world-most-expensive-golden-objects

سونے پہ سہاگا

سونا فقط ایک قیمتی دھات ہی نہیں ہے بلکہ کرہ ارض پر پائی جانے والی واحد ایسی انمول دھات ہے،جس کی محبت میں انسان ہمیشہ سے ہی جنون کی حد تک مبتلا رہا ہے۔ابتدا میں سونے کا استعمال کرنسی کے طور پر کیا جاتا تھا،بعد ازاں سامان کی خرید فروخت اور معاشی خدمات کے تبادلے کو مستحکم رکھنے کے لیئے بھی سونے پر انحصار کیا جانے لگا۔عالمی معیشت میں سونے کایہ کلیدی کردار آج تک بدستور جاری و ساری ہے اور دورِ جدید کی تقریباً ہر ریاست کے زیادہ تر مالیاتی ذخائر سونے پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ بظاہر سونا کسی بھی شئے کو بلحاظ کارکردگی بہتر نہیں بناتا،لیکن اس کے باجود ہم انسان چمکدار سونے کی دھات کو”وجہ خوب صورتی“ گردانتے ہیں اور شاید اسی لیئے سونا ہمارے لیئے ایک پہناوا بھی بن چکا ہے، بالخصوص خواتین کے لیئے۔ لطیفہ ملاحظہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک کروڑ روپے کی قیمتی گاڑی ہو اور ساتھ ہی اُس پر سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کسی نام کی شکل میں نصب ہوتو۔ یقین مانیئے دیکھنے والے سونے کے چھوٹے سے ٹکڑے کی زیادہ ستائش کریں گے۔جبکہ کارآمد اور باسہولت گاڑی کی تعریف کم کریں گے۔ اس ایک مثال سے ہم انسانوں کے نزدیک سونے کی غیر معمولی قدرو قیمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ زیر ِ نظر مضمون میں سونے سے بنائی جانے والی چند مضحکہ خیز،غیرضروری اورعجیب و غریب اشیاء کا تذکرہ پیش خدمت ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ زمانہ کو ئی بھی ہو بہرکیف سونا باالآخر سونا ہی ہے۔

سونے کا تابوت
آپ نے یہ محاورہ تو ضرور سُنا ہی ہوگا کہ بعض افراد منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں،یعنی پیدائشی امیر ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری دنیا میں کچھ متمول افراد ایسے بھی ہیں،جن کی تدفین بھی سونے کے تابوت میں کی جاتی ہے۔ جی ہاں! صرف ماضی میں ہی نہیں بلکہ حال میں بھی بے شمار لوگ مرنے سے قبل اپنی تدفین کے لیئے سونے کے تابوت کا بندوبست کر کے جاتے ہیں۔ دلچسپ با ت تو یہ ہے کہ”پروٹیمین“ نامی سونے کا تابوت دورِ جدید کا ایک مشہور تابوت ہے،جسے مائیکل جیکسن اور جیمزبراؤن وغیرہ جیسی معروف شخصیات کی آخری رسومات کے دوران بارہا ملاحظہ کیا جاچکا ہے۔ اس سنہری تابوت کو عالمی ذرائع ابلاغ میں ”گولڈن ارس آف“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔واضح رہے کہ”پروٹیمین“ نامی سونے کا تابوت،مختلف اقسام کے تابوت بنانے والی ایک قدیمی کمپنی ”بٹس ویل کاسکیٹ کمپنی“ فروخت کرتی ہے۔بیٹس ویل کاسکیٹ کمپنی اعلی معیار کے تابوت تیار کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے۔اس کمپنی کی بنیاد1884 میں جان ہلن برینڈ نے نقش و نگار سے مزین اعلی درجے کی لکٹری کے تابوت تیار کرنے کے لیئے رکھی تھی۔ بعد ازاں جان ہلن برینڈ نے 1906 میں سونے کے تابوت بنانا بھی شروع کردیئے۔

سونے کے تابوت کی تیاری میں تقریبا دو ہفتوں کا وقت لگتا ہے، کیونکہ اسے کمپنی کے ماہر مکمل طور پر ہاتھ سے بناتے ہیں۔تابوت کا اندرونی حصہ مخملیں اور دبیز کپڑے سے بنا یا جاتا ہے جبکہ بیرونی حصے پر 24 قیراط خالص سونے کی پتریاں انتہائی نفاست سے چڑھادی جاتی ہیں۔نیزاگر گاہک کی خواہش اور فرمائش ہوتو تابوت کے باہری حصے پر کمپنی کی جانب سے نقش و نگار کندہ کرکے بھی دے دیئے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں تابوت کے بالائی حصے میں خفیہ تالا بھی نصب ہوتا ہے اورتابوت کو زمین میں تادیر محفوظ رکھنے کے لیئے مخصوص کیمیکل کی تہہ بھی چڑھائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ سونے کا یہ تابوت آن لائن فروخت کے لیئے بھی دستیاب ہے۔ یعنی دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا شخص اپنی یا اپنے لواحقین کی تدفین کے لیئے سونے کے اس قیمتی تابوت کو 24,000 امریکی ڈالر کے عوض جس کی مالیت پاکستانی روپے میں اڑتیس لاکھ باسٹھ ہزار بنتی ہے، باآسانی خرید سکتاہے۔

سونے کے شیشوں والی سنہری عینک
یقینا آپ نے ایسی عینک کے بارے میں تو ضرور سنا ہی ہوگا کہ جس کا فریم سونے کا بنا ہولیکن شاید آپ نے ایسی عینک کے بارے میں کبھی کچھ نہ سنا اور نہ پڑھا ہو جس کے صرف فریم ہی نہیں بلکہ شیشوں میں بھی سونا شامل کیا گیاہو۔ سننے اور پڑھنے بھلے یہ بات کتنی عجیب ہی کیوں نہ لگے بہرکیف، سچائی یہ ہی ہے کہ اَب عینک کے لیئے سونے سے تیارکردہ شیشے دنیا بھر میں فروخت کے لیئے دستیاب ہیں۔لیکن ان شیشوں کو خریدنے سے پہلے ذرا اپنی پہنی ہوئی عینک کے شیشوں کو اچھی طرح سے صاف ضرور کر لیجئے گا،تاکہ بعد میں آپ یہ شکوہ نہ کریں کہ ہمیں قیمت ٹھیک سے نظر نہیں آئی تھی۔

یادش بخیر! ان شیشوں کی ایک جوڑی کی مالیت 75,000 امریکی ڈالر ہے۔پاکستانی کرنسی یہ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ بظاہر آپ کو قیمت بہت زیادہ محسوس ہورہی ہو گی۔ لیکن جس حیرت انگیز انداز میں یہ سونے کے شیشے تیار کیئے جاتے ہیں،اُسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے عینک کی شیشوں میں سونے سے زیادہ اسے بنانے والے ہنرمندوں کی ہنرمندی کی قیمت شامل کی گئی ہے۔ دراصل سونے سے شیشے نہیں بنائے جاتے بلکہ مخصوص شیشے میں خالص سونے کے ننھے، ننھے ذرات ڈالے جاتے ہیں، کچھ اس مہارت کے ساتھ کہ عینک پہننے والے کو اس میں سے صاف دکھائی دیتے رہے اور دیکھنے والوں کو عینک کا سنہری اور روپہلا سونا بھی نظر آتا رہے۔یاد رہے کہ ہنرمند کارکن کو عینک کا صرف ایک شیشہ مکمل کرنے میں پورے 40 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یعنی 80 گھنٹوں کی طویل عرق ریزی کے بعد جاکر ایک عینک میں نصب کرنے کے لیئے سونے کی یہ دو نایاب اور قیمتی شیشے تیار ہوتے ہیں۔

گولڈن باربی کیو گرل
”مانا کہ سونے کو کھایا نہیں جاسکتا،لیکن سونے پر پکایا تو جاسکتاہے“۔جس کے ذہن رسا میں یہ اچھوتا اور منفرد خیال آیا ہوگا، بلاشبہ سب سے پہلے اُسی شخص نے ہی سونے کی باربی کیو گرل بنانے کے بارے میں سوچا ہوگا۔ ویسے تو ہر باربی کیو ہی کھانے میں مزیدار ہوتی ہے لیکن اگر باربی کیو سونے کی گرل پر پکائی گئی ہوتو پھر ایسی بارکیو مزیدار ہونے کے ساتھ ساتھ یقینا بہت قیمتی بھی ہوگی اور اگر اُسے تناول فرمانے والے افراد کو خوش قسمت بھی قرار دے دیا جائے کچھ مضائقہ نہ ہوگا۔ کیونکہ سونے سے بنی ہوئی گولڈن باربی کیو گرل کی قیمت 155,000 امریکی ڈالر(مبلغ دو کروڑ اُنچاس لاکھ پاکستانی روپیہ) ہے۔واضح رہے کہ برنر ایل ایس 4000 نامی اس گولڈن باربی کیوگرل کو آسٹریلیائی گرل کمپنی ”بیف ایٹر“ نے خالص 24 قیراط سونے سے بنایا ہے۔ جس میں وارمنگ ریک سے لے کر چھوٹے سے نٹ بولٹ تک ہر شئے سونے کی ہے۔ شاید اسی لیئے گولڈن باربی کیو گرل کو دنیا کی سب سے مہنگی گرل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس گرل کو 2007 کے سڈنی ہوم شو کے لیئے تیار کیا گیا تھا اور یہ قابلِ فروخت نہیں ہے۔ ”بیف ایٹر“ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ”گولڈن باربی کیو گرل بالکل ایک عام سی فولادی گرل کی طرح استعمال میں لائی جاسکتی ہے اور اس میں لگائے گئے سونے کو آگ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیونکہ سونے کو پگھلنے کے لیئے 2000 فارن ہائیٹ درجہ حرات درکار ہوتاہے،جبکہ زیادہ تر باربی کیو گرل کا درجہ حرارت 700 ڈگری فارن ہائیٹ کے قریب رہتا ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنی کی جانب سے سڈنی ہوم شو کے دوران بے شمار باربی کیو تیار کر کے شرکاء کو بالکل مفت لذت کام و دہن کے لیئے بھی پیش کیئے گئے تھے۔

سونے کی قمیض
برصغیر پاک و ہند کے لوگ سونے سے کتنی محبت کرتے ہیں؟۔ یہ بات ساری دنیا صرف جانتی ہی نہیں بلکہ مانتی بھی ہے۔ ہماری خواتین سونے کے ہار،کنگن اور بالیوں کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں بعض مرد بھی سونے کی گھڑیاں،زنجیر اور انگوٹھیاں پہن کر اپنی امارت کا فخریہ اظہار کرنے میں ذرہ برابر بھی عار نہیں سمجھتے ہیں۔ سونے کی اسی محبت اور جنون میں مبتلا بھارتی شہر پونا سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ پتی تاجر”دتا پوگے“نے زیب تن کرنے کے لیئے سونے کی قمیض اپنے لیئے تیار کروائی ہے۔ سونے کی اس قیمتی ترین قمیض میں تقریباً 7 پاؤنڈ سونا استعمال کیا گیا ہے اور اس کی قیمت 250,000 امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے،جس کی پاکستانی روپے میں مالیت چار کروڑ دو لاکھ بنتی ہے۔ سونے کی یہ قمیض جس سنار نے تیار کی ہے،اُس کا خاندان گزشتہ 133 سال سے زرگری کے پیشہ سے منسلک ہے۔ نیز سونے کی قمیض کی تیاری کے لیے اُن زرہوں کی تصاویر سے بھی مدد لی گئی ہے،جنہیں ہندوستان کے راجہ،مہاراجہ دورانِ جنگ خصوصی طور پر پہنا کرتے تھے۔

حیران کن طور پر جو بھی دتا پوگے کو سونے کی قمیض میں ملبوس دیکھتا ہے،وہ رشک اور اظہار حیرانگی کیئے بنا نہیں رہتا۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ پیسے کا بے دردی کے ساتھ کیا جانے والا ایک ضیاع ہی تو ہے۔لیکن دتاپوگے اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اُن کا کہنا ہے کہ ”کچھ لوگ بڑی گاڑیوں اور بڑے گھر کے مالک بننا چاہتے ہیں،گو کہ وہ سب بھی میرے پاس ہے لیکن میرا حقیقی انتخاب اوردیرینہ خواہش ہمیشہ سے سونا کا حصول ہی رہی ہے۔ لہٰذا میں نے سونے کی قمیض پہننے کا اپنا برسوں پرانا خواب سچ کردکھایااور میرے لیئے سب سے خوشی کی بات تو یہ ہے کہ جیسے جیسے سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے میری قمیض کی وجہ سے میرے اثاثہ جات میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے“۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دتاپوگے سونے کی قمیض کے ہمراہ سونے کی زنجیریں،چوڑیاں،گھڑی اور انگوٹھیاں بھی ضرور پہنتے ہیں اور اپنے اس قیمتی ترین پہناوے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیئے اس نے نجی محافظوں کی فوج ظفر موج کا بھی بندوبست فرمایا ہوا ہے۔

ٹوائلٹ پیپر رول اور وہ بھی سونے کا
اسے آپ مضحکہ خیز اسراف تو ضرور کہہ سکتے ہیں مگرمذاق یا کسی دیوانہ کی بے پر کی بڑ ہر گز نہیں۔کیونکہ واقعی ایک گھریلو مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی نے ٹوائلٹ پیپر کا ایسا رول صارفین کے لیے بطور مصنوعہ فروخت کے لیئے پیش کیا ہے۔ جس کی سب اہم خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ مکمل طورپر خالص سونا سے بنایا گیا اور اُس کی قیمت 1.3 ملین ڈالر یعنی بیس کروڑ بیانوے لاکھ پاکستانی روپیہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سونے کے اس ٹوائلٹ رول کو بیچنے والی کمپنی واقعتا یہ دعوی بھی کرتی ہے کہ اُن کا بنایاگیا ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنا ہر لحاظ سے محفوظ ہے اور اس کی تیاری میں حفظان صحت کے تمام اُصولوں کو بدرجہ اُتم ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مگر اس قیمتی ترین ٹوائلٹ پیپر کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری صارف کی اپنے اوپر عائد ہوتی ہے۔نیز یہ سونے کا ٹوائلٹ پیپر کسی بھی عام ٹوائلٹ پیپر کی مانند مکمل طور پر ڈسپوزیبل یعنی صرف ایک بار استعمال کے لیئے ہی بنایا گیا“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار جب آپ اسے استعمال کرلیں تو یہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔اس لحاظ سے ٹوائلٹ پیپر کے اس رول کو انتہائی مہنگا، غیر دانشمندانہ اور گھاٹے کا سودا بھی قرار دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ سونے کی بیشتر اشیاء چاہے کتنی ہی عجیب و غریب اور غیرضروری کیوں نہ ہوں بہرحال وہ کم ازکم 10 برس تو ضرور استعمال کی ہی جاسکتی ہیں۔لطیفہ تو یہ ہے کہ کمپنی نے ابتدائی طور پر خالص سونے سے تیارکردہ ٹوائلٹ پیپر کے صرف10 رول بنائے تھے،جن میں سے 8 فروخت بھی ہوچکے ہیں۔

سونا،کھلونا
ہمارا تو ماننا ہے کہ ”سونا اور دوائیاں ہمیشہ بچوں کی پہنچ سے دُور ہی رکھنی چاہیے،کیونکہ دواؤں سے بچے کھیل کھیل میں اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ سونا بچوں کے ہاتھوں گُم یا خراب ہوجانے کی صورت میں آپ کو سخت معاشی نقصان پہنچ سکتاہے“۔ لیکن شاید دنیا کی واقعی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ جب ہی تو بگاٹی وییران ڈائمنڈ لمیٹڈ نامی معروف کھلونا ساز کمپنی نے بچوں کے لیئے کھیلنے کے لیے خالص سونے سے بنی ہوئی کھلونا کار بنادی ہے۔ جس کی مالیت 2.9 ملین ڈالر ہے یعنی پاکستانی کرنسی میں یہ کھلونا نما کار مبلغ چھیالیس کروڑ،سرسٹھ لاکھ روپے میں دستیا ب ہے۔ کمپنی ترجمان کے مطابق یہ کھلونا کار، دو وجوہات کی بناء پر اس قدر گراں قد رہے۔اول یہ کہ اس کو بنانے میں تقریباً دو ماہ کاعرصہ لگا اور اس دوران فیکٹری میں کوئی دوسری مصنوعہ نہیں بنائی گئی اور تمام تر توجہ کمال ہنرمندی،دیدہ زیب دست کاری کے ساتھ اس کھلونے کی تیاری پر ہی مرکوز رکھی گئی۔دوم اس کھلوناکار میں خالص سونے کے ساتھ ساتھ بیش قیمت ہیرے بھی نصب کیئے گئے ہیں۔ اگر آپ ارب پتی ہیں تو اپنے بچے کے لیئے اس کھلونے کو خرید سکتے ہیں۔لیکن یادرکھیئے گا کہ اگر خدانخواستہ یہ سونے سے بنی ہوئی کھلونا نما کار آپ کا پیارا،راج دُلارا بچہ کہیں گم کر بیٹھا تو پھر اچھی طرح سے خاطر جمع رکھئے گا کہ آپ کو نقصان بھی لاکھوں کا نہیں بلکہ کروڑوں کا ہی برداشت کرنا ہوگا۔

بلیک ڈائمنڈ آئی فون فائیو
ایک دہائی قبل موبائل فون اسٹیٹس سمبل یعنی اَمارت کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہوا کرتا تھا اور یہ صرف متمول افراد کے ہاتھوں میں ہی دکھائی دیا کرتا تھا۔ لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے اسمارٹ فون کو ہر خاص وعام کی دسترس میں پہنچا دیا اور کم ازکم تیکنیکی کارکردگی اور سہولیات کے اعتبار سے سب ہی اسمارٹ فون یکساں صف میں قطار اندر قطار کھڑے کردیئے۔سائنس و ٹیکنالوجی کا یہ کارنامہ عام افراد کے لیئے تو ایک نعمت ہے لیکن امراء کے لیئے سخت زحمت بن گیا ہے۔ کیونکہ موبائل فون صارفین کا ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے،جسے صرف برانڈ سے سروکار ہوتا ہے، پھر چاہے اسمارٹ فون کی تیکنیکی سہولیات کیسی بھی اور اُس کی قیمت کتنی بھی کیوں نہ ہو۔ موبائل فون صارفین کا یہ طبقہ فون بس اپنی اَمارت کے اظہار کے لیے خریدناچاہتاہے۔ تاکہ وہ سب سے الگ اور منفرد نظر آسکے یا پھر جوفون اُن کے پاس موجود ہو،اُس کاکسی عام شخص کی دسترس میں ہونا ناممکن ہو۔ صارفین کے ایسے طبقہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیئے موبائل فون کمپنیاں خصوصی اسمارٹ فونز تیار کرتی ہیں،جن کی بنیادی خصوصیت اُن کا مہنگا اور قیمتی ہونا ہی ہوتاہے۔

بلیک ڈائمنڈ آئی فون فائیو ایک ایسا ہی گراں قدر اسمارٹ فون ہے،جسے ہانک کانگ کی ایک کاروباری شخصیت کے لیئے معروف صرافہ کمپنی (Stuart Hughes) نے آئی فون کی طرز پر خصوصی طور پر تیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ صرافہ کمپنی گراں قدر اشیاء بنانے میں عالمی شناخت رکھتی ہے۔کمپنی کے ترجمان کے مطابق ا س فون کی تیاری میں نو ہفتے لگے تھے اور اسے مکمل طور پر انسانی ہاتھوں سے تیار کرنے کا خصوصی التزام بھی کیا گیا تھا۔ نیز یہ اسمارٹ فون 24 قیراط خالص سونے سا بنایا گیا ہے اور اس میں سو سے زیادہ قیمتی ہیرے اور چھ سو سے زائد دیگر بیش قیمت جواہرات بھی جڑے گئے ہیں۔ مگر اس فون کی اصل انفرادیت اس کی ہوم اسکرین بٹن میں لگا 26 قیراط کا ایک سیاہ ہیرا ہے جو انتہائی قیمتی اور نادر بتایا جارہاہے۔ اِس اسمارٹ فون کی رعایتی قیمت 15.3 ملین ڈالر۔ یعنی صرف 2 ارب 46کروڑ25 لاکھ پاکستانی روپیہ سکہ رائج الوقت بنتی ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے میگزین میں 11 اپریل 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں