Indian Science Congress

بھارت کی سائنسی جہالت

ایک امریکی،ایک روسی اور ایک بھارتی اپنی قومی برتری ثابت کرنے کے لیئے کسی محفل میں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے گفتگو کررہے تھے۔ روسی نے کہا ”انہوں نے جب اپنے ملک میں آثار قدیمہ کی کھدائی کی تو وہاں سے تاریں ملیں جس سے پتا چلتاہے کہ ٹیلی فون کی ایجاد ہم نے ہزاروں سال پہلے کرلی تھی“۔امریکی نے جواباً روسی کے دعوی کے مقابل اپنا دعوی پیش کرتے ہوئے کہا کہ”انہوں نے اپنے ملک میں کھدائی کی تو وہاں سے سِم کارڈ کا خول برآمد ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فون کی ایجاد ہم نے کئی ہزار سال پہلے ہی کرلی تھی بس دنیا کے سامنے اُسے دیر سے پیش کیا“۔بھارتی سردار جی دونوں کی گفتگو بڑی توجہ سے سننے کے بعد بولے ”وہاں بھارت میں ہم بھارتیوں نے بھی آثار ِ قدیمہ کی کھدائی کی تھی،مگر کوئی تار،وار یا سِم کا خول نہیں نکلا، اس کا مطلب تو یہ ہی لیا جاسکتاہے کہ ہمارے آباء واجداد آ پ لوگوں سے سائنس میں کہیں زیادہ آگے تھے اور وہ یقیناوائی فائی استعمال کرتے ہوں گے“۔ اُمید ہے کہ آپ نے یہ لطیفہ اپنی زندگی میں ایک سے زائد بار سُنا یا پڑھا ضرور ہوگا، لیکن آپ کو یہ جان حیرانی ہوگی کہ اَب یہ لطیفہ نہیں رہا بلکہ ایک سائنسی انکشاف میں تبدیل ہوچکا ہے۔اگر بات یہیں تک رہ جاتی تو شاید سہہ جاتے ہم۔۔۔۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگوں کے ملک بھارت میں ”سرجیکل اسٹرائیک“ کے افسانوں کے بعد ماضی کے بیشتر لطیفے بھی ”جاہلانہ سائنسی انکشافات“ کا بھیانک روپ دھارن کرنے لگے ہیں اور گزشتہ دنوں بھارت کے سائنس دانوں نے مودی سرکار کی معیت میں ایک ایسی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں محیرالعقول سائنسی لطیفے نما ”سائنسی دعوے“ اس قدر سنجیدگی کے ساتھ پیش کیئے گئے کہ بھارتی سائنسدانوں کے اِن بے سروپا سائنسی دعووں پر دنیا بھر کے اہل دانش و بنیش افراد نہ صرف ششدر رہ گئے بلکہ اپنا سر پیٹتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ اُن کا واسطہ کس ڈھیٹ قسم کی جاہل قوم سے پڑ گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ روز تک جاری رہنے والی اس نام نہاد سائنس کانفرنس میں آئن سٹائن اور آئزک نیوٹن کے سائنسی نظریات کو بھی بلا کسی دلیل کے محض”جاہلانہ چرب زبانی“ سے یکسر مسترد کردیا گیا۔تامل ناڈو کی یونیورسٹی کے ایک سائنس دان ڈاکٹر کے جے کرشنن نے کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ”آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن دونوں غلط تھے اور دریافت ہونے والی کششِ ثقل کی لہروں کا نام ”نریندر مودی لہریں“ رکھنا چاہیے کیونکہ نریندر مودی کے آباء واجداد نے ہزاروں سال قبل ہی کشش ثقل کو دریافت کرچکے تھے، جس کا تمام تر کریڈٹ نریندر مودی کو ملنا چاہیئے اور نیوٹن کی پیدائش سے صدیوں قبل انڈین منتروں میں ”لا آف موشن“ کو پیش کیا جا چکا تھا۔۔“ جبکہ اِسی کانفرنس میں آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشور راؤ نے بھی چاند ماری کرتے ہوئے کہا کہ”ہندوؤں کی مقدس ترین کتاب رامائن میں ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے جن کے پاس 24 قسم کے ہوائی جہاز تھے اور وہ انھیں سری لنکا کے ہوائی اڈوں پر اتارا کرتے تھے“۔موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ”پہلا باقاعدہ پرواز کرنے والا جدید طیارہ بھی ایک بھارتی شخص شواکر بابوجی تلپڈے نے ایجاد کیا تھا اور یہ کارنامہ طیاروں کے موجد خیال کیئے جانے والے دو بھائیوں رائٹ برادرز کی ایجاد سے آٹھ سال پہلے کیا گیا تھا“۔

بھارتی سائنسدانوں کی انجمن کے پیشوا نریندر مودی بھلا کہاں کسی سائنسدان سے پیچھے رہنے والے تھے،پس سائنسی گیان کی بہتی گنگا انہوں نے بھی خوب اشنان کیا اور سائنسی کانفرنس سے اپنے صدارتی خطبہ میں خود نریندر مودی کا فرمانا تھا کہ ”ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ طب کے میدان میں ہمارے ملک نے ایک زمانے میں کیا کچھ حاصل کر لیا تھا۔۔۔ ہندوستان میں صدیوں پہلے کاسمیٹک سرجری اور جینیٹک سائنس موجود تھی، ہندوؤں کے بھگوان گنیش کا ہاتھی کا سر ایک انسانی جسم سے جڑا ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدیم بھارت میں ہزاروں سال پہلے کاسمیٹک سرجری ہر گلی محلے میں عام ہوا کرتی تھی اور اُس وقت ضرور کوئی ایسا ماہر پلاسٹک سرجن بھی رہا ہوگا جس نے انسانی جسم پر ہاتھی کا سر لگا دیا۔چونکہ پلاسٹک سرجری کی بنیاد قدیم بھارت سے شروع ہوئی،اس لیئے کاسمیٹک سرجری کی ایجاد کا سہرا بھی بھارت کے سر پر ہی سجنا چاہئے“۔

کانفرنس میں شرکت والے سائنسدانوں کی”جاہلانہ ڈھٹائی“ ایک اور نمونہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ جب سائنس کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں کی جانب سے اُن کے بے سروپا اور لغو دعووں کے حق میں ثبوت مانگا گیا تو جواباً کانفرنس کے منتظمین نے ایک اور سائنسی انکشاف کرکے وہاں موجود صحافیوں کی بھی بولتی یہ کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند کردی کہ ”اے کم عقل صحافیو! صحافت کی ابتدا ء بھی مہابھارت دور میں ہوئی تھی۔ مہا بھارت کی جنگ کے دوران سنجے نے دھرت راشٹر کو جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال سنایا تھا،یہ لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں تو اور کیا ہے؟جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت بھارت میں انٹرنیٹ بھی تھا اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بھی۔ صرف انٹرنیٹ ہی کیا، آپ کا گوگل تو آج شروع ہوا ہے لیکن بھارت کے پاس گوگل صدیوں پہلے سے ہے۔ نارد منی چلتا پھرتا گوگل یعنی معلومات کا خزانہ تھے اور وہ تین بار ”ناراین“ کہتے ہوئے کوئی بھی معلومات کہیں بھی پہنچا سکتے تھے جیسا کہ آج کل گوگل بابا پہنچا دیتاہے“۔اتنے عجیب و غریب سائنسی لطیفے ایک جگہ پڑھنے کے بعد آپ سب کا کم ازکم ایک بار خوب دل کھول کر ہنسنا تو بنتا ہی ہے حالانکہ اِن”سائنسی لطیفوں“پر بھارت میں ہنسنا سختی سے منع ہے اورخلاف ورزی کی صورت میں وہاں ہنسنے والے کی جان بھی جاسکتی ہے لیکن یہ تنبیہ ہم پاکستانیوں پر لاگونہیں ہوتی، شاید اسی لیئے تو ہمارے بڑے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”خدا کا شکر ادا کر بھائی۔۔۔جس نے بھارت سے ہماری جان بچائی۔۔۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ میں 24 جنوری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

بھارت کی سائنسی جہالت” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں