”جب بھی ملک و قوم کو ائیرفورس کی ضرورت پڑی تو ہم اپنی جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے“۔یہ الفاظ ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم کے ہیں جو انہوں نے گزشتہ برس یوم دفاع کی تقریب میں سامعین کے گوش گزار کیئے تھے۔کسے خبر تھی کہ چند ماہ بعد ہی ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم اپنے زبان سے ادا کیئے گئے ہر ہر حرف کا حق بحسن و خوبی ادا کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے شاہینوں کے انمول جذبہ ایمانی کی دھاک چہاردانگ عالم پر بٹھادے گا۔جس طرح ایف سولہ طیارہ کوئی عام جنگی طیارہ نہیں ہے بالکل اِسی طرح ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم بھی پاک فضائیہ کا کوئی عام پائلٹ نہیں تھا۔ اگر ایک طرف ایف سولہ طیارہ ہر اُس جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے پوری طرح لیس ہے جس کی وجہ سے اُسے دنیا کے محفوظ ترین اور خطرناک جنگی طیاروں کی فہرست میں شامل کیا جاتاہے تو دوسری جانب ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم بھی غیرمعمولی اور شاندار صلاحیتوں کا حامل پاک فضائیہ کا ایک ایسا جری ہواباز تھا،جسے”طیارہ سواری“ کے تمام اسرار و رموز پانی کی طرح اَزبر تھے۔اس لیئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دورانِ پرواز طیارہ میں تیکنیکی خرابی کا معلوم ہونے کے بعد دس سیکنڈ کا وقت بھی ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم جیسے پیشہ ور انہ مہارت رکھنے والے ہوا باز کے لیئے طیارے سے بحفاظت باہر نکل جان کے لیئے بہت زیادہ تھا۔ کیونکہ اُس نے صرف ایجیکٹ کا ایک بٹن ہی تو دبانا تھا جس کے دبتے ہی کاک پٹ کھل جاتا اور ایف سولہ کا جدید ترین حفاظتی نظام خودکار انداز میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُس کی سیٹ کو زوردار طاقت کے ساتھ ہوا میں اُچھال دیتا اور یوں ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم اپنا پیرا شوٹ کھول کر انتہائی سکون سے خراماں خراماں زمین پر اُتر جاتا۔دنیا کا کوئی بھی پائلٹ ہوتا تو وہ یقینا ایسا ہی کرتا لیکن پاک فضائیہ کے شاہین ذرا مختلف قسم کے ہوا باز ہوتے ہیں۔
پاک فضائیہ کے بلند پرواز شاہین آسمان کی وسعتوں میں بھی جنگ ہو یا اَمن ہمہ وقت زمین پر بسنے والے عام پاکستانیوں سے ہی خود کو متعلق رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم پر دورانِ پرواز اپنے ایف سولہ طیارہ میں تیکنیکی خرابی کا انکشاف ہوا تو اُس نے بجائے اپنی جان بچانے کا سوچنے کے، سب سے پہلے زمین پر رہنے والے اُن بے خبر پاکستانیوں کی زندگیوں کو محفوظ و مامون بنانے کا سوچا، جن کی حفاظت کی خاطر اُس نے پاک فضائیہ کو بطور پیشہ چنا تھا۔بحیثیت ایک باپ، بیٹے اور شوہر کے وہ چاہتا تو اپنے والدین اور بیوی بچوں کے سنہرے مستقبل کے بارے میں بھی بہت کچھ سوچ سکتا تھا، لیکن ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم نے طیارہ خرابی کے بعد آخری لمحہ تک فقط اُن پاکستانی شہریوں کو ہی اپنے دھیان میں رکھا،جو آسمان سے گرنے والے ایف سولہ طیارے کی زد میں آسکتے تھے۔پاک فضائیہ کے ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم نے معصوم شہری آبادی کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے کا فیصلہ کیا اورفضا میں اِدھر اُدھر ڈولتے بے قابو طیارے کو بہادر ہوا باز نے اِس کمال مہارت سے اسلام آباد کے بے آباد علاقے شکرپڑیاں میں گھسیٹ کر لے گیا کہ موت کا فرشتہ بھی ششدر رہ گیا کہ کیا کوئی اِس والہانہ انداز میں بھی شہادت کے تمغہ کو اپنے سینے پر سجانے کی تگ و دو کرسکتاہے کہ جیسی بھرپور کوشش ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم نے کی؟۔
اپنی جان کو ملک و ملت پر قربان کرنے کی عادت ہمیشہ سے ہی پاک فوج کا سرمایہ افتخار رہا ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے پاک فوج میں آنے والے ہر نوجوان کے پیش ِ نظر شہادت کے عظیم منصب کا حصول ہی ہوتاہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم کو شہادت کا جذبہ شوق وراثت میں ملا تھا کیوں کہ اِن کے والد بھی پاک فوج میں تھے، جو بریگیڈیئر کے اہم ترین عہدے پر ریٹائر ہوئے۔ونگ کمانڈر شہید نعمان اکرم نے اپنی خاندانی روایت کو جاری رکھتے ہوئے پاک فضائیہ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور سال 2000 میں 106 ویں جی ڈی پائلٹ کورس سے نمایاں پوزیشن پر پاس آؤٹ ہوئے۔ ان کا تعلق سرگودھا میں تعینات نائن اسکواڈرن سے تھا۔وِنگ کمانڈر شہید نعمان اکرم نے 2019 میں پاک فضائیہ کے نشانے بازی کے مقابلوں میں شیرافگن ٹرافی جیتی تھی۔ ان مقابلوں میں بہترین نشانہ بازی کا مظاہرہ کرنے پر پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انورخان نے انہیں انفرادی طور پر شیر افگن ٹرافی سے نوازا تھا۔اس کے علاوہ بھی دورانِ کیرئیر بے شمار اعزازات شہید نے اپنے نام کئے اور آخر میں منصبِ شہادت کا عظیم رتبہ اپنے نام کیا۔
ونگ کمانڈر نعیم اکرم کی شہادت زبانِ حال سے بتاتی ہے کہ پاک فضائیہ کے شاہین صرف حالتِ جنگ میں ہی پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرنا نہیں جانتے بلکہ زمانہ اَمن میں بھی پاکستانیوں کی جان و مال کے امین ہوتے ہیں اور امین بھی ایسے کہ اگر ہمارے شاہینوں کو اپنی جان اورکسی پاکستانی شہری کی زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو یہ بہ صد شوق اپنی جان کی قیمت کے بدلے میں موت کے ہاتھوں سے بھی جامِ حیات چھین کر پاکستانی قوم کو تھما جاتے ہیں۔شاید اسی لیئے کہا جاتاہے کہ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 26 مارچ 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023