Coronavirus Killed How Many Stars

ماں باپ کے ساتھ اظہارِ تشکر کا دن

محمد احسان کی عمر اس وقت 64 سال ہے،یہ کسی زمانے میں ملک کے مایہ ناز سرکاری انجینئر ہوا کرتے تھے،ساری زندگی انہوں خوب عیش و عشرت میں گزاری جس چیز کی تمنا کی، وہ ان کے سامنے دوڑتی ہوئی حاضر ہوگئی،اپنی بیوی سے انہیں شدید محبت بلکہ عشق تھا اس لیئے ساری زندگی وہ اُس کے لبوں کے متحرک ہونے کے انتظار میں رہے کہ کب اُس کی زبان سے کوئی فرمائش کی جائے اور وہ اُسے پورا کردیں اور محمد احسان کا اکلوتا بیٹا کامران جس کے لیئے انہوں نے جائز و ناجائز دولت کے انبار پوری لگن سے جمع کیئے تھے، اُسے تو انہوں نے دنیا کی ہر آسائش وقت اور عمر سے بھی بہت پہلے ہی لاکر دینا شروع کردی تھی، کامران کی جب سائیکل چلانے کی عمر ہوئی تو موٹر بائیک لاکر دے دی،جب موٹر مائیک چلانے کی عمر آئی تو گاڑی خرید کر دے دی اور جب اُس کی ملازمت ڈھونڈنے کا وقت آیا تو اپنی برسوں کی جمع پونچی اور تمام جائیداد اُس کے ہاتھوں میں تھما کر خود سکون سے ایک بھرپور ریٹائر زندگی گزارنے کے زعم میں آرام دہ بستر پر دراز ہوگئے اور آنکھیں بند کر کے دن میں خواب دیکھنے لگے کہ جس جاں سے پیارے بیٹے کی وہ ساری زندگی”چیزوں سے خدمت“ کرتے رہے اب وہ اکلوتا بیٹا اپنی چاند سی نئی نویلی دلہن کے ہمراہ ان کی پورے”اخلاص سے خدمت“ کرے گا۔یہ خواب چونکہ دن کو دیکھا گیا تھا اس لیئے جلد ہی ٹوٹ گیا۔ابھی محمد احسان کو بستر سے لگے پورے چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ انہیں رات میں باربار اُٹھنے کی بیماری لاحق ہوگئی۔جس سے ان کے بیٹے اور اُس کی نئی نویلی دلہن کو سخت کوفت ہونے لگی۔بڑے ارمان اور چاؤ سے لائی گئی بہو نے اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ انہیں شہر کے کسی اچھے سے ”اولڈ ہوم“میں داخل کرادیں اور ان کی زوجہ محترمہ کو ملازمہ کا روزمرہ کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لئے گھر میں ہی رکھ چھوڑیں۔محمد احسان نے اپنی رفیقِ زندگی کے بغیر ”اولڈ ہوم“ جانے سے لاکھ انکار کیا لیکن اُن کی ایک نہ چلی اور اب حالت یہ ہے کہ ہر چھ ماہ میں ایک بار ملاقات کرنے کے لیئے اُن کا بیٹااور بہو ”اولڈ ہوم“ اُن سے ملنے آجاتے ہیں۔محمد احسان اپنے پیارے ملاقاتیوں کے چلے جانے کے بعد ساری دنیا کو چیخ چیخ کر کہنا چاہتا ہے کہ”جب تک وہ تندرست تھا، کماتا تھا، اس وقت تک ان کے گھر والوں کا برتاؤ ان کے ساتھ مناسب رہا لیکن اب وہ ساری زندگی اُن کی ضرورتوں کا بوجھ اُٹھانے والے کو ہی خود پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ”اپنے“ گھر میں رکھنا نہیں چاہتے۔ سب کا خون سفید ہوگیا ہے لیکن پھر وہ یہ سوچ کر چُپ ہوجاتا ہے کہ بھلے ہی وہ اپنے وقت کا ایک کامیاب انجینئر رہا ہو مگر اُس نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے خود کو ٹھیک سے”انجینئرڈ“ نہیں کیا،ورنہ اُس کی بیوی اور بیٹا اُس کے ساتھ ایسی”بے رحمانہ حرکت“ آخر کرتے ہی کیوں“۔

زمانہ جتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے انسانی اقدار اسی تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہیں جہاں پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی خصوصی طور پر ناخلف اولاد اپنے والدین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے اسے ضبط تحریر میں لانا بے حد مشکل ہے۔ویسے تو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے شعور کی کمی کسی نہ کسی صورت ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ دورِ جدید میں جس تواتر اور کثرت کے ساتھ والدین کے ساتھ بدسلوکی کے دل دہلا دینے والے لرزہ خیز واقعات دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں یقینااس کی مثال تو ماضی کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ والدین کے ساتھ زیادتی و بدسلوکی کے واقعات دنیا کے ہر ملک، ہر معاشرہ،ہر فرقہ اور ہر قوم میں اس تواتر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہی اقوام ِ متحدہ نے 17 ستمبر 2012 ؁ء کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے اپنے تمام رکن ممالک کو پابند کیا کہ وہ ہر سال یکم جون کو بطورِ یوم والدین منانے کے پابند ہوں گے۔ اُس وقت سے ہر سال یکم جون کو دنیا بھر میں ”یوم والدین“ منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے یکم جون کو والدین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصدلوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ والدین کی عزت و توقیر معاشرہ کی نشوونما کا سب سے اہم جز ہے اس کے بغیر معاشرے کو جس افراط و تفریط کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس کا آخری نتیجہ انسانیت کی موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔اقوام متحدہ اپنے تمام رُکن ممالک کو اس دن کے ذریعے سے یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں ایسے قوانین اور پالیسیاں بھی بنائیں جن سے والدین کومعاشرہ میں عزت،وقار،ستائش اور تحفظ حاصل ہوسکے۔



گو کہ دنیا بھر میں ”والدین“اپنی اولاد کے ہاتھوں جس قسم کے الم ناک رویوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اُن کے مقابلے میں پاکستان میں حالات فی الحال قدرے بہتر ہیں لیکن اتنے بھی بہتر نہیں ہیں کہ جنہیں ہم اطمینان بخش قرار دے کر صرف ِنظر کر سکیں کیونکہ روز بہ روزہمارے ہاں بھی والدین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔آج سے 25 سے 30 سال پہلے ہمارے والدین انفرادی اور اجتماعی طور پر جس اہمیت، احترام اور تحفظ کا احساس رکھتے تھے آج اُس کا عشر عشیر بھی معاشرے میں باقی نہیں رہا۔اُس وقت یہ تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا کہ پاکستان میں کبھی ”اولڈ ہوم“ بھی کھلیں گے۔مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ”اولڈ ہوم“کھل چکے ہیں اور مزید کھل رہے۔اولڈ ہوم چاہے کتنے ہی خوبصورت اور آرام دہ کیوں نہ ہوں مگر معاشرہ کے لیئے ان کا وجود ایک المیہ کی علامت ہی ہوا کرتا ہے۔یہ وقتی طور پر والدین کی مادی ضروریات کی تکلیف تو کچھ کم کر سکتے ہیں مگر کسی بھی صورت اُنکے اُن نفسیاتی و ذہنی دکھ درد کا مداوا نہیں بن سکتے جس کاشکار اولڈ ہوم میں آنے والے اکثر و بیشتر والدین ہوتے ہیں۔اولڈ ہوم ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیر فطری رویوں کا مظہر ہیں۔ہمیں چاہیئے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان عوامل کا نہ صرف سراغ لگائیں جن کی وجہ سے ہمارے مضبوط خاندانی معاشرہ میں ”والدین“ ادب و احترام کے حوالے سے شکست و ریخت کا شکارہورہے ہیں بلکہ اُن کے تدارک کیلئے ہر ممکن عملی قدم بھی اُٹھائیں۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دنیا بھرمیں سالانہ عالمی ٹیچر ایوارڈ کا انعقاد کرنے والی تنظیم ”ورکی فاونڈیشن“ نے والدین کے ترجیحات اور رویوں کو جاننے کے لیے 29 ممالک کے 83,027 والدین کا سروے کیا تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کس مقام پر”سنگین غلطی“ کے مرتکب ہورہے ہیں کہ بچے بڑے ہوکر اپنے آپ کو والدین سے وابستہ ہونے میں عدم دلچسپی سے کام لے رہے ہیں۔ سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر ماں باپ کے رویوں میں اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کے روزگار کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دنیا کے اکثروالدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے گھریلو جھگڑوں،کیرئیر یا کاروباری ترقی،ملکی سیاست اور دیگر تنازعات پر زیادہ غور کرتے ہیں،اوربچوں کو اُن کی ذہنی صلاحیت،کارکردگی اور فیصلہ سازی میں معاون اشیاء مثلاً غیر نصابی کتابیں،کیلکولیٹر،برقی ڈکشنری یا اس نوعیت کی دیگر سائنسی آلات فراہم کرنے کی بہ نسبت اسکول کی فیس،آمدورفت کے اخراجات اور ٹیوٹر کو تنخواہ دینے میں زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔جبکہ دنیا کے صرف گیارہ فیصد والدین ہی اپنے بچوں کے ساتھ چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ گزار پاتے ہیں۔ رپورٹ سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق والدین کے یہ ہی غیر دانشمندانہ رویے بچوں کو ذہنی و قلبی طور پر والدین سے دورکر رہے ہیں۔

یکم جون ”یوم والدین“ کے صورت میں جہاں ہماری نئی نسل سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی محبتو ں،قربانیوں اور شفقتوں کا احساس کریں اور اُنہیں وہی عزت، احترام اور مقام دیں جس کا ہم سے ہمارا مذہب،ہمارا معاشرہ،ہماری اقدار اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہم سے تقاضا کرتی ہے۔ وہیں والدین پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور اولاد کے درمیان مزاج آشنائی کا ایک مناسب ماحول تخلیق کریں۔اس کے لیئے دونوں فریقین کا ایک دوسرے کے مزاج اور رویوں سے ہم آہنگی حاصل کرنا از حد ضروری ہے اور ہم آہنگی تب ہی حاصل ہوگی جب دونوں فریق ایک دوسرے کی ذہنی و نفسیاتی ضروریات سے متعلق آگہی حاصل کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کریں گے۔اولاد کو یہ سوچنا ہو گا کہ زمانہ چاہے کتنا بھی جدید ہو جائے بہرحال کچھ روایات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی پابندی والدین کا دل جیتنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔جبکہ والدین کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگاکہ وہ اولاد سے متعلق تمام فیصلے صرف اپنے ماضی کے محدود مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں نہیں کر سکتے اُنہیں بھی جدید اطلاعات کے سمندرسے اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور مستفید کرنا ہوگا۔ جیسا کہ امامِ علم و حکمت حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ”اے لوگو! کبھی بھی اپنی اولاد کو اپنے جیسا بننے پر مجبور نہ کرو کیونکہ یہ اپنے زمانے کے لیئے پیدا کیئے گئے ہیں اگر انہیں بھی تمہاے جیسا بنانا ہی قدرت کا منشا ہوتا تو پھر وہ انہیں پیدا ہی کیوں کرتا اس کے لیئے تو تم لوگ ہی کافی تھے“۔ آج کا دور کیونکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دورہے اور ہم میں سے ہرشخص کا زیادہ تروقت انٹرنیٹ پر ہی صرف ہوتا ہے اس لیئے یہاں ہم والدین کی تربیت، اولاد کی آگہی کے حوالے سے دنیا کی چند بہترین ویب سائیٹس دے رہے جوہماری ناقص رائے میں ہر کسی کے لیئے معلومات افزا ثابت ہو ں گی۔
1۔www.understood.org
تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہترین اور سازگار ماحول فراہم کریں جو ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔یہ ویب سائیٹ اُن تمام امور کا احاطہ کرتی جو آپ کو بچوں کے مسائل کو سمجھنے یا اُن کو حل کرنے کے سلسلے میں آپ کو کبھی بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔
2۔www.parentmap.com
یہ ویب سائیٹ جہاں دنیا بھر کے کامیاب والدین کے تجربے، مشاہدے اور معلومات کا نچوڑ آپ کے سامنے پیش کرتی ہے، وہیں ایسے مقابلے بھی کرواتی ہے جن میں آپ کو ایک اچھا والد یا والدہ بننے کا چیلنج دیا جاتا ہے اگر آپ اس چیلنج کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ویب سائیٹ آپ کو انتہائی قیمتی انعامات سے بھی نوازتی ہے۔
3۔www.freeprintablebehaviorcharts.com
اس ویب سائیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہربات، رویہ اور کام کولمبے چوڑے مضامین یا لیکچرز کے بجائے مختلف چارٹس کی شکل میں سمجھا یا جاتا تاکہ آپ کواس ویب سائیٹ میں دیئے گئے مشورے عملی طور پر اپنی روز مراہ زندگی کا حصہ بنانے میں آسانی ہو۔ آپ ان چارٹس کو مفت میں ڈاونلوڈ کرنے کے ساتھ،ساتھ پرنٹ بھی کر سکتے ہیں۔
4۔https://www.fathers.com
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ ویب سائیٹ اچھا باپ بننے کے لیئے آپ کو وہ تمام آزمودہ نسخے اور حل فراہم کرتی جو آپ کے اور بچوں کے درمیان اچھے تعلقات کے لیئے معاون ہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ،ساتھ یہاں آپ اچھا والدین بننے کے لیئے خصوی کورسز بھی کرسکتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت!تو کیا پھر تیار ہیں آپ کوالیفائیڈ والد بننے کے لیئے؟
5۔www.workingmother.com
اگر آپ ورکنگ مدر ہیں اور آپ پریشان رہتی ہیں کہ کم سے کم وقت میں کس طرح اپنے بچوں کے لیئے ایک مہربان ماں کا درجہ حاصل کر یں تو یہ ویب سائیٹ آپ ہی کے لیئے ہے یہاں آپ کے لیئے وہ سب معلومات موجود ہیں جس کے ذریعے آپ اپنے کام یا ملازمت کو متاثر کیئے بغیر اپنے بچوں کی درست سمت میں تربیت و رہنمائی بالکل کسی گھریلو خاتون خانہ کی طرح کر سکتی ہیں۔
آج کے جدید دور میں فلم بھی ایک ایسا میڈیم ہے جو ہر ذہن کو بہت کم وقت میں متاثر کر کے اُسکے رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ہمارے ہاں تو معاشرے کی شکست و ریخت کا ذمہ دار بھی اسے ہی قرار دیا جاتا ہے۔ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگرایک بات طے ہے کہ آپ کلیتاً اس میڈیم پر پابندی بھی نہیں لگا سکتے لیکن اگر آپ چاہیں تو ایک کام ضرور کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ ایسی فلمیں بھی دیکھیں جو آپ کے لیئے والدین کے مسائل اجاگر کرنے بلکہ ان کے حل کے لیئے بھی آپ کو کوئی راہ سجھاسکیں۔یقین مانیئے دنیا بھر میں ہر سال بے شمار فلمیں والدین کے مسائل،شعور اور تربیت کے لیئے بھی بنائی جاتی ہیں اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں تو یہاں ہم چند فلموں کے نام دے رہے آپ انہیں دیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی دکھائیں اُمید ہے کہ پھر آپ ہماری رائے سے متفق ہو جائیں گے۔
1۔پیرنٹل گائیڈنس (Parental Guidance)
2012 ء میں اینڈی فک مین کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم ایک ایسی کہانی پر مشتمل جس میں ہنسی مذاق میں والدین کے عزت و احترم کی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا۔دنیا بھر میں اس فلم نے 119.8 ملین ڈالر کا بزنس کیا جس سے آپ اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
2۔لائم لائف (Lymelife)
دو بھائیوں ڈیرک مارٹینی اور اسٹیون مارٹینی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں والدین کی بڑھتی عمر کے مسائل اور پریشانیوں کو انتہائی موثر اندز میں پیش کیا گیا ہے۔یہ فلم 2008ء میں پردہ اسکرین پیش کی گئی تھی۔
3۔باغبان
2003 ء میں بننے والی اس بھارتی فلم میں ایسے والدین کو بطور مرکزی کردار پیش کیا گیا ہے جو اپنی ریٹائرمنٹ کی عمرکی عمر کے بعد اپنے بچوں کی طرف سے ناقدری اور توہین آمیز سلوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔مگر بجائے ہمت ہارنے،یا رونے دھونے کہ وہ کیسے ان نامساعد حالات سے واپس نکلتے ہیں یہ ہی اس فلم کی خاص بات ہے۔جس میں والدین اور بچوں کے لیئے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
4۔مسز ڈاوٗٹ فائر(Mrs. Doutfire)
والدین کی محبت اور خاندانی رویوں کو مزاحیہ اندز میں پیش کرتی یہ فلم 1993ء میں پردہ اسکرین پر پیش کی گئی۔اس فلم میں اولاد کی تربیت کے کئی پوشیدہ زاویے منکشف کیئے گئے ہیں۔
5۔پیرنٹ ہڈ(Parenthood)
126 ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کرنے والی یہ کامیڈی،ڈرامہ فلم ایسے والد کے گر د گھومتی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کیریئر میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے، اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیئے اسے کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ اس فلم میں ہی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 31 مئی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں