گزشتہ 150 برسوں میں دنیا نے چین سمیت 4 بڑی عالمی طاقتوں کے عروج کا سورج طلوع اور غروب ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔انیسوی صدی کے اختتام تک سلطنت عثمانیہ کو کمزور ہی سہی بہرحال ایک بین الاقوامی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ جسے بیسوی صدی کے ابتدائی برسوں میں برطانیہ نے محلاتی سازشوں کے ذریعے سلطان عبدالحمید سے باآسانی چھین لیا۔ کیونکہ برطانیہ سیاسی و سفارتی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں عالمی اقتدار کی مسند پر متمکن ہوا تھا۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ برطانیہ کو اپنے حریف ممالک کی جانب سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو جرمنی، جاپان اور ترکی نے سراسر برطانیہ کی عالمی بالادستی کے خاتمہ کے لئے ہی تو شروع کیا تھا۔اَب وہ الگ بات ہے کہ اِن دونوں عالمی جنگوں کے نتیجے میں جرمنی،جاپان، ترکی اور اِن کے اتحادیوں کو تو شکست فاش ہوئی ہے، ساتھ ہی برطانیہ کی عالمی بالادستی کا تاج محل بھی زمین بوس ہوکر رہ گیا۔ یوں سوویت یونین کو دنیا کی نئی عالمی طاقت بننے کا سنہرا موقع حاصل ہوگیا۔ مگر بدقسمتی سے اپنی توسیع پسندانہ عزائم کے نشے میں دھت ہوکر سوویت یونین بمشکل صرف تین دہائیوں میں ہی اپنا عالمی راج سنگھاسن گنوا کر اور تقسیم در تقسیم ہو کر عظیم روس سے فقط روس تک محدود ہوکر رہ گیا۔ جبکہ اس کے حریف امریکا کو دنیا بھر نے متفقہ طور پر ورلڈ سپر پاور کے روپ میں قبول کرلیا۔
بلاشک و شبہ حالیہ وقتوں میں ہماری دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکا ہی ہے،لیکن افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے ذلت آمیز انخلاء کے بعدعالمی ذرائع ابلاغ میں پورے شد و مد کے ساتھ یہ چہ مہ گوئیاں اور پیش گوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ اَب مزید کتنے عرصے تک امریکا ورلڈ سپر پاور کا اعزاز اپنے نام کے ساتھ برقرار رکھ پائے گا؟۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آئندہ دوسال،کچھ کے نزدیک چار سال اور چند کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اگلے پانچ یا چھ برسوں میں امریکی بالادستی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا اور اس کا واحد حریف چین خود کو ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو دنیا بھر سے منوا نے میں کامیاب ہوجائے گا۔سب سے حیران کں بات یہ ہے کہ کسی بھی معروف تھنک ٹینک،سیاسی تجزیہ کار اور دفاعی ماہر کی جانب سے یہ خبر سننے کو نہیں مل رہی کہ امریکا کی عالمی بالادستی کا پچھلی دہائی سے شروع ہونے والا سفرِ زوال رُک بھی سکتاہے یا امریکا کے چین کے مقابلے میں فتح یاب ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔لگتا یہ ہے کہ ساری دنیا اس خیال کے زیر اثر آچکی ہے کہ امریکا کا عالمی اثرورسوخ قریب المرگ ہے اور چین اس کی جگہ لینے کے لیئے پوری طرح سے تیار ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اَب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایک عجیب و غریب قسم کی یہ منفرد بحث چھڑ چکی ہے کہ اگر چین نئی عالمی طاقت بن جاتاہے تو پھر ہماری دنیا کا نیا منظر نامہ کیسا ہوگا؟۔ ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ چین بھی اپنی پیش رو عالمی بالادست قوتوں کی مانند توسیع پسندانہ عزائم کو ہی دنیا بھر میں وسعت و فروغ دے گا اور جیسا کہ ماضی کی ہرسپرپاور نے غریب،کمزور اور پسماندہ ممالک کا مختلف حیلوں بہانوں سے استحصال کرنے کی کوشش کی ہے بالکل ویسے ہی چین بھی اپنی قومی،لسانیو تہذیبی نظریات کو حاکمانہ انداز میں بزور قوت دوسری اقوام پر مسلط کرنا چاہے گا۔ نیز چین کی خواہش ہوگی کہ جس طرح کا سیاسی نظام اُس کے اپنے ملک میں رائج ہے،اُسے ہی نئے عالمی نظام کے طور پر دیگر ممالک بھی اختیار کرلیں۔ یعنی اس طبقہ فکر کا مانناہے کہ چین کے سپر پاور بننے سے دنیا بھر میں جمہوری نظام کا خاتمہ اگر مکمل طور پر نہ بھی ہوسکا تو یہ سیاسی نظام کم ازکم اتنا کمزور اور ناتواں ضرور ہوجائے گا کہ اس کی عملی افادیت یکسر ختم ہوکر رہ جائے گی۔سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ بعض تجزیہ کار چین کی عالمی فتح کو سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی شکست کے طور پر لیتے ہیں۔
دوسری جانب ایک مکتبہ فکر ایسا بھی موجودہے، جس کی سوچ چین کے متعلق یکسر مختلف ہے۔ اِس طبقہ فکر و نظر میں شامل تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر چین بین الاقوامی طاقت کے روپ میں دنیاکے سیاسی اُفق پر نمودار ہوتاہے تو یقینا اس واقعہ سے عالمی منظرنامہ تبدیل تو ہوگا لیکن یہ تغیر و تبدل ہماری دنیا کے لیئے ہر طرح سے مثبت اور خوش آئند ہی ثابت ہوگا نہ کہ منفی۔ اپنی اس رائے کو ثابت کرنے کے لیئے وہ پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ چین کی گزشتہ پانچ ہزار برس قدیم تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ چینی اقوام نے کبھی بھی اپنے سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی نظریات کو دوسری اقوام پر لاگو کرنے کی جبری کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُس وقت بھی نہیں جب چین واقعی تاریخ کی ایک بڑی عالمی طاقت ہوا کرتاتھا۔ دراصل ماضی میں چینی قوم نے صنعت و حرفت، دریافت وایجادات اور تجارت میں غیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دے کر ہی ساری دنیا کو اپنی جانب ملتفت کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی دنیا چین کی جس صلاحیت کے بارے میں رطب اللسان ہے وہ چین کا عسکری طاقت ہونے سے زیادہ اُس کا ایک بڑی عالمی معاشی قوت ہونا ہے۔
چین کے سپرپاور ہونے کو کرہ ارض کے لیے نیک شگون ہونے کے لیئے دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آج تک چین نے دنیا کے کسی بھی ملک کے داخلی معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے یا اُن میں مداخلت کرنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ چین کے مقابلے میں امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور بھارت جیسے ممالک بھی اپنی پڑوسی یا دیگر کمزور ممالک کے داخلی سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جبکہ چین اپنے حریف ملک کے اتحادی ممالک تو ایک طرف رہے، کبھی اُن ممالک کے اندرونی معاملات میں بھی ٹانگ نہیں اڑاتا،جو اس کے قریبی دوست ہیں یا معاشی طور پر پوری طرح سے چین کے زیر نگیں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ چینی قیادت وقتا فوقتا اپنی اس بات کا اعادہ بھی کرتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں بحیرہ جنوبی چین پر بڑھتی کشیدگی کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے 10 ممالک پر مشتمل ”ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشیئن نیشنز“ (آسیان) کے رہنماؤں کو ایک اجلاس میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”بیجنگ اپنے چھوٹے علاقائی پڑوسیوں کو کبھی نہیں ’’دھمکائے‘‘گا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے ایک رپورٹ نشر کی تھی جس کے مطابق بیجنگ کے کئی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ سمندر پر علاقائی دعووں کے تنازع نے واشنگٹن سے ٹوکیو تک خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔تاہم شی جن پنگ نے اس رپورٹ کا جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ”چین کبھی کسی دوسرے ملک پر تسلط قائم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، نہ ہی کبھی چھوٹے ممالک کے مقابلے اپنے بڑے حجم سے فائدہ اٹھائے گا۔بلکہ دیگر عالمی طاقتوں کی بعض ممالک میں اندورونی’’مداخلت‘‘ختم کرنے کے لیے آسیان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی عہد کرتاہے۔اس متعلق چینی سرکاری میڈیا میں صدر شی جن پنگ کا مزید کہناتھا کہ ”چین ہمیشہ سے ہی سب کے لیئے ایک اچھا ہمسایہ، ایک اچھا دوست اور اچھا شراکت دار تھا اور آئندہ بھی رہے گا“۔ واضح رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی کچھ خبروں نے چین کے بحیرہ جنوبی چین پر خودمختاری کے دعوے کو بنیاد بنا کر آسیان کے بعض رکن ممالک جیسے ویتنام اور فلپائن کو یہ باور کروانے کی کوشش شروع کردی تھی کہ شاید چین برونائی، تائیوان اور ملائیشیا کے کچھ حصوں پر قابض ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس خبر کو مہمیز عالمی ذرائع ابلاغ میں اُس وقت ملی جب گزشتہ ہفتے فلپائن نے چینی کوسٹ گارڈز کے 3 بحری جہازوں کے افعال کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ”انہوں نے سمندر میں فلپائن کے زیر قبضہ اٹول کی جانب بڑھنے والی ری سپلائی کشتیوں کا راستہ روکا اور ان پر واٹر کینن کا استعمال کیا“۔نیز فلپائن کے صدر روڈریگو دوترے نے چین کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں بھی ا س جھگڑے کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھا ”قانون کی حکمرانی ہی ہر تنازع سے نکلنے کا واحد راستہ ہے“۔انہوں نے سال 2016 میں ایک ثالثی عدالت کے دیے گئے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ چین کے سمندر پر بحری دعوے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔فلپائنی صدر کا کہنا تھا کہ ”یہ ہماری اقوام اور چینی قوم کے درمیان قائم ہونے مضبوط تعلقات کے لیے کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے“۔ خیال رہے کہ آسیان تنظیم میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہے۔
دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے حالیہ آسیان تنظیم کے اجلاس میں مغرب کی جانب سے پھیلائی گئی ہر ایسی خبر اور تجزیہ کی سختی سے تردید کردی ہے، جس میں چین کو ایک توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ قابل فخر با ت یہ ہے کہ چین اپنے ساتھ اچھے معاملات اور مستحکم تعلقات رکھنے والے ہر غریب اور کمزور ملک کو صرف زبانی کلامی یقین دہانی کروانے کے علاوہ یہ عندیہ بھی دے چکاہے اگر چین کا کوئی دوست ملک مغربی ممالک کے جھانسے میں آکر چین کے متعلق مستقبل میں کوئی اندیشہ رکھتاہے تو پھر چین اِس بداعتمادی کے شکوک و شبہات کو ختم کرنے کے لیئے اُس ملک کے ساتھ باضابطہ طور پر ایک ایسا تحریری معاہدہ بھی کرنے کو تیار ہے۔ جس سے اُس ملک کو یہ اطمینان اور سند حاصل ہوجائے کہ چین کی حاکمیت کبھی بھی کسی دوسرے ملک کی عوام کے لیئے ضرر رساں یا خطرے کا باعث نہیں ہوگی۔ کیا ایسی پختہ یقین دہانیوں چین کے علاوہ کوئی دوسری بڑی عالمی طاقت اپنے دوست ممالک کو کرواسکتی ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ چین اگر کبھی عالمی طاقت کے روپ میں سامنے آتا ہے تو اس سے ہماری دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوگانہ کہ نقصان۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 29 نومبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023