Light-off-meter-is-on

بجلی بند ، میٹر چالو۔ ۔ ۔

اگر سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں فرینک شمیڈٹ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین نہ بنتاتو ہمیں خبر ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ پاکستان میں اصل ”بجلی چور“ کون ہے؟۔ جی ہاں! فرینک شمیڈٹ کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھنے والا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ”بجلی چور“عناصر کی بالکل درست درست نشان دہی فرمائی تھی۔”یاد رہے کہ”بجلی چوری“ کے سربستہ راز سے پردہ اُٹھانے والا فرینک شمیڈٹ ایک جرمن نژاد الیکٹریکل انجینئر تھا جنہیں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں بجلی چوری کی روک تھام کی بنیادی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی تاکہ معلوم ہوسکے کہ کراچی میں کون کون سے عناصر بجلی چوری میں براہ راست ملوث ہیں۔ فرینک شمیڈٹ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ چھ ماہ کراچی اور اُس کے مضافات میں سروے کرنے کے بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ ضروری احکامات اور کارروائی کے لیئے وفاقی حکومت کو بھجوادی۔ فرینک شمیڈٹ کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ ”کراچی میں پچاس فیصد بجلی حکومتی ادارے خود ہی چور ی کرتے ہیں،جبکہ چالیس فیصد بجلی صنعت کار چوری کر رہے ہیں اور دس فیصد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فرینک شمیڈٹ کی رپورٹ پر بھرپور غورخوض کرنے کے بعد حکومت نے سب سے پہلے دس فیصد چوری کرنے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت تادیبی کارروائی کرنے کے لیے ہدایات جاری کردی۔ جس پر عمل درآمد کرنے سے فرینک شمیڈٹ نے صاف انکار کردیا کیونکہ فرینک شمیڈٹ کا موقف تھا کہ بجلی چوری کے انسداد کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی ابتدا غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کرنے کے بجائے، اُن بجلی چوروں کے خلاف ایکشن لینے سے کیا جائے جو شہر میں نوے فیصد بجلی چور ی میں ملوث ہیں۔لیکن سیاسی مصلحتوں کی شکار پرویزمشرف حکومت بضد رہی کہ ابتداء دس فیصد بجلی چوروں کے خلاف کارروائی سے ہی کی جائے گی۔یہ حکومتی حکم نامہ فرینک شمیڈیٹ کو قطعی قبول نہ تھا لہذا انہوں نے حکومتی احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے استعفا دے دیا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن چھوڑ کر وہ واپس اپنے ملک جرمنی سدھار گئے۔ فرینک سمیڈٹ نے اپنے استعفے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ”پاکستان میں بجلی چوری کا ظلم حکومتی اور صنعتی ادارے باہم مل جل کر کررہے ہیں لیکن اِس جرم کی سزا،اربابِ اقتدارصرف اور صرف غریب عوام کو دینا چاہتے ہیں“۔

جب گزشتہ دنوں بارش کے بعد شہرکراچی ایک بار پھر سے پانی اور اندھیروں میں ڈوب گیا تو، وفاقی وزیر پانی و بجلی نے نیوز چینلز پر جلوہ افروز ہوکر پاکستانی قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ”پاکستان میں بجلی طلب سے کئی گنا زیادہ موجودہے لیکن ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ یا لوڈ منیجمنٹ فقط اِس لیئے کرنا پڑرہی ہے کہ ملک میں بجلی چوری بہت زیادہ ہے“۔ لیکن موصوف وزیر صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان میں بجلی چوری کرتا کون ہے؟۔یہ ہی وہ لمحہ تھا جب ہمیں فرینک شمیڈٹ کی برسوں پرانی رپورٹ رہ رہ کر یاد آئی کیونکہ کئی برس پہلے وہ اپنی رپورٹ میں بہت تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان میں اصل ”بجلی چور“ کون کون ہیں؟۔ یقینا یہ رپورٹ آج بھی وزارت پانی و بجلی کے دفتر کی کسی بوسیدہ سی الماری میں ضرور موجود ہوگی لیکن اِس رپورٹ پر عمل درآمد کرنا اِس لیئے ضروری نہیں سمجھا جاتاکہ اصل ”بجلی چور“ توہمیشہ سے خود حکومتی صفوں میں ہی موجود ہوتے ہیں اور کچھ رہی سہی کسر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پوری کردیتے ہیں۔ جنہیں اُن کے ملازمتی رینک کے مطابق یعنی حصہ بقدرے جثہ مفت بجلی فراہم کرنے کی صورت میں ظالمانہ مراعات دے کر پوری کردی جاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مفت بجلی کی سہولت ملازمین کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بعض ملازمین، سرکار کی طرف سے ملنے والی مفت بجلی کو باقاعدہ فروخت بھی کرتے ہیں۔ عوام سوال کرتی ہے کہ آخر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کو مفت بجلی کیوں فراہم کی جاتی ہے؟۔ کیا انہیں اپنے کام کی بھاری تنخواہیں نہیں ملتی؟۔یا یہ ملازمین اتنے زیادہ غریب ہوتے ہیں کہ بجلی کا بل دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے؟۔کیا مفت بجلی بانٹا بھی چوری کی ایک قسم نہیں ہے؟ یعنی بجلی چوری کریں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے طاقت ور افراد اور ان کے ساتھ ہی لاکھوں بجلی کے مفت یونٹس بے دریغ استعمال کرنے والے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین، لیکن ”بجلی چوری“ کا تما م تر الزام دھر دیاجائے فقط بے چاری غریب عوام پر۔

اس بار مون سون بارشوں کے بعد سندھ بھر میں بجلی کا جو اذیت ناک بحران پیدا ہوا ہے،اُس کی ماضی سے بھی کوئی مثال پیش نہیں جاسکتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سندھ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں بجلی کے ٹرانسفر بارش کی چند بوندوں کو نہ سہہ سکے اور خراب ہوگئے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان ٹرانسفامروں کی تبدیلی اور درستگی کے لیئے عوام سے رشوت کی مد میں ہزاروں روپے بھی ببانگ دہل طلب کیئے جارہے ہیں۔ جن اہل محلہ نے ِ بقائے باہمی کے تحت مل جل کر پیسوں کی فراہمی کا بندوبست کردیا،اُن کے ٹرانسفر تو جلد یا بدیر تبدیل یا مرمت کرکے لگا دیئے گئے جبکہ جنہوں نے رشوت دینے سے انکار کیا وہ محلے اور کالونیاں 12، 12 دن گزرنے کے باوجود بھی اَب تک بجلی کی فراہمی سے یکسر محروم ہیں اور یقینا اُس وقت تک بجلی کی فراہمی سے محروم ہی رہیں گے جب تک کہ وہ بھی طلب کردہ رشوت کا بندوبست نہیں کر دیتے۔کیونکہ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی بھلے ہی بندرہے لیکن رشوت کا میٹر ہمیشہ چالو رہتا ہے اور جب تک رشوت کا یہ میٹر چالو ہے غریب عوام کی قسمت میں لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ہی اندھیرے لکھے ہیں۔بقول شاعر خالد عرفان
لوڈشیڈنگ کی شکایت پر، دولتی مارے
لوگ بجلی کے منسٹر کو گدھا کہتے ہیں

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 اگست 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں