Universities in Trouble

یونیورسٹیز کٹہرے میں کیوں؟

اگر آپ رات کو ایک بار آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو آسمان کی تاریکیوں میں بے شمار اور ان گنت ستارے جھلملاتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ ابنِ آدم ان لاکھوں ستاروں کو نظر انداز کر کے اہمیت صرف چاند کو دیتا ہے حالانکہ آج دنیا کا ہر ذی شعور شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ آسمانِ کائنات پر نظر آنے والے دیگر ستارے حقیقت میں چاند سے بھی کئی گنا بڑے اور روشن ہوتے ہیں لیکن اُسکے باوجود بھی ابنِ آدم، آخر کار آدمی ہی ہے نا۔صدیوں سے حقیقت کے بجائے ظاہر کی پرستش کرتا آیا ہے،اس لیئے اگر کسی رات چاند کو آسمان پر نہ دیکھے تو اُسے اندھیری رات، اماوس کی رات اور نہ جانے کن کن ناموں سے مخاطب کرتا ہے۔حالانکہ جس وقت آسمانِ دنیا پر چاند نہیں ہوتا،اُس وقت بھی لاکھوں ستار ے بنی آدم کی ذوقِ نظر اور رہنمائی کے لیئے موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اُس کی نگاہیں چاند کی متلاشی نظر آتی ہیں۔اب اسے آپ ابنِ آدم کی کور چشمی کہیں یا پھر حقیقت سے منہ موڑ کر صرف ظاہر کی پرستش کرنے کی صدیوں پرانی پختہ عادت۔بہر حال ایک بات طے ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد شے ہے جوہم میں حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کی خُوپیدا کرتی ہے۔ اسی لیئے ہر زمانہ میں دانش و بنیش افرادپوری شد و مد کے ساتھ ا س بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ تعلیم آدمی کو ”انسان“ کے ارفع و اعلی مقام تک پہنچانے کیلئے نہایت ضروری ہے-تعلیم کے کئی درجے ہوتے لیکن تعلیم کا اعلی ترین درجہ اعلی تعلیم یا آج کی جدید اصطلاح میں ”ہائیراجوکیشن“ کہلاتا ہے۔ اعلی تعلیم کا سلسلہ یونیورسٹی سے شروع ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں بے شمار یونیورسٹیاں ہیں،جو کہ سرکاری اور نیم سرکاری دونوں سطح پر موجود ہیں۔ہماری یہ یونیورسٹیاں اپنی خدمات سالہا سال سے انجام دے رہی ہیں لیکن چند سالوں سے پاکستان میں دہشتگردی کے رونما ہونے والے کئی واقعات میں پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتذہ کے ملوث ہونے کے انکشافات نے قوم کو بُری طرح ذہنی خلجان میں مبتلا کردیا ہے،اب وہ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن پر حملہ ہو یا صفورا گوٹھ میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ ہو یا پھر مردان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشعال کا بہیمانہ قتل ان تمام واقعات میں یونیورسٹی طلبہ اور اساتذہ کے براہِ راست ملوث ہونے اور اُن کے گرفتار ہونے کی دیر تھی کہ ہر کس و ناکس کی طرف سے ہماری یونیورسٹیاں سخت ترین تنقید کی زد میں آگئیں اور اب جگہ جگہ ایک ہی سوال زیرِ بحث ہے کہ کیا ہماری یونیورسٹیاں پاکستان کو ایک مہذب ملک بنانے کے بجائے کہیں ایک غیر مہذب ملک بنانے کی طرف تو لے کر نہیں جارہی ہیں۔حالانکہ اس سوال کی صرف ہیت کذائیہ کا ہی اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں دو بنیادی نوعیت کے فکری سقم پائے جاتے ہیں۔اس سوال کا پہلا سقم یہ ہے کہ کیا اب تک ہمارا ملک ایک مہذب ملک نہیں ہے؟ دوسرا سقم یہ ہے اگر ہمارا ملک تھوڑا بہت ہی سہی اگر ایک مہذب ملک ہے تو اسے اب تک مہذب بنانے کا اصل سہرا کس کے سر جاتا ہے؟اگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ان دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہماراملک نہ صرف ایک مہذب ملک ہے بلکہ اسے مہذب بنانے کا تمام ترسہرا بھی ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کو ہی جاتا ہے۔وطنِ عزیز پاکستان آج اپنی عمرعزیز کے ستر سال پورے کر چکا ہے قوموں کی زندگی میں یہ ایک مختصر سا عرصہ ہوتا ہے جبکہ چند ناعاقبت اندیش لوگ جن ملکوں کے ساتھ ہمارا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہیں اُن کی عمریں ہزاروں سال کی ہوچکی ہیں۔اپنی نوعمری کے باوجود بھی ہمارے وطن پاکستان کی یونیورسٹیوں نے تہذیب و تمدن کی وہ آبیاری کی ہے کہ تمام عالم میں ہمارے افراد کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے۔اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں مہذب افراد کو پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔دور کیوں جاتے ہیں صرف ہماری ایٹمی صلاحیت جس کاچرچا پوری دنیا میں صبح و شام کیا جاتا ہے کو ہی لے لیجئے۔ایٹم بم ہم نے کسی کھیت میں نہیں اُگایا،نہ ہی کسی تیل کے کنویں سے برآمد کیا ہے یہ نتیجہ ہے ہمارے ملک کے ہزاروں قابل سائنسدانوں کی دن رات محنت اور لگن کا۔ان ہزاروں سائنسدانوں کو ہمارے ملک کی یونیوسٹیوں نے ہی پیدا کیا تھا اور اب بھی پیدا کر رہی ہیں۔

صبح و شام یونیورسٹیوں پر اپنی تنقید کے نشتر چلانے والے الیکٹرانک میڈیا ہی کو لے لیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ایک سو پچاس کے قریب مختلف ٹی وی چینلز کام کررہے ہیں۔صرف ایک چینل میں دو سوسے لے کر پانچ سو ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے متعلقہ کام میں انتہائی مہارت اور قابلیت کے حامل ہوں۔اس حساب سے الیکڑانک میڈیا میں ہمہ وقت 75000 افراد ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جنہیں ہماری یونیورسٹیوں نے ہی اُن کی صلاحیتوں کی تراش خراش اور درست تہذیب کرنے کے بعد یہاں تک پہنچایا ہوتا ہے۔اگر اس میں پرنٹ میڈیا میں کام کرنے والے پروفیشنل ایڈیٹرز،رائٹرز اور دیگر افراد کو شامل کر لیا جائے تو پھر یہ تعداد یقینی طور پر ایک لاکھ سے بھی بڑھ جائے گی۔



دنیا بھر میں بلحاظ تعداد ہمارے ملک کی فوج کا چھٹا نمبر ہے۔چھ لاکھ سے زیادہ جری سپاہ رکھنے والی ہماری فوج میں بے شمار انجینئرز،کمپیوٹر انجینئرز،آٹو موٹیو انجیئنرز،ڈاکٹر ز،پائلٹس،سائنسدان،محقق اور دیگر پروفیشنل کی ایک کثیر تعداد پسِ پردہ اپنی خدمات کی فراہمی کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستانی فوج کو ایک جدید ترین اور موثر فوج بنانے کے لیئے کام کرتی ہے۔یہ تمام پروفیشنلز جن کی تعداد ہزاروں میں ہے یہ بھی ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر ہی آئے ہیں۔

ایک بہت بڑا ادارہ جو اپنی تمام تر زبوں حالی کے بعد بھی دنیا کے بے شمار ملکوں کے مقابلہ میں اپنی خدمات بہتر انداز میں ملک کے چپے چپے میں فراہم کررہا ہے وہ صحت کاادارہ ہے۔ہمارے ڈاکٹر زملک میں قائم ہزاروں سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں کے ذریعے انسانی زندگی بچانے کا اہم ترین فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ہمارے ڈاکٹر ز کی قابلیت اور صلاحیت کی ایک دنیا معترف ہے یہی وجہ ہمارے ہزاروں ڈاکٹرز دنیا کے بے شمار ملکوں میں بھی اپنے دستِ شفاء سے لوگوں کی مسیحائی کر رہے ہیں۔کیا یہ تمام ڈاکٹرز ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کی پیداوار نہیں ہیں۔

آپ صرف ہمارے ملک کی بیورو کریسی کو ہی لے لیجئے۔جسے ہمارے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری سے لے کر ایک عام سرکاری آفس میں تعینات کلرک تک آجاتے ہیں۔اس بیوروکریسی نے پاکستان بننے کے بعد سے کس طرح اس ناتواں وطن کو جس کے بارے دشمن خیال کرتے تھے کہ یہ چھ مہینے بھی بمشکل چل پائے گا۔ اُسے نہ صرف چلا کر دکھا یا بلکہ اپنے اندر بھی ایک سے بڑھ کر ایک نمایاں اور گوہر نایاب شخصیات پیدا کیں جنہوں نے بین الاقوامی اداروں میں بھی اپنی خدمات فراہم کرکے قابلیت اور مہارت کا سکہ جمایا۔

یہ دیگ میں سے چاول کے چند دانے ہیں جن سے آپ پوری دیگ کا بخوبی اندازہ کرسکتے۔ہماری ملک کی یونیورسٹیاں ہماری مادرِ علمی ہیں جو کسی محبت کرنے والی ماں کی طرح اپنی سی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ اُس کے بچے تہذیب علمی کے ایسے معیار پر فائز ہوجائیں جہاں صرف کامیابیاں ہی اُن کے قدم چومے۔ پھر بھی چند سرکش اور بد فطرت کے حامل ایسے طالب علم یقینی طور پر ہوسکتے ہیں جو اپنی مادرِ علمی کی طرف سے دیئے گئے اسباق کو حرزِجاں بنانے کے بجائے معاشرے میں افراط و تفریط کا باعث بنیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ہماری یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں مہذب،تعلیم یافتہ اور کامیاب افراد کے ساتھ اگر ایک دو غیر مہذب و کم عقل فرد بھی نکل آئیں تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف ہماری ملک کی یونیورسٹیوں کو قرار دینا انتہائی درجہ کی ناقابلِ قبول زیادتی ہے۔
ہاں! ایک بات جو یقینا ماننے والی ہے وہ یہ کہ ہماری یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لاکھوں مہذب افراد سے ذرا سی غلطی ضرور سرزد ہوئی ہے کہ انہوں نے ہر شعبہ میں اپنی کامیابی، مہارت کے عَلم بلند کیئے مگر ایک شعبہ کو یکسر نظر انداز کر دیا،اور وہ شعبہ تھا میدانِ سیاست۔جسے نظرانداز کرنے کا یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوا کہ ملک کی باگ دوڑ طبقہ جہلا ء سے تعلق رکھنے والے گنتی کی چند انتہائی غیرمہذب افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی۔جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ
باطل کی اقتداء میں تقوی کی آرزو
کیا حسین فریب ہے جو کھائے ہوئے ہیں ہم
میدانِ سیاست میں آنے والے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے جہاں پاکستان کے ہر شعبہ اور ادارے کو اپنے وقتی مفاد کے حصول کے خاطر کمزور کرنے کی کوشش کی وہیں ان کی دست برد سے ہمارے ملک کی یونیوسٹیاں بھی محفوط نہ رہ سکیں۔پہلے انہوں نے ہماری مادرِ علمی میں مجرمانہ کردار کے حامل افراد کو طالب علم بنا کر داخل کیا اور ان کے وسیلے سے طلبا ء یونین کے نام پر اپنی اپنی سیاسی تنظیمات کے ہیڈ کواٹر قائم کیئے جن کا مقصد اعلیٰ تعلیم کے متلاشی طالب علموں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔لیکن ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ نے کسی نہ کسی حد اُن کے اس منصوبے کو ناکامی سے ہمکنا ر کردیا یا یوں کہہ لیں اُن کے اس منصوبہ کو وہ خاطر خواہ کامیابیاں نہ حاصل ہوسکیں جن کی وہ اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے۔پھر اس طبقہ اشرافیہ نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کرلیا کہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں اپنے من پسند اور ہاں میں ہاں ملانے والی انتظامیہ کو لایا جائے۔بس پھر کیا تھا جس سیاسی و لسانی جماعت کا ملک کی جس یونیورسٹی میں بس چلا وہ وہاں اپنے حمایت یافتہ افراد کو انتظامی عہدوں پر فائز کراتی گئی،جس کا یہ نتیجہ نکلا ہماری یونیورسٹیاں آہستہ آہستہ غیر مہذب اور تشدد پسند افراد کے ہاتھوں یرغمال بنتی چلی گئیں اور ان یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ہمارے اعلیٰ ترین دماغ ان نااہل لوگوں کے ہاتھوں کبھی سیاست کے نام پر اور کبھی لسانی تعصب کے نام پر بلیک میل ہونے لگے۔لیکن ان تمام نا مساعد حالات کے باوجود ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں نے معاشرے کو انتہائی قابل اور تہذیب یافتہ افراد فراہم کرنا بند نہیں کیئے، ہاں ایک بات ضرور ہوئی کہ ان کی تعداد پہلے سے بہت زیاد ہ کم ہوگئی۔

اس تعلیم دشمن صورتحال کے ہم سب ذمہ دار ہیں،من حیث القوم ہماری انفرادی کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن سب سے خوفناک بات تو یہ ہے کہ ہماری عوامی حکومتوں کے لئے بھی تعلیم کبھی ترجیح اول نہیں رہی۔گزشتہ چند دہائیوں سے ہماری اشرافیہ کے بچوں کی تعلیم کا ذریعہ سرکاری تعلیمی ادارے نہیں بلکہ پاکستان میں انکی تعلیم نجی شعبے میں ہوتی ہے اور اسکے بعد وہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے تشریف لے جاتے ہیں لہذا پاکستان میں تعلیمی شعبے کی زبوں حالی ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ہمار ے حکمرانوں کی تعلیم کے شعبے سے عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم تعلیم کے لیے دنیا میں سب سے کم بجٹ رکھنے والے ممالک کی صف میں شامل ہیں۔ اس بجٹ سے صرف اساتذہ کی تنخواہیں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔تعلیمی شعبے میں نئی پیش رفت کے لیے اس بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اب تعلیمی بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر اور اعداد وشمارکی ایک بے رنگ سی کہانی سمجھنے لگے ہیں۔پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ایک ’خاموش بحران‘ کا شکار ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی مذہب، معاشرہ یا ملک ہو، ہر کوئی تعلیم کی طرف زور دیتا ہے۔ اسلام نے بہت زیادہ تعلیم پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کی طرف پہلی وحی بھیجی تو وحی کا پہلا لفظ ہی“پڑھ”تھا۔ ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی کام کی شروعات صرف اور صرف تعلیم سے ہی ہو سکتی ہے اور کوئی کام تعلیم کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔قیام پاکستان سے آج تک اس ملک میں چودہ سے زائد تعلیمی پالیساں نافد ہوچکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ملک کے طور پر بھی ہم ہی مشہور ہیں۔ تعلیم پر گہر ی نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں تعلیمی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ مسئلہ صرف تعلیمی بجٹ میں کمی کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جو پیسہ تعلیم کے لیئے مختص کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ بھی کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تر قیاتی اخراجات بہت اہم ہیں لیکن اس کے لیے خاطر خواہ پیسہ نہیں۔ یوں تو ہر سال حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ تعلیمی شعبے کی اہمیت دیتی ہے اور تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرتی ہے لیکن یہ حکومتی دعویٰ ہربار زیادہ تر اعداد وشمار کا کھیل ہی ثابت ہوتا ہے۔جب ریاست تعلیم کے شعبے سے غفلت برتتی ہے تو اس سے پورا معاشرتی عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ہر حکومت انتخابات میں تعلیم کے فروغ اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے دعوؤں کے ساتھ آتی ہے۔جب اقتدار میں آجاتی ہیں تو انہیں وہ تمام وعدے بھول جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثال قائداعظم یونیورسٹی ہے۔ پاکسان میں قائداعظم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی فیکلٹی کی تعداد98فیصد ہے، اس جامعہ کو ملک کی نمبر ون یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ 5سو عالمی یونیورسٹیوں میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اس کے باوجود یونیورسٹی کی2سوایکڑ سے زائداراضی پر پانچ گاؤں اور ایک بااثر سیاسی شخصیت نے قبضہ کر رکھا ہے۔یہ ہمارے اربابِ اختیار کی یونیورسٹیوں سے اُن کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیکن صد شکر کہ ہماری یونیورسٹیوں سے تہذیب و تمدن کا سبق لے کر نکلنے والوں کو آج اپنی مادرِ علمی کی ان تمام مشکلات کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر شعبہ زندگی میں کام کرنے والا جس نے کبھی بھی اپنی مادرِ علمی کی گود میں تہذیب و تمدن کی اعلی اقدار کا سبق پڑھا ہے وہ بڑھ چڑھ کر ان تمام لوگوں کے چہروں سے نقاب اُتارنے اور ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے میں مصروف ہے۔ جن کی وجہ سے ہماری یونیورسٹیوں کو یہ تاریک دن دیکھنے پڑے کہ ان میں تحصیلِ علم کرنے والے طالب علم ریاستِ پاکستان کے خلاف سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے۔اب صورتحال یہ ہے کہ جج ہوں یا جرنیل،ٹی وی اینکر ہوں یا کالم نگار،پولیس افسران ہوں یا بیوروکریٹ اس وقت مادرِ علمی کے تمام سپوت و طنِ عزیز کے دفاع اور ملک میں چھپے غیر ملکی طاقتوں کے آلہ ئ کار افرد کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔یہ ان کا ہی کمال ہے کہ آج پاکستان میں برائی،برائی اور اچھائی واقعی اچھائی نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔اب وہ وقت دور نہیں جب ہماری ملک کی یونیورسٹیاں صرف اور صرف تہذیب تمدن کی عملی تربیت فراہم کرنے والی دنیا کی عظیم درسگاہوں کا روپ اختیار کر لیں گی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ سنڈے میگزین میں 08 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

یونیورسٹیز کٹہرے میں کیوں؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں