دوہری شہریت سے دوہری سیاست تک

دوہری شہریت کا معاملہ شاید پاکستان میں کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مسئلہ صرف دوہری شہریت کا نہیں ہے بلکہ دوہری نیت،دوہرے رویوں، دوہری قانون سازی اور گزشتہ چالیس برسوں میں ملک میں رواج پاجانے والی دوہری سیاست کا ہے۔ یہ ہمارے معصوم سیاست دانوں کی دوہری خواہشیں اور دوہرے سیاسی مفادات ہی ہیں۔ جنہوں نے دوہری شہریت کے سیدھے سادھے سے معاملہ کو ایک گنجلک مسئلہ بناکر زندہ رکھا ہوا ہے۔ وگرنہ سوچنے کی بات ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتوں کے مابین دوہری شہریت کے خلاف اجماع پایا جاتاہے تو پھر آخر یہ سب باہم مل کر قومی اسمبلی میں دوہری شہریت کے عفریت کو قانون سازی کی تلوار کے ایک وار سے ہلاک کیوں نہیں کردیتے۔مگر مصیبت یہ ہے کہ پاکستانی عوام جس دوہری شہریت کو ایک عفریب سمجھتی ہے وہی دوہری شہریت سیاست دانوں کے لیئے ایک پسندیدہ پالتو ہے۔ دوہری شہریت کے معاملہ پر سیاسی جماعتوں کی اصل دوہری سیاست یہ ہے کہ وہ دل سے کسی بھی صورت دوہری شہریت کے قانون کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے،اِس میں چھوٹی سی ترمیم کرنے کی بھی روادار نہیں ہیں۔ کیونکہ دوہری شہریت ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اُن کے اہل و عیال کے لیئے وہ ”سیاسی آکسیجن“ ہے،جس پر ان کی سیاست کے زندہ رہنے کا دارومدار ہے اور اِس سیاسی آکسیجن کے بغیر یہ وطن عزیز پاکستان کے غریب و مقہور عوام پر حکمرانی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یعنی جب بھی پاکستانی عوام پر حکومت کرتے اِن کا دل گھبرانے لگتا ہو تو پھر یہ دوہری شہریت کے بل بوتے پر ہی کچھ روز سستانے اور دل بہلانے کے لیئے دیارِ غیر کے پرفضا مقامات پر موجود اپنے ذاتی گھروں کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
پاکستانی عوام بھی کتنی سادہ ہے کہ سوچتی ہے کہ مسلم لیگ ن دوہری شہریت کے قانون کو ختم کرنے میں حقیقی دلچسپی رکھتی ہے۔ بھئی اگر مسلم لیگ ن نے دوہری شہریت قانون کو ختم کردیا تو پھر اس کے ایک درجن سے زائد وہ محب وطن رہنما سیر سپاٹے اور اپنی تکان اُتارنے کے لیئے کہاں جائیں گے جن کے پاس خلیجی ممالک کے ایک سے زائد اقامے ہیں اور اِن اقاموں کے زیر سایہ عرب ملکوں میں یہ اور ان کے بچے بادشاہوں،شہزادے اور شہزادیوں کی مانند زندگی کے مزے اُڑاتے ہیں۔ جبکہ شریف خاندان کے مستقبل کے معمار اور ہونہار یعنی مریم نواز اور شہباز شریف کے بچوں کے بچے جن کے منہ میں پالنے میں ہی دوہری شہریت کی چوسنی دے دی گئی تھی۔ وہ کیسے بھلا چاہیں گے کہ پاکستان میں دوہری شہریت کے بجائے ایک شہریت ہو اور بھانت بھانت کے لال،نیلے،پہلے پاسپورٹوں کے بجائے فقط ایک سبزہلالی رنگ والا پاسپورٹ ان کے بچوں کے ہاتھ میں ہو۔ لطیفہ ملاحظہ ہو کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جن کے خون کے پلیٹ لیٹس پاکستان کی سرزمین پر پوری نہ ہوسکیں اُن کی یکے بعد دیگرے آنے والی نسلوں کی اُمیدوں پر بھلا ایک پاکستانی شہریت کا قانون کیسے پورا اُتر سکتاہے۔ اِس لیئے جب بھی مسلم لیگ ن کے رہنما دوہری شہریت کے معاملہ پر سیاسی بیانات داغ رہے ہوتے ہیں تو ہم لاکھ ضبط سے کام لے لیں لیکن پھر بھی ہماری دوہری ہنسی نکل ہی جاتی ہے۔



یادش بخیر! کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی دوہری شہریت کے خلاف عملی طور پر کچھ کرگزرنے کی خبریں سامنے آنا شروع آجائیں تو، اِس طرح کی خبروں کو قربِ قیامت کی ایک بہت بڑی نشانی ہی قرار دیا جاسکتاہے۔وگرنہ یہ وہی پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کی سندھ حکومت اپنے پچھلے دورِ حکومت میں سندھ کابینہ کے اجلاس بھی دوبئی میں طلب فرمایا کرتی تھی اور سندھ کابینہ کے ارکان کی فوج ظفر موج عوامی خرچے پر مع اپنے اہل و عیال اجتماعی طور پر کم و بیش ہر ہفتہ ہی سندھ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کے لیئے عازم دوبئی روانہ ہوجایا کرتے تھے۔ جبکہ حفیظ شیخ جن کے مشیر خزانہ بنائے جانے پر آج کل جناب بلاول بھٹو زرداری کے جانب سے تحریک انصاف کی حکومت کو دوہری شہریت کے طعنے اور مہنے دیئے جارہے ہیں۔خدا لگتی تو یہ ہے کہ حفیظ شیخ کو بطور وزیرخزانہ متعارف کروانے کا سہرا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے سر ہی جاتاہے۔ حالانکہ حفیظ شیخ جب پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر خزانہ کے عظیم منصب پر فائز ہوئے تھے،تب بھی موصوف پر دوہری شہریت کے الزام لگائے تھے لیکن چونکہ اُس وقت زمامِ اقتدار خوش قسمتی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں تھی لہذا سیاسی رو میں سب روا تھا۔ ویسے بھی جب حسین حقانی جیسے سینکڑوں غیرسیاسی افراد امریکہ سے ہن کی طرح برس رہے ہوں تو ایسے میں کس کی نظر بے چارے حفیظ شیخ کی دوہری شہریت کے الزام پر پڑنا تھی۔ مگر چونکہ اَب تحریک انصاف کی حکومت میں حسین حقانی جیسے قبیل کے افراد کا پاکستان میں داخلہ ممنوع قرار پایاہے اور مغرب نواز نام نہاد این جی اوز کا بوریا بستر بھی پاکستان سے گول کردیا گیا ہے۔ شاید اسی لیئے پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی دوہری شہریت کے قانون میں سقم دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔

ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوہری شہریت کا قانون ایک عوام دشمن قانون ہے اور اِسے فی الفور ختم ہوجانا چاہئے لیکن اِس بات میں پورا پورا شک ہے کہ دوہری شہریت کا یہ قانون پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی ختم کرسکتی ہیں یا اِس مستحسن کام میں کسی بھی قسم کی قانونی سہولت اور سیاسی معاونت فراہم کرسکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اِسی دوہرے سیاسی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ دوہری شہریت کے خلاف بل قومی اسمبلی میں لانے کا اعلان کردیں۔پھر دیکھئے گا کہ کیسے اپوزیشن جماعتیں دوہری شہریت کے فوائد و فضائل بیان کرنے میں رطب اللسان ہوجائیں گی۔ کیونکہ مسئلہ دوہری شہریت نہیں دوہری سیاست کا ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سےپہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 23 جولائی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں