کراچی کی بارش اور اٹھارویں ترمیم کی چھتری

دنیا میں کسی بھی بڑے شہر میں مون سون کی بارشیں ہوں،وہاں کے رہائشی ہمیشہ حظ ہی اُٹھاتے ہیں لیکن اہلیانِ کراچی کتنے بدقسمت ہیں کہ جیسے ہی کراچی میں بارش کا پہلا قطرہ گرتا ہے،انہیں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اَب اپنے دفتر سے گھر کیسے پہنچیں گے؟ جبکہ جو لوگ گھروں میں مقید ہوتے ہیں سوچتے ہیں کہ اپنے گھر سے بارش کا پانی کیسے باہر نکالیں گے؟اور بازار اور شاہراؤں کے عین بیچوں بیچ کھڑے رہ جانے والے افراد بارش کی پہلی پھوار سے لطف اندوز ہونے کے بجائے بارش کے پانی میں بہہ جانے سے بچنے کے لیئے تدابیریں کرنا شروع کردیتے ہیں۔لیکن تما م تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود بھی ہر مون سون میں دو درجن سے زائد معصوم افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں،جن کی موت کا براہ راست ا لزام کراچی پر حکومت کرنے والے حکمران انتہائی معصومیت سے مون سون کی بارش پر دھر دیتے ہیں۔ کراچی کا یہ سیاسی روگ ایک بر س کا نہیں ہے بلکہ چالیس برسوں کا ہے۔بجلی، پانی،سڑکیں اور ملازمت کون سی ایسی سہولت ہے جو اہلیانِ کراچی کو باآسانی میسر ہے؟۔ کراچی میں بجلی فقط اُن تاروں میں دوڑتی ہے،جو سڑکوں کے عین بیچ میں پڑی ہوتی ہیں۔ پانی سال میں ایک بار صرف مون سون کے موسم میں ہی دستیاب ہوتاہے اور اتنا وافرہوتا ہے کہ کراچی کے باسیوں کا صرف اسباب ہی نہیں بلکہ اُن کا ہر ارمان اور خواہش بھی اس پانی میں بہہ جاتی ہے۔ سڑکیں کراچی کی وہی سلامت ہیں جو وزیراعلیٰ ہاؤس یا پھر بلاول ہاؤس کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں اور کراچی میں سرکاری ملازمتیں تو فقط انہیں کو ملتی ہیں جن کے پاس کراچی کے جعلی ڈومیسائل ہوتے ہیں کیونکہ کراچی کے حقیقی اور اصلی ڈومیسائل رکھنے والے نوجوانوں کی قسمت میں تو فقط ذلیل و خوار ہونا ہی لکھا ہے اور وہ حسب سیاست آئندہ بھی ہوتے ہی رہیں گے۔

کاش! اٹھارویں ترمیم اہلیانِ کراچی کو ایک بالشت بھر چھتری جتنا ہی فائدہ پہنچادیتی تاکہ کم ازکم اِس برس تو شہر کراچی مون سون کی بارشوں میں ڈوب جانے سے بچ جاتا۔ مگرآئین پاکستان میں 196 سے زائد آئینی پیوند لگانے والی اٹھارویں ترمیم اپنی پیدائش کی نویں سالگرہ منانے کے بعد بھی اتنی”انتظامی سکت“ نہیں رکھتی کہ کراچی کے معصوم شہریوں کو بارش سے بچنے کے لیئے ایک عارضی چھتر چھایہ ہی فراہم کرسکے۔ حیف ہے اُن ناعاقبت اندیش تجزیہ کاروں پر جو دو سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداری کے مفاداتی رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے فراق میں صبح و شام اٹھارویں ترمیم کے حق میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔کیا انہیں سارا کراچی، بارش کے پانی میں ڈوب جانے کے بعد بھی اٹھارویں ترمیم کے آمرانہ اور ظالمانہ فضائل و فوائد دکھائی نہیں دے رہے کہ کس طرح پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ذرا سی بارش سے پانی پانی ہوگیا ہے لیکن اِس شہرخراب حال کے حکمرانوں کو چلو بھر پانی اَب بھی دستیاب نہ ہوسکا کہ وہ اُس میں شرم کے مارے دو چار ڈبکیاں ہی لگالیتے۔



ثناخوانِ اٹھارویں ترمیم سے سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ صوبائی خود مختاری کے وہ ثمرات آخر کہاں ہیں جنہوں نے سندھ کے شہر شہر،گلی گلی،قریہ قریہ کی تقدیر بدلنا تھی۔ سندھ کے کسی دور دراز کے شہر تک اٹھارویں ترمیم کے ثمرات پہنچنے کا تذکرہ کرنا تو ایک کارِ عبث ہی کہلائے گا مگر یہاں تو صوبائی دارالحکومت کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اُس شہر بے مثال میں بھی اٹھارویں ترمیم کی انتظامی برکت سے ہر جگہ گندے پانی اور اندھیرے کا راج قائم ہوچکا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظور ی کے وقت عوام کو یہ بھی ”سیاسی لوری“ سنائی گئی تھی کہ اِس ترمیم کے ذریعے انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیئے جائیں گے۔شومئی قسمت کہ صوبائی خودمختاری کے نعرے بلند کرنے والوں کا یہ دعوی بھی،دوسرے لایعنی قسم کے دعووں کی طرح سفید سیاسی جھوٹ ہی ثابت ہوا اور اٹھارویں ترمیم کے تحت جو اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے عوام تک پہنچنے تھے،وہ سب اختیارات ”سیاسی پلیٹ“ میں رکھ کر وزیراعلیٰ کی خدمت میں لذت ِ کام دہن کے لیئے پیش کردیئے گئے۔ آج اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے پاکستان کے ہر صوبہ کا وزیراعلیٰ اتنا زیادہ طاقت ور ہوچکا ہے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے انتظامی احکامات پر بھی انتظامی شب خون مار سکتاہے اور کورونا وائرس کے مشکل وبائی ایام کے دوران ایسے الم ناک مناظر کئی بار دیکھنے کو میسر آئے جب وزیراعظم پاکستان کے احکامات بھی اٹھارویں ترمیم کی سیاسی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوگئے تھے یا یوں سمجھ لیجئے کہ کردیئے گئے تھے۔

کراچی پر حکمرانی کے دائمی سیاسی حقوق رکھنے والے حکمرانوں کو کیا غرض پڑی کہ وہ اپنے پر آسائش لمحات میں تھوری دیر کے لیئے بھی رخنہ ڈال کر گھروں اور دُکانوں سے ڈول بھر بھر کر بارش کا گندا پانی نکالتے ہوئے کراچی کے مجبور و مقہور عوام کی عزتِ نفس کی ذرہ برابر پرواہ کریں۔ کراچی کے نام نہاد سیاسی حکمرانوں کو مطلب ہے تو بس اتنا سا کہ شہر کراچی کا ہن اُن کی تجوریوں کا منہ بھرتا رہے اور ان کی کرپشن کا کاروبار دن دگنی،رات چوگنی ترقی کرتارہے۔ کاش! مقتدر قوتیں شہر کراچی کی حالتِ زار کا نوٹس لیتے ہوئے،اہلیانِ کراچی کے سیاسی دکھوں کا مداوا کرنے سے متعلق بھی کوئی دور رس اور قابل عمل حکمت عملی ترتیب دیں۔ یعنی جس طرح مقتدر قوتوں نے شہر سے لسانی دہشت گردی اور انارکی کی بیخ کنی کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا، بالکل اُسی مصداق شہر کراچی کو سیاسی بدانتظامی اور کرپشن کے عذاب سے بھی نجات دلانے کے لیئے بھی انہیں قوتوں کو سامنے آنا پڑے گا۔وگرنہ اِس شہر بے مثال کی داستان بھی نہ باقی رہے گی داستانوں میں۔
یہ اپنا شہر اندھیروں کا شہر ہے شاید
بڑے عذاب یہاں روشنی سے پیار میں ہیں

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 جولائی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں