6th september 1965

جنگِ ستمبر 1965 کا معرکہ حق و باطل

کمزورکو دبانااور انہیں اپنا ماتحت بنا کر رکھنا انسان کی وہ حیوانی جبلت ہے جس کی وجہ سے تاریخ انسانی میں جنگوں کی بہتات نظر آتی ہے۔دوسروں پر غلبہ پانے کی اسی جبلت کے زیرِ اثر ہر دور میں ایک قوم نے دوسری قوم اور ایک ملک نے دوسرے ملک کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔چونکہ ہمارے ملک پاکستان کا بھی قیام بھی دو مختلف اقوام کے ایک دوسرے سے یکسر مختلف اساسی نظریات کی باہمی چپقلس کے نتیجے میں جنم لینے والے معروضی حالات کا مرہونِ منت تھا۔جسے بادی النظر میں دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کی سب سے بڑی اکثریت ہندووں کی جانب سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنا اور ایک بار پھر پاکستان کو عظیم ہندوستان میں ضم کرنے کی خواہش اور کوشش ایک فطری اَمر ٹہری،جبکہ بھارت کا خیال یہ بھی تھا کہ وسائل سے محروم معرضِ وجود میں آنے والا نیا پاکستان ایک بہت ہی کمزور ملک ہوگا اور کسی بھی وقت اس پر حملہ کرکے اسے اپنا باجگزار بنایا جا سکتا ہے لیکن شاید بھارتیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہ تھا کہ شاہین چاہے کم عمر ہی کیوں نہ ہو وہ ہوتابہرحال شاہین ہی ہے اور اس سے چھیڑ خانی کا نتیجہ کسی بھی تجربہ کار سے تجربہ کار گدھ کے لیئے ہمیشہ نقصان کی صورت میں ہی نکلتا ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ جنگِ ستمبر میں بپا ہونے والی گدھ اور شاہین کی لڑائی میں بھی شکست تجربہ کار گدھ کا ہی مقدر بنی۔ چھ ستمبر 1965 عسکری اور دفاعی اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا ایک قابلِ فخر دن ہے۔ یہ دن جنگ ستمبر کے ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کی مسلح افواج اور پوری قوم نے بھارت کے ناپاک عزائم اور غیر اخلاقی جاریت کے خلاف اپنی آزادی اور قومی وقار کا بہادری اور بے مثال جرت کے ساتھ دفاع کیا۔ یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا۔ پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کی افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اس کے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ 1965ء کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں افسانوی خیالات اور محض ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ غیرت، جذبات، اور قوت ِایمانی سے جیتی جاتی ہے۔ سترہ روزہ اس تاریخی جنگ میں پاک افواج کے بہادر سپاہیوں نے اپنے سے دس گناہ بڑی طاقت کو ذلت آمیز پسپائی اور شکست پر مجبور کرکے پوری دنیا میں اس کا گھمنڈ اور تکبر خاک میں ملا دیا۔

جنگِ ستمبر1965 ء کا پس منظر یہ تھا کہ 1962ء میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی۔ چین از خود جنگ بند نہ کردیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ فروری 65 19ء میں ہی بھارت نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاکستانی ٹروپس کو کانجر کوٹ سے نکال باہر کرنا ہے، یہ رن آف کچھ میں شاہجہاں کے وقت کا ایک بہت پرانا قلعہ ہے جس پر1947 ء سے ہی پاکستان کا قبضہ تھا، بھارت کا دعوی تھا کانجر کوٹ اس کی سرحد کے اندر واقع ہے اس لئے خالی کیا جائے۔رن کچھ سندھ کے صحرا اور بھارتی گجرات کا درمیانی علاقہ ہے جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر واقع ہے، عام حالات میں یہ بنجر اور خشک رہتا ہے لیکن سمندری سیلاب کے دنوں میں یہ دلدل میں تبدیل ہو جاتا ہے، یہ علاقہ قدرتی معدنی ذخائر بالخصوص گیس اور تیل سے مالا مال ہے، یہ علاقہ بھی سیاچن کی طرح آؤٹ آف ریچ سمجھا جاتا تھا اس لئے یہاں بھی سیاچن کی طرح کوئی سرحدی لائن ڈرا نہیں کی گئی تھی، بدین کے قریبی علاقے کانجر کوٹ پر تقسیم ِ ہند کے وقت سے پاکستان کے زیرِ تصرف تھا اور یہاں پاکستان کی آخری فوجی چیک پوسٹ بھی بنی ہوئی تھی۔ پاکستان نے بھارتی دعوی کے بعد اس تنازعہ کے پُرامن حل کے لیئے یہ مخلصانہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اگر بھارت چاہے تو پاکستان رن کچھ کی باقاعدہ حدبندی کرنے،بارڈر لائن کھینچنے اور اس کو درمیان سے تقسیم کر نے کے لیئے بھی تیار ہے،یہ ایک انتہائی مخلصانہ پیشکش کی تھی جس کے نتیجہ میں رن کچھ کا یہ متنازعہ علاقہ آدھا بھارت کی طرف چلا جاتا اور بقیہ آدھا پاکستان میں رہ جاتا مگر انڈیا نہ مانا اور اس نے کانجر کوٹ سے پاکستانی افوج کو بزورِ طاقت بیدخل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا شروع کردی، بھارت کی طرف سے یہ مشن گجرات کے کمانڈنٹ میجر جنرل پی۔سی گپتا کو دیا گیا، اس نے ایک بریگیڈ لیول کا اسالٹ لانچ کرایا جس کے کمانڈر بریگیڈئیر ایس ایس ایم پاھلہ جانی کو آپریشنل آرڈر دیا گیا کہ پاکستان میں داخل ہو جاؤ اور قلعہ خالی کراؤ،، بھارت کے اس ”مقدس عسکری” آپریشن کا نام ”آپریشن کبڈی” رکھا گیا۔21 فروری 1965 کو 31st انفینٹری بریگیڈ نے اپنا ”آپریشن کبڈی” لانچ کیا اور پاکستانی سرحد پر موجود مختصر سے نیم فوجی دستے کو شکست دے کر قلعے پر قبضہ کرلیا، اس پر پاکستان کی طرف سے بھارت سے سخت احتجاج کیا گیا لیکن جب کسی بھی فورم پر بھارت کی طرف سے پاکستانی احتجاج پر کان نہ دھرا گیا تو پاک فوج کے کمانڈنٹ 8th ڈویژن جنرل ٹکا خان کو عسکری قیادت کی طرف سے حکم ملا کہ اپنی پوسٹوں کو واگزار کرایا جائے جن میں کانجر کوٹ، مشہور زمانہ سردار پوسٹ اور بھیربِھٹ شامل تھیں۔ پاک فوج نے نہایت سرعت سے یہ سارے علاقے دوبارہ انڈیا سے چھین لیے۔ پاک فوج کے ان آپریشنز کو ”ڈیزرٹ ھاک“ اور ”ڈیزرٹ ھاک ٹو“کے نام دیے گئے۔



اس شکست کے بعد انڈین فوج نے پنجاب کے ہرشہر کے ساتھ ساتھ جو لاہور اور سیالکوٹ کے قریب تھے وھاں ہیوی ڈیپلوئیمنٹ شروع کر دی،بھاری جنگی ساز و سامان کے ساتھ فوجی ڈیپلوئیمنٹ کا سلسلہ کشمیر کے علاقے ٹیتھوال، اکھنور، اڑی اور کارگل کے آگے تک موجود تھا۔رن کچھ میں جنگ بندی یکم جولائی1965 ء کو ہوئی تھی، انڈیا کی طرف سے جولائی کا سارا مہینہ پنجاب اور کوہ ہندوکش کے ساتھ ساتھ زبردست عسکری و جنگی تیاریوں میں گزرا اور چودہ پندرہ اگست کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھوٹے بڑے کئی حملے شروع کردیئے، ان ساری کاروائیوں کا محور اکھنور، اڑی، ٹیتھوال اور کارگل تھا، ان کاروائیوں سے وہ حاجی پیر درہ پر قبضے کیلئے آٹھ کلومیٹر پاکستانی حدود میں گھس چکے تھے جس کے جواب میں پاک فوج نے آپریشن گرینڈ سَلیم لانچ کیا، پاک فوج نے یکم ستمبر کو ایک بھرپور حملہ کر کے اپنے سے کئی گنا بڑی جنگ کے لیئے بھرپور طور پر تیار انڈین آرمی کو نہ صرف واپس اُن کے علاقوں میں دھکیل دیا بلکہ پاکستانی دستے ان کے ڈویژن ہیڈ کوارٹر کے قریب تک پہنچ گئے، پاکستان کی اس بھرپور جوابی کارروائی سے پریشان ہوکر بھارت کی عسکری قیادت نے اپنے ہیڈ کواٹر کو بچانے کے لیئے فوری طور پر ائیر اسٹرائیک کال کی اور انڈین طیاروں نے پاکستانی علاقے میں گھس کر وار مشینری پر حملہ کیے۔پاک فوج کا یہ وہ دفاعی ”آپریشن گرینڈ سلم“ ہے جسے بھارت اپنے اوپر پاکستان کا حملہ قرار دیتا ہے حالانکہ انڈیا کی اپنی وار ہسٹری کی مصدقہ دستاویز کے مطابق جنگ ستمبر رن کچھ کے محاذ پر انڈین افواج کی ذلت آمیز شکست کو فتح میں بدلنے کا ایک سوچی سمجھی اسکیم تھی کہ لاہور پر تین اطراف سے حملہ کر کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں تاکہ پاکستان کی عسکری قوت کو مختلف جنگی محاذوں پر اُلجھا کر شہر ِ لاہور کو ایک ہی رات میں فتح کیا جاسکے۔اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیئے میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں بھارت کا پچیسواں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ستلج رینجر کی پلٹنوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ نہ کوئی پیچھے ہٹا نہ کسی نے ہتھیار ڈالے بھارتی فوج جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا۔پو پھٹنے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔ اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ سینکڑوں میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی پر بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریباً ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپخانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔میجر عزیز بھٹی رات بھر دشمن کو روکے رہے۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہادری کی بے مثال روایت قائم کرنے پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویژن فوج صف آراء کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آراء تھی۔یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے مگر پاکستانی فوج کے جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔ قصورکے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔بھارتی کمانڈر انچیف نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو مزید کمک بھیجی تاکہ کھیم کرن واپس لے سکے۔ ضلع ساہیوال میں بین الاقوامی سرحد سے اندازاً ایک میل ادھر دریائے ستلج پر سلیمانکی ہیڈ ورکس واقع ہے۔ یہاں سے نکلنے والی نہریں ملتان اور بہاولپور کے وسیع علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ اس اہم خطے پر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ ہماری افواج نے دشمن کی پیش قدمی کا انتظار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر دشمن کے حوصلے پست کر دیئے اور بھارت شکستِ فاش کی کھائی کے دھانے پر لا کھڑا کیا۔

بھارت کے تمام عسکری مؤرخین بطور ِ خاص ڈاکٹر بی۔سی۔چکرورتی جو کہ انڈیا کے سب سے معروف عسکری تجزیہ کار کے طور پر بھی جانے جاتے رہے ہیں، انہیں بھارتی حکومت کی طرف سے ”پاک بھارت جنگ“ کی تجزیاتی و تحقیقاتی تاریخ لکھنے کا کام سونپا گیا تھا۔ ڈاکٹر چکرورتی نے گہری و عمیق تحقیق کے بعد ”دی ہسٹری آف انڈو پاک وار 1965 ء“ نامی کتاب مرتب کی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”انڈیا کے لئے رن کچھ کا آپریشن ایک جان لیوا جنگ ثابت ہوا اور اسے اپنے سے کئی گنا چھوٹی عسکری قوت کی طرف سے انتہائی صبر آزما اور غیر متوقع مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے باعث چھ ستمبر کے لاہو پر حملے کے بعد انڈیا سفارتی سطح پر دنیا میں تنہا ہوگیا، یواین، افریقہ، نان۔الائینڈ اور ایشیائی ممالک میں بھی کوئی انڈیا کا ہمنوا نہ رہا،بلکہ سب پاکستان کی پشت پر کھڑے ہوکر انڈیا پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالتے رہے، پندرہ ستمبر کو وزیراعظم شاستری نے اپنی عسکری قیادت سے صاف صاف کہہ دیا کہ”اب میں مزید دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا،دنیا کا کوئی بھی ملک ہماری جنگی فتح کے دعوی کو گھاس نہیں ڈال رہا،اس لیئے مجھے حتمی طور پر بتاؤ کہ تم دو تین دن میں جنگ جیت سکتے ہو یا نہیں“ بھارت کی عسکری قیادت نے جیسے ہی مزید مہلت کا تقاضا کیا،وزیراعظم شاستری نے ایک لمحے کی تاخیر کیئے بغیر خود ہی سرینڈر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور انتہائی مایوسی کے عالم میں یواین سیکریٹری کو جنگ بندی پر اپنی رضامندی کا لیٹر بھیج دیا جسے تاریخ نویس”جنگ بندی کی درخواست“ بھی کہتے ہیں۔انڈیا اپنی تمام تر کوشش کے باوجود جنگِ ستمبر کے دورران اپنے کیئے گئے ایک بھی دعوی میں سچا ثابت نہ ہوسکا،اگرانڈیا کو جنگ ستمبر کے معرکہ میں محض دس فیصد بھی کامیابی حاصل ہوجاتی تو وہ 10 جنوری 1966ء کو معاہدہ تاشقند میں کم ازکم اتنا تو ضرور لکھوا ہی لیتا کہ یہ جنگ پاکستان نے شروع کی تھی اور وہ جنگ ہار گیا ہے لہذا تاوان جنگ ادا کرے!۔مگر افسوس معاہدہ تاشقند کے مطابق بھی پاکستان کے موقف کی ہی تائید ہوتی ہے کہ جنگ انڈیا نے ہی شروع کی تھی اور وہ ہی اس جنگ کو بری طرح ہارا۔ بھارت کی عبرت ناک شکست کا ایک واضح ثبوت انڈین فوج کا بارڈ پر موجود وہ اسلحہ تھا،جس کا صرف چودہ فیصد بھارتی فوج استعمال کر پائی تھی جبکہ پاکستان کی طرف سے سرحد پر پہنچائے جانے والے اسلحے میں سے اسی فیصد استعمال کرچکی تھی۔یہ اعداد و شمار اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ پاکستانی فوج کے عام سپاہیوں سے لیکر کرنل تک کے جوانوں نے بے دریغ اپنی جانیں قربان کرکے ملکی دفاع کا حق ادا کر دیا“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی میں 06 ستمبر 2019 کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

جنگِ ستمبر 1965 کا معرکہ حق و باطل” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں