MALIK Video Scandal

ویڈیو اسکینڈل، ملکی اداروں کے خلاف گھناونی سازش

پاکستان مسلم لیگ ن کے گزشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں مریم نواز کی زیرِ نگرانی چلنے والا خصوصی میڈیا سیل ریاستِ پاکستان کے اداروں کے خلاف کیا کیا گل کھلاتا رہا ہوگا،اُس کی ایک جھلک مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس میں بخوبی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔جس میں مریم نواز نے احتساب عدالت کے ایک جج کی مبینہ ریکارڈ شدہ ویڈیو صحافیوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ میاں محمد نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والے احتساب عدالت کے جج کے اُوپر سخت دباؤ تھا۔ویسے تو پیش کی گئی مذکورہ ویڈیو میں کئی تیکنیکی سقم، اسکرپٹ کی غلطیاں اور سیاق و سباق کے بے شمار مبہم نقائص پائے جاتے ہیں۔ جن سے یہ اندازہ لگانا قطعی طور پر مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر اِس ویڈیو کا فرانزک آڈٹ ہوجائے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ مبینہ ویڈیو بھی کیلی بری فونٹ کی طرح ہی مریم نواز کے میڈیا سیل کے ایڈیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے جعل سازوں کے جادوئی کٹ،کاپی،پیسٹ کا ایک نیا اور اچھوتا شاہکار نکل آئے۔قرائن بتاتے ہیں کہ اگر یہ مبینہ ویڈیو ذرہ برابر بھی مبنی بر حقیقت ہوتی تو مریم نواز اِس ویڈیو کو پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سامنے پیش کرنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میاں محمد نواز شریف کی ضمانت کے لیئے دائر کی گئی درخواست کے ساتھ پیش کرتیں،کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے پہلے ہی ایک ایسا فیصلہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جج فیصلہ سناتے ہوئے کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کا شکار تھا تو پھر وہ فیصلہ مکمل طور پر کالعدم ہوجاتا ہے۔یعنی یہ ایک ویڈیو میاں محمد نواز شریف کے لیئے جیل سے رہائی کا پروانہ بھی ثابت ہوسکتی تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مریم نواز اِس مبینہ ویڈیو کو اپنے والد بزرگوار کی رہائی کے لیئے قانونی دلیل یا ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے اپنی سیاست کو چمکانے اور ریاست اداروں کے روشن کردار کو گہنانے کے لیئے استعمال کررہی ہیں۔

اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز اِس مبینہ ویڈیو کو یوں اچانک منظر عام پر لاکر آخر فوری طور پر وہ کون سے ایسے سیاسی مقاصد ہیں جو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد شدید ترین سیاسی عدم تحفظ کا شکار ہے اور شاید مریم نواز کے نزدیک اِس مبینہ ویڈیو سے پہلا فوری فائدہ یہ ہی حاصل کیاسکتا ہے کہ احتساب عدالت کے جج اور اُس کے دیئے گئے فیصلہ کو متنازع بنا کر مسلم لیگ ن کی صفوں میں یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ میاں محمد نواز شریف بے گناہ ہیں اور کسی بھی وقت وہ پھر سے رہا ہوکر اقتدار کے تخت پر براجمان ہوسکتے ہیں۔اگر یہ رائے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے اذہان میں راسخ کردی جائے تو پھر مسلم لیگ ن کے وہ سیاسی پنچھی جو تحریک انصاف کی طرف اُڑنے کی تیاری کررہے شاید وہ پرواز کرنے سے باز آ جائیں۔ جبکہ اِس مبینہ ویڈیو کی سیاسی پیشکش کا دوسرا فائدہ یہ بھی حاصل ہوسکتا ہے کہ ریاستی اداروں کو سیاسی دباؤ میں لاکر اُنہیں ڈیل یا ڈھیل پر مجبور کیا جاسکے۔ خاص طور پاکستان کی عدالتوں پر سیاسی دباؤبنا کر مسلم لیگ ن اپنے اہم ترین رہنماؤں کی سزاؤں پر ریلیف حاصل کرنا چاہے گی۔لیکن یہ اُس وقت ہی ممکن ہو گا جب مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی مبینہ ویڈیو میں جھوٹ کے تیز مسالوں کے ساتھ سچ کا بھی تھوڑا بہت تڑکا موجود ہو۔ اِس ضمن میں سب سے اہم کردار ویڈیو کے فرانزک آڈٹ اور احتساب عدالت کے محترم جج ارشد ملک کی طرف سے اختیار کیئے موقف کا ہے۔فقط یہ دو ہی ایسی چیزیں ہیں جن کی بنیادپر اِس مبینہ ویڈیو کے سچا اور جھوٹا ہونے کو ثابت کیا جا سکتاہے۔ اہم ترین بات ہے کہ احتساب عدالت کے جج محترم ارشد ملک صاحب مکمل طور پر مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی ویڈیو سے اظہارِ لاتعلقی کرتے ہوئے اپنے اُوپر لگائے تمام الزامات کی یکسر تردید فر ماچکے ہیں۔اَب جہاں تک اِس بنائی گئی ویڈیو کے راوی ناصر بٹ کا تعلق ہے تو اُس کے جھوٹا ہونے میں تو کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ناصر بٹ جرم کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے اور یہ شخص کئی لوگوں کے قتل میں بھی براہ ِ راست ملوث ہے۔ ممتاز برطانوی اخبار ”دی سن“ ناصر بٹ کو ”دی کلر اِن دا ہوم آفس“ کا خطاب دے چکا ہے۔



ناصر بٹ کی وجہ سے ہی مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی مبینہ ویڈیو پرسنگین شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔سوال کرنے والے تو یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اگر مسلم لیگ ن کے کسی رہنما کے سامنے اپنے کیئے گئے فیصلہ پر پشیمانی کا اظہار بھی کرنا ہوتا تو کیا پوری مسلم لیگ ن میں فقط ناصر بٹ ہی ایک ایسی کرشماتی شخصیت تھا کہ جسے وہ اپنے سامنے بٹھا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ناصر بٹ کا جرم کی دنیا کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔اِس لیئے تحقیق کرنے والے اداروں کو دیکھنا ہوگا کہ مبینہ ویڈیو میں ناصر بٹ کی پراسرار موجودگی بھی تو کسی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہوسکتی ہے۔مریم نواز نے جہاں اپنی پریس کانفرنس کے دوران قدم قدم پر مبینہ ویڈیو کی فی البدیہہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہیں مریم نواز ناصر بٹ کے ساتھ اپنے اور اپنی جماعت کے اُن مضبوط تعلقات کے بارے میں بھی پاکستان کی عوام کو آگاہ کر دیتیں،جن کا پاس رکھتے ہوئے ناصر بٹ نے احتساب عدالت کے جج کے ساتھ خفیہ ویڈیو بنانے کا خطرہ مول لیا۔مجھے تو ڈر ہے کہ مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی مبینہ ویڈیو آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کی گرتی ہوئی ”سیاسی دیوار“کے لیئے وہ آخری دھکا ثابت نہ ہو جائے جس کے بعد شریف خاندان کے لیئے پاکستانی سیاست میں واپسی کے سارے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوجائیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 18 جولائی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں