usa-election-2020

ٹرمپ اور جوبائیڈن کی انتخابی جنگ میں دنیا کس کے ساتھ ہے؟

دنیا کے کسی بھی جمہور ی ملک میں ہونے والے انتخابات اُس ملک کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک میں منعقد ہونے والے انتخابات میں دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کریں۔ لیکن امریکی انتخابات کی منفرد اور خاص بات ہی یہ ہے کہ اِن انتخابات میں امریکیوں سے زیادہ دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے افراد دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ رواں برس تین نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات دنیا بھر کے میڈیا میں بطور خاص موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ گو کہ تین نومبر کو امریکی ووٹرز ہی اس بات کا حتمی فیصلہ کریں گے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید چار سال کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہنا چاہیے یا نہیں؟۔ امریکی ووٹرز کی انتخابی رائے دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے ہر فرد کے سیاسی مستقبل پر کسی نہ کسی صورت براہ راست اثر انداز ضرور ہوگی۔کیونکہ اس وقت امریکا واحد عالمی طاقت ہے اور امریکی اقتدار کے ایوانوں میں بننے والی سیاسی پالیسیاں دنیا میں موجود ہر ملک کے سیاسی و انتظامی مفادات کو زبردست انداز میں متاثر کرتی ہیں۔ اس لیئے رِپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ ہوں یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن۔ حیران کن طور پر دونوں اُمیدواروں کی انتخابی جیت کے حوالے سے اس وقت صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیابھی بُری طرح سے تقسیم نظر آرہی ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار جو بائیڈن اگرچہ 1970 کی دہائی سے امریکی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ ہیں مگر حالیہ انتخابی مہم میں ان کی بڑی وجہ شہرت سابق امریکی صدر براک اوباما کا نائب صدر ہونا ہے۔جبکہ امریکیوں کی طرح دنیا کے کئی ممالک بھی جو بائیڈن سے یہ ہی اُمید رکھتے ہیں کہ ڈیموکریٹک اُمیدوار جو بائیڈن امریکی انتخابات میں کامیابی کے بعد جب امریکی صدر کی حیثیت سے زمام اقتدار سنبھالیں گے تو اُن ہی پالیسیوں کا ایک بار پھر سے احیاء کریں گے۔جو امریکی پالیسیاں بارک اوباما کے دورِ حکومت میں دنیا بھر میں رائج تھیں۔ یعنی ”تبدیلی“یہ ہی وہ انتخابی نعرہ تھا،جس کی بنیاد پر بارک اوباما امریکی صدر کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ حالانکہ ”تبدیلی“ کا نعرہ اُن کے دورِ حکومت میں عملی طور پر کسی بھی صورت میں مکمل طور پر نافذ تو نہ ہوسکا۔لیکن اس کے باوجود دنیاکے کئی ممالک سوچتے ہیں کہ بارک اوباما کا دورِ حکومت اِس لحاظ دنیا کے لیئے ایک بہترین انتظامی دور تھا کہ اُس دور حکومت میں امریکادنیا کے ہر ملک کے داخلی و خارجی معاملات میں بطور خاص دلچسپی لیتا تھا۔اس کے برعکس رِپبلیکن پارٹی کے اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں،تب سے امریکا بین الاقوامی سیاست سے آہستہ آہستہ لاتعلق ہوتا جارہا ہے۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ”سب سے پہلے امریکا“ بعض قدامت پسند امریکیوں کے لیئے تو ایک خاص کشش ضرور رکھتا ہے لیکن اِس نعرہ پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کا مطلب امریکا جیسی عالمی طاقت کو صرف امریکا کی سرحدوں تک ہی مقید کردینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔اس کے علاوہ ”سب سے پہلے امریکا“ کا نعرہ امریکا کے اُن اتحادی ممالک کے لیئے بھی سخت تشویش اور پریشانی کا باعث ہے، جو برس ہا بر س سے سیاسی، انتظامی اور دفاعی معاملات میں مکمل طور پرامریکا پر انحصار کرتے چلے آئے ہیں۔

تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں یہ بات بڑی ہی اہمیت کی حامل ہے امریکا کا اگلامنتخب صدر کون ہوگا؟۔ جیسے جیسے امریکی انتخابات کا دن قریب آ تا جاررہا ہے،ویسے ویسے امریکا کی طرح دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی رائے شماری کرنے والے ادارے عام عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔یاد رہے کہ رائے شماری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی معلومات متوقع کامیاب امیدوار کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیئے کسی حد تک معاون تو ثابت ہوسکتی ہے،لیکن رائے شماری کے پیمانہ کی بنیادپر جیتنے والے اُمیدوار کے بارے میں حتمی طور پر جان لینا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے مثال کے طور پر 2016 میں ہیلری کلنٹن رائے شماری سے حاصل ہونے والے نتائج میں اپنے حریف اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے کہیں آگے تھیں اور انھوں نے ٹرمپ سے تقریباً 30 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل بھی کر لیئے تھے۔ مگر وہ پھر بھی امریکی انتخابات میں ہار گئیں کیونکہ امریکہ میں الیکٹورل کالج کا ایسا منفرد اور عجیب و غریب نظام استعمال کیا جاتا ہے،جس میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ کا پسندیدہ اُمیدوار انتخاب بھی جیت جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جو بائیڈن امریکا میں ہونے والی قومی رائے شماری میں ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں اور اس سال کے بیشتر حصے میں ان کی مقبولیت 50 فیصد تک رہی ہے۔ کچھ مواقع پر تو انھیں صدر ٹرمپ پر دس پوائنٹ کی برتری بھی حاصل تھی تاہم گذشتہ چند دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت بھی بڑھنے لگی ہے۔اس لیئے رائے شماری سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں ٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے کسی بھی اُمیدوار کی جیت کا یقین کرلینا،بہت بڑی بے وقوفی ہی ہوگی۔کیونکہ امریکی انتخابات میں رائے شماری کے نتائج نہیں بلکہ ریاستیں فیصلہ کرتی ہیں کہ فاتح اُمیدوار کون سا ہوگا۔ جیسا کہ2016 میں منعقد ہونے والے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کو سمجھ آگیا تھا کہ،حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ ووٹ کس ریاست میں جیتے ہیں۔چونکہ زیادہ تر ریاستیں کسی ایک سیاسی جماعت کا گڑھ ہوتی ہیں،اس لیئے صرف کچھ ہی ریاستیں ایسی ہوتی ہیں جہاں دونوں انتخابی امیدواروں کے جیتنے کا برابر،برابر امکان ہوتا ہے۔ یہی وہ اہم ترین ریاستیں ہیں جہاں الیکشن جیتا یا ہارا جاتا ہے۔

امریکی انتخابات میں ان ریاستوں کو اصل میدان جنگ کا درجہ حاصل ہوتاہے۔اس وقت بیٹل گراؤنڈ ریاستوں کی رائے شماری میں بظاہر جو بائیڈن کی پوزیشن،اپنے حریف اُمیدوار ٹرمپ کے مقابلہ میں بہت اچھی معلوم ہورہی ہے۔تازہ ترین رائے شماری کے مطابق جو بائیڈن اس وقت مشیگن، پینسلوینیا، اور وسکونسن میں کافی برتری رکھتے ہیں۔ یہ تینوں صنعتی ریاستیں 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فیصد کی معمولی برتری سے جیتی تھیں۔مگر وہ ریاستیں جہاں ٹرمپ نے 2016 میں بڑی برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔اُن میں آئیووا، اوہایو اور ٹیکساس تین ایسی ریاستیں ہیں جہاں ٹرمپ نے 8 سے 10 فیصد کی واضح برتری حاصل کی تھی مگر اب ان ہی تینوں ریاستوں میں رائے شماری سے حاصل ہونے والے نتائج دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔مگر متوقع امریکی صدر کے بارے میں اندازہ لگانے کا قومی رائے شماری کے علاوہ ایک پیمانہ اور بھی موجود ہے اور وہ ہے جوئے کی عالمی مارکیٹ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے جیتنے کے لیے جوئے کی عالمی مارکیٹ میں ایک کے مقابلے میں تین کا ریٹ دیا جا رہا ہے۔جوئے کی عالمی مارکیٹ کو امریکی انتخابات کے متوقع نتائج کی پیشن گوئی کے حوالے اس لیئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جوئے کی مارکیٹ میں سٹہ کھیلنے والے عالمی سیاست میں قومی رائے شماری کرنے والے کی بہ نسبت کہیں زیادہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر جوئے کی عالمی مارکیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے اشارے فراہم کیئے جارہے ہیں تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عالمی سیاست کے طاقت ور حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر سے امریکا کا صدر بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہماری اس رائے کو تقویت حال ہی میں امریکی انٹلیجنس ایجنسی،نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس (این سی ایس سی) کے سربراہ، ولیم ایوانینا کی طرف سے جاری ہونے والے اِس بیان سے بھی ملتی ہے۔جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ”چین، روس اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں جو اس سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔خاص طور پر چین، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، جبکہ روس ڈیموکریٹ امیدوارجو بائیڈن کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیئے روس سوشل میڈیا اور روسی ٹیلی ویژن پر صدر ٹرمپ کی جیت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیئے زبردست کوشش کررہاہے۔اس کے علاوہ ایران امریکی جمہوری اداروں کو کمزور کرنے، صدر ٹرمپ کی بیخ کنی اور ووٹ سے پہلے ملک کو تقسیم کرنے کے لیے آن لائن غلط معلومات اور امریکی مخالف مواد پھیلا رہا ہے۔ ایران یہ سب کچھ اس لیے کر رہا ہے کیونکہ ایرانی اسٹیمبلشمنٹ کو لگتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے تو ایران پر امریکی دباؤ ناقابلِ یقین حد تک بڑھ سکتاہے“۔ تاہم آخر میں این سی ایس سی کے سربراہ ولیم ایوانینا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”امریکا کے مخالفین ممالک کے لیے ووٹنگ کے نتائج میں بڑے پیمانے پر مداخلت کرنا یا ان میں جوڑ توڑ کرنا سخت مشکل ہو گا۔کیونکہ ہم نے امریکی انتخابات کو غیر ملکی مداخلت سے مکمل محفوظ بنانے کے لیئے تمام تر سیکورٹی اقدامات لے لیئے ہیں“۔

ولیم ایوانینا کی اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی انتخابات پر حریف ممالک کی جانب سے منظم انداز میں اثرانداز ہونا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ لیکن ہمارے لیے اُن کی اس بات سے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اگر امریکی انتخابات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دنیا کے اس طرز عمل سے امریکی عوام کے مفادات کو مستقبل میں کوئی نقصان یا گزند پہنچ سکتاہے۔ ولیم ایوانینا کے برعکس ہماری رائے یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد افراداگر امریکی نظام ہائے انتخابات میں اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں تو اس بات پر امریکی عوام اور امریکی اداروں کوفخر ہونا چاہئے کہ دنیا امریکی سیاست میں آنے والی کسی بھی تبدیلی کو اپنے لیئے نفع یا نقصان کا باعث سمجھتی ہے۔ جہاں تک بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے کسی ایک اُمیدوار کے امریکی انتخابات میں جیتنے کی ہے تو اُس کا حتمی فیصلہ بہرحال تین نومبر کو امریکی عوام نے ہی کرنا ہے اور یقینا امریکی عوام جو بھی فیصلہ کریں اُسے دنیا کا کوئی بھی ملک کسی بھی صورت بدل نہیں سکتا۔لہٰذا دنیاکے ہرشخص سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ انتخابی اُمیدوار کی اخلاقی یا عملی حمایت بدستور جاری رکھے اور انتخابی جنگ کو اصلی جنگ میں کسی بھی صورت تبدیل ہونے دے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 20 اگست 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں