world-most-dangerous-jobs

خطروں کے ملازم

ویسے تو ہم میں سے زیادہ تر افراد کی اولین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ ملازمت ایسی حاصل کی جائے جس میں کام کم سے کم اور تنخواہ،اختیارات و دیگر سہولیات زیادہ سے زیادہ ہوں۔اِسی خیال کے زیر اثر ہمارے ہاں سرکاری ملازمت کا حصول کسی بھی نوجوان کے نزدیک سب سے زیادہ خوش کن خواب تصور کیا جاتا ہے۔جس کی تعبیر پانے کے لیئے سفارش،رشوت،دھونس،دھاندلی جیسے سارے لوازمات کا آزادانہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جب کہ کچھ ملازمتیں ہمیشہ ہی سے ہمارے ہاں خطرناک تصور کی جاتی ہیں مثلاً پولیس کا سپاہی،ہائی وولٹیج بجلی کے کھمبوں کی مرمت کرنے والے لائین مین،یا سرکس میں کرتب دکھانے کی نوکری بالخصوص موت کے کنویں میں موٹر سائیکل یا موٹر کار چلانے جیسے کام کرنے والوں کو معاشرے میں ”خطروں کے کھلاڑی“ جیسے القاب سے پکارا جانا عام سی بات ہے اور اِن ملازمتوں میں پائے جانے والے خطرات و مشقت کے باعث اکثر لوگ اِن شعبوں میں ملازمت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ملازمت ہو تو ایسی ہو

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ 2019 میں جاری ہونے والی خطرناک ملازمتوں کو فہرست میں اِن میں سے ایک بھی ملازمت شامل نہیں ہے۔ بلکہ جن ملازمتوں کو ”خطرناک ملازمتوں“ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے،ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کئی ایک ملازمتوں کو ہم میں سے اکثر افراد معمول کی محفوظ ملازمتیں ہی تصور کرتے ہوں۔واضح رہے کہ خطرناک ملازمتوں کی فہرست مرتب کرتے ہوئے محقیقین اور ماہرین سماجیات کی طرف سے جن نکات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، اُن میں دورانِ ملازمت،ملازمین کی شرح اموات،ملازمت کی جگہ پر ناگہانی حادثات کے امکانات اور پیشہ ورانہ کام کے باعث پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ کا دورانیہ وغیرہ جیسی قابلِ ذکر وجوہات شامل ہیں۔مثال کے طور پر موت کے کنویں میں گاڑی چلانے کی نوکری کرنے والے کو اِس فہرست میں اِس لیئے شامل نہیں کیا گیا،دنیا بھر میں سرکس دکھانے والی اداروں نے اپنے ملازمین کے تحفظات کے لیئے اتنے زیادہ حفاظتی اقدامات یقینی بنادیئے ہیں کہ اُن کے ملازمین کے لیئے حادثات کے اِمکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں جبکہ حالیہ وقتوں میں سرکس میں کام کرنے والے کسی بازی گرکے مقابلے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سوٹ،بوٹ پہن کر سیلز مین کی ملازمت کرنے والا شخص ”سیلز ٹارگٹ“ پورا کرنے کے فراق میں ہروقت ذہنی دباؤ میں رہنے کی وجہ سے زیادہ جان لیوا خطرات میں گھرا ہوتاہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ جدید دنیامیں ”ہیں ملازمتیں کچھ اور نظر آتی ہیں کچھ“ کے مصداق ہیں۔قصہ کوتاہ زیر نظر مضمون میں ماہرین کے تحقیقی تناظر میں دنیا کی سب سے خطرناک ملازمتوں کا ایک اجمالی سا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔

پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز
ہوا کے دوش پر سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ سفر کرنے والے پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز کی ملازمت کتنی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔اِس کا اندازہ صرف اُس ایک فضائی حادثہ سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔جو گزشتہ دنوں کراچی میں پی آئی اے کی فلائٹ 8303 کے ساتھ پیش آیا اور جس میں پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز سمیت 90 معصوم افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اُصولی طور پر پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے کے حادثے میں بے شمار عوامل براہ راست ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔جیسے فضائی طیارہ میں تیکنیکی خرابی کا ہونا، ائیرپورٹ حکام کی مبینہ غفلت،سول ایو ی ایشن اتھارٹی کی نااہلی یا موسم کی ناموافق صورت حال وغیرہ وغیرہ۔ مگر ستم ظریفی دیکھیئے کہ روزِ اوّل سے ہی میڈیا میں پی آئی طیارہ حادثہ کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف پائلٹ سجاد گل کے سر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ پائلٹ سجاد گل اَب اِس دنیا میں موجود نہیں ہے۔اِس لیئے سب چاہتے ہیں طیارہ حادثے کا ملبہ پائلٹ کے کھاتے میں ڈال خود کلین چٹ حاصل کر لی جائے۔ اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں اِس طیارہ حادثہ کے رونما ہونے کے بعد دیگرپائلٹ کس قدر ذہنی دباؤ میں صبح و شام اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہوں گے۔ امریکی بیورو آف لیبر کے سال 2019 میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز کے زخمی اور ہلاک ہونے کی شرح دیگر تمام ملازمتوں سے 10 گنا زیادہ ہے۔جس کی وجہ سے پائلٹ کی نوکری کو خطرناک ملازمتوں میں سرفہرست شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ مسافر بردار طیاروں کے مقابلہ میں دیگر طیارے اُڑانے والے پائلٹ کے دوران پرواز ہلاک یا زخمی ہونے کے امکانات اور بھر بڑھ جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس چھوٹے پرائیوٹ طیارے اور کارگو طیارے چلانے والے 75 فیصد پائلٹ دورانِ پرواز کسی نہ کسی حادثے کا ضرور شکار ہوئے تھے۔

بُل رائڈر (Bull Riders)
بُل رائڈنگ یا بُل فائٹنگ سننے میں ایک دوسرے کا مترادف الفاظ لگتے ہیں لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ دو بالکل الگ الگ پیشہ وارانہ کام ہیں۔ بل فائٹنگ ایک ایسا کھیل ہے جس میں بل فائٹر ایک بھینسے کو ہلاک کرکے کامیاب و کامران قرار پاتاہے جبکہ بل رائڈنگ میں ایک بل رائڈر کا بنیادی وظیفہ بھینسے پر سوار ہوکر60 سیکنڈ تک اُس کی سواری کرنا ہوتاہے۔ ہم ایک مدت تک بل رائڈنگ کو بل فائٹنگ کی طرح کا صرف ایک کھیل تصور کرتے آئے تھے،لیکن اَب کہیں جا کر معلوم ہوا کہ اِس خونی کھیل کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک کے ہزاروں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ بُل رائڈنگ امریکہ،کنیڈا، آسٹریلیا،جنوبی امریکہ،فلپائن،جاپان اور یورپی ممالک میں ایک مقبول عام پیشہ ہے اور اِن ممالک میں سرفہرست بُل رائڈرز ایک سال میں ہزاروں ڈالرز باآسانی کما لیتے ہیں۔بُل رائڈنگ کو امریکہ میں ”ساٹھ سیکنڈ کا خونی کھیل“ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے اور ہر سال سینکڑوں بل رائڈر فقط چند سیکنڈ کے لیئے بھینسے پر سوار ی کرنے کے شوق میں اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں بُل رائڈر ز بھینسے کے خوف ناک سینگ پیٹ،چہرے،کمر یا جسم کے اندر لگنے کے باعث زندگی بھر کے لیئے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا اور امریکہ میں گزشتہ دس برسوں میں بل رائڈرز کے زخمی ہونے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہواہے۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ بل رائڈر ز کے پیشہ میں اتنے زیادہ جان لیوا خطرات ہونے کے باوجود بھی بے شمار نوجوان بُل رائڈرز ہی بننا چاہتے ہیں اور وہ تمام ممالک جہاں بُل رائڈنگ کوایک باقاعدہ پیشہ کادرجہ حاصل ہے۔ وہاں بل رائڈرز کی تربیت اور بھرتی کے لیے باقاعدہ نجی ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں۔ جن کا بنیادی کام ہی بُل رائڈرز بننے کے شائق افراد کو پرکشش ملازمتیں فراہم کرنا اور عملی تربیت دینا ہوتاہے۔

فورمین(Forman)
تعمیرات کی صنعت دنیا کے مشکل ترین شعبوں میں سے ایک ہے،کیونکہ تعمیراتی جگہوں پر مہلک حادثات کا پیش آنا ایک معمول کی بات ہے۔ لہٰذا تعمیراتی پیشہ سے منسلک تمام ملازمین ہمہ وقت شدید خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ خاص طور پر فورمین اور اُس کا معاون ویلڈر جن کاکام ہی بلند و بالا عمارات کا ڈھانچہ تیار کرنا ہوتاہے۔ بعد ازاں اِن کے بنائے گئے ڈھانچہ پر ہی دیگر تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں۔چونکہ فورمین تعمیراتی صنعت کے پیشہ میں تمام اُمور کا نگران بھی ہوتاہے۔اِس لیئے اِس کے ساتھ کام کرنے والے معاون ویلڈرز بے دھیانی میں ایک بھی قدم غلط اُٹھالیں تو وہ زمین پر آگرتے ہیں۔ گو کہ حالیہ وقتوں میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے کے لیئے بے شمار حفاظتی تدابیر بھی اختیار کی جاتیں ہیں لیکن اِس کے باوجود اِس شعبہ میں ملازمت کرنے والے افراد کی جان ہر وقت اُن کی ہتھیلی پر ٹکی ہوتی ہے کہ یہاں ذرا سی غفلت ہوئی نہیں اور وہ جان سے گئے نہیں۔نیز اِس شعبہ میں کام کرنے والے ملازمین کو بجلی کا جھٹکا لگنے،زیرزمین دفن ہونے،دھول اور گیسوں کا شکار نے کا بھی ہروقت ڈھڑکا لگا رہتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فورمین کی زیرنگرانی کام کرنے والے اگر کسی بھی ملازم کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو اُس کا براہِ راست ذمہ دار بھی فورمین کو ہی ٹہرادیا جاتاہے۔ اِس لیئے فورمین کو تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران فقط اپنی ہی جان کی حفاظت کو یقینی نہیں بنانا ہوتابلکہ اپنے زیر نگیں کام کرنے والے ہر ملازم کو کسی ممکنہ حادثہ سے بچانے کے لیئے پیشگی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ فورمین اور اِس سے منسلک ذیلی ملازمتوں کو خطرناک ترین ملازمتوں کی فہرست میں شامل کی جاتاہے۔ سال 2018 میں صرف امریکہ میں ہر ایک لاکھ ملازمین میں سے 25 ملازمین کے دوران تعمیرات ہلاک ہونے کے خوف ناک اعدادو شمار پیش کیئے گئے تھے۔ علاوہ ازیں 1970 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کی تعمیر کے دوران 60 ملازمین ہلاک جبکہ دو درجن سے زائدچھوٹے بڑے حادثات میں سینکڑوں ملازمین بلندی سے گرنے،کرنٹ لگنے اور ملبے تلے دب جانے سے مستقل طور پر معذور بھی ہوگئے تھے۔

ویٹرنری ڈاکٹر(Veterinary Doctor)
شعبہ طب میں جانوروں کا علاج معالجہ کرنے والے طبیب کو ویٹرنری ڈاکٹر کہا جاتاہے اور جانوروں سے خصوصی لگاؤ رکھنے والے طالب علم جانوروں کے علاج سے متعلق ضروری تعلیم و تربیت حاصل کرکے اِس پیشہ کو بطور خاص اختیار کرتے ہیں۔چونکہ ویٹرنری ڈاکٹر کو اپنے کام کی حساسیت کی بناء پر ہر وقت جانوروں کے اردگرد ہی رہنا ہوتا ہے لہٰذا اِس ملازمت سے منسلک افراد کے جانوروں میں پائے جانے والے مختلف اقسام کی جراثیم اور وائرس سے متاثر ہونے کی خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ویٹرنری ڈاکٹر کا علاج معالجہ کے دوران جانوروں کے کاٹنے سے زخمی ہوجانا بھی ایک معمول کی بات ہے۔خاص طور پر وہ ویٹرنری ڈاکٹر جو دیہی علاقوں یا چڑیا گھر میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں وہ اکثر و بیشتر مختلف خطرہ کے جان لیوا حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔واضح رہے کہ ویٹرنری ڈاکٹرز کو صرف جانوروں سے ہی خطرات لاحق نہیں ہوتے ہیں بلکہ 2018 میں آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک مطالعاتی تحقیق کے مطابق اِس ملازمت سے منسلک اکثر افراد اپنے کام کی وجہ سے ڈپریشن،اینگزائٹی،مالیخولیا اور ایتھوینسیاEuthanasia جیسے ذہنی عوارض میں بھی مبتلاء پائے گئے،جن میں سے چا ر فیصد افراد نے کام کی زیادتی و یکسانیت سے تنگ آکر ایک سے زائد بار خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ویٹرنری ڈاکٹرز انسانوں سے زیادہ جانوروں کے قریب رہنے کی باعث غیر محسوس طور پر سخت قسم کی سماجی تنہائی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ نیز اِن کے لیئے اِس پیشہ کو ترک کرکے کسی دوسرے شعبہ میں کامیاب ہونا بھی کم و بیش ناممکن ہی ہوتا ہے۔

آئل فیلڈ ورکرز(Oil Field Workers)
جدید دنیا میں تیل کو ”بلیک گولڈ“ یعنی ”کالا سونا“ کے نام سے بھی مخاطب کیا جاتاہے۔ تیل کو اِس طرزِ تخاطب سے پکارنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کل دنیا کی تمام تر معیشت تیل کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ تیل کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی عالمگیر ضرورت اور افادیت کی بناء پر تیل پیدا کرنے ممالک اور تیل کی ترسیل سے منسلک پیشے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ جہاں سے تیل کو نکالا جاتا ہے اُن جگہوں کو آئل فیلڈز کہاجاتاہے اور اِن آئل فیلڈ زمیں کام کرنے والے ملازمین کو آئل فیلڈ ورکرز کہتے ہیں۔گوکہ آئل فیلڈز پر کام کرنے والے ملازمین کے ماہانہ مشاہرہ کسی بھی دوسری ملازمت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ ہوتاہے لیکن آئل فیلڈورکرز کے لیئے جان لیوا خطرات اور حادثات کی بھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آئل فیلڈ ورکرز کی ملازمت کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ملازمتوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔جولائی 1988 میں ایک آئل فیلڈ پائپر الفا جسے ”آکساڈینٹل پیٹرولیم کیلیڈونا لمیٹڈ“جیسی معروف کمپنی چلارہی تھی۔اُس میں اچانک سے ایک دھماکہ ہوگیا۔جس کے نتیجہ میں آئل فیلڈپر کام کرنے والے سینکڑوں آئل فیلڈورکرز میں سے 167 جل کر خاکستر ہوگئے تھے اور صرف 61 ملازمین بروقت طبی امداد کی بدولت جان بر تو ہوگئے لیکن مستقل طور پر معذورہونے کے سبب اُن کی زندگی مردوں سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔ایسا ہی ایک واقعہ اپریل 2010 میں ”ڈیپ واٹر ہوریزن“ نامی آئل فیلڈ میں بھی پیش آیا تھا جس میں کم ازکم 11 اموات اور درجنوں ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔ نیز اِس واقعہ کے نتیجہ میں سمندر میں اتنازیادہ تیل بہہ کر داخل ہوگیا تھا کہ آج تک تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آئل فیلڈ ورکرز کو آگ لگنے کے علاوہ بلندی سے گرنے،بھاری مشینری کے نیچے دب کر مرنے،سمندر میں ڈوب جانے اور دم گھٹ جانے جیسے مہلک حادثات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ جبکہ آئل فیلڈ میں کام کرنے کے سخت اور طویل ترین اوقات کا رہونے کی وجہ سے بھی ملازمین کو اکثر و بیشتر شدیدجسمانی و ذہنی تھکن کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

”لاگرز“ یا ”لمبرجیکس“(Loggers & Lumberjack)
ماضی میں جنہیں ہم لکٹرہارے کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے، آج کل انہیں ہی ”لاگرز“ یا ”لمبر جیکس“ بھی کہا جاتاہے۔لاگرز کا بنیادی وظیفہ درخت کو کاٹ کر انسان کی گھریلو اور صنعتی ضروریات کے لیئے درکار لکٹری کا بندوبست کرنا ہوتاہے۔ درختوں کی کٹائی کرنا قدیم ترین انسانی پیشوں میں سے ایک ہے۔ایک زمانہ تھا کہ لکٹرہارا بننے کے لیئے صرف ایک کلہاڑے کی ضرورت ہوتی تھی اور ہر وہ شخص جسے روزگار کے تھوڑے سے بھی مسائل درپیش ہوتے تھے وہ کلہاڑا کندھا پر رکھتا اور درخت کی کٹائی کے لیئے جنگل کی جانب چل پڑتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی کا یہ محفوظ ترین پیشہ آج دنیا کے خطرناک ترین پیشوں کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔ کیونکہ اِس پیشہ میں جدید ترین آلات کے استعمال نے جہاں درخت کاٹنے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے،وہیں اِس پیشہ سے منسلک ملازمین کے لیئے جان لیوا خطرات میں بھی زبردست اضافہ ہواہے۔واضح رہے کہ اس کام میں خطرناکی پورے سال ہی پائی جاتی ہے لیکن موسم گرما اور خزاں کے اوقات میں یہ پیشہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور اس کام میں سب سے زیادہ اموات بھی جولائی، ستمبر اور اکتوبر میں واقع ہوتی ہیں۔ عام طور پر درختوں کی کٹائی کا کام انتہائی سرد موسم میں کیا جاتا ہے۔ لاگرز کے کام کے تین مرحلے ہوتے ہیں سب سے پہلے درختوں کو جڑ سے کاٹا جاتا ہے اور پھر جو درخت زیادہ بڑے یا طویل القامت ہوتے ہیں اُن کے دو یا تین بڑے بڑے ٹکڑے کیئے جاتے ہیں اور اس کے بعد انہیں ہیوی ٹرکوں میں چڑھایا جاتا ہے۔ہر مرحلہ لاگرز کے لیئے حادثات کے زبردست امکانات رکھتا ہے۔ نیز اس روزگار میں ترقی کی رفتار بھی انتہائی سست ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لاگرز کو درختوں کی کٹائی کے لیے جنگلات میں مقررہ حدود کا بھی بطورخاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔چونکہ درختوں کی کٹائی آج کل صرف کمرشل صنعتوں کے لیے کی جاتی ہے۔اس لیئے لاگرز پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ درخت کاٹنے کا شدید دباؤ بھی ہوتا ہے۔جس کے باعث اِس پیشے میں جان لیوا حادثات کا ہونا معمول کی بات ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں صرف امریکہ میں ہر ایک لاکھ لاگرز میں سے 135 لاگرز مختلف طرح کے جان لیوا حادثات کا شکار ہوئے تھے۔ جن میں سے زیادہ تر واقعات فقط بھاری مشینوں کے استعمال میں بے احتیاطی کی وجہ سے رونما ہوئے تھے۔

کان کن (Miner)
کان کنی یعنی Mining کرنا ہماری زمین کے اندر یا پہاڑوں میں موجود قدرتی دھات، قیمتی جوہرات،مفید معدنیات مثلاً سونا،تانبہ،کوئلہ،ہیرا یا سنگ مرمر وغیرہ نکالنے کے عمل کا نام ہے اور اس اہم وظیفہ کو انجام دینے والے فرد کو ہماری زبان اُردو میں کان کن اور انگریزی میں Miner کہاجاتاہے۔ آپ اکثر کان کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں افسوسناک خبریں تو ضرور سنتے ہی رہتے ہوں گے اور اسی سے آپ بخوبی اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ یہ ملازمت کتنی زیادہ خطرناک ہے۔ذہن نشین رہے کہ ا نسانی غفلت سے رونما ہونے والے حادثات کے علاوہ بھی کان کن اپنے کام کے دوران دیگر مختلف وجوہات کی بناء پر ہر لمحہ خطرہ کی زد میں رہتا ہے۔جیسے کان کن زمین میں موجود زہریلی گیسوں کا اکثر شکار بنتے رہتے ہیں جو کہ اُن کے پھیپھڑوں میں سوزش کا باعث بن کر انہیں دائمی مریض بنادیتی ہے۔اس کے علاوہ زلزلے جیسی قدرتی آفات کے باعث کان کے بیٹھ جانے کی صورت میں بھی متعدد کان کن چٹانوں کے عین درمیان میں پھنس جاتے ہیں اور اکثریت موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمارے اپنے صوبہ بلوچستان میں 2010 سے 2018 کے درمیانی عرصے میں تقریباً 45 مختلف واقعات میں 318 سے زائدکان کن دورانِ ملازمت جاں بحق ہوچکے ہیں۔جن میں 93 کان کن تو صرف سال 2018 میں ہلاک ہوئے تھے۔علاوہ ازیں ہرسال دنیا بھر میں ہزاروں کان کن کا مختلف حادثات میں ہلاک ہو جانا ایک معمول کی خبر سمجھی جاتی ہے۔ کان کنی کے شعبہ میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں چین اور بھارت میں ہوتی ہیں۔ چین میں کان میں دورانِ کھدائی ہونے والا اَب تک کا سب سے بڑا ہلاکت خیز واقعہ 10 اپریل 1942 کو پیش آیا تھا جس میں 1549 کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔

سیکورٹی گارڈ (Security Guard)
سیکورٹی گار ڈیا باڈی گارڈ کی ملازمت بھی دنیا کی مشکل ترین ملازمتوں میں سے ایک ہے جس میں ہر وقت جان جانے کا دھڑکالگا رہتا ہے۔ کیونکہ اِس ملازمت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے شخص کی بنیادی ذمہ داری ہی اپنی جان کے عوض دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتاہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری و نجی ادارے اوراہم سیاسی،سماجی و تجارتی شخصیات سیکورٹی گارڈکی خدمات مخصوص رقم کے عوض حاصل کرتے ہیں اور آپ سوچ سکتے ہیں کہ کتنا مشکل ہے کہ تھوڑی سی رقم کے عوض اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کسی پر چلائی جانے والی گولی کو اپنے سینے پر روکنا۔ سیکورٹی گارڈز پرائیوٹ کمپنیوں کے جز وقتی ملازم ہوں یا کسی سرکاری ادارے کے مستقل ملازم،بہرحال اِن کا بنیادی کام دوسروں کی حفاظت کرنا ہی ہوتاہے۔یاد رہے کہ سیکورٹی گارڈ کی مناسب تربیت نہ ہونا بھی اِس ملازمت کے خطرات کو کئی بڑھا دیتاہے۔کچھ عرصہ قبل کراچی میں فائرنگ کے ایک واقع میں بچے کی جان لینے والے سیکورٹی گارڈ کا کہنا تھا کہ ”میں نے اسلحہ چلانے کی بالکل بھی تربیت حاصل نہیں کی،میں تو ہوائی فائرنگ کرنا چاہ رہا تھا کہ سیدھی گولی چل گئی اور میری گولی سے ایک معصوم بچہ ہلاک ہوگیا“۔ غیر تربیت یافتہ سیکورٹی گار صرف اپنے لیئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیئے بھی خطرہ کا باعث ہوسکتاہے لیکن اِ س کے باوجود سیکورٹی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں سیکورٹی گارڈ کو مناسب تربیت فراہم کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ہمارے ملک میں بدمنی اور ہر وقت ذہن پر سوار ڈر، خوف سے پرائیوٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے کاروبار نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔کم تنخواہ، لمبی ڈیو ٹی اور ہتھیلی پر جان، کون خوشی سے ایسی نوکری کرے گا۔سچ تو یہ ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی کام نہ آیا، وہ سیکیورٹی گارڈ بن گیا،یوں ہی تو آئے دن سننے میں نہیں آتا کہ سیکورٹی گارڈ سے اتفاقیہ گولی چل گئی اور جب ڈاکو آئے تو گن چلی ہی نہیں، ڈاکو وں نے گارڈ کو یرغمال بناکر بینک لوٹ لیا یا گارڈ خود ہی ڈاکو بن گیا۔جسمانی فٹنس، ذہنی حالت اور حفاظتی تکنیک کی پرواہ کیے بغیر ہاتھ میں ہتھیار تھمادیے جائیں تو سیکورٹی گارڈ کی اپنی سیکورٹی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: ماں باپ کے ساتھ اظہارِ تشکر کا دن

فائر فائٹر(Firefighter)
جلتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے اور شعلوں میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچانے والوں کوفائر فائٹر کہا جاتاہے۔ جس طرح شہر کا نظم و نسق قائم رکھنے کے لیئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر عمال ِ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے بالکل عین اِسی مصداق قدرتی و ناگہانی آفات سے نمٹنے کیلیئے شہروں میں فائر فائٹرز کے ایک موثر محکمہ کا ہونا بھی ضروری ہوتاہے۔دنیا بھر میں فائر فائٹر زگھروں،چھوٹی دُکانوں،بڑے تجارتی مراکز،کارخانوں نیز ہر جگہ اور ہرقسم کی آگ بجھانے کے لیئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔فائر فائٹر کا کام اُس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوتا جب تک کہ کسی عمارت یا جگہ پر لگی آگ مکمل طور پر بجھ نہیں جاتی۔ کبھی کبھار تو کسی بڑی عمارت میں لگی آگ کو بجھانے میں کئی کئی دن بھی لگ جاتے ہیں۔ ویسے تو فائر فائٹرز تربیت یافتہ امدادی کارکن ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی ہمہ وقت انتہائی خطرے میں ہوتی ہیں۔خاص طور پر جب یہ فائر فائٹر مختلف عمارات میں لگنے والی آگ یا ان کے گر جانے کی صورت میں اندر پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کی کوشش میں عمارت کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ بغیر اپنی جان کی پرواہ کیے خطرناک صورتحال سے دوچار بچوں اور بڑوں کے بچانے کے لیے آگ میں کود جانا ہی فائر فائٹر کا بنیادی وظیفہ ہوتاہے۔جبکہ آگ سے جلی ہوئی خستہ حال عمارتیں فائر فائٹرز کے لیئے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر فائر فائٹرز کی ہلاکتیں خستہ ہال عمارتوں کے گر جانے یا اُن میں موجود زہریلے دھواں میں دم گھٹ جانے سے ہوتی ہیں۔

حوالہ: یہ خصوصی مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 02 اگست 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں