پاکستان اور افغانستان۔ ہنوز، تعمیراتی کام جاری ہے

پاکستان صرف افغانستان کا پڑوسی ملک ہی نہیں ہے بلکہ افغان عوام کا دنیا بھر میں ایک انتہائی قابل اعتماد”سفارتی وکیل“بھی ہے۔ وکیل بھی ایسا، جس نے گزشتہ 75 برسوں میں ہمیشہ افغانستا ن کے مفادات کو اپنے سفارتی و سیاسی فوائد سے بھی زیادہ مقدم اور اہم سمجھاہے۔ یہاں بعض افراد کو یہ مغالطہ لاحق ہوسکتاکہ چونکہ پاکستان،آج کل دنیا بھر میں طالبان حکومت کی پورے شد و مد کے ساتھ ”سفارتی وکالت“ کرنے میں مصروف عمل ہے تو شاید ہم اس سفارتی جدوجہد کی نسبت سے پاکستان کو افغان عوام کا ”سفارتی وکیل“قرار دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ طالبان کی داستان تو فقط ابھی یہ ہی کوئی دو، تین دہائی قبل شروع ہوئی ہے، جبکہ پاکستان 14،اگست 1947 سے افغان عوام اور پاکستانی عوام کے نفع و نقصان کو ایک برابر سمجھتا آرہا ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت بھارت نواز افغان قیادت نے پاکستان کو بطور ایک آزاد ملک کے تسلیم کرنے سے بھی یکسر انکار کردیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی قیادت نے افغان قیادت کے اس ”حرفِ انکار“ کو پرکاہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بخوبی جانتے تھے کہ افغانستان کی سیاسی قیادت کی جیبیں بھلے ہی گاندھی اور نہروکی تجوریوں سے ملتی ہیں لیکن افغان عوام کے دل اور دماغ پاکستانی عوام کے ساتھ یک جان دو قالب کی مانند باہم پیوست ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح او ر پاکستانی عوام کا افغان عوام کے متعلق کیا گیا یہ گمان بالکل درست ثابت ہوا اور جب 1948 میں بھارت نے وادی کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لیئے خاموشی کے ساتھ اپنی فوجوں کو اُتارا تو، پاکستانی قیادت کے ایک اشارے پر افغان عوام، اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہمراہ بے سروسامانی کے عالم میں بھارتی چنگل سے کشمیر آزاد کروانے کے لیئے اپنے اپنے گھروں سے پروانوں کی مانند نکل پڑے۔بظاہر اُس وقت کی بھارت نواز افغان قیادت کی ساری سفارتی ہمدردیاں اور سیاسی معاونت بھارتی افواج کے ساتھ تھیں لیکن افغان عوام کی تمام تر افرادی قوت عملی طور پر اپنے کشمیری بھائیوں کے لیئے حاضر رہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں شامل آج کے آزاد کشمیر کا سارا، رقبہ پاکستانی اور افغان عوام نے مل کر بھارتی افواج اور ڈوگرہ سپاہیوں سے نبرد آزما ہوکر ہی حاصل کیا تھا۔ جبکہ روس اور افغانستان کے درمیان ہونے والی جنگ وہ دوسرا بڑا نازک لمحہ تھا،جب افغان مجاہدین نے روسی افواج کو اپنی سرزمین پر شکست دے کر پاکستانی سرحدوں کی حفاظت فرمائی تھی۔

دوسری جانب پاکستان نے بھی ہمیشہ افغان عوام کی اپنی بساط سے کہیں آگے بڑھ کر مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت لاکھوں افغان مہاجرین کا پاکستان کی سرزمین پر آبادہوناہے۔ دراصل پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذہب، تہذیب اور ثقافت کے علاوہ بھی ایک ہزار ایک ایسی مشترک عادات و اطوار پائی جاتی ہیں۔ جو انہیں باہم مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہیں اور ایک دوسرے سے جد ا نہیں ہونے دیتی۔ یاد رہے کہ ہمارے دیرینہ دشمن بھارت سمیت کئی بین الاقوامی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں افغان عوام اور پاکستانی عوام کو ایک دوسرے کے خلاف متحارب دیکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن خوش قسمتی کی با ت یہ ہے کہ 75 برس گزرنے کے باوجود آج تک افغانستان اور پاکستان کے مضبوط برادارانہ تعلقات میں، نفرت اور دشمنی کی ایک دراڑ پید ا نہیں کی جاسکی۔ دراصل ہمارے دشمنوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ افغانستان اور پاکستان ایک سکے کے دورُخ، دریا کے دو کنارے، ایک درخت کی دو شاخیں اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کی دوبنیادی کیفیتوں جلالی و جمالی کا مظہر ہیں۔ یعنی افغان قوم ذرا سخت مزاج ہے تو ہم تھوڑے نرم گرم۔اس لیئے دنیا کے اُفق پر سب کچھ ہونا عین ممکن ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان مستقل خلیج کسی صورت قائم نہیں کی جاسکتی۔

جہاں تک افغانستان اور طالبان حکومت کے معاملے میں مختلف عالمی فورمز پر کی جانے والی پاکستان کی سفارتی وکالت کا تعلق ہے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پرطالبان کے حق میں اختیار کیا جانے والا پاکستانی موقف اب تیزی سے پذیرائی حاصل کررہا ہے اور طالبان حکومت سے لین دین کا تازہ امریکی وزارت خزانہ کا فیصلہ اسی حقیقت کا مظہر ہے۔واضح رہے کہ امریکی وزارت خزانہ نے دولائسنسوں کے ذریعے سے امریکی حکومت، این جی اوز اور اقوام متحدہ سمیت مخصوص عالمی تنظیموں کو طالبان یا حقانی نیٹ ورک نیز طالبان حکومت کیساتھ خوراک، ادویات اور طبی آلات کی برآمد سے متعلق محدود لین دین کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی سفارتی کوششوں سے حاصل ہونے والی یہ ایک بہت بڑی مثبت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے۔ نیز وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے آن لائن خطاب میں عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ ”دنیا کو افغان عوام کی بہتری کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مستحکم کرنا چاہیے اور افغان حکومت کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد رکھنے کا بھی کوئی جواز نہیں لہٰذا انہیں بھی فوری بحال کیا جانا چاہیے“۔

شنید یہ ہی ہے کہ افغانستان کی تعمیر و ترقی کے حوالہ سے جو مقدمہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کیا،اُسے امریکا سمیت دنیا بھی کی قیادت نے بھرپور توجہ سے سنا ہے اور آنے والے ایام میں افغان عوام کو عالمی برادری کی جانب سے بڑے ریلیف ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اہم خبر یہ بھی ہے کہ امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی آر شرمین 7 اکتوبر کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ دورہ پاکستان میں سینئر حکام سے ملاقاتوں میں افغانستان سے متعلق اہم اُمور پر تبادلہ خیال کریں گی۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس ملاقات کے فوراً بعد پاکستان سمیت مختلف ممالک کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلہ کا آغاز بھی ہوسکتاہے۔ کیونکہ فی الحال پاکستان جس ایک نکتہ پر دنیا بھر میں لابنگ اور سفارت کاری میں مصروف ہے،وہ جلد ازجلد طالبان حکومت کو زیادہ سے زیادہ سے ممالک سے تسلیم کروانے کا مشکل مشن ہے۔ اگر اگلے چند ہفتوں میں پاکستان اپنے اس مقصد کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتاتو پھر افغانستان ایک بڑے معاشی اور سیاسی بحران سے بچ جائے گا۔

دوسری جانب افغان عوام کی خوراک اور ادویات کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت پر نہ صرف فوری طور پر حکومت پاکستان نے افغانستان میں ضروریات زندگی کی اشیاء کی فراہمی کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر ازسرنو استوار کرکے مزید تیز رفتار اور موثر بنا دیا ہے بلکہ افغانستان سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں پر سیلز ٹیکس بھی مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔تاکہ افغان تاجروں کو معاشی مشکلات سے نجات مل سکے۔ جس کے بعد گزشتہ ہفتے سے افغانستان سے بڑی تعداد میں پھلوں اور سبزیوں سے بھری ہوئی سیکڑوں مال بردار گاڑیاں طورخم بارڈر کے راستے پاکستان پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔نیز محکمہ شہری ہوابازی نے افغان ایئرلائن کواسلام آبادایئرپورٹ سے فلائٹ آپریشن کی باضابطہ اجازت بھی دے دی ہے اور اب ہفتے میں اس کی تین پروازیں اسلام آباد سے افغانستان کیلئے روانہ ہوا کریں گی۔ افغانستان کے حوالے سے مزید اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستانی حکام کے مشورے کی روشنی میں افغان وزارت داخلہ نے کروڑوں ڈالر مالیت کے اس فوجی ساز و سامان اور گاڑیوں کے اسکریپ کی منتقلی اور اسمگلنگ پر پابندی عائد کردی ہے جس پر اسکریپ کے تاجروں کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔اس طرح اس سامان کا سرکاری بندوبست میں آجانا اب افغانستان میں کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھانے اور قومی خزانے کی صورت حال کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنے گا۔

علاوہ ازیں طالبان کو جدید عصری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیئے پاکستان کے وفاق المدارس کے زیر اہتمام افغانستان میں مدارس کا قیام عمل میں لانے کا مستحسن فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے اور اس حوالے سے طالبان اور وفاق المدارس کی قیادت کے درمیان بات چیت میں اس منصوبہ کے تما م نکات پر اتفاق بھی طے پاگیا ہے۔جبکہ افغانستان میں ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر طور پر چلانے کے لیے بھی پاکستان کی جانب سے سنجیدہ کوششوں کے آغاز کی سخت ضرور ت ہے۔واضح رہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان میں بھارت سے اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں متنازعہ فی تعلیم دینے کے لیئے کشاں کشاں آتے تھے اور افغان نوجوانوں اور بچوں کے اذہان میں پاکستان کے خلاف زہر گھولتے تھے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ ماضی میں افغان عوام کو قطرہ قطرہ پلائے گئے پاکستان دشمنی کے زہر کا تریاق تلاش کیا جائے۔اس حوالے سب سے دور،رس اور سریع التاثیر حکمت عملی یہ ہی ہوسکتی ہے کہ طالبان حکومت شروع ہونے والے نئے دور میں افغانستان کی یونیورسٹیوں اور سکولوں میں پاکستان کے قابل اساتذہ کو درس و تدریس کی غرض سے بھیجاجائے۔ اگر فی الفور یہ ممکن نہ ہوسکے تو ان افغانوں کو وہاں تعینات کرایا جائے جو ہماری یونیورسٹیو ں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد عرصہ30 برس سے پاکستان میں مقیم ہے اور ان میں سے بہت سے یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے دروازے افغانستان کے طالب علموں پر کھولنے کی ضرورت بھی ہے تاکہ بھارت نے جو مذموم پروپیگنڈہ افعانستان میں پاکستان کے خلاف کیا ہے اس کا توڑ کیا جا سکے۔

اہم بات یہ ہے کہ مغربی دنیا افغانستان کا اقتدار سنبھالنے والی طالبان حکومت کی کتنی مدد و معاونت کے لیئے کمر بستہ ہوتی یہ یقینا پاکستان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کی دل جوئی کے لیئے جو کچھ کرسکتاہے،وہ اُسے بھرپور انداز میں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر پاکستان کے سماجی، فلاحی اور نجی اداروں کو اپنے طور پر بھی افغانستان کی تعمیر و ترقی میں قابل قدر حصہ ڈالنا چاہئے۔ کیونکہ بہت سارے ایسے اُمور اور شعبہ جات ایسے ہیں جو حکومت پاکستان کی دسترس سے باہرہیں، لیکن وہاں پاکستان کے سیاسی،سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد زیادہ بہتر انداز میں افغان عوام کی مدد و اعانت کرسکتے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 04 اکتوبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں