Where Do Pakistan-US Relations Go From Here

واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات کا مستقبل؟

امریکا اور پاکستان کے درمیان مضبوط سفارتی تعلقات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے،لیکن امتدادِ زمانہ کے باعث گزشتہ کئی برسوں میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کی مرکزی دیوار میں بے شمار دراڑیں پیدا ہوچکی ہیں۔بظاہر واشنگٹن اور اسلام آباد کی جانب سے سفارتی تعلقات میں پڑنے والی درزوں کو پُر کرنے کے لیئے وقتاً فوقتاً بھرپور کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ اَب دونوں ممالک کے مخدوش سفارتی تعلقات، کسی بھی لحاظ سے قابل مرمت نہیں رہے ہیں۔دراصل گزشتہ 75 برسوں میں واشنگٹن نے اسلام آباد کے ساتھ اتنی زیادہ بے وفائیاں کی ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت کے نزدیک امریکا قطعی طور پر ناقابلِ اعتبار ملک کے درجہ پر فائز ہوچکا ہے۔ خاص طور پر جب سے سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی اقتدار سے رخصتی کا سبب امریکی مراسلہ کو قرار دیا ہے، تب سے پاکستانی عوام میں امریکا مخالف جذبات انتہائی عروج پر ہیں۔ کہنے کو تو عمران خان کی حکومت کو متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرایا گیا ہے، مگر امریکا سے موصول شدہ دھمکی آمیز مراسلہ میں جس انداز میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لیئے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو نادر شاہی حکم دیا گیا تھا۔مراسلہ کے تحکمانہ مندرجات کی وجہ سے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد مکمل طور پر مشکوک ہوچکی ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے امریکا پر سازش کا الزام عائد کرنے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوگی، جس سے ملک کے معاشی مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیئے عمران خان کا اس طرح سفارتی امور پر عوام کے سامنے بولنا مناسب نہیں ہے لیکن کچھ تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم پاکستان کا موقف اخلاقی طور پر بالکل درست ہے۔کیونکہ کسی ملک کے داخلی و سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا امریکا کی بہت پرانی عادت ہے اورامریکی حکام کی یہ عادتِ بد چھڑانے کے لیئے بے حد ضروری تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے ہونے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا جائے۔

یاد رہے کہ ماضی میں بھی امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کے واقعات تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔مثلاً سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی سینیئر امریکی حکومت کے عہدیدار کی صرف ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کی افغان پالیسی کو یکسر تبدیل کردیا تھا۔یعنی بارہ ستمبر2000 کی صبح آٹھ بجے امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے پاکستان کے اس وقت کے اہم ترین حکومتی اہلکار سے واشنگٹن میں ملاقات کرکے یہ پیغام دیا کہ اسلام آباد طالبان حکومت اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ یہ پیغام جب جنرل مشرف کو دیا گیا تو انہوں نے فوری طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان سے پہلے ملکی معاملات میں امریکی مداخلت کے ہلکے پھلکے اشارے تو ضرور کیئے جاتے تھے لیکن کبھی بھی پاکستان کی جانب سے امریکا پر ملکی معاملات میں براہ راست مداخلت کا عوامی مجمع کے سامنے الزام نہیں لگایا گیا تھا۔عمران خان نے امریکا پر صرف اُن کی حکومت گرانے کا الزام ہی نہیں لگایا بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی سازش کے پیچھے امریکی ڈالر ز کو بھی بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور ان کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے الزامات کو پاکستانی عوام کی اکثریت بالکل درست سمجھتی ہے اورپاکستان کے شہر شہر، قریے قریے میں امریکا کے خلاف پیدا ہونے والے شدید عوامی ردعمل سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات لرزہ براندام ہیں۔اچانک سے پیدا ہونے والی یہ غیر معمولی صورت حال امریکی حکام کے بھی سخت تشویش کا باعث ہے اور امریکیوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اِن تمام تر بدترین حالات کا ذمہ دار امریکا صدر جوبائیڈن ہیں۔جنہوں نے اپنے سخت گیراور نا مناسب رویہ سے عمران خان سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی تھی۔ چونکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی بائیڈن کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے،اس لیئے اَب انہیں درست بھی بائیڈن کو ہی کرنا ہوگا۔شاید یہ وجہ ہے کہ امریکا کے بڑے تھنک ٹینک’’بروکنگس“ نے امریکی صدر جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر کے پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو دوبارہ درست کریں۔

یاد رہے کہ مذکورہ بالا تھنک ٹینک کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے ایک مصنف بروک رائیڈل سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ہیلری کلنٹن کی انتظامیہ میں مشیر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور ان کے موجوہ امریکی ڈیموکریٹک سیٹ اپ سے بھی قریبی تعلقات ہیں جبکہ رپورٹ کی دوسری مصنف مدیحا افضل، سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی میں فیلو کے طور پر کام کر رہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی کی افغانستان میں مداخلت کے خاتمے اور پاکستانی قیادت میں تبدیلیاں امریکا کو یہ موقع فراہم کر رہی ہیں کہ وہ دنیا کے پانچویں بڑی آبادی والے ملک کے ساتھ طویل عرصہ سے اپنے بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرے۔

”بروکنگس“ کی رپورٹ کے مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ امریکی پالیسی سازوں کی تما م تر توجہ افغانستان میں جنگ لڑنے پر مرکوز تھی،لہٰذا اُس وقت وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان میں سویلین حکومت کے ساتھ مستحکم اور پائیدار تعلقات پر کم توجہ دی گئی تھی اور اب اپنی اس غلطی کو سدھارنے کے لیئے امریکی صدر جوبائیڈن کو پاکستان میں منتخب جمہوری قوتوں کی مضبوطی کے لیئے نئے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے بلاکسی تاخیر کارآمد بات چیت کا آغاز کردیناچاہئے۔رپورٹ کے مصنفین نے یہ بھی واضح کیا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اس وقت بھی مغرور بائیڈن نے ان سے بات نہیں کی تھی لہٰذا،اس بار بائیڈن کو اپنی پرانی غلطی کو دہرانا نہیں چاہئے اور فوری طور پر امریکی صدر جوبائیڈن کو شہباز شریف سے براہ راست رابطہ کرلینا چاہیئے۔کیا عن قریب امریکی صدر جوبائیڈن وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو فون کال کریں گے؟۔کیونکہ ہماری دانست میں اگر دو ممالک کے تعلقات فون کال کی وجہ سے خراب ہوئے تھے تو اَب یہ تعلقات درست بھی فون کال سے ہوں گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 28 اپریل 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں