری، ترقی اور فروغ کے لیئے مختلف حکومتی ادوار میں کم وبیش 8قومی تعلیمی پالیسیاں بنائی جاچکی ہیں۔جن میں سے کئی تو بن کھلے ہی مرجھاگئیں یعنی کبھی نافذ ہی نہ ہوسکیں،جبکہ بعض نافذ العمل تو ضرور ہوئیں مگر اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔یاد رہے کہ قابل ذکر قومی تعلیمی پالیسیوں میں اوّلین 1959 میں قومی کمیشن برائے تعلیم کا قیام تھا،جس کے تحت ملک کا پہلا تعلیمی ایکٹ منظورہوا،اور دسویں جماعت تک مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کردیا گیاتھا۔ نیز، 1979 میں دین اسلام سے وفاداری اور جدیدیت کو قومی تعلیمی پالیسی کا بنیادی عنصر قرار دے کر،سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کو مدرسے اور نجی شعبہ کو انگریزی میڈیم اسکول قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ جبکہ 1998 میں پرائمری، سیکنڈری اور یونیورسل تعلیم کو بیک وقت بہتر بنانے کے لئے دس سالہ قومی تعلیمی پلان تیار کیا گیا۔جس میں 2010 تک تمام تعلیمی اہداف حاصل کرنے کے لیئے باقاعدہ ایک تعلیمی روڈ میپ تشکیل دے کر تعلیم کے لیئے مختص بجٹ کو 2.2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کردیا گیاتھا۔

علاوہ ازیں، 2009 میں تشکیل دی جانے والی قومی تعلیمی پالیسی میں گیارویں اور بارویں جماعت کو کالج کے نظام سے نکل کر اسکول کے نظام کا حصہ بنادیا گیااور تعلیمی اداروں میں تدریس اور انتظامی نظم و نسق کے لیئے الگ الگ کیڈر بنادیئے گئے۔جبکہ سرکاری اسکولوں میں ایک، دو مضامین چھوڑ کر تمام نصابی کُتب انگریزی زبان میں کردی گئی۔ تاکہ سرکاری اسکول میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی تعلیمی استعداد نجی اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبا کے برابر ہوسکے۔ مگر شومئی قسمت کہ یہ تجربہ بھی زیادہ ثمر آور ثابت نہ ہوا،اور سردست 75 برس کی مختصر ملّی زندگی میں نت نئے اور متنوع اہداف کو سامنے رکھ کر یکے بعد دیگرے قومی تعلیمی پالیسیاں تشکیل دینے والا ملک اقوام متحدہ کے ہیومن ڈویلپمنٹ کے تیار کردہ تعلیمی انڈیکس میں نچلے ترین درجہ 165 ویں نمبر پر براجمان ہے۔یعنی بھانت بھانت کی قومی تعلیمی پالیسیاں بناکر بھی ہمارا تعلیمی نظام بہتر نہ ہوسکا، شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار نے جتنی عرق ریزی اور محنت قومی پالیسیوں کے دل کش عنوانات اور منفرد نکات کی تراش خراش کرنے میں لگائی،اگر ہماے پالیسی ساز حلقے اِس سے نصف محنت بھی اپنی بنائی گئی کسی ایک قومی تعلیمی پالیسی کو من و عن نافذ کرنے میں لگاتے تو عین ممکن تھا کہ تعلیمی نظام کا معیار درست ہوجاتا۔

پاکستان میں معیاری نظام ِ تعلیم ممکن ہے
جی ہاں! کسی بھی تعلیمی نظام میں خواہ کتنے ہی سنگین نقائص اور مسائل کیوں نہ ہوں،اگرخلوص نیت سے کام کیا جائے تو اُس کی اصلاح کرنا کوئی ایسا ناممکن کام بھی نہیں ہے۔ بس،شرط یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے، حکومت،اساتذہ،والدین اورسب سے بڑھ کر نجی تعلیمی اداروں کے مالکان گریڈز، نمبرز،پوزیشن اور ڈگری کے چکر سے نکل کر تعلیم کے اصل مفہوم پڑھنا،سکھانا اور تربیت کو ترجیح اوّل سمجھتے ہوئے تعلیم میں وقت اور پیسہ کی سرمایہ کاری کرنا شروع کردیں تو چند برسوں میں ہی ہمارے تعلیمی نظام کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ لہٰذا، اَب ہمارے پاس تعلیمی نظام کو بین الاقومی معیار کے مطابق بنانے کا واحد راستہ، یہ بچا ہے کہ ہم دستیاب محدود فنڈز اورقیمتی وسائل کی تعلیم،سائنس اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں بھر پورسرمایہ کاری کریں اور اپنی قوم کو کسی سیاسی انقلاب، نئے یا پرانے پاکستان جیسے سراب کے پیچھے لگانے کے بجائے تعلیمی انقلاب کے لیئے تیار کریں۔کیونکہ صرف تعلیمی میدان میں کارہائے نمایا ں انجام دے کر ہی ملک کو درپیش تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ”انسانی سرمایہ کاری“ کا سبق ہم بانی پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کی اُس وصیت سے بھی بخوبی سیکھ سکتے ہیں،جو انہوں نے 30 مئی 1939 کو تحریر فرمائی تھی۔جس کے مطابق قائد نے 25 ہزار روپے انجمن اسلام سکول ممبئی کیلئے مختص کیے، 50 ہزار روپے ممبئی یونیورسٹی کیلئے اور 25 ہزار روپے عریبک کالج دہلی کیلئے مختص فرمائے تھے۔جبکہ اپنی بقایا تمام دولت کا ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی، دوسرا حصہ اسلامیہ کالج پشاور اور تیسرا حصہ سندھ مدرسہ کراچی کیلئے مختص فرمایاتھا۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی مذکورہ وصیت کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن ایڈورڈ لائن نے تبصرہ لکھا تھا کہ ”جناح تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے، اپنی پوری زندگی انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ انہوں نے اپنی ساری دولت تعلیمی اداروں کے نام کر دی، یہ ان کا ایسا پیغام تھا جسے سب ہی ہمیشہ یاد رکھیں گے“۔صد افسوس کہ بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کا پیغام ہم بھول گئے،کیونکہ اگر یادرکھتے توہمارا تعلیمی نظام یقینا، دنیا کے ایک بہترین نظامِ تعلیم میں شمار ہوتا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 22 جنوری 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں