war-start-in-coronavirus

عالمگیر وباکے بعد عالمی جنگ ضروری ہے؟

جس رفتار سے دنیا میں کورونا وائرس کے سیاہ بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جارہے،اُس سے دوگنی رفتار سے دنیا کے اُفق پر عالمی جنگ کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔خدشہ ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے فوراً بعد ہی دنیا کے کئی ممالک چوتھی عالمی جنگ میں مصرو ف ہوجائیں گے اور لگتا یہ ہے کہ یہ عالمی جنگ کورونا وائرس کے نام پر لڑی جائے گی۔ جس کا آغاز امریکہ کی مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں چین کے خلاف مقدمات دائر کرنے سے شروع بھی ہوگیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے با ربار اس بات کا اس الزام کا اعادہ کیا جارہے کہ چین نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے معاملے میں جان بوجھ کر لا پرواہی اور غفلت سے کام لیا، جس سے عالمی معیشت خاص طور پر امریکہ کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔واضح رہے کہ چین کے خلاف تازہ ترین مقدمے کا اعلان ریاست میزوری کے اٹارنی جنرل نے یہ الزام لگاتے ہوئے کیا کہ چینی عہدیدار کورونا وائرس کی اس وبا کے ذمہ دار ہیں، جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ اس سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے اور اپنی معیشت سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔یاد رہے کہ چین کے خلاف کورونا وائرس سے متعلق سرکاری طور سے ریاستی سطح پر ہونے والا یہ پہلا مقدمہ ہے۔ وگرنہ اِس سے پہلے چین اور امریکہ کے درمیان کشیدہ سیاسی معاملات کورونا وائرس پر صرف لفظی گولہ باری تک ہی محدود تھے۔

دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ریاست کی جانب سے چین کے خلاف دائر ہونے والا یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے، جس کی کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔صرف چینی وزارتِ خارجہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر قانونی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ اس قسم کے مقدمات اکثر سیاسی مقاصد یا تشہیر کے حصول کے لئے ہوتے ہیں کیونکہ خود مختار ملکوں کو دوسرے ملکوں کی عدالتوں میں لائے جانے سے عمومی طور پر استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔جبکہ امریکہ کے فارن سوورن ایمیونیٹیز ایکٹ میں بھی اس لا سوٹ کا تذکرہ موجود ہے۔ جس کے تحت اس بات پر حدود عائد ہوتی ہیں کہ آیا ایک دوسرے خود مختار ملک پر امریکہ کی وفاقی یا ریاستی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی یہاں اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب تک ملکوں کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کے تحت کسی ملک کو دوسرے ملک کی عدالتوں میں طلب کیا جاسکے یہ معاہدہ غیر موثر ہوتا ہے۔مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ چین کے خلاف دائر ہونے والے اِس مقدمہ کو فقط ایک امریکی ریاست کے اٹارنی جنرل کی جانب سے فقط سستی شہرت حاصل کرنے کی خواہش اِس لیئے نہیں قرار دیا جاسکتا کہ امریکہ نمائندگان کی جانب سے کانگریس میں باقاعدہ ایک ترمیمی بل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت جراثیمی ہتھیاروں سے متعلق مقدمات پر امریکی قانون میں دیئے گئے خصوصی استثنٰی کو ختم کیا جاسکے۔اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کورونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری چین کے کھاتے میں ڈالنے کے لیئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے۔



صرف یہ ہی نہیں بلکہ بعض اعلیٰ امریکی اہلکاروں کی جانب کورونا وائرس کے معاملہ پر بین الاقوامی عدالت انصاف سمیت اقوام ِ متحدہ سے رجوع کرنے کی بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام اُٹھانے کی راہ تلاش کی جارہی ہے جیسا یک طرفہ اقدام نائن الیون کے بعد عراق پر حملہ آور ہونے کے لیئے اُٹھایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں چین کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں عالمی سطح پرصورت حال کی ایک تاریک تصویر پیش کی ہے۔ جس کے مطابق کورونا وائرس اب تک دنیا بھر میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لے چکا ہے۔ ان میں 85فیصد کے قریب اموات امریکا اور یورپ میں ہوئی ہیں۔ چینی ذمے داران کو پیش کی گئی مذکورہ انٹیلی جنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے معاملہ پر چین کو عالمی سطح میں معاندانہ صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جیسا کہ 1989 میں ٹیانمین اسکوائر پر مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔اس رپورٹ کو China Institutes of Contemporary International Relations نے تیار کیا ہے۔ یہ ریاستی سلامتی کی وزارت کے زیر انتظام ایک تحقیقی ادارہ (تھنک ٹینک) ہے۔ رپورٹ کے دیگر مندرجات کے مطابق حالیہ بڑھتی ہوئی معاندانہ لہر چین کو کسی بھی وقت امریکا کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر سکتی ہے۔جس کے لیئے چین کو بروقت تیاری کرلینی چاہیے۔

اِس رپورٹ کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کے عین بیچ نئی عالمی جنگ کا ایک سنجیدہ اشارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔یعنی بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین جاری لفظی و قانونی جنگ، کسی بھی وقت براہ راست فوجی جنگ میں بدل سکتی ہے۔اگر دنیا کی دو بڑی طاقتوں اور اُس کے اتحادیوں کے درمیان یہ عالمی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو دنیا کے لیئے بڑی ہی بدقسمتی کی بات ہوگی کیونکہ اِس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہوا کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے بھی بین الاقوامی طاقتوں نے کوئی خاص سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور کورونا وائرس کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی لاشیں اُٹھانے کے بعد بھی عالمی جنگ کی خواہش عالمی رہنماؤں کے دل میں بدستور موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کو اپنے قیمتی اور مہلک ہتھیاروں سے تباہ کرنے کی حضرت انسان کی دیرینہ خواہش کب پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ گزشتہ دو،تین ماہ سے بس کورونا! کو تو یوں ہی فضول میں بدنام کیا گیا،وگرنہ اِس دنیا کے لیئے سب سے زیادہ خطرناک وائرس تو عالمی بالادستی کے خواب دیکھنے والے عالمی رہنما ہیں، جو اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیئے پورے کرہ ارض کو خاکستر بنانے کے لیئے اپنی تیاری مکمل کیئے بیٹھے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 21 مئی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں