12 May Once Again

ایک اور سانحہ 12 مئی دہرانے کی سازش؟

ملک میں جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے،سیاسی درجہ حرارت اپنی آخروں حدوں کو چھونے لگاہے لیکن سندھ میں سیاسی کشیدگی جس انتہا پر ہے اس کو تحریرکرتے ہوئے کاغذ اور قلم بھی جلنے لگتے ہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کی آڑ میں تعصب،نفرت اور تشدد کو فروغ دینے کی اپنی پرانی روش پر تیزی سے واپس لوٹ رہی ہیں۔ نئی سیاسی فضاکے آثار بتا رہے کہ جیسے سندھ میں 2018 ء کے الیکشن نہیں بلکہ کوئی بہت بڑی پرتشدد سیاسی جنگ یا خون آشام معرکہ ہونے جارہا ہے جس کی لیئے سندھ کی ہر جماعت ایک جنگجو سیاسی سپاہ تیار کرنے کی جستجو میں ہے۔تعصب کی چنگاریوں میں آگ بڑھکانے کی ابتدا ء ہمیشہ کی طرح ایم کیوایم نے لیاقت آباد ٹینکی گراؤنڈ میں ”جاگ مہاجر جاگ“ جیسا تعصب سے بھر پور نعرہ لگاکر کر دی تو پھر دوسری سیاسی جماعتیں بھلا کیوں تعصب کی اس دوڑ میں پیچھے رہنے والی تھیں۔انہوں نے بھی ایم کیوایم سے ایک قدم مزید آگے بڑھ کر سندھ اور بالخصوص کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی ایسی بھرپور کوشش کی کہ ایک بار پھر سے سندھ کے پُر امن عوام کے ذہنوں میں 12 مئی کی تلخ یادیں تازہ ہوگئیں۔ گلشن اقبال کراچی میں بیت المکرم مسجد کے قریب واقع حکیم محمد سعید گراؤنڈ میں 12 مئی کو جلسہ کرنے کے لیے کیمپ لگانے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے پرتشدد تصادم نے سندھ میں آنے والے الیکشن میں ہولناک صورتحال کی بخوبی منظر کشی کردی ہے۔پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے جلسہ کے انعقاد جیسی چھوٹی سی بات پر ہونے والے اس تصادم کے درمیان دونوں جانب سے گھونسوں،مکوں، پتھروں، ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ کا آزادانہ اور بھرپور استعمال کیا گیا جب کہ دونوں اطرف سے شدید ہوائی فائرنگ بھی ہوئی۔ شرپسندوں نے پارکنگ میں کھڑی بے شمار موٹر سائیکلیں نذر آتش کردیں اور دو گاڑیوں کو بھی آگ لگادی، کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑے اور انہیں نقصان پہنچایا۔ یہ پر تشدد تصادم کئی گھنٹے جاری رہا اور علاقہ میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔اس تصادم کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ جھگڑا شروع ہوتے ہی سب سے پہلے یہاں سے پولیس غائب ہوگئی یا کسی کے حکم پر غائب کردی گئی کیونکہ اگر پولیس کوشش کرتی تویہ جھگڑا ایک بہت بڑے تصادم میں کسی صورت تبدیل نہ ہوتا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دورانِ تصادم جو پولیس اہلکار نظر آئے وہ بھی زیادہ تر وقت ایک طرف کھڑے تماشا دیکھتے رہے یا ہوائی فائرنگ کرکے مزید خوف و ہراس پھیلاتے رہے۔ تصادم کے بعد اطراف میں ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی اور دکانیں بند کر وادی گئیں۔ جھگڑے کے دوران بار بار دونوں طرف سے کارکنان گتھم گتھا ہوتے رہے، ایک دوسرے پر پتھر پھینکتے رہے اور ڈنڈوں سے حملے کرتے رہے۔اس تصادم کو دیکھ کر بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کراچی میں ایک اور 12 مئی بپا کرنے کی منظم سازش کی جارہی ہو۔وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ ریاستی اداروں نے سب کچھ سندھ حکومت کی مرضی اور منشاء پر چھوڑنے کے بجائے بروقت مداخلت کر کے کراچی کو ایک اور 12 مئی کا داغ اپنے ماتھے پر سجانے سے بچالیا۔سندھ ینجرز نے موقع پر پہنچ کر نہ صرف ساری صورتحال کو کنٹرول کیا بلکہ دونوں جماعتوں کے کارکنان کو منتشر کر کے علاقہ میں گھنٹوں سے معطل معمولات ِ زندگی کو بحال کرنے میں بھی اپنا انتہائی اہم ترین کردار ادا کیا۔دوسری جانب دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرانے عزیز بھٹی تھانے جاکر درخواستیں جمع کرادیں، پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے اس واقعے کے فوراً بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کبھی نہ ختم ہونے والاسلسلہ بھی شروع ہوگیا۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ”ہم کہیں بھی جلسہ کرسکتے ہیں لیکن یہ غنڈہ گردی والی سیاست نہیں چلے گی،ہم نے بھی جلسے کے لیے درخواست دی تھی لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ کراچی میں امن قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ پتھراؤکررہے ہیں، انہیں سندھ حکومت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔اگر پیپلزپارٹی اس طرح کا رویہ اپنائے گی تو انتخابات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے جلسے کے اعلان کے بعد سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیپلزپارٹی نے جلسے کی درخواست دی جبکہ پہلے پی ٹی آئی نے 12 مئی کو حکیم سعیدگراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کیا تھا تاہم پیپلزپارٹی نے شرارت کی اور ڈپٹی کمشنر کو یہاں جلسے کی درخواست دی جبکہ پیپلزپارٹی کی بدنیتی ملاحظہ فرمائیں کے اس نے تو بلدیہ ٹاؤن میں 12 مئی کو جلسے کا اعلان کیا تھا تو اب یہاں جلسہ کیوں کیا۔ ہم نے یہاں پہلے سے کیمپ لگایا ہوا تھا، پی پی کی سندھ میں حکومت ہے اس لیے انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے یہاں جلسے کا اجازت نامہ سیکنڈوں میں حاصل کرلیا جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں، اگر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل نہ ہوا تو مزید حالات خراب ہوں گے جس کی تمام تر ذمہ داری سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی پر ہوگی“۔ جبکہ اس تمام تر واقعہ پر اپنی جماعت اور سندھ حکومت کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ”حکیم سعید گراؤنڈ پر پی ٹی آئی کاقبضہ کرکے سیاست کرنا مناسب نہیں جبکہ پی پی پی نے حکیم سعیدگراؤنڈمیں جلسہ کرنے کی اجازت بھی لی ہے۔ لڑائی جھگڑے کی سیاست اورشہرکا امن خراب کرنیکی اجازت نہیں دیں گے، یہ شعوری طور پر شہر کے حالات خراب کرنیکی سازش ہے اور ہم نے کسی کو بھی جلسہ کرنے سے نہیں روکا“۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے اس سیاسی تصادم نے سندھ کے سیاسی مستقبل پر تعصب اور تشدد کے مہیب سائے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی تقویت پہنچائی ہے کہ سندھ کی کوئی بھی سیاسی جماعت تعصب اور تشدد کو چھوڑنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ بہ وقتِ ضرورت اس سے وہ اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کی مذموم خواہشات رکھتیں ہیں۔ریاستی اداروں کو سندھ میں سیاست کے پردے میں چھپ چھپ کر آئے روز کی جانے والی ان پر تشدد اور حالات کو خراب کرنے والی سرگرمیوں کا عمیق جائزہ لینا چاہیئے کہ کہیں ان کے پیچھے ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ تو نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو یقینی بنایا جائے ایک بار پھر سے سندھ کی کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی صورت غیر ملکی طاقتوں کے ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا نہ ہوسکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 17 مئی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں