کوالالمپور کانفرنس

ملائیشیا کے وزیراعظم مہا تیر محمد کی زیرِ میزبانی کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس کا موضوع”قومی سلامتی کے حصول میں ترقی کا کردار“ تھا۔ ویسے تو اجتماع کا عنوان ہی یہ بتانے کے لیئے کافی و شافی ہے کہ مسلم اُمہ کو کئی دہائیوں سے کسی ایسی ہی ایک بین الاقوامی نشست کی کتنی شدت سے ضرورت درپیش تھی لیکن اِس کانفرنس میں چھ اسلامی ممالک کے سربراہان و نمائندہ وفود کے علاوہ دیگر52 ممالک کے 450 کے قریب سیاسی رہنما،سکالرز،علماء اور مفکرین کی خصوصی شرکت واضح کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے متوقع نئے عالمی اتحاد کی تیاری کے لیئے اِس کانفرنس کا انعقاد یقینا مستقبل میں پہلا بڑا قدم قرار پائے گا۔ بظاہر اِس کانفرنس کے انعقاد سے طویل عرصہ کے بعد مسلم اُمہ کے رہنماؤں کو ایک جگہ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے درست حل کی سمت مثبت پیش قدمی کرنے کا کوئی نہ کوئی سرا تو ضرور ملا ہی ہوگا۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہا ہے کہ کوالالمپور میں منعقدہ اِس عالمی اجتماع نے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو شدید ترین عدم تحفظ اور تشویش میں بھی مبتلاء کردیا ہے اور اِن دونوں ممالک کی قیادت کو ایسا محسوس ہورہا ہے کوالالمپور کانفرنس بہت جلد اسلامی سربراہی کانفرنس یعنی او آئی سی کا متبادل بن جائے گی۔جس کے باعث اسلامی ممالک کی قیادت و سیادت کا تاج عرب ممالک کے ہاتھوں سے پھسل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چند دوسرے برادر اسلامی ممالک کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔

عرب ممالک کے اِسی اندیشہ اور وہم نے اُنہیں مجبور کیا کہ وہ بہر صورت کوالالمپور کانفرنس کا کامیاب انعقاد ممکن نہ ہونے دیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیئے عرب ممالک کی طرف سے پسِ پردہ رہ کر سفارتی سطح پر بے شمار ایسی کوشش کی گئیں،جن سے کانفرنس کا انعقاد خطرہ میں پڑسکتا تھا لیکن جب اُنہیں احساس ہوا کہ اُن کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں کوالالمپور کانفرنس ملتوی نہیں ہو پارہی تو پھر اُ ن عرب ممالک نے عین آخری وقت میں سفارت کاری کے پردے سے باہر نکل کر کھلم کھلا اِس اجتماع پر نہ صرف اپنے شدید ترین تحفظات کا اظہار کردیا بلکہ کولالمپور کانفرنس کی اہمیت کم کرنے کے لیئے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی اصرار کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اِس کانفرنس میں شرکت کرنے سے معذرت کرلیں۔ یقینا وزیراعظم پاکستان عمران خان عرب ممالک کے ساتھ اپنے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اِس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ اُن کے مطالبہ کو رد کرسکتے۔ پس وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی۔ یقینا عمران خان کی عدم شرکت کی وجہ سے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو سخت مایوسی توضرور ہوئی ہوگی۔لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی عدم شرکت کی سفارتی مجبوریوں کے متعلق مہاتیر محمد کو خود تفصیلی فون کر کے اعتماد میں لیا جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے عالمی پناہ گزین کانفرنس کی سائیڈ لائین پر ملاقات کر کے اپنی سفارتی مجبوریوں سے آگاہ کیا۔ یوں دونوں رہنماؤں کی جانب سے کولالمپور کانفرنس میں عمران خان کے عدم شرکت کے ”جائز عذر“ کو پورے صدقِ دل کے ساتھ قبول کرلیا گیا۔



مگر اِ س کے باوجود بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیئے کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ خاص طور پر اُن حالات میں جبکہ اِس کانفرنس کے انعقاد میں عمران خان نے ذاتی دلچسپی بھی لی ہو۔ شاید اِسی لیئے پاکستانی حکومت نے آخری وقت تک بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح عرب ممالک کو یہ بات باور کروادی جائے کہ کوالالمپور کانفرنس، مستقبل میں او آئی سی کے دائرہ اختیار کے لیئے چیلنج نہیں بنے گی۔ مگر جب اِس حوالے سے پاکستانی حکومت عرب ممالک کی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو پھر وزیراعظم پاکستان نے یہ ہی مستحسن جانا کہ کوالامپور کانفرنس میں شرکت نہ کی جائے تاکہ عرب ممالک کی قیادت کے سینوں میں پنپنے والا یہ اندیشہ غلط ثابت ہو سکے کہ پاکستان اور چند اسلامی ممالک مل کر او آئی سی کے متبادل ایک اسلامی تنظیم بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ ہر اسلامی براد ر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو جس قدر ممکن ہو سکے متواز ن رکھا جائے اور کوئی ایسا قدم نہ اُٹھایا جائے جس سے ہلکاسا بھی یہ تاثر پیدا ہونے کا اِمکان ہو کہ پاکستان اپنے کسی برادر اسلامی ملک سے قطع تعلق کی بنیاد پر کسی دوسرے اسلامی ملک یا ممالک سے کسی بھی قسم کا سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ اِس تناظر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ایک درست اقدام تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی عدم شرکت کے باعث بھی کو الالمپور کانفرنس اپنے تمام تر سیاسی و سفارتی مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب رہی۔ خاص طور پر کوالالمپور کانفرنس کے ذریعے پہلی بار اُن مسائل پر کھل کر بات کی گئی جنہیں مسلم اُمہ کی نام نہاد سیاسی قیادت نے ایک طویل عرصہ سے زیرِ بحث لانا ترک کردیا تھا۔جبکہ کوالالمپور کانفرنس کے کامیاب انعقاد نے عرب ممالک کی قیادت کو یہ احساس بھی شدت کے ساتھ دلایا کہ جب وہ مسلم اُمہ کی قیادت کا کردار درست خطوط پر ادا نہیں کریں گے تو پھر دیگر مسلم ممالک بھی اپنے تنازعات اور مسائل کے پائیدار حل کے لیئے کوئی دوسری راہ نکالنے کی عملی جدوجہد کرنے کی سمت بھی جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ کوالالمپور کانفرنس کی کامیابی نے مسلم مخالف قوتوں کو بھی یہ پیغام بہت اچھی طرح سے پہنچایا ہے کہ اگر وہ مسلم اُمہ کو بحیثیت مجموعی عالمی تنہائی کا شکار بنانے کی اپنی مذموم کوشش جاری رکھیں گے تو پھر اِس کے نتیجہ میں مسلم ممالک بھی اپنی بقا اور تحفظ کے لیئے ایک وسیع البنیاد عالمی مسلم اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں۔

حوالہ: یہ خصوصی مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 26 دسمبر 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں