یہ بہت زیادہ پرانے دور کی کوئی بھولی بسری کہانی نہیں ہے بلکہ صرف تیس،چالیس سال قبل کی وہ سچی داستان ہے جب ریڈیو کی حکمرانی کاسنہرا پھریراچہاردانگ عالم میں پوری آب و تاب سے لہرایا کرتا تھااوردنیا بھر کی طرح ہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی عوام الناس کے لیئے سب سے سستی تفریح کا واحدذریعہ ہونے کا اعزاز بھی ریڈیو کو ہی حاصل تھا۔لوگوں کا بیشتر وقت ریڈیو سماعت فرمانے یا پھر اِس پر نشر ہونے والی خبروں اور تبصروں کی نذر ہوجاتاتھا۔ ملکی،غیر ملکی خبریں، من پسند گانے و دوگانے یا سنسنی خیز کرکٹ مقابلوں کی کمنٹری ریڈیو کے اردگرد جمع ہو کر اِس قدر انہماک اور توجہ سے سنتے تھے کہ جیسے شہد کی مکھیاں شہد کے چھتے کر گرد اکھٹی ہوکر شہد جمع کرتی ہیں۔ہوا کے دوش پر نگر نگر کی خبریں سنانے والا،بھانت بھانت کے فسانے بتانے والا،کبھی ہنسانے اور کبھی رلانے والا ریڈیو نامی چھوٹا سا یہ جادوئی ڈبہ جس گھر میں بھی رہتا،اُس گھر کا سب سے اہم فرد بن کر رہتا تھا۔ خواتین اس کے لیئے بڑی محبت کے ساتھ کروشیئے سے پھول بوٹوں سے سجے خوب صورت پوشاکیں بناتیں اور بڑی بوڑھیاں اِسے پڑوسیوں کی بُری نظر سے بچانے کے لیئے کاجل کے کالے ٹیکے لگاتیں۔سادہ لفظوں میں بس یوں جان لیجئے کہ جس گھر میں بھی ریڈیو ہوتا تھا، اُس گھر کے رہنے والوں کی پورے محلے میں ایک الگ ہی آن، بان اور شان ہوا کرتی تھی۔ اُس گھرکے بچوں کی باتوں کو بھی آس پڑوس کے لوگ پوری توجہ سے سُنا کرتے تھے کیونکہ سب کا ماننا تھا کہ جو بھی صبح و شام ریڈیو کی مدھرآواز سنتا ہے اُسے دنیا جہان کی سب خبر ہوتی ہے۔ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ نے ترقی کی وہ لمبی سی جست بھری کہ ہو ا کے دوش پر دنیا بھر کی باتیں سنانے والا ریڈیو،خود ہی ہوا ہو گیا۔ ٹی وی،موبائل فون، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی پے درپے ہونے والی ایجادات نے وہ ادھم مچایا کہ ریڈیو کی مدھر سروں والی آواز کب مدھم ہرکر دم توڑ گئی کسی کو احساس ہی نہ ہوسکا۔ اَب تو یہ حال ہے کہ ریڈیو کی شکل کیسی ہوتی تھی،اگر اپنے بچوں کو سمجھانی پڑجائے تو سمجھ نہیں آتا ہے اُنہیں گھر میں پڑی ہوئی کس شئے کی مثال دے کر بتلایا جائے کہ ایسا ہوتا تھا کبھی ایک راج دلارا،پیارا سا ریڈیو۔
ریڈیو کے قصہ پارینہ بن جانے کے خطرہ کا احساس سب سے پہلے سپین ریڈیو اکیڈمی کے صدر کو ہوا تھا کہ جنہوں نے عالمی سطح پر ریڈیو کی اہمیت اُجاگر کرنے اور اِسے کسی نہ کسی شکل میں اِسے جدید آلات کا حصہ بنائے رکھنے کے لیئے یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل سے باضابطہ طورپر تحریری درخواست کی تھی کہ ریڈیو کو بھی اقوامِ متحدہ کی ترتیب دی گئی عالمی ایام کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت یونیسکو نے اِس درخواست کی روشنی میں 3 نومبر 2011 کو36 ویں سالانہ اجلاس میں ریڈیو کو پہلی بار اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا اور اِسی اجلاس میں سپین ریڈیو اکیڈمی کے صدر کی تجویز کو کثرت ِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔تب سے لے کر اَب تک ہر سال 13 فروری کو دنیا بھر میں ریڈیو کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ یہ ہی دن 1946 میں اقوام متحدہ کے اپنے ریڈیو اسٹیشن کے قیام کابھی ہے۔ریڈیو کے دن کو عالمی سطح پر بنانے کا بنیادی مقصد ریڈیو کی کثیر الجہت خوبیوں کا اعتراف کرنا اور عوام میں ریڈیو کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنا ہے۔رواں برس ریڈیو کا عالمی یوم #WeAreDiversity یعنی ہم سب سے جدگانہ ہیں کے منفرد سلوگن کے عنوان سے منایا جارہاہے۔
ریڈیو کی سریلی کہانی
ریڈیو کے آغاز کی کہانی دراصل ہوائی لہروں کی تسخیر کی ایک دلچسپ داستان ہے۔ جس کی اوّلین ابتداء 1830 میں ہوئی کہ جب ہم انسانوں نے دھاتی تاروں کی مدد سے طویل فاصلے تک پیغام رسانی کاآغاز کیا اورلوگ ایک دوسرے کے رابطے میں آنا شروع ہوئے۔ بعدازاں 1873 میں جمیز کلرک میکسویل نامی سائنسدان نے مقناطیس کے ذریعے برقی لہروں کو فضا میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی اور یوں اِس خیال کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوسکا کہ انسانی آواز کو دھاتی تاروں کی مد د کے بغیر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اِسی نظریہ کو ریڈیو کی شکل میں ڈھالنے کا آغاز 1880 میں ہوا۔ جب اطالوی سائنسدان Guglielmo Marconi گلیمومارکونی نے اپنے پیشرو سائنسدان ہرٹز کے برقی لہروں کے نظام کے تحت پہلے اپنی تجربہ گاہ میں گھنٹی بجانے، اور پھر اپنی تجربہ گاہ سے 322 میٹر دور واقع اپنی رہائش گاہ پر صوتی لہروں کو نشرکرنے میں کامیابی حاص کر کے کیا۔2مارچ 1897 میں مارکونی نے اپنی ایجاد کو برٹش پیٹنٹ نمبر 12039 کے تحت اپنے نام پر رجسٹر کروایا اور مارکونی لمیٹد نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ یہ کمپنی بعد ازاں وائر لیس ٹیلی گراف ٹریڈنگ سنگل کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔ابتدائی طور پر اِس کمپنی کاکام صرف ٹیلی گراف پیغامات بھیجنے تک ہی محدود تھا۔پھر اچانک ایک چھوٹا سا حادثہ رونما ہو ا جس میں کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اُس وقت پرنس آف ویلز تھے، شاہی کشتی پر ایک سفر کے دوران زخمی ہوگئے۔ انہوں نے آئندہ کسی حادثے سے بچنے اور بروقت طبی امداد کو یقینی بنانے کے لیئے مارکونی سے اپنی شاہی کشتی پر ریڈیو کا نظام نصب کروالیا۔ جبکہ مشہور و معروف سفری بحری جہاز ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد تو ریڈیو کا استعمال کم و بیش ہر قسم کے بحری جہاز میں لازمی قرار دے دیا گیا۔
24دسمبر1906 کی رات 9 بجے پہلی بار انسانی آواز اور موسیقی پر مبنی ریڈیو ٹرانسمیشن نشر کی گئی۔ اس ٹرانسمیشن کو نشر کرنے کا اعزاز Reginald A Fessenden کو حاصل ہے۔ جنہوں نے امریکن اسٹیٹMassachusetts سے کرسمس کے حوالے سے ریڈیو کی یہ نشریات پیش کی تھی۔ نیز1919 میں پہلی بار امریکی شہر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وسکنسن نے انسانی آواز کو صوتی لہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کرنے کا تجربہ کامیابی کے ساتھ کیا۔امریکا کے شعبہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق ریڈیو کا پہلا تجارتی لائسنس 15 ستمبر 1921 کو اسپرنگ فیلڈ میسا چوسٹس کے ڈبلیو بی زیڈ اسٹیشن کو دیا گیا۔ گویا 15 ستمبر 1921 ریڈیو کے بطور تجارتی مقاصد استعمال کا پہلا دن تھا یعنی مارکونی کے ریڈیو کی ایجاد کے لگ بھگ 20 سال بعد۔جبکہ عالمی شہرت یافتہ ریڈیو سروس بی بی سی کا قیام18 اکتوبر 1922 کو ہوااوراُس نے14 نومبر 1922میں اپنی براہ راست نشریات کا آغاز کیا۔ابتدا میں اس کا نام برٹش براڈ کاسٹینگ کمپنی تھا جویکم جولائی 1927میں برٹش براڈکاسٹینگ کارپویشن یعنی بی بی سی کے نام سے بدل دیا گیا۔یاد رہے کہ ابتدا میں ریڈیو سیٹ نے صرف فردِ واحد کو لسننگ کی سہولت مہیا ہوتی تھی کیونکہ اس میں مرکزی سپیکر کے بجائے ہیڈ فون استعمال ہوتا تھا۔ جو ایک تار کی مدد سے ریڈیو ریسیور کے ساتھ جڑا ہوتا تھا۔اس لئے اس کے سامعین محدود اور زیادہ تر مرد حضرات پر مشتمل ہو ا کرتے تھے۔ 1926 ء میں ریڈیو گھریلو زندگی کا حصہ بن گیا کیونکہ ریڈیو سننے کے لئے ہیڈ فون کی قید کو سپیکر نے ختم کردیاتھا۔ اِس سہولت سے ریڈیو کے سامعین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔جبکہ 1947 ء میں ٹرانسسٹر کی ایجاد نے ریڈیو کو گھروں، بازاروں، دکانوں، دفاتر، کھیت کھلیانوں اور فیکٹریوں یعنی ہرطرف پہنچادیا اور بجلی کے بغیر سیل کی مدد سے چلنے والے ریڈیو ایجاد ہونے کے بعد تو گویا ہرجگہ ریڈیو کا راج قائم ہوگیا۔ بہرحال ریڈیو کی ایجاد کو کسی فرد واحد کی مکمل کاوش کا نتیجہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ بے شمار قابل سائنسدانوں اور اداروں کی مشترکہ طور پر کی گئی کوششوں کا مجموعہ ہے۔
ریڈیو پاکستان تاب ناک ماضی سے الم ناک حال تک
برصغیر پاک و ہند میں مارچ 1926 میں انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نجی حیثیت میں قائم ہوئی اور اس نے 23 مارچ 1927 میں بمبئی میں پہلا اسٹیشن قائم کر کے ریڈیو کی باقاعدہ نشریات کا آغاز کیاگیا۔ستمبر 1939 میں دہلی سے تمام زبانوں میں خبرنامہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپریل 1930 میں براڈ کاسٹنگ کو حکومتی تحویل میں لیتے ہوئے اسے انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس کا نام دے دیا گیا جسے 8 جون1936 ء کو آل انڈیا ریڈیو کے نام سے تبدیل کر دیا گیا۔اس کے علاوہ سرکاری ریڈیو سٹیشن نے لاہور میں دسمبر 1937 سے اپنی نشریات کا آغاز کیااور دسمبر1939 میں ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن نے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن یہ دونوں ریڈیو سٹیشنزقیام ِ پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو کی شناخت کے ساتھ ا ہی پنی نشریات پیش کر رہے تھے۔ نومبر 1939 وہ تاریخ ساز دن تھا جب عید کے روز قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ریڈیو کے بمبئی اسٹیشن سے ریڈیو پر اپنا پہلا تاریخ ساز خطاب کیا۔ جبکہ 14اگست 1947 نہ صرف مسلمانان ہند کے لیے بلکہ ریڈیو پاکستان کے لیئے بھی ایک یادگار دن تھا، جب اس ادارے نے اپنی جاری نشریات کے دوران ہی مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا اعلان اِن الفاظ سے کرناشروع کردیا ”السلام علیکم۔ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں 13 اور 14 اگست سن 47 عیسوی کی درمیانی رات12 بجے ہیں۔یہ طلوع صبح آزادی ہے اور۔۔۔۔“ظہور آذر اور مصطفی علی ہمدانی کی آوازوں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے لاہور سٹیشن سے انگلش اور اردو میں نشر ہونے والے آزادی پاکستان کے ا علانات ملک میں ریڈیو کے باقاعدہ آغاز کی ابتداء قرار پائے۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں 3ریڈیو سٹیشن تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور،ریڈیو پاکستان پشاور اور ریڈیو پاکستان ڈھاکہ جواس وقت بنگلہ دیش کا درالحکومت ہے۔آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان نے اپنی دنیا بھر میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی اور اُردو کے علاوہ دیگر 20 علاقائی زبانوں کو رابطے کے طور پر استعمال کر کے صرف ملک میں ہی نہیں اردگرد کے خطے میں بھی پاکستانی قومیت اور ثقافت کو فروغ دینے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔لیکن گزشتہ ایک دہائی سی ریڈیو پاکستان مسلسل روبہ زوال ہے اوراَب تو خبر یہ سننے میں آرہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ریڈیو پاکستان،ہیڈ کورٹرز اسلام آباد سمیت دیگرشہروں میں قائم ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو لیز یعنی کرائے پر دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔حکومت سمجھتی ہے کہ ریڈیو پاکستان چونکہ نفع بخش ادارہ نہیں رہا اِس لیئے ریڈیو پاکستان سے جان چھڑا لینا ہی بہتر ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکاری ریڈیو منافع بخش ادارہ نہیں ہوتا مگر اِس کے باوجود دنیا بھر میں سرکاری ریڈیو کو اسٹریجک مقاصد کے لیئے بھرپور انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ریڈیو کے نئے بہروپ
بظاہر حالیہ جدید دور میں وجودی طور پر تو دنیا بھر میں ریڈیو کہیں دکھائی نہیں دیتا لیکن غیر مرئی انداز آج بھی ریڈیو ہم سب کے بہت نزدیک ہی ہمہ وقت موجود ہے۔نظر نہ آنے والے صرف سنائی دینے والے ریڈیو کے یہ دوسرے بہروپ یا جنم، ایف۔ایم ریڈیو، ویب ریڈیو،وائی فائی ریڈیو اور آئی پوڈ کہلاتے ہیں۔ ہمارے موبائل فون، ہماری گاڑیاں اور مختلف طرح کی بے شمار اسمارٹ ڈیوائسیزعموماً ایف ایم ریڈیو کی سہولت سے بہرہ مند ہوتی ہیں۔ خاص طور پر ریڈیو کے ایف ایم بن جانے کے بعد اس میں کافی جدت آگئی ہے اور ماضی کی مشہور زمانہ ایجاد رفتہ رفتہ اِس قابل ہوتی جارہی ہے کہ دور جدید کی ایجادات مثلا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ انسائیکلو پیڈیا آف دی نیشنز میں سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے اعداد و شمار سے مرتب کردہ حقائق کے مطابق دنیا میں اس وقت66 ہزار 5 سو 31 سے زائد ریڈیو سٹیشنزکام کر رہے ہیں اور ریڈیو کی نشریات اس وقت دنیا کی 95 فیصد آبادی تک پہنچ رہی ہے۔ جبکہ ریڈیو سامعین کی کل تعداد 4.2 ارب ہے۔جبکہ امریکا میں سب سے زیادہ ریڈیو سماعت کیا جاتاہے۔امریکہ میں ریڈیو سامعین کی تعداد 24 کروڑ 42 لاکھ ہے اور ایک امریکی سامع اوسطاً روزانہ اڑھائی گھنٹے ریڈیو سنتا ہے۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق 2012 ء میں دنیا بھر میں ریڈیو نے 46 ارب ڈالر کا ریونیو کمایا اور 5 لاکھ 2 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کیں۔ مذکورہ سال سب سے زیادہ ریڈیو آمدنی امریکہ میں حاصل ہوئی جو ریڈیو سے حاصل ہونے والی عالمی آمدنی کا 45 فیصد بنتا تھا۔ جبکہ سب سے زیادہ ریڈیو ملازمتوں کے مواقع ایشیا میں پیدا ہوئے جو 35 فیصد تھیں۔پاکستان میں ایف ایم ریڈیو کا آغاز محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہوا۔ جب 1994 میں پاکستان کے پہلے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے باقاعدہ طور پر اپنی نشریات کا آغاز کیا۔ اِسے ایف ایم گولڈ کا نام دیا گیا تھا۔جس کی نشریات صبح 7 بجے سے 1 بجے تک نشر ہوتی تھی۔ یہ ایف ایم ریڈیو کی مکمل طور پر تجرباتی نشریات تھی، جس کی کامیابی کے بعد ہی 1996میں پاکستان بڑاڈ کاسٹینگ کارپورشن نے ایف ایم 101کی باقاعدہ نشریا ت کا آغازکیا۔تاہم ریڈیو پاکستان جس ایف ایم چینل پر اپنی نشریات پورے ملک میں فراہم کررہاہے۔اُس کا نام ایف ایم 93۔ تادمِ تحریر ایف 93 کے پاکستان میں 22 اسٹیشن کام کررہے ہیں۔جبکہ نجی طور پر ایف ایم ریڈیو کا لائسنس حاصل کرنے کا اولین اعزاز ایف ایم 99 کے پاس ہے۔ایف ایم 99 نے 23 مارچ 2003 میں اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت ملک بھر میں 150 سے زائد ایم ایف ریڈیو اسٹیشن اپنی نشریات باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے کئی نیوز چینلز بھی ایف ایم ریڈیو سروس اپنے سامعین کو فراہم کررہے ہیں۔جبکہ سینٹ نے بھی اپنا ایف ایم ریڈیو چینل شروع کرنے کا اعلان کیاہوہے جو ہنوز عملدارآمد کا منتظر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی کئی جامعات بھی اپنا اپنا ایف چینل بڑی سہولت کے ساتھ چلا رہی ہیں۔جن کے ذریعے طلبا و طالبات کو تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق معلومات اور ضروری آگاہی دی جاتی ہے۔ جبکہ راولپنڈی اسلام آباد میں اسلام آباد ٹریفک پولیس والوں کا بھی ایف ایم ریڈیو سٹیشن 92.4 ہے جس کا کام لوگوں کو ٹریفک کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنا ہے۔
حوالہ: یہ خصومی مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 09 فروری 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023
“ایک تھا ریڈیو۔۔۔ ایک ہے ایف ایم ریڈیو” ایک تبصرہ