اسٹیفن ہاکنگ: کائنات کا سیاح

”ہم سب کائناتی پیمانے پر معذور ہیں،فرق صرف کم یا زیادہ چند پٹھوں کے درست طورپر استعمال کرنے کاہے۔ بدقسمتی سے میں ایک ایسے مفلوج کردینے والے مرض کا شکار ہوا جو انسان کو معذوری کی انتہا تک لے جاتا ہے،مگر میں پھر بھی اپنے آپ کوخوش قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ آج میرے پاس سب کچھ ہے، میں نے سائنس پر کام کیا اور اس میں میری معذوری ذرہ برابر رکاوٹ نہیں بنی۔اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں، اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں، اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو آپ سب لوگ جن کے سارے اعضاء صحیح سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، جو اپنے دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں، جو کھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام تر خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس نظر آتے ہیں۔ اگر آپ خود کوحالات میں پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ کسی صورت ہار نہ مانیں کیونکہ باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ آس پاس ہی ہوگا۔یقین مانیں کہ اپنی سوچ میں تبدیلی لاکر انسان مشکل ترین حالات، یہاں تک کہ بلیک ہولز سے بھی باہر نکل سکتا ہے“۔

مردہ اذہان میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دینے والے یہ جادوئی الفاظ ایک ایسے انسان کے تھے جو صرف اپنے دائیں گال کو ہلکی سی جنبش دے کر لوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتا تھا بلکہ ایسی معلومات بھی فراہم کرتا تھا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ دُنیا کے سب سے زیادہ طاقتور کہلانے والے ممالک کے سربراہ بھی اُسے انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اُن کی موجودگی میں تعظیم سے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔اُس عظیم ماہر فلکیات، طبعیات دان اور ریاضی دان کا نام اسٹیفن ولیم ہاکنگ تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ کو اپنی غیر معمولی ذہانت ونت نئے نظریات پیش کرنے کی بدولت دورِ حاضر کا آئن اسٹائن اور افلاطون بھی گردانا جاتا تھا۔

اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری1942 کو آکسفورڈ شائر برطانیہ میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے مشہور افراد میں شامل تھے۔وہ خود بھی بہت محنتی تھے انہوں نے اپنے بچوں کو بھی سخت محنت کا درس دیا۔اسٹیفن ہاکنگ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، وہ زمانہ طالب علمی میں بہت اچھا طالب علم نہیں تھا،بس درمیانہ ذہنی صلاحیت رکھنے والا ایک واجبی سا طالب علم تھا،جس سے اساتذہ کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ نہیں دیتا۔زمانہ طالب علمی میں وہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کا کوئی خاص مظاہر ہ تو نہ کر پایا۔لیکن کم عمری میں ایک بات اس میں غیر معمولی تھی اور یہ ہے کہ وہ گھر کی گھڑیوں اور دیگر مشینی آلات کو کھول کر دیکھنے کی اکثر و بیشتر کوشش کرتا رہتا تھا کہ آخر ان کے اند ر ہے کیا؟ اسٹیفن ہاکنگ چیزیں کھول تو دیتا تھا لیکن ان چیزوں کو دوبارہ سے جوڑنہ پاتا تھا جس کی وجہ اسے گھر والوں کی سخت ڈانٹ ڈپٹ اور کبھی کبھا مار بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔

گو کہ اسٹیفن ہاکنگ کی عادتیں اس جانب اشارہ کرتی تھی کہ اُس میں ایک سائنسدان بننے کی تمام تر خاصیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔لیکن اس کے والد محترم اُسے اپنی ہی طرح کے ایک اچھے اور کامیاب ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔جبکہ اُس کا طب کی طرف ذرہ برابر بھی رجحان نہیں تھا۔گیارہ برس کی عمر میں اُس کے والدین نے اسے سینٹ البینز (St.Albans) اسکول میں داخل کروادیا جو لندن سے بیس میل دور جنوب کی طرف واقع تھا۔اس اسکول میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے انتہائی ذہین اور متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے،ویسے تو اسٹیفن ہاکنگ کا تعلق بھی ایک انتہائی متمول گھرانہ سا تھا لیکن اس کا شمار کسی بھی صورت ذہین طلباء میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ اس کا رجحان دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف بھی نہیں تھا،سوائے دوڑ لگانے کے۔وہ روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑ بلاناغہ لگاتا تھا جس میں اس کے ہلکے وزن اور غیر معمولی قوت ارادی کا بڑا عمل دخل تھا اس کے علاوہ اُسے عجیب و غریب چیزیں بنانے کا بھی بے حد شوق تھا۔اسکول کے زمانے میں اُس نے لکڑی اور ٹشوپیپرز کی مدد سے اپنا بجلی سے چلنے والا ہوائی جہاز بنایا جو کہ اُڑتا بھی تھا۔

اس کے علاوہ اس نے ریڈیو کنٹرولڈ بحری جہاز اور کئی ایک خود کار گاڑیاں بھی بنانے کی کوشش کی۔اس کی بنائی ہوئی اہم ترین چیزوں میں سے سب سے کارآمد اس کا بنایا ہوا ایک کمپیوٹر تھا جو اس نے 1958 ء میں بنایا تھا۔یہ اسٹیفن ہاکنگ کے نزدیک واقعی ایک قابلِ فخر ایجاد تھی کیونکہ اس وقت دنیا میں گنتی کے محض چند ایک ہی کمپیوٹر پائے جاتے تھے لیکن دوستوں میں اس کی شہرت ایجادات کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک ماہرِ حساب ہونے کی حیثیت سے تھی۔ا’س کے دوست حساب کے جوسوال گھنٹوں میں حل نہ کر پاتے یہ چند سیکنڈوں میں حل کردیتا۔حساب میں اتنا زیادہ ماہر ہونے کے باوجود بھی اسٹیفن ہاکنگ نے یونیورسٹی کالج آکسفورڈ میں فزکس میں داخلہ صرف اس وجہ سے لیا کہ اُس وقت یہاں حساب کا مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا تھا۔آہستہ آہستہ اسٹیفن ہاکنگ کی دلچسپی حساب سے فزکس کی طرف منتقل ہوتی چلی گئی کیونکہ اُسے محسوس ہونے لگا تھا کہ فزکس حساب کی ہی کوئی ترقی یافتہ شکل ہے۔ یونیورسٹی کالج 1963ء میں جب اسٹیفن ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گیا۔ اس کے یکے بعد دیگرے بہت سارے ٹیسٹ ہوئے تمام ٹیسٹوں کے اچھی طرح معائنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ طبی دنیا کی سب سے پیچیدہ ترین بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے۔

یہ بیماری موٹر نیوران ڈزیز (Motor Neuron Disease) کہلاتی ہے،طبی اصطلاح میں ” اے ایل ایس ” کہلائے جانے والی یہ بیماری براہِ راست دل کو متاثر کرتی ہے۔ دل پر موجود چھوٹے عضلات جسم کے مختلف افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔دل کے یہ چھوٹے چھوٹے عضلات ” موٹرز ” کہلاتے ہیں۔اگر یہ ”موٹرز“ مرنا شروع ہو جائیں تو جسم کے تمام اعضا ایک، ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ انسان اپنی آنکھوں سے خود کو آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اترتا دیکھتا ہے۔ اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے، اسٹیفن ہاکنگ کو جب اپنی اس موذی بیماری کا پتہ چلا تو اس نے سوچا کہ ”پوری دنیا آخر میں ہی کیوں اس بیماری میں مبتلاء ہوا؟“مگر اسپتال میں دورانِ علاج اس کی ملاقات خون کے سرطان میں مبتلاء ایک مرتے ہوئے کم عمر لڑکے سے ہوئی، اُس کی کرب ناک حالت کا سوچ کر اس نے اپنے اُوپر رحم کھانا چھوڑ دیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اس کی ملاقات ایک لڑکی جین والڈ سے بھی ہوئی،چند ملاقاتوں کے بعد ہی دونوں میں محبت اتنی پروان چڑھ گئی کہ آخر کار دونوں نے شادی کے مضبوط بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کرلیا۔شادی کے بعد اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی میں کئی ایک خوش کن تبدیلیاں بھی آئیں جن میں سب سے خوش کن تبدیلی تو یہ تھی کہ وہ باپ بنا اور اپنے علم و محنت کے بل بوتے پر اپنے بیوی بچوں کی بہتر دیکھ بھال انجام دینے لگا۔لیکن آہستہ آہستہ اس کی جسمانی حرکت محدود ہوتی جارہی تھی۔

اس بیماری نے سب سے پہلے اسٹیفن ہاکنگ کی انگلیاں مفلوج کیں،پھر اس کے ہاتھ، پھر اس کے بازو، پھر اس کا بالائی دھڑ،پھر اس کے پاؤں، پھر اس کی ٹانگیں اور آخر میں اس کی زبان بھی مفلوج ہونا شروع ہوگئی۔یوں وہ 1965ء میں وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گیا۔1974 ء تک وہ خود کھانا کھا سکتا تھا اور کسی کی مدد سے بستر سے اُٹھ بھی سکتا تھا مگر پھر 1985 ء میں ایک رات اچانک اُس پر نمونیا کا حملہ کے بعد اُس کے حلق کا آپریشن ہوا جس کی نتیجہ میں وہ اپنی آواز سننے سے بھی محروم ہوگیا۔ اس کی گردن دائیں جانب ڈھلک گئی جو پھر مرنے تک سیدھی نہ ہو سکی۔ یعنی اس کا پورا جسم مکمل طور پر مفلوج ہوگیا، صرف پلکوں میں زندگی کی ہلکی سی رمق باقی رہی،لیکن قدرت اسٹیفن ہاکنگ سے اس حالت میں بھی کوئی اہم کام لینے کا فیصلہ کر چکی تھی۔شایدقدرت کی اسی پوشیدہ اسکیم کی تکمیل کے لیئے اسٹیفن ہاکنگ کی ملاقات کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ والٹ والٹوز (Walt Waltosz) سے ہوئی جس نے اس کے لیئے بطورِ خاص ایک کمپیوٹر پروگرام لکھا جس کا نام تھا ایکولائزر (Equalizer) جو کہ آنکھ یا سر کی جنبش کی مدد سے چلتا تھا۔اسٹیفن ہاکنگ کو جو کچھ کہنا ہوتا اس پروگرام کی مدد سے کمپیوٹر پر منتقل کردیتا بعدازاں یہ تمام مواد آواز میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ مواد کو آواز میں تبدیل کرنے کا کام Speech Synthesizer یا آواز بنانے والے آلے کے ذریعے ہوتا جو کہ اسٹیفن ہاکنگ کی وہیل چیئر پر لگا ہوا تھا۔اس طرح سے اسٹیفن ہاکنگ پندرہ لفظ فی منٹ کی رفتار سے گفتگو کر سکتا تھا۔

وہ ان آلات کی مدد سے اپنا لکھا ہوا ہر لفظ نہ صرف آواز کی صورت میں بدل سکتا تھا بلکہ اپنے کمپیوٹر میں لگی ہارڈ ڈسک میں محفوظ بھی کر کے جب چاہے اس کا پرنٹ بھی نکال سکتا تھا۔حیران کن طور پر اس کی مدد سے اسٹیفن ہاکنگ نے سینکڑوں سائنسی مقالہ جات کے علاوہ بے شمار شہرہ آفاق کتابیں بھی لکھیں۔ اسٹیفن ہاکنگ شاید ہماری دنیا کے وہ واحد انسان تھے جو اپنی پلکوں سے بولتے تھے لیکن اِ س کے باوجود پوری دنیا اُس کی باتیں انتہائی توجہ و انہماک سے سنتی تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ادارے اور ٹیک کمپنیاں اسٹیفن ہاکنگ کی خدمات حاصل کرتیں، انہیں ویل چیئر سمیت سیکڑوں، ہزاروں افراد کے سامنے اسٹیج پر بٹھا دیا جاتا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہونا شروع ہوجاتا۔ اسٹیفن ہاکنگ اپنی جسمانی معذوری کے باوجود عام زندگی میں بھی کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کرنے میں بھی کامیاب رہے جو عام لوگ عام زندگی میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت انجام دیتے ہیں۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بنا۔ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے اُس کے اشاروں سے لکھے مواد کوآواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے 2006ء میں طلاق دے دی تھی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘ میں ہمیں بتایا کہ وقت کب پیدا ہوا تھا؟۔ گزرتے وقت کو کیوں نہیں روکا جاسکتا؟۔ ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے؟۔ ابھی تک مستقبل کے زمانے سے کوئی شخص ہم سے ملنے کیوں نہیں آیا؟۔ ہر شخص حال میں زندگی گزارنے کے باوجودماضی کا حصہ کیوں بن جاتا ہے؟۔ لیکن اسٹیفن ہاکنگ کا سب سے اہم کارنامہ بلیک ہول اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (Cosmology) کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔ اسٹیفن نے بلیک ہول اور ٹائم مشین کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ اس عظیم سائنسدان نے کائنات میں ایک ایسا ” بلیک ہول ” دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں، اس بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ان شعاوں کو اسٹیفن ہاکنگ کے نام کی مناسبت سے ” ہاکنگ ریڈی ایشن ” کہا جاتا ہے۔

1979 سے 2009تک اسٹیفن ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اُس قابل فخر عہدے پر بھی فائز رہا جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن اپنی خدمات انجام دیا کرتا تھا۔اسٹیفن ہاکنگ اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر بھی پہنچ گیا تھا کہ ہمارے ارد گرد صرف ایک کائنات نہیں بلکہ بہت سی کائناتیں موجود ہیں اور ہم کسی ایک Universeمیں نہیں بلکہ Multiverseمیں رہتے ہیں۔ یہ کائنات پانی کے بلبلوں کی طرح پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ان میں سے بعض کی عمر مختصر اور بعض کی عمر طویل ہوتی ہے۔ جو ہماری کائنات کی طرح بڑھتی اور پھیلتی ہیں اُن میں سورج چاند ستارے سب ہوتے ہیں۔ آخر ایک دن وہ کائنات پھیلنا بند کر کے سکڑنا شروع کر دیتی ہے اور سکڑتے سکڑتے کسی بلیک ہول میں مر جاتی ہے۔ پھر اس بلیک ہول سے ایک اور نئی کا ئنات پیدا ہوجاتی ہے۔ جب ہماری کائنات ختم ہو جائے گی تب بھی اور کائناتیں موجود ہوں گی۔ یہ کائناتیں خود ہی بنتی بگڑتی، پیدا ہوتی اور مرتی رہتی ہیں۔ یہ سلسلہ نجانے کب سے چل رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا کسی کو کچھ نہیں معلوم۔

ایک لیکچر کے دوران اسٹیفن ہاکنگ نے یہ بھی انکشاف کیاتھا کہ دُنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں۔جس کے بعد خطہ ارض سے نسل انسانی ختم ہو جائے گی۔ انسانوں کو اپنی بقا کیلئے کسی دوسرے سیارے پر نقل مکانی کرنا ہوگی۔ہمیں زمین کے مدار سے نکل کر چاند یا کسی اور سیارے پر منتقل ہونا ہوگا۔ ہمارے پاس دیگر سیاروں میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُس کی تحقیق کے حساب سے انسانوں کو زمین چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ سیارہ انسانوں کیلئے بہت چھوٹا ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس جگہ ختم ہو رہی ہے اور اب رہنے کیلئے دیگر سیارے ہی بچے ہیں۔ کیوں کہ زمین جلد ہی کسی تباہ کن سیارچے سے ٹکرا جائے گی۔ اُس کا اصرار تھا کہ خلا میں جانے سے ہم انسانیت کے مستقبل کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ چاند اور مریخ انسانی آبادیوں کیلئے بہترین مقامات ہیں، جبکہ انسانوں کو نظام شمسی سے نکل کر قریبی ستاروں کے نظام تک بھی جانے کا سوچنا ہوگا۔انھوں نے ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ ہم نے اپنے سیارے کو موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتے درجہ حرارت، قطبی برفانی خطوں میں کمی، جنگلات اور جانوروں کے خاتمے جیسے تباہ کن تحائف دیئے ہیں اور ہم تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کی طرف سے مورخین کو بھی دینے کی کوشش کی اور اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک ”نظریہ تحفظ تقویم” (Chronology Protection Conjecture) بھی پیش کیا تاکہ ”تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے ”۔

اسٹیفن ہاکنگ آخری عمر میں عالمی شہرت کی کس بلندی پر تھا، اس کا اندازہ آپ اس ایک واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ اکتوبر 2017 ء میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے اُن کے 1966ء کے پی ایچ ڈی تھیسس”پھیلتی ہوئی کائناتوں کی خصوصیات“ کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا، ویب سائیٹ پر اس مقالہ کو پڑھنے والوں کا اتنا رش ہوگیا کہ ویب سائٹ کریش ہو گئی۔ چند ہی دن میں اس مقالہ نے آن لائن مطالعے کے تمام تر ریکارڈز توڑ دیئے، اس مقالہ کو 20 لاکھ سے زائد مرتبہ پڑھا گیا اور پانچ لاکھ سے زائد لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا۔یونیورسٹی کے اسکالرلی کمیونیکیشن سیکشن کے ڈپٹی ہیڈ ڈاکٹر آرتھر سمتھ کا کہنا تھا کہ”مقالے کو پڑھنے کے حوالے سے یہ اعداد و شمار عظیم الشان ہیں۔ اپالو ریپوزیٹری میں موجود مقالات اور کتب میں پروفیسر ہاکنگ کا مقالہ اب تک کی سب سے زیادہ طلب کرنے والی چیز بن چکی ہے، ہم نے کسی بھی چیزکے پڑھنے کے حوالے سے اتنے زیادہ اعداد و شمار پہلے کبھی نہیں دیکھے“۔

اسٹیفن ہاکنگ سائنس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاسیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے،وہ وقتا فوقتاقابض اقوام کی طرف سے محکوم اقوام پر روا رکھے جانے والے ظلم و جبر کی مخالفت کر تے تھے۔ جس کا ایک واضح ثبوت ان کی طرف سے جو ن 2013 ء میں منعقدہ اسرائیلی کانفرنس کا بائیکاٹ تھا۔ فیس ٹو مارو(Face Towmorrow) نام سے منعقدہ اس اکیڈمک کانفرنس کی میزبانی اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے کرنا تھی جبکہ اس میں دنیا بھر کے نامور سیاست دان،سفارتکار اور اہلِ علم کے علاوہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی خطاب کرنا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اسرائیل کو ایک غاصب ملک قرار دیتے ہوئے اسرائیلی صدر کی جانب سے منعقدہ اس عالمی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف یہ اُن کا ایک آزانہ فیصلہ ہے۔اسٹیفن ہاکنگ کے اس بائیکاٹ نے اسرائیل کو دنیا بھر شدید شرمندگی سے دوچار کیا۔14 مارچ2018 ء کی صبح سائنس کی دنیا کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ بظاہر تو غروب ہوگیا، لیکن اپنی بے مثال زندگی کی بدولت سائنسدانوں، عام انسانوں اور بالخصوص معذورافرادکے لیے عزم، ہمت،حوصلہ اور خوش اُمیدی کی ایک ایسی نادر و نایاب مثال قائم کرگیا جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 14 مئی 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں