کراچی کے نالے۔۔۔

کراچی میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد نکاسی آب کے مسائل حل ہو نہ ہو بہرحال نالوں کی صفائی کی مہم پورے زور و شور کے ساتھ ضرور شروع کردی جاتی ہے۔یہ انتظامی طرزِ عمل گزشتہ چالیس برسوں سے کراچی پر راج کرنے والی ہر سیاسی جماعت کا محبوب اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔کہا جاتاہے کہ نالوں کی صفائی مہم کے ذریعے کرپشن کرنے کا جو ”صاف ستھرا“ موقع سیاسی جماعتوں کو میسر آجاتا ہے۔اُس کا انتظار کراچی پر راج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے سارا سال بڑی شدت اور بے چینی کے ساتھ کیا جاتاہے اور پھر جیسے ہی مون سون کی بارشیں کراچی میں کھل کر برستی ہیں،تو اُس کے فوراً بعد ہی نالوں کی صفائی کی مہم کے نام پر چند طاقت ور افراد کی تجوریوں کو منہ تک لبالب بھرنے کے لیئے نالوں کی صفائی کی مہم کے ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو عطا کردیئے جاتے ہیں۔ یوں کراچی کی بارشیں گزشتہ چالیس برسوں سے چند طاقت سیاسی افراد کے لیئے تواتر کے ساتھ ”باعثِ رحمت“ بنتی آ رہی ہیں۔لیکن رواں برس اِس”سیاسی منصوبہ“میں ذرا سی تبدیلی یا یہ کہہ لیجئے کہ کھنڈٹ ڈال دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے نالوں کی صفائی کی تمام تر ذمہ داری نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو تفویض کردی ہے۔ وفاقی حکومت کے اِس اقدام کو گزشتہ چالیس سالہ روایت سے ہٹ کر یقینی بنانے میں تحریک انصاف کراچی کے چند رہنماؤں، خاص طور پر تحریک انصاف کراچی کے اہم ترین رکن اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے استعفا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عامر لیاقت حسین نے اپنا استعفا واپس لینے کے لیئے یہ بنیادی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیئے”سندھ حکومت“ کو بیچ میں سے ہٹا کر بھی کچھ انتظامی بندوبست کیا جائے۔

ویسے بھی ملک کے اقتصادی مرکز کہلائے جانے والے کراچی کے متعدد علاقے مون سون کے پہلے سیزن ہونے والی بارش کے نتیجے میں جس طرح غرقِ آب ہوئے، نکاسیِ آب کے نظام کو فعال رکھنے میں شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں اور پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے متعلقہ محکموں کی ناکامی اس سے پوری طرح واضح ہو گئی ہے اور بالآخر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار ہی نہ رہا کہ وہ کراچی کو مستقبل میں برسنے والی مون سون کی بارشوں میں غرقِ آب ہونے سے بچانے کے لیئے انتظامی مداخلت کرتے ہوئے پاک فوج کو شہر کراچی کو بدانتظامی کے مشکل بحران سے نکالنے کے لیئے براہ راست ذمہ داریاں تفویض کردیں۔وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی خصوصی حکومتی احکامات پر ہی لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کی سربراہی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے شہر کے برساتی نالوں کی صفائی کابیڑا اٹھایا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں جو مزید بارشیں شہر کراچی متوقع ہو سکتی ہیں،کم از کم وہ تو شہریوں کیلئے رحمت کے بجائے جاں گسل عذاب کا باعث ثابت نہ ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر کراچی میں نالوں کی صفائی مہم کے لیئے پاک فوج کو بلائے جانے کے بعد عام شہریوں کو پہلی بار اُمید ہو چلی ہے کہ اب کی بار اُن کے شہر میں نالوں کی صفائی کا خاطر خواہ کا انتظام ضرور ہوجائے گا۔ بظاہر جمہوری دورِ حکومت میں فوج کو فقط نالوں کی صفائی کے لیے طلب کرنا عجیب سا کام لگتا ہے لیکن کراچی کے سول و بلدیاتی ادارے سیاسی جماعتوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی سیاسی اقربہ پروری کے باعث جس زوال اور انحطاط کا شکار ہیں۔اُسے دیکھتے ہوئے پاک فوج کے علاوہ کسی انتظامی ادارے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتاکہ وہ کراچی میں نالوں کی صفائی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتاہے۔



یادر ہے کہ بارش کوئی اچانک ٹوٹ پڑنے والی آسمانی آفت نہیں جس کے منفی اثرات سے نمٹنے کا پیشگی بندوبست دشوار ہو اور نہ ہی بارش کوئی ایسی وباہے جو کئی سالوں کے طویل وقفوں کے آسمان سے نازل ہوتی ہے کہ نکاسی آب کا شہر میں بندوبست ہی نہ کیا جاسکے۔ مون سون کی بارش تو ہر سال برستی ہے لیکن افسوس شہر کراچی پر حقِ حکمرانی رکھنے والی سیاسی جماعتیں آسمان سے برسنے والی بارش سے بھی ”اُوپر کی کمائی“ بڑھانا چاہتی ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اگر شہر کراچی کے متعلقہ ادارے اپنا کام بروقت انجام دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ شہر سیلابی کیفیت کا کبھی نشانہ بنتا اور قومی سلامتی کی حفاظت پرمامور فوج کو شہر کراچی کے نالوں کی صفائی کیلئے خاص طور پر بلانا پڑتا۔ گزشتہ روز لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے میڈیا سے گفتگو میں اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی ہے کہ پچیس سال پہلے کراچی کے نالوں کی چوڑائی تین سو سے چار سو میٹر تھی جو آج کئی کئی جگہوں پر بمشکل تین چار میٹر رہ گئی ہے نیز نالوں کے اطراف تجاوزات کی بھی بھرمار ہے جبکہ یومیہ اکٹھا ہونے والے سالڈ ویسٹ میں سے صرف تین چار ہزار ٹن سالڈ ویسٹ اٹھایا جاتا ہے اور باقی ندی نالوں میں جا کے رکاوٹ بن جاتا ہے حالانکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہم بھی اسے آمدنی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے بجاطور پر صراحت کی ہے کہ نالوں کی صفائی کا یہ کام جو فوج کررہی ہے مسئلے کا مستقل حل نہیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اتفاق رائے سے جدید سیوریج سسٹم کے بندوبست اور تجاوزات کے خاتمے کا لائحہ عمل طے کریں۔ بلاشبہ اس ضرورت کی جلد ازجلد تکمیل شہر کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے ناگزیر ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سندھ حکومت برسہا برس سے نالوں کی صفائی کروانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہو اُس سے یہ توقع کرنا کہ وہ شہر کراچی کو ایک جدید سیوریج لائن کا تحفہ دے سکتی ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں است۔ یعنی یہ سوچنا بھی خواب ہے، مشکل ہے اور پاگل پن ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 06 اگست 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں